
گذشتہ ہفتے ہندوستان کے قومی سلامتی کے مشیر ایم کے نارائنن نے ایک ٹی وی انٹرویو میں یہ کہا تھا کہ القاعدہ سے ملک کو بڑے خطرات لاحق ہیں۔ انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ چونکہ پاکستان کا لشکرِ طیبہ بھی القاعدہ کی ہی شاخ ہے، اس لیے معاملہ زیادہ گھمبیر ہو جاتا ہے۔ نارائنن کے الزامات میں دَم ہے کیونکہ ہندوستان کے مختلف مقامات پر ہونے والے بم دھماکوں اور ان میں ہونے والی بے گناہ شہریوں کی ہلاکتوں میں لشکر مبینہ طور پر ملوث معلوم ہوتا ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ حفاظت کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے۔ ہندوستان میں تقریباً ۱۴۰ ملین مسلمان موجود ہیں۔ ان میں سے ۳ نائب صدارت کے اُمیدوار ہیں اور یہ انتخاب آئندہ مہینے ہونے والا ہے۔ مگر یہاں وہی بوسیدہ سوال اٹھتا ہے کہ ہندوستان کے ہر حلقہ ہائے سیاست یعنی دائیں بازو کی کٹّر ہندو جماعتوں اور کانگریس سمیت بائیں بازو کی جماعتوں کے اُتارے ہوئے ان تینوں مسلمان اُمیدواروں کی ہندوستان کے عام مسلمانوں جو مختلف فرقے اور جماعتیں نیز مختلف و متضاد خیالات رکھتے ہیں، میں کیا مقام اور وقعت ہے؟ شاید ان کی پارٹیوں کے ساتھ بھی یہی سوال لپٹا ہے۔ پھر اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ ملک کے دوسرے اعلیٰ ترین عہدہ کے لیے اپنی مضبوط دعویداری پیش کرتے ہیں۔ تینوں ہی اُمیدواروں سمیت ملک کی دوسری بڑی اکثریت میں بنیاد پرستی اور آزاد خیالی رکھنے والوں کے درمیان آزادی سے آج تک نظریاتی خلیج بڑھتی ہی جارہی ہے۔ نتیجتاً مسلمان سماجی طور پر پسماندہ اور نفسیاتی دباؤ کا شکر بنتے چلے گئے۔ ہندوتوا کی سیاست کو فروغ ملنے کے بعد سے یہ اور بھی کونے کنارے لگتے چلے گئے اور قومی دھارے سے الگ نظر آنے لگے۔ شاید اسی لیے ان میں سے کچھ نے مذہبی جنون اور انتہا پسندی کو اپنا شعار بنا لیا۔ اعداد و شمار مسٹر نارائنن کے سامنے ہیں۔ ۱۴۰ ملین عوام میں صرف آدھ فیصد لوگ کتنا بڑا چیلنج بن گئے ہیں۔ یقیناً یہ نتائج مسٹر نارائنن کے لیے پریشان کُن ہونے چاہییں۔ کسی بھی طبقہ کی اجتماعی نفسیات کی عمیق گہرائیوں میں موجود (نئے یا پرانے) امتیازی سلوک کے احساس کو کوئی کیسے بیان کر سکتا ہے یا مٹا سکتا ہے؟ پھر بھی اس کو فراموش یا نظرانداز کر دینا بے حد افسوسناک ہو گا اور یہی اب تک ہوتا آیا ہے۔ مسٹر نارائنن اگر آپ القاعدہ یا لشکر کو شکست دینا چاہتے ہیں تو اس نکتے پر غور کیجیے۔ اس کا طریقۂ کار بھی یہ ہونا چاہیے پوری کمیونٹی کو موردِ الزام قرار دینے کی بجائے مسئلہ کی جڑ اور اس کا حل تلاش کیا جائے۔ حقیقت میں انھیں تحفظ اور یکساں روزگار کے مواقع و ترجیح ملنا چاہیے۔ مقصد یہ ہے کہ انھیں ایسے سازشی مُلّاؤں کے شکنجے سے آزاد کیا جاسکے جو سیاسی پارٹیوں کے لیے کام کرتے ہیں اور مسلمانوں کے ووٹوں کے تاجر بن جاتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ہندوتوا کے جنونی جتھوں سے بھی بچایا جاسکے (جو ان کی تباہی کا سبب بنتے رہتے ہیں)۔ اس ضمن میں ہندوستانی حکومت کی تعریف کی جانی چاہیے کہ ہندوستانی ڈاکٹر محمد حنیف کے معاملے میں اس نے بہت مثبت رویہ اپنایا جسے آسٹریلیائی تفتیشی دستوں نے دہشت گردی کے معاملے میں بِلا سبب حراست میں لیا تھا۔ حکومت اور میڈیا کے تمام متعلقہ شعبوں نے ڈاکٹر محمد حنیف کی رہائی کے لیے مستقل تعاون کیا۔ مسٹر نارائنن کے لیے بہرحال ہندوستان کے سیکولرزم کی اس کمیاب مثال میں بہت زیادہ خوش ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ کیونکہ ڈاکٹر محمد حنیف جیسی حالت میں گرفتار لوگوں کے ساتھ ہندوستان کا رویہ آج تک آسٹریلیا سے بھی زیادہ خراب رہا ہے۔ میں نے کشمیر ٹائمز کے صحافی افتخار گیلانی سے اپنی تہاڑ جیل حراست اور محمد حنیف کی آسٹریلیائی حراست کا موازنہ کرنے کی بات کی تو انھوں نے اپنی ۷ مہینوں کی حراست کی درد انگیز داستان سنائی۔ جبکہ افتخار کا قصور صرف اتنا ہی تھا کہ اس نے جموں اور کشمیر کی سرحدوں پر ہندوستانی فوجیوں کی تعداد کے تعلق سے ایک پرانی شائع شدہ دستاویز کی بنیاد پر اسٹوری شائع کی تھی اور اسی سبب ان پر جاسوسی کا الزام لگایا گیا تھا۔ جیل کے اندر ’’محبِ وطن‘‘ ساتھیوں نے جن میں زانی، قاتل اور دوسرے مجرمین بھی تھے، انھیں اپنے شرٹ سے بیت الخلا میں فضلہ کی صفائی کروائی اور بعد میں وہی شرٹ پہننے پر مجبور کیا۔ اس کے بعد انہی محبانِ وطن نے انھیں حب الوطنی کے گیت ’’وندے ماترم‘‘ اور ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ بھی گانے پر مجبور کیا۔ محمد حنیف کے ساتھ تو آسٹریلیا میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ بلکہ ڈاکٹر کی چارج شیٹ تو حراست سے صرف پانچ دنوں میں تیار کر دی گئی تھی۔ اس کے برخلاف ہندوستان میں دہشت گردی کے ملزم کو چھ ماہ تک بغیر چارج شیٹ داخل کیے حراست میں رکھا جاسکتا ہے۔ یہ خلاصہ ہے کہ افتخار گیلانی کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ انھیں ۷ مہینوں تک جیل کی جہنم میں رکھا گیا اور پھر پُراسرار طور پر جون ۲۰۰۲ء کی چلچلاتی دوپہر کو رہا بھی کر دیا گیا۔ جس پُراسرار انداز میں انھیں گرفتار کیا گیا تھا، ویسے ہی پُراسرار طور پر رہا بھی کیا گیا۔ حنیف کے بال بچوں کو میڈیا کے ذریعہ جس انداز میں دلاسہ اور تعاون دیا گیا، اس کے برخلاف افتخار کے گھرانے کو ان کے پڑوسیوں تک نے ایذا دی تھی۔ حتیٰ کہ میڈیا بھی جس کا افتخار خود ایک حصہ ہیں اور جو سرکاری شواہد کے بغیر کچھ نشر نہیں کرتا ہے، نے اس کی ہر طرح سے تذلیل کی۔ ایک خاتون جرنلسٹ نے تو افتخار کے نام سے ایک فرضی اعترافی بیان اپنے اخبار میں شائع کیا تھا اور اب وہ ایک نامور ٹی وی نیوز چینل کی اسٹار رپورٹر ہے۔ ہندوستان کی سیکولر ڈیموکریسی کا گُن گانے کی ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ افتخار گیلانی کے معاملہ کی تفصیلات پر مبنی قرطاسِ ابیض جاری کیا جائے۔ ایسا کوئی عمل مسٹر نارائنن کی مشکل آسان کرنے کا سبب بن سکتے ہیں اور دلوں اور ذہنوں کی صفائی کی راہ اپنے آپ نکل جائے گی۔ گیلانی کو کیوں گرفتار کیا گیا تھا اور اتنی ہی اہم یہ بات کہ پھر کیوں رہا کر دیا گیا؟ کوئی مقدمہ نہیں قائم ہوا، کوئی چارج شیٹ پیش نہیں ہوئی۔ مسٹر نارائنن کو چاہیے کہ ملک میں موجود سبھی چھوٹی اور بڑی جیلوں کا بھی معائنہ کر آئیں اور دیکھیں کہ انگنت مَردوں اور عورتوں کو کس طرح سڑایا جارہا ہے۔ محض اس لیے کہ ان کا گناہ ثابت نہیں ہو سکا ہے اور اسی وجہ سے انھیں فراموش کر دیا گیا ہے اور اب انھیں انصاف ملنے کی اُمید بھی نہیں رہی۔ جب اپنا ہی دامن داغدار ہے تو ہم آسٹریلیا کا مضحکہ کیسے اڑا سکتے ہیں؟ ہندوستان اور پڑوسی ممالک کو درپیش دہشت گردی کے خطرات اور اس کے سدِ باب پر کوئی بات کیسے کر سکتے ہیں؟
اسی ذیل میں کچھ رائے اور مشورے بھی سامنے آئے ہیں اور مسٹر نارائنن کے کام کے ہو سکتے ہیں جو ہندوستان کے دو بڑے اور معروف اخبارات کے ہیں، دی ٹائمز آف انڈیا نے حنیف کی بازیابی کو قابلِ فخر کارنامہ بتایا۔ اخبار لکھتا ہے کہ ’’خوشی کی بات یہ ہے کہ آسٹریلیا کے قانون داں، پریس اور شہری حقوق کی تنظیموں نے منصب داروں پر برابر دباؤ بنائے رکھا کہ مطلوبہ معاملہ میں حنیف کے ملوث ہونے کا مستحکم ثبوت پیش کیا جائے یا پھر اسے آزاد کیا جائے۔ ڈاکٹر حنیف اور اس کی خاندان کے لیے نتائج تو قطعی مایوس کن ہو سکتے تھے مگر مجرمانہ معاملات کی عدالت کے فعال نظام کی بدولت انھیں انصاف حاصل ہوا۔ جب آسٹریلیائی حکام کو محسوس ہوا کہ ان سے غلطی ہو چکی ہے تو انھوں نے اس کا اِزالہ بھی کیا۔ ایسا ہندوستان کی تفتیشی ایجنسیاں ہرگز نہیں کرتیں۔ یہاں تو پولیس کا ریکارڈ اتنا خراب ہے کہ مشتبہ افراد پر الزام لگائے بغیر نوے دنوں کی قانونی حد سے بھی آگے حراست میں رکھا جاتا ہے اور ایک مرتبہ چارج لگا دیا گیا تو پھر یہ مدتِ حراست کھنچ جاتی ہے۔ بغیر مقدمہ قائم ہوئے اسے حوالات میں ٹھونسا رکھا جاتا ہے کیونکہ ہمارے یہاں عدالتی نظام بے انتہا سست رفتار ہے‘‘۔ مسٹر نارائنن کو ٹائمز کے اداریہ میں بھی کچھ اہم مشورے مل سکتے ہیں۔ ملاحظہ کریں۔ ’’جعلی انکاؤنٹر اور حراستی اموات پولیس کے نظام کی روایت بن چکی ہے۔ غلطیوں کا اعتراف تو بھول ہی جائیے، اگر کہیں غلطی ہو جائے تو اسے جواز دینے کے لیے کسی بھی حد تک جایا جاسکتا ہے‘‘۔ ٹائمز آف انڈیا نے اپنی دوسری خیال آرائی میں ۱۹۹۳ء کے بم دھماکوں کے مقدمات کی شنوائیوں کو بے حد سست رفتار لکھا ہے۔ وہیں اخبار یہ بھی لکھتا ہے کہ دورانِ سماعت بم دھماکہ کے ملزمین نے ٹاڈا عدالت کے جج سے یہ بھی سوال کیا کہ آخر جسٹس سری کرشنا رپورٹ پر عمل میں اس قدر تاخیر اور کوتاہی کیوں ہے؟ جسٹس سری کرشنا کو حکومت نے مامور کیا تھا تاکہ وہ دسمبر ۱۹۹۲ء میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد ممبئی میں پھوٹ پڑنے والے فرقہ وارانہ فسادات کی تحقیقات کریں۔ انھوں نے متعدد پولیس افسران اور شیوسینا لیڈران کو اس کا ذمہ دار قرار دیا۔ اس کے بعد ہر حکومت نے جس میں کانگریس بھی شامل ہے، اس رپورٹ کو سردخانے میں ڈالے رکھا۔ اخبار لکھتا ہے کہ اس رپورٹ سے دانستہ چشم پوشی کو اکثر مبصرین نے مسلمانوں کے ساتھ حکومتوں کا صریح تعصب قرار دیا ہے، خصوصاً ابھی جب کہ بم دھماکوں کے ملزمان کو سزائین سنا دی گئی ہیں۔ انڈین ایکسپریس اخبار لکھتا ہے کہ آسٹریلیائی ہائی کمشنر کی حکومتِ ہند کے ذریعہ طلبی ایک ’’بدبختانہ اور نامناسب عمل‘‘ تھا۔ ’’حنیف کو آزادی اس لیے نہیں ملی کہ وہ سانولی رنگت کا ایک ہندوستانی مسلمان ہے بلکہ اس پر لگائے گئے الزامات کو چونکہ عدالت میں ثابت نہیں کیا جاسکا، اس لیے اسے چھوڑا گیا ہے۔ کرنے کا کام یہ ہے کہ ہندوستان جیسے ملک میں جہاں ہزاروں ملزمان جیل کی سلاخوں کے پیچھے اپنی زندگی کے اہم ایام بغیر کسی چارج شیٹ کے گنوا رہے ہیں، ان کے لیے محمد حنیف کی مانند انصاف کے عمل کو تیز کیا جائے‘‘۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’انقلاب‘‘ ممبئی)
Leave a Reply