
انا للّٰہ و انا الہ راجعون۔ میرے دوست میرے بھائی ڈاکٹر ممتاز احمد بھی ہمیں سوگوار چھوڑ کر چلے گئے۔
ابھی ابھی (۳۱ مارچ، سوا بارہ بجے دن) مجھے میرے بڑے بیٹے اعجاز عارف نے ڈیلس سے یہ دل دہلا دینے والی یہ المناک خبر دی کہ میرے بھائی اور بہت ہی پیارے دوست ڈاکٹر ممتاز احمد وائس پریذیڈنٹ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کا اسلام آباد میں انتقال ہو گیا ہے۔ اللھم الغفرہ والرحمہ۔
یہ المناک خبر سن کر میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور آنکھوں سے بے اختیار آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی۔ میرے سامنے پوری نصف صدی جی ہاں پورے پچاس سال کی یادیں ایک ایک کر کے ذہن میں آنے لگ گئیں۔ یادیں اس قدر زیادہ ہیں کہ سمجھ میں نہیں آرہا کہ کہاں سے شروع کروں۔
یہ تین چار ہفتے پہلے کی بات ہے کہ میرے بیٹے اعجاز ہی نے ہیوسٹن میں ایک کانفرنس میں شرکت کے بعد واپسی پر مجھے یہ خبر دی تھی کہ ڈاکٹر ممتاز کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور وہ اس وقت اسلام آباد میں ڈائیلیسس پر ہیں۔ میں نے اسی وقت ان سے رابطے کی کوشش کی مگر کسی بھی فون پر ان سے رابطہ نا ہو سکا۔ اصل میں ان کے فون تبدیل ہو گئے تھے۔ میں مسلسل کوشش کرتا رہا، لیکن کامیابی نا ہوئی۔ میں نے ان کے بڑے بیٹے ڈاکٹر فیصل ممتاز سے بھی رابطہ کیا لیکن بات نا ہو سکی۔ میں نے پیغام چھوڑ دیا۔ چار دن پہلے فیصل نے نئے فون نمبر دیے تو ان سے بات ہوئی۔ بڑے خوش ہوئے۔ میں نے بتایا کہ کب سے بات کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ یہ سن کر کہنے لگے۔ عارف آجکل کے دور میں کوئی کسی سے اتنی محبت کر سکتا ہے، یہ آج معلوم ہوا۔ بڑے اچھے موڈ میں تھے۔ اپنی بیماری کی تفصیلات سے آگاہ کیا اور کہا کہ اب میری طبیعت کافی بہتر ہے۔ اور میں ہفتے میں دو تین گھنٹے کے لیے یونیورسٹی جاتا ہوں۔ میں نے اس موقع پر چند پرانی یادوں کا ذکر کیا تو بڑے خوش ہوئے۔ میں سوچنے لگا کہ اگر ان سے رابطہ نہ ہو تا اور بات نہ ہوتی تو کتنا دکھ ہوتا کہ انتقال سے پہلے بات نہ ہو سکی۔
میرا ڈاکٹر ممتاز احمد سے تعلق ۱۹۶۵ء میں اس وقت شروع ہوا، جب میں اسلامی جمعیت طلبہ کراچی میں شامل ہوا۔ جمعیت کے ۲۳؍اسٹریچن روڈ (عبدالمالک شہید روڈ) کے دفتر میں ان سے پہلی بار ملاقات ہوئی۔ سید منور حسن اسلامی جمعیت طلبہ کراچی کے ناظم تھے۔ ممتاز احمد اس وقت جمعیت کے دانشور طلبہ گروپ کے لیڈر اور تقریری صلاحیتوں کو فروغ دینے کے لیے قائم فورم کے انچارج تھے۔ ان کی شخصیت اتنی پرکشش اور دلآویز تھی کہ ہر ایک ان سے دوستی کرنے کا خواہشمند رہتا تھا۔ ان سے میری دوستی کا آغاز بھی اسی طرح ہوا۔ ہم دونوں طالب علم اور بیچلر تھے۔یہ دوستی آہستہ آہستہ بڑھتی گئی کہ دونوں نے ایک ساتھ رہنے کا بھی فیصلہ کر لیا۔ دوستی کی ایک وجہ غالباً ایک دوسرے کا دیہاتی خاندانی پس منظر بھی تھا۔ حیدر آباد کالونی سے اس کا آغاز ہوا اور پھر یہ سلسلہ ناظم آباد نمبر۱؍ اور فیڈرل بی ایریا بلاک۔۱۰ تک تقریباً ۵ سال تک جاری رہا۔ نصیر سلیمی، اختر گیلانی، قاضی سعید اور محبوب بھی ہمارے روم میٹ رہے۔ مشہور وکیل سپریم کورٹ حشمت حبیب ایڈوکیٹ بھی کچھ عرصہ ہمارے روم میٹ رہے۔
ڈاکٹر ممتاز احمد اسلامک ریسرچ اکیڈمی (ادارہ معارف اسلامی، کراچی) کے ابتدائی فیلو تھے۔ جب کہ میں تو محض ایک طالب علم کچھ سیکھنے کے لیے کوشاں رہتا۔ عمر اور تعلیم میں جونیئر ہونے کے باوجود محض اپنی خداداد ذہنی صلاحیتوں اور دانش ورانہ سوچ کی وجہ سے انہوں نے پروفیسر خورشید احمد، مصباح الاسلام فاروقی مرحوم، مولانا عبد العزیز مرحوم، سید منور حسن۔ سید معروف شیرازی اور ڈاکٹر نثار احمد کے ساتھ اپنا مقام بنایا۔ اسی اکیڈمی کے قیام کے دوران ان کی خدا داد تحقیقی صلاحیتوں کو مزید جلا ملی۔ جس کے نتیجے میں کم عمری ہی میں وہ مسئلۂ کشمیر پر ہونے والے اس وقت تک کے پاک بھارت مذاکرات پر ایک کتاب کے مصنف بن گئے۔ اور اس کے بعد انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان ایک پرائیویٹ طالب علم کی حیثیت سے دیا اور پہلی پوزیشن حاصل کر کے ایسا ریکارڈ قائم کیا، جس کو آج تک کوئی توڑ نا سکا۔
ایک طرف وہ دن میں اسلامک ریسرچ اکیڈمی میں اپنے سینئر ساتھیوں سے اپنی صلاحیتوں کو صیقل کر رہے تھے اور دوسری طرف وہ رات میں تین ہٹی کے ایک ہوٹل میں رات بھر جاری رہنے والی ایک انوکھی ادبی محفل میں شریک ہو کر اپنے ادبی ذوق کی آبیاری کر رہے تھے۔ اس ادبی محفل کے روح رواں مشہور ادیب، ڈرامہ نگار،نقاد، منفرد شاعر اور دانشور مرحوم سلیم احمد تھے اور اس کے شرکاء میں مرحوم جمیل الدین عالی، ممتاز نقاد قمر جمیل، افسانہ نگار مرحوم اعجاز احمد کے نام مجھے یاد رہ گئے ہیں۔بعد میں اس محفل کے شرکا میں اور بھی متعدد لوگ شامل ہوتے گئے۔ جن میں فراست رضوی، سجاد میر اور جمال پانی پتی کے نام مجھے یاد آرہے ہیں۔
شادیوں کے بعد اگرچہ ہم رہائشی طور پر ایک دوسرے سے علیحدہ ہو گئے لیکن ہمارا ایک دوسرے کے ساتھ دوستانہ اور برادرانہ تعلق ہمیشہ قائم رہا۔ ممتاز احمد NIPA کراچی میں ملازم ہو گئے اور وہیں سے اسکالر شپ پر وہ پی ایچ ڈی کے لیے امریکا چلے گئے۔ اور ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد امریکا کی ایک مشہور یونیورسٹی میں پروفیسر ہو گئے۔ ہم دونوں کا رابطہ مسلسل قائم رہا۔ یہاں تک کہ جب میرا بیٹا اعجاز عارف ۱۹۹۶ء میں ایم ایس کرنے کے لیے لاس اینجلس کی مشہور یونیورسٹی USC میں جانے لگا تو ڈاکٹر ممتاز نے پوری رہنمائی کی۔اور وہاں جا کر اس سے ملاقات اور اس کی حوصلہ افزائی بھی کی۔ اسی طرح جب ان کے بڑے بیٹے فیصل نے ڈاؤ میڈیکل کالج میں داخلہ لیا تو ڈاکٹر ممتاز نے اس کو میری رہنمائی اور سرپرستی میں دیا۔
ڈاکٹر ممتاز کے دوستوں اور شاگردوں کی تعداد بلا مبالغہ ہزاروں میں ہوگی، مجھے یقین ہے کہ وہ ہر ایک کے محبوب اور پسندیدہ شخصیت ہوں گے اور ان میں سے ہر ایک ان کے اچانک بچھڑ جانے کی خبر پر اسی طرح غمگین ہو گا، جس طرح میں ان کے بچھڑنے کے غم کو محسوس کر رہا ہوں۔
ڈاکٹر ممتاز ہر معاملے میں مجھ سے آگے تھے۔اور مجھے ہمیشہ ان کی صلاحیتوں پر رشک آتا رہا اور ہمیشہ فخر بھی رہا۔ میں غم روزگار میں کچھ ایسا الجھا رہا کہ علمی میدان میں آگے نا بڑھ سکا، جو کچھ حاصل کرنا چاہتا تھا، خواہش کے باوجود حاصل نا کر سکا لیکن یہ فخر ہمیشہ رہا کہ میں علمی میدان میں اگرچہ ان سے بہت پیچھے رہا لیکن میرے دو بھائی، ڈاکٹر ممتاز احمد اور ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی علمی مدارج کے اعلیٰ درجے پر فائز ہیں۔
ڈاکٹر ممتاز کی یادوں کو کہاں تک بیان کیا جائے۔ جب بھی فون پر بات ہوتی۔ پرانی یادوں کا تذکرہ ہوتا تو بہت خوش ہوتے۔ اس زمانے کو یاد کرتے اور کہتے ایسا وقت کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا۔ واقعی اب ناصرف وہ وقت لوٹ کر واپس نہیں آئے گا بلکہ اب کسی سے ان یادوں کا تذکرہ بھی نہیں ہو گا کہ جس سے یہ یادیں وابستہ تھیں وہ ہم سے بہت دور اس جگہ چلا گیا ہے۔ جہاں سے کوئی آج تک واپس نہیں آیا۔
اللہ حافظ ڈاکٹر ممتاز۔
مجھے یقین ہے کہ اللہ آپ کے ساتھ اچھا معاملہ کرے گا، وہ آپ سے راضی ہو گا اور اپنی جوارِ رحمت میں جگہ دے گا۔
ڈاکٹر ممتاز احمد آپ نے یہاں بھی پہلے جا کر آگے رہنے کی روایت کو قائم رکھا۔ ہم بھی اپنی باری کے منتظر ہیں۔ ان شاء اللہ جلد ملاقات ہو گی۔ میری دعا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے راضی ہوجائیں۔ یہی اصل کامیابی ہے۔
ڈاکٹر ممتاز احمد واقعی ایک ایسے دانشور تھے، جن کی دانش نے ملک و قوم کے لیے بہت سے چراغ روشن کیے۔ شہرت اور دولت کی ہوس سے دُور ڈاکٹرممتاز احمد علم و آگہی کی جن منزلوں سے آشنا ہوئے، اپنے چاہنے والوں کو بھی ان منزلوں سے روشناس کرانے پر ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔ انھوں نے اپنی دانش کو گرہ میں باندھ کر نہیں رکھا، بلکہ جو کچھ حاصل ہوا، دوست احباب اور شاگردوں میں تقسیم کر دیا؛ کبھی گفتگو کے ذریعے، کبھی تحریر کے ذریعے اور کبھی رویوں کی مدد سے۔ ان جیسے انسان قوموں کا سرمایہ ہوتے ہیں اور حقیقیت یہ ہے کہ ڈاکٹر ممتاز احمد کو اللہ تعالیٰ نے ایسے دوستوں سے بھی نوازا، جو ان کی شخصیت کی قدر و قیمت سے بخوبی آشنا تھے۔ یہ سطور لکھتے ہوئے مَیں اعتراف کرتا ہوں کہ اگرچہ ان سے میری براہِ راست ملاقات نہیں ہوئی، لیکن ٹیلیفونک رابطوں کے سبب ان سے ہونے والی گفتگو سے مَیں نے اس قدر سیکھا ہے اور اس قدر جانا ہے کہ ان سے رابطہ ہونے سے قبل اور بعد کی زندگی میں بین فرق محسوس ہوتا ہے۔ وہ غیر محسوس طور پر اپنے مخاطب کی شخصیت پر اثر انداز ہوتے اور زندگی کے مثبت رویوں کو سامع کے دل کر مرتسم کرتے چلے جاتے۔ میرے لیے اور میری ایک تالیف ’’شبلی کی آپ بیتی‘‘ کے لیے انھوں نے بڑی محبت سے لکھا۔ اللہ انھیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے، اب ان جیسے انسان ڈھونڈنے سے بھی شاید ہی ملیں۔