
عراق میں کردوں کو اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتا ہوا دیکھ کر ترکی میں آباد کرد بھی اب زیادہ پرامید ہوکر ترک وزیر اعظم رجب طیب اردوان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ عراق کی صورت حال ترکی میں بھی کچھ نہ کچھ اثرات ضرورت مرتب کرے گی اور ترک حکومت بھی کردوں کو کچھ نہ کچھ رعایت دینے پر مجبور ہوگی۔
لائس نامی قصبے کے نزدیک یالازا نامی گاؤں میں آزاد کردستان کے بیج بوئے جارہے ہیں۔ کالعدم کردستان ورکر پارٹی کے چند ارکان نے مل کر ایک عوامی کونسل کے تحت پہلا اسکول قائم کیا ہے جہاں کرد زبان میں تعلیم دی جائے گی۔ گزشتہ موسم گرما تک یالازا اور دیگر علاقوں میں ممنوع فصلیں اگائی جاتی تھیں مگر اب تمباکو اور دیگر قانونی فصلیں اگائی جارہی ہیں۔ کالعدم کردستان ورکر پارٹی (پی کے کے) کے ایک رکن سردار جیلک کا کہنا ہے کہ ہم تمام ترک کردوں کے لیے اس گاؤں کو ایک نمونہ بنانا چاہتے ہیں۔ ریاست یہاں پر بھی نہیں مار سکتی۔
لائس سے دیار بکر جانے والی سڑک پر ملٹری چیک پوسٹ سے نصف کلو میٹر سے بھی کم فاصلے پر آزاد کردستان کا ستارے سے سجا پرچم لہرا رہا ہے۔ یہ پرچم ان کیمپوں کی نشاندہی کر رہا ہے جن میں خواتین سمیت بہت سے کردوں نے پناہ لے رکھی ہے۔ فیہیم ایتے کے شوہر اور دو بیٹوں کو علیٰحدگی پسندی کے الزام میں جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ اس کے دیگر تین بیٹے کردستان ورکرز پارٹی کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ان لوگوں نے کیمپ اس لیے قائم کر رکھے ہیں کہ وہ اس علاقے میں دو مجوزہ فوجی اڈوں کا قیام قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکمراں جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کردوں کو بہتر زندگی فراہم کرنے کے معاملے میں پی کے کے لیڈر عبداللہ اوجلان سے مذاکرات کے حوالے سے سنجیدہ نہیں۔
گزشتہ ماہ کردوں کا احتجاج بڑے پیمانے پر قتل و غارت میں تبدیل ہوتے ہوتے رہ گیا۔ ہوا یہ کہ اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرنے والے کردوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش میں فوج نے فائر کھول دیا جس کے نتیجے میں دو مظاہرین ہلاک ہوگئے۔ ایک مرحلے پر ایسا لگا کہ عبداللہ اوجلان نے ۱۴ ماہ کی جس جنگ بندی کا اعلان کر رکھا ہے وہ بھی ختم ہونے والی ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو رجب طیب اردوان کی ان کوششوں کو شدید دھچکا لگتا جو وہ آئندہ صدارتی انتخاب میں کردوں کی حمایت حاصل کرنے کے حوالے سے کر رہے ہیں۔
فوجی اڈوں کی تعمیر رکوانے کے مشن میں کرد کامیاب ہوچکے ہیں۔ دونوں فوجی اڈوں کے منصوبے منجمد کردیے گئے ہیں۔ یہ کردوں کے لیے بہت بڑی فتح کے مانند ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب اس علاقے میں جگہ جگہ آزاد کردستان کے پرچم دکھائی دے رہے ہیں۔ کرد حکومت نے حال ہی میں نئی اصلاحات کا اعلان کیا ہے جن میں عبداللہ اوجلان سے بات چیت کے ساتھ ساتھ کالعدم کردستان ورکر پارٹی کے ان ارکان کو عام معافی دینے کا منصوبہ بھی شامل ہے جو پرتشدد سرگرمیوں میں ملوث نہیں رہے۔ اوجلان نے اس بات کا خیرمقدم کیا ہے کہ ترک حکومت کالعدم کردستان ورکر پارٹی سے بات چیت پر رضامند ہوگئی ہے یعنی اسے فریق کی حیثیت سے قبول کر رہی ہے۔ پارلیمنٹ کے ارکان سمیت ہزاروں پی کے کے ورکر کو رہا کردیا گیا ہے۔ حکومت نے نجی اسکولوں میں کرد زبان میں تعلیم کی اجازت دینے والے قوانین کی منظوری دی ہے۔ یہ سب تو ٹھیک ہے مگر عام کرد کچھ زیادہ متاثر دکھائی نہیں دیتے اور اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ انہیں اب بھی ہر معاملے میں متعصبانہ رویے کا سامنا ہے۔ وہ بہت سے معاملات میں برابری کا سلوک چاہتے ہیں مگر اب تک ایسا ممکن نہیں ہو پایا ہے۔
مارچ میں دیاربکر سے آزاد کردستان کی حامی جماعت بی ڈی پی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والی پہلی خاتون میئر گلتین کسانک کہتی ہیں کہ اس وقت اگر ریفرنڈم کرایا جائے تو ۸۰ فیصد سے زائد کرد آزادی کے حق میں ووٹ دیں گے۔ عبداللہ اوجلان نے ۱۹۷۸ء میں کردستان ورکر پارٹی (پی کے کے) کی بنیاد رکھی تھی، تب انہوں نے کردوں کے لیے الگ، خودمختار ریاست کا مطالبہ کیا تھا مگر اب وہ کہتے ہیں کہ اگر ترکی کی حدود ہی میں کردوں کو بہت حد تک خود مختاری دے دی جائے اور ان کے بنیادی حقوق تسلیم کرلیے جائیں تب بھی معاملہ درست ہوسکتا ہے۔ مگر یہ منزل بھی اب تک بہت دور دکھائی دیتی ہے۔ طاقت کا مرکز انقرہ ہے، جو اَب بھی تعلیم اور صحت سمیت تمام بنیادی پالیسیوں کے حوالے سے اپنی بات منواتا ہے۔ گلتین کسانک شکایتی لہجے میں کہتی ہیں: ’’ہمیں آج بھی گلیوں اور سڑکوں کے نام تبدیل کرنے کے لیے گورنر سے منظوری لینی پڑتی ہے‘‘۔
وزیر اعظم رجب طیب اردوان کہتے ہیں کہ اگر وہ اگست میں صدر منتخب ہوگئے (جس کا قوی امکان ہے) تو کرد مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے۔ ناقدین کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ لفاظی کے سوا کچھ نہیں اور یہ کہ وہ کردوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے بات چیت کا ناٹک کر رہے ہیں۔
یہ تنقید بلا جواز ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنے کسی بھی پیش رو کے مقابلے میں رجب طیب اردوان نے کردوں کا مسئلہ حل کرنے کے لیے زیادہ اور بھرپور کوششیں کی ہیں۔ کرد زبان پر لگائی جانے والی پابندی اب بہت حد تک نرم کی جاچکی ہے۔ چند برس پہلے تک ترکی میں کسی بھی سڑک پر کرد زبان میں بینر لگانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کرد علاقوں میں بے روزگاری کا تناسب ترکی کے دیگر علاقوں کی نسبت دگنا ہے مگر اے کے پارٹی کے دور میں ترکی نے جو بے مثال ترقی کی ہے اور معیشت میں جو زبردست استحکام پیدا ہوا ہے، اس کا واضح اثر اب کرد علاقوں پر بھی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ان علاقوں کی معاشی سرگرمیاں بھی تیز ہوگئی ہیں اور لوگ تیزی سے خوش حالی کی منزل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ دیار بکر جلد ہی ملک کے پانچویں انٹر نیشنل ایئر پورٹ کا درجہ حاصل کرے گا جہاں سے ترکی کے مختلف علاقوں کے ساتھ یورپ اور مشرق وسطیٰ کے لیے بھی پروازیں ہوا کریں گی۔
دیار بکر میں درجنوں مائیں ایک ماہ سے زیادہ مدت تک اس بات پر احتجاج کرتی رہی ہیں کہ ان کے بچوں کو پی کے کے نے ’’یرغمال‘‘ بنالیا ہے۔ یہ بہت خوش کن مثال ہے۔ ابھی چند برس پہلے تک کردستان ورکرز پارٹی کے خلاف احتجاج کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ مگر خیر، کرد قوم پرستی اب تک سرد نہیں پڑی بلکہ دن بہ دن مزید توانا ہوتی جارہی ہے۔
شمالی عراق میں چند ماہ کے دوران رونما ہونے والی تبدیلیوں سے ترکی میں بسے ہوئے کرد بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے ہیں۔ لڑائی میں کامیابیاں حاصل کرتے ہوئے عراقی کردوں نے کرکوک کا علاقہ حاصل کرلیا ہے اور اب وہ تیزی سے آزادی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ رجب طیب اردوان ۶۵ لاکھ کی آبادی والے عراقی کردستان کو اپنے اتحادی کے روپ میں دیکھ رہے ہیں۔ گلتین کسانک کا کہنا ہے کہ اگر شمالی عراق میں کرد ریاست قائم ہوگئی تو ترک علاقوں میں بسے ہوئے کردوں کے لیے الگ ریاست بنانے کی ضرورت باقی نہ رہے گی۔ ترکی میں AKP کے رہنما اور منتخب نمائندے بھی یہی سمجھتے ہیں کہ شمالی عراق میں کرد ریاست کا قیام کافی ہوگا۔ یعنی ترکی کے ایک کروڑ چالیس لاکھ کردوں کے لیے الگ ریاست بنانے کی ضرورت پیش نہ آئے گی۔ دیار بکر سے AKP کے پارلیمانی رکن گیلپ انصاریوغلو کہتے ہیں کہ کردوں کو مطمئن کرنے کے لیے اتنا ہی کافی ہوگا کہ کردستان ورکرز پارٹی کے جو ارکان پرتشدد واقعات میں ملوث نہیں رہے، انہیں رہا کر دیا جائے۔ انسدادِ دہشت گردی سے متعلق قوانین میں نرمی لانی اور کرد زبان میں تعلیم کی اجازت دینی ہوگی۔ مگر دوسری طرف مسٹر جیلک کہتے ہیں کہ ترکی کے کردوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا ہوگا۔ وہ اس بات کا انتظار نہیں کرسکتے کہ انقرہ انہیں حقوق دینے کا فیصلہ کرے۔ کردوں کو اپنے حقوق چھیننے پڑیں گے۔
“Turkey and the Kurds: Dreams of Kurdistan”. (“The Economist”. Jul 5, 2014)
Leave a Reply