گزشتہ برس ستمبر میں جب ’’ماریا‘‘نامی طوفان پورٹوریکو سے ٹکرایاتو وہاں انفراسٹرکچر کی تباہی کے ساتھ ساتھ مواصلاتی نظام کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ جس کی وجہ سے وہاں کی آبادی کا دیگر علاقوں سے رابطہ منقطع ہو گیا۔ اس مشکل وقت میں موبائل سگنلز کی فراہمی کے لیے AT&T نامی کمپنی نے ایک تجربہ کیا۔ اس کمپنی نے ’’Flying Cow‘‘ کے نام سے ایک ڈرون متعارف کروایا جو اپنے اطراف میں ۴۰ میل تک سگنلز کی فراہمی ممکن بنا سکتا تھا۔ اسے جیسے ہی آن کیا جاتا تو لوگ اس علاقے میں آسانی سے موبائل استعمال کر سکتے تھے۔
دنیا بھر میں متعارف کروائی جانے والی بیشتر ٹیکنالوجیز آغاز میں محدود استعمال کی حامل ہوتی ہیں لیکن پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ روزمرہ کی زندگی کاحصہ بن جاتی ہیں۔ ڈرون بھی اسی طرح چند سال پہلے تک صرف دفاعی کاموں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا یا پھر کچھ لوگ شوقیہ طور پر ڈرون رکھا کرتے تھے۔
۲۰۰۱ء میں امریکی فوج نے پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں ڈرون کا استعمال کیا تو یہ دنیا بھر میں امریکی فوج کی طرف سے ڈرون ٹیکنالوجی کا پہلا استعمال تھا اور پھر اوباما اور ٹرمپ کے دور میں بھی اس کا استعمال جاری رہا۔
البتہ ڈرون کاسویلین استعمال اب بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ صرف ۲۰۱۷ء میں دنیا بھر میں تقریباً ۳۰ لاکھ ڈرون فروخت ہوئے۔ دس لاکھ ڈرون امریکی انتظامیہ برائے ہوابازی کے ہاں رجسٹر ہوئے (امریکا میں کسی بھی اسٹور پر فروخت کیے جانے والے ڈرون کے لیے امریکی انتظامیہ برائے ہوابازی کے پاس رجسٹرڈ ہونا لازمی ہے)۔
یہ ڈرون ہالی ووڈ کی فلموں سے لے کر زراعت تک، ماحولیاتی آلودگی کو کنٹرول کرنے سے لے کر کو ہ پیماؤں کی مدد کرنے تک بے شمار کاموں کے لیے استعمال کیے جارہے ہیں۔ یہ ڈرون میلوں کا سفر طے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ڈرون ٹیکنالوجی کے کمرشل استعمال کی جو پہلی لہر تھی وہ اس حدتک تھی کہ کسان اپنی زمینوں کی دیکھ بھال اور پراپرٹی ڈیلر متعلقہ زمین کی تصاویر بنانے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ لیکن آنے والے دنوں میں اس صنعت میں ایک انقلاب برپا ہونے والا ہے۔ Amazon نامی کمپنی ایک ایسا ڈرون تیار کر رہی ہے جو ہر قسم کے پارسل کو چند منٹوں میں مقررہ جگہ پر پہنچادے گااور پھر یہی ٹیکنالوجی کسی بھی طبی ایمرجنسی کی صورت میں حساس اعضاکی منتقلی کے لیے بھی استعمال ہوگی۔ ’’فیس بک‘‘ ایسا ڈرون تیار کرنے کے مراحل میں ہے جس سے دنیا کے کونے کونے میں انٹرنیٹ کی سہولت مہیا کی جاسکے گی۔ Shell نامی کمپنی تیل نکالنے کے لیے سمندر میں موجود اپنے پلانٹس کی نگرانی کے لیے ڈرون استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اسی طرح سرمایہ کاراس شعبہ میں نئی آنے والی کمپنیوں پر کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ ڈرون کی صنعت پر فی الوقت چین کا غلبہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ڈرون کے کاروبار کا ۷۲ فیصد حصے کا کنٹرول DJI نامی کمپنی کے پاس ہے، جس کا مرکزی دفتر Shenzhen چین میں واقع ہے، اسے چین کی Silicon Valley بھی کہا جاتا ہے۔
اس ساری سرمایہ کاری نے جہاں بہت سے مواقع پیدا کیے ہیں وہیں بہت سے خدشات بھی پیدا ہورہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی نجی زندگی پر اثر انداز ہو گی۔اسی طرح ڈرون جیلو ں میں منشیات کی اسمگلنگ کے لیے بھی استعمال کیے جارہے ہیں۔اس کے علاوہ امریکی فوج لاکھوں ڈالر سالانہ اس پر خرچ کر رہی ہے کہ اس ٹیکنالوجی کو دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے سے بچایا جائے۔اس طر ح کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں کہ لوگوں نے اپنے مکانات پر اڑنے والے ڈرون کو اپنی ’’پرائیویسی‘‘ میں مداخلت سمجھ کر خود ہی نشانہ بھی بنایا ہے۔
ڈرون کے استعمال میں اس وقت اچانک اضافہ ہوا جب ۲۰۱۶ ء میں امریکی انتظامیہ برائے ہوابازی نے کمرشل استعمال کے لیے ڈرون ’’آپریٹ‘‘ کرنے کے پروفیشنل سرٹیفکیٹ جاری کرنا شروع کیے۔اب امریکا میں تقریباً ایک لاکھ ۲۲ ہزار لوگوں کے پاس ڈرون چلانے کے سرٹیفکیٹ ہیں۔ چھوٹے ڈرون سافٹ ڈرنک کی ایک کین کے سائز کے ہوتے ہیں جو ایک کیمرے کا وزن اٹھا کر آسانی سے فضامیں پرواز کر سکتے ہیں۔
ڈرون کے استعمال میں اضافہ حکومتی اداروں کے لیے ایک چیلنج بنتا جا رہا ہے۔امریکی انتظامیہ برائے ہوابازی نے ڈرون کے بڑھتے ہوئے استعمال کو دیکھتے ہوئے چند قواعد و ضوابط کا نفاذ کیا ہے۔جس میں یہ قانون بھی شامل ہے کہ کوئی ڈرون اڑانے والا شخص ڈرون کو اس حد تک دور نہیں لے جاسکتا کہ وہ اس کی نظروں سے اوجھل ہوجائے۔ اس شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والوں کی طرف سے اس قانون پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے ترقی کرتی ہوئی اس صنعت کو نقصان پہنچے گا۔ Amazon اپنے کسٹمر کو کسی طرح کوئی پارسل پہنچائے گی جب ڈرون کو پائلٹ کی نظروں سے اوجھل ہونے کی اجازت ہی نہیں ہوگی۔نقل و حمل کا محکمہ ڈرون بنانے والی کمپنیوں کے ساتھ مل کر دس ریاستوں میں تجرباتی طور پر کام کر رہا ہے تاکہ اس ٹیکنالوجی اور لوگوں کی حفاظت اورسلامتی کے درمیان ایک توازن قائم کیا جا سکے۔اسی طرح ’’ناسا‘‘جیسے ادارے اس پر کام کر رہے ہیں کہ کس طرح پہلے سے ہی crowded فضا میں ڈرون کے استعمال کو بغیر کسی نقصان کے یقینی بنایا جا سکے۔
مصنوعی ذہانت میں ہونے والی ترقی اس بات کو ممکن بنائے گی کہ ڈرون کے استعمال میں وسعت کے ساتھ ساتھ اس کی کارگردگی میں نمایاں بہتری لائی جائے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ پر امید ہیں کہ بہت جلد سڑکوں کے ساتھ ساتھ اس طرح کے ڈرون پرواز کیا کریں گے جو حادثہ کے مقام پر جان بچانے والی ادویات کی فوراً ترسیل کر سکیں گے۔اسی طرح ٹرانسپورٹ کے شعبے میں کام کرنے والی کمپنیاں اس پر کام کر رہی ہیں کہ بغیر پائلٹ کے چلنے والے ہیلی کاپٹر نما ڈرون بنائے جائیں جو انسانوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے کر جائیں۔
آپ چاہے اسے پسند کریں یا نہ کریں لیکن آنے والے دنوں میں فضا پہلے سے زیادہ پرہجوم نظرآنے والی ہے۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“Drones are everywhere. Get used to it”. (“Time”. June 11, 2018)
Leave a Reply