
اگر کوئی جنگ جیتنا مشکل ہو تو اسے طول دیا جاتا ہے تاکہ فریق ثانی بھی تھک ہار کر امن کی راہ پر گامزن ہو۔ ڈرون حملوں سے کسی بھی جنگ کو طول دینے میں غیر معمولی مدد مل سکتی ہے۔ امریکا ڈرون حملوں کے ذریعے افغانستان میں وقت کو اپنی طرف کر رہا ہے۔ امریکی ایوان میں تقرر پانے والی نئی شخصیات چاہتی ہیں کہ جنگ لڑی بھی جائے اور جانی نقصان بھی کم سے کم ہو۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ڈرون سے اچھی چیز کیا ہوسکتی ہے؟ ڈرونز کے ذریعے کسی بھی جنگ کو طول دے کر شکست کا خطرہ ٹالا جاسکتا ہے مگر خیر، جوابی حملوں کو نہیں روکا جاسکتا۔
آج کی دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے اتنا خطرہ لاحق نہیں جتنا ڈرونز سے ہے۔ ایٹمی ہتھیار کسی کام کے نہیں۔ بہت سے سیاست دان انہیں سیڑھی بناکر اقتدار کے جھروکوں تک پہنچتے ہیں۔ اسلحے کی عالمی منڈی میں اس وقت ڈرون کی طلب بڑھ چکی ہے۔ اس وقت تقریباً دس ہزار ڈرون استعمال میں ہیں۔ ان میں سے ایک ہزار اسلحہ بردار ہیں اور بیشتر امریکی ساخت کے ہیں۔ بعض اخباری اطلاعات کے مطابق ڈرون حملوں میں اب ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد نائن الیون میں مارے جانے والے افراد سے کہیں زیادہ ہے۔
افغانستان، پاکستان اور افریقا میں ڈرون حملوں کے استعمال کی غایت اب تک سمجھ میں نہیں آئی۔ ہلاکتیں بڑے پیمانے پر ہوئی ہیں۔ امریکی اس بات کو اہمیت دیتے ہیں کہ ڈرون حملوں میں کتنے لوگ مارے گئے۔ اگر ہلاک ہونے والی تعداد پیمانہ ہوتی تو جرمنوں نے دوسری جنگ عظیم کے دوران اسٹالن گراڈ اور امریکا نے ویت نام کو فتح کرلیا ہوتا!
ڈرون کس مقصد کے حصول کا ذریعہ ہیں، یہ اب تک کھل نہیں سکا۔ نیو یارک اور اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈرون سے زیادہ جانی نقصان شہریوں کا ہوتا ہے۔ ان سے تباہی بھی ہوتی ہے مگر مجموعی طور پر مقاصد حاصل نہیں ہو پاتے۔ ڈرون حملوں میں اب تک جتنے شہری ہلاک ہوئے ہیں ان میں پونے دو سو بچے شامل ہیں۔ اتنی ہلاکتوں پر تو امریکی فوج کے کسی بھی انفنٹری یونٹ کا کورٹ مارشل ہوسکتا ہے! ایک بڑی الجھن یہ ہے کہ ڈرون کی قانونی حیثیت کا اب تک تعین نہیں ہوسکا۔ اور اس کے استعمال کے لیے اخلاقی معیار بھی مقرر نہیں ہوسکا ہے۔ شہریوں کو ہلاک کرنے پر فضائیہ اس بات پر فخر کرتی ہے کہ کسی بھی پائلٹ کی زندگی داؤ پر نہیں لگی۔
امریکی صدر براک اوباما نے حال ہی میں چک ہیگل کو وزیر دفاع اور جان برینن کو سی آئی اے کا سربراہ نامزد کیا ہے۔ دونوں ہی ڈرون حملوں پر غیر معمولی انحصار کے حامی اور عادی رہے ہیں۔ اوباما خود بھی وکیل ہیں مگر انہوں نے ڈرون حملوں کی قانونی حیثیت اور جواز کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی ہے۔
جنگ جیتنے میں ڈرون نے اب تک کوئی قابل ذکر کردار ادا نہیں کیا۔ ہلاکتیں بڑھتی ہیں اور جن کے پیارے مارے جاتے ہیں وہ انتقام لینے کی خاطر امریکا سے مزید نفرت کرنے لگتے ہیں۔ اب تک یہ بھی طے نہیں کہ ڈرون کے ذریعے کسی بھی ہدف کو کامیابی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً اسامہ بن لادن کی ہلاکت کو لیجیے۔ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی موجودگی کا ثبوت مل جانے پر امریکا نے ڈرون حملہ کرنے پر زمینی فوجی کارروائی کو ترجیح دی۔ اسامہ کمپاؤنڈ میں امریکی فوجی اتارے گئے جو اسامہ بن لادن تک پہنچے اور اسے مار کر لاش بھی ساتھ لے گئے۔
ڈرون حملوں میں بے قصور شہریوں کی ہلاکتوں کو مشترکہ نقصان قرار دے کر جان نہیں چھڑائی جاسکتی۔ یہ ہلاکتیں جنگ کے حقیقی نتیجے پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ ڈرون سے کسی علاقے پر قبضہ کیا جاسکتا ہے نہ بہتر انداز سے لڑائی ہی ممکن ہے۔ ان حملوں کی غایت بظاہر صرف یہ ہے کہ دشمن کے علاقے میں انتشار پھیلاؤ، لوگوں کے ذہن ماؤف کردو۔ یعنی وہ ہر وقت خوف میں مبتلا رہیں۔
دوسری جنگِ عظیم میں جرمنی نے بھی بمباری پر غیر معمولی حد تک انحصار کیا تھا۔ مالٹا کی مہم اس کا واضح ثبوت ہے۔ زمینی افواج کو بھول کر صرف فضائیہ پر بھروسہ کرنا جرمنی کو بہت مہنگا پڑا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کئی ممالک اس کے ہاتھ سے نکل گئے۔ ڈرون حملوں کے نتیجے میں امریکا کو بھی کچھ ایسے ہی نتائج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ڈرون حملوں میں شہریوں کی ہلاکت پر پاکستان بھر میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اور اس وقت تین چوتھائی پاکستانی امریکا سے شدید نفرت کرتے ہیں۔
براک اوباما ہر ہفتے ایک فہرست پر نظر ڈالتے ہیں اور طے کرتے ہیں کہ کتنے مسلم شدت پسندوں کو ترجیحی بنیاد پر نشانہ بنانا ہے۔ اس معاملے میں وہ کسی بھی قانونی تقاضے کے بارے میں سوچنا گوارا نہیں کرتے۔ مسلم شدت پسندوں کو ٹھکانے لگانے کی کارروائی کے لیے گرین سگنل دیتے ہوئے امریکی صدر یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ ایسا کرنے سے بے قصور شہری بھی مارے جاتے ہیں۔ ان میں بچے اور خواتین بھی شامل ہوتی ہیں۔
امریکا نے ۲۰۰۸ء میں ڈرون حملے باضابطہ شروع کیے اور تب سے اب تک ان کے خلاف مزاحمت میں کمی واقع نہیں ہوئی۔ طالبان اور القاعدہ کی جانب سے ڈرون حملوں کے خلاف سرگرمیاں جاری رہی ہیں۔ ان حملوں کا کوئی جواز نہیں۔ پاکستان نے ڈرون حملوں کی اجازت ختم کردی ہے مگر پھر بھی امریکا نے یہ حملے روکے نہیں۔
یمن میں ڈرون حملوں کے نتیجے میں ہلاکتیں بڑھی ہیں اور بڑے پیمانے پر تباہی بھی ہوتی رہی ہے۔ یمنی دانشور اور تجزیہ کار اپنی تحریروں میں امریکا پر زور دیتے رہے ہیں کہ ڈرون حملے روکے جائیں تاکہ بے قصور شہری ہلاکت سے بچ سکیں۔ مگر اب تک ان کی استدعا یا مشورے کا امریکی پالیسی سازوں پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوا ہے۔ بعض علاقوں میں ڈرون حملوں سے بڑھتی ہلاکتوں کے باعث لوگ ایک بار پھر القاعدہ یا طالبان کی طرف دیکھنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ امریکی پالیسی ساز شاید یہ سمجھتے ہیں کہ ڈرون حملے شکست کو قابل قبول بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ڈرون سے شکست ہی کی راہ ہموار ہوتی ہے، بہتری کی راہ ہموار نہیں ہوتی۔
امریکی پالیسی ساز خطرات کا رونا روکر ڈرون حملوں کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ امریکا کو وزیرستان میں کون سے خطرات لاحق تھے؟ بات صرف یہ ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ لڑائی میں امریکی فوجی مارے جائیں۔ ہلاکتوں کو کم سے کم رکھنے کے چکر میں شہریوں کی زندگی داؤ پر لگادی گئی ہے۔
امریکا نے ڈرون حملوں کی شکل میں بظاہر جنگ جیتنے کا آسان طریقہ وضع کیا ہے مگر در حقیقت اس کے نتیجے میں اسے نقصان ہی پہنچ رہا ہے۔ امریکا سے نفرت کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ اس نکتے پر امریکیوں کو غور کرنا ہی ہوگا۔
(“Drones Are Fool’s Gold: They Prolong Wars we Can’t Win” “The Guardian”. January 10th, 2013)
Leave a Reply