ییل کے پروفیسر اسٹینلے ملگرام نے ۱۹۶۰ء کی دہائی میں ان نفسیاتی عناصر کا پتا لگانے کی کوشش کی جنہوں نے اہل جرمنی کے فسطائیوں کو ایسا مطیع و فرماں بردار ایجنٹ بنا دیا جنہوں نے اپنے فرائض منصبی کو ادا کرتے ہوئے دوسرے انسانوں کو گیس کے چیمبروں میں دھکیل دیا۔ ملگرام نے یہ عمل منصوبہ کے مطابق ہیمبرگ میں نہیں بلکہ نیوہیومن یعنی ییل یونیورسٹی میں شروع کیا۔ انہوں نے مقامی سطح پر ایک تجربہ کی غرض سے رضاکاروں کے لیے اشتہار شائع کیا۔ رضاکاروں سے کہا گیا کہ وہ سیکھنے میں سزا کے اثرات کا نتیجہ لگا رہے ہیں اور وہ ہر غلط جواب پر الیکٹرک شاک کی بڑھتی ہوئی سطح کا جائزہ لیں گے۔ برابر کے کمرے میں سیکھنے والا ہمیشہ غلط کو دیکھے گا اور شاک پر چیخ و پکار کرے گا۔ اب تک تین امریکیوں میں سے دو کو الیکٹرک شاک لگائے گئے جو خاموش رہے جیسے مر گئے ہوں۔ لیبارٹری کے سفید کورٹ میں ملبوس شخص نے کہا یہ ٹھیک ہے تو ٹھیک ہی ہوگا۔ یہ امریکا کا معاملہ ہے۔ ذمہ دار جھوٹ نہیں بولتے اس میں غلط کیا ہوگا؟
ٹھیک ہے جب ہر ذمہ دار آپ کے سامنے ہر بات جھوٹ کہہ رہا ہے تو کنفیوژن پیدا ہوگا۔ جھوٹ بولنے والے کے لیے سب سے بڑی بات یہ ہوتی ہے کہ اس کی بات کا یقین کر لیا جائے۔ بے بس سامعین نہیں جانتے کہ اس کی مخالفت کیسے کریں یا اس کا تدارک کیسے کریں۔ یہ عام امریکی کے استحصال کی حالت ہے اگر آپ میڈیا کے تمام وسائل کو یکجا کر لیں شاید اس سرزمین پر سب سے زیادہ چوبیس گھنٹے برین واشنگ کی جاتی ہے پھر بھی یہ مہم عملاً کامیاب نہیں ہوئی ہے۔ ہر سروے میں کہا جاتا ہے کہ کارپوریٹ اور حامیان جنگ کے مستقل پروپیگنڈے کے باوجود اکثریت آج بھی ایسی پالیسیاں چاہتی ہے کہ جو شائستگی، شفافیت اور عدل و انصاف کا عکس ان کے ایمان و عقیدہ میں ظاہر کریں اور جو قومی صحت کی نگہداشت، صنعتی اور مالیاتی ضابطے، شہری حقوق، سب کے لیے روزگار، ماحولیاتی تحفظ اور محتاط خارجہ پالیسی پر مبنی ہوں۔
آج گھمنڈی و مغرور سفید لیبارٹری کوٹ وال اسٹریٹ بروکر، بڑے بن کر ضروری اشیا کے بارے میں اندازے لگانے والے طبقاتی جانب داری و تعصب پر مبنی اصولوں کی تعلیم دینے والے ماہرین معاشیات اور ایسے سیاست باز جن کے گھٹیا ضمیر چالاک لوگوں نے خرید لیے ہیں جو محض لاکھوں کے خرچ سے مہم چلا کر اربوں کما سکتے ہیں۔ سرمایہ کا یہ سیلاب بڑے بڑے دولت مندوں کو ایسے قوانین لکھنے کے قابل بنا دیتا ہے جو ان کے مختلف قسم کے ریکٹوں کو کسی بھی قسم کے کنٹرول سے آزاد کر دیتے ہیں، اتھارٹی پر اعتماد اس کی کلید ہے۔ امریکی عوام، اوباما کے ابتدائی طور پر دل خوش کن الیکشن کے تین سال بعد افسردہ ہیں اور ایک ایسی شخصیت کو بطور حکمراں منتخب کر لیے جانے کے بعد جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ اوباما ہر چیز میں غداری کر رہے ہیں ان کے اندر شکست کا احساس بڑھ جاتا ہے۔ براعظم کے اوپر انتہائی زہریلی سوشل طاقت ریپبلکن ملک سے وہ قیمت وصول کر رہے ہیں جو اوباما ادا کر رہے ہیں وہ اپنے مفادات کی تکمیل کر رہے ہیں اور دنیا کی اپنی مطلوبہ نظریاتی تصویر بنا رہے ہیں۔
امریکی ایک زور دار حملہ کے نتیجہ میں چکر کھا رہے ہیں۔ معاشیات کی کتابوں کے برعکس کوئی بھی حتیٰ کہ سخت بالشووک بھی سرمایہ دارانہ نظام سے آج اتنی نفرت نہیں کرتا جتنی کہ خود سرمایہ دار کر رہے ہیں۔ وہ صرف اس بنیادی حقیقت کو دیکھنے کے لیے ایک ہلکا سا عکس دیکھتا ہے جس کو آدم اسمتھ نے سمجھ لیا تھا جس کی قدامت پرست صرف تعریف کرتے ہیں لیکن انہوں نے کبھی اس کو پڑھا نہیں ہے۔ اصل تخریب کار کارپوریشن اور بڑے بڑے دولت مند ہیں۔ بزنس پریس میں قابل ستائش ان کے نقش قدم پر چلنے والے وہ لوگ نہیں ہیں جو کم قیمت پر بہتر مصنوعات تیار کر رہے ہیں بلکہ وہ ۵۰۰ میگنیٹ ہیں جن کی فہرستوں میں تیزی سے کٹوتی کرتے۔ ماحول کو زہر آلود کرنے، وفاقی خزانہ کو قانون کے مطابق لوٹنے، ایسے ملکوں کو روزگار ایکسپورٹ کرنے جہاں ورکر اپنا دفاع نہیں کر سکتے اور دولت کو فلک بوس بلندیوں کی حد تک لوٹنے کے لیے تعریف کی جاتی ہے۔ قیمتیں دوسروں کے اوپر ڈال دی گئی ہیں پھر بزنس واضح طور پر کنٹرول حاصل کیوں نہیں کرے گا؟ جس کے پاس یہ سب کچھ نہیں ہے اس کے لیے اس نظام میں کوئی تحفظ نہیں ہے۔
فری مارکیٹ وہ اولمپک نہیں ہے جہاں ایتھلیٹ ان محترم حریفوں کی عزت کرتے ہیں جن کے چیلنج کے مقابلہ میں وہ اپنی مہارتوں کو مزید تیز کر سکتے ہیں۔ مارکیٹ کمپیٹیشن کا اہم اصول مخالف کو ختم کرنا یا اس کو ناکام کرنا ہے تاکہ حریفوں کے ساتھ سمجھوتا کر کے عوام کا خون پوری طرح چوس لے جب کہ اکثریت کو معاشیات کا علم پڑھنے پر لگا دیا گیا ہے جو پاگل پن کی حد تک حقیقت سے منحرف کرتی ہے۔ اصل کارندے سب کچھ سمیٹ لے جاتے ہیں۔ دریں اثناء سنکی لوگ دیکھتے ہیں کہ جمہوریت کو اس وقت تک اجازت نہیں دی جاسکتی جب کہ دانشور خود کو زیادہ سے زیادہ مالدارانہ بنالیں۔ دولت والے چالاک لوگوں نے ساری دولت کو بلندیوں پر چڑھا دینے کی اپنی مہم کے ذریعہ عالمی معیشت کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ چائے پارٹی ایک زبردست عوام حامی دائیں بازو والا سادہ لوح اور حقائق سے بے خبر امریکی طبقہ اس بات پر مصر ہے کہ اگر وہ ہر روز ۱۶ گھنٹے کسی بھی قسم کا فائدہ اٹھائے بغیر کام کرتا ہے تو مالکوں کی خوشنودی حاصل کرنے اور امریکا میں کام کرنے والوں کے حقوق کے لیے طویل مدتی تاریخی خونیں جدوجہد سے بچنے کے لیے ضروری ہے۔
اعلیٰ سطح سے نچلی سطح تک کے امریکیوں کی آمدنی آج ۱۹۸۰ء کے مقابلہ میں بہت کم ہے جب تک سابق اعلیٰ سطح کے برابر ٹیکس مالدار لوگ ادا نہیں کریں گے اور بنیادی پالیسیاں دولت کو براہ راست اوسط درجہ کے امریکیوں کی جیبوں میں نہیں پہنچائیں گی وہ اس قوت خرید کو حاصل نہیں کر سکتے جو معاشیات کو آگے بڑھانے کے لیے ضروری ہیں۔ پرائیویٹ بزنس صرف روزگار جاب بڑھاتے ہیں جب کہ ضرورت ان منصوعات بڑھانے کی ہے۔ مالدار ترین ۱۴۰۰ امریکیوں نے دیکھا کہ ۱۹۹۲ء میں ان کی آمدنی پر ٹیکس کی جو شرح ۲۷ فیصد تھی وہ اب ۱۷ فیصد رہ گئی ہے۔ سرمایہ سے حاصل ہونے والے ٹیکس کے فائدے تنخواہیں پانے والوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کا نصف ہیں پھر بھی اچھی تنخواہ پانے والے پہلے ہی سخت مار جھیلنے والے غریبوں اور اوسط آمدنی والوں پر زیادہ بوجھ ڈالنے کے لیے چیخ و پکار کرتے ہیں کہ وہ بحرانی حالت میں زیادہ ادا کریں اور بے ضابطہ اشیا ضروریہ کی مارکیٹ میں زیادہ دولت بہائیں جہاں اندازے اور تخمینے پیٹرول اور اناج کی قیمتوں کو بڑھاتے ہیں اس طرح باقی ہر چیز دنیا بھر میں پریشان حال لوگوں کے اندر غیظ و غضب بھڑکاتی ہے۔ جب کہ دفاع پر ہونے والے مصارف کو انتہائی تقدس کا درجہ دے رکھا ہے۔
اوباما پریشان ہیں کہ جن طاقتوں نے ان کی مہم میں سرمایہ کاری کی تھی وہ علاج کے نام پر ایسی اقتصادی شرائط نافذ کرنے کے عزم کے پابند ہیں جو ان کے دوبارہ انتخاب کے لیے مطلوب ضروریات کا گلا گھونٹتی ہیں۔ امریکی اپنی پروردہ امیدوں اور تیقین کو لگنے والی زبردست چوٹوں کے ستائے ہوئے نظر آتے ہیں چنانچہ ملگرام جیسے تجربات کے بل پر بھی جگانے کی کوشش کی جائے تو وہ اپنے ذمہ داروں پر مزید کچھ اچھا اور ٹھیک کرنے کے بارے میں ایسے ہی اعتماد و بھروسا کرتے جیسا کہ باقی دنیا نہیں کرتی ملگرام نے اپنی مشق سے جو سبق حاصل کیا ہے اس سے زیادہ بہتر یہ ہے کہ اگر ہم کوئی متبادل قبول کرتے ہیں جیسا کہ اتھارٹیز کہتے ہیں تو ہم برباد ہو جائیں گے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’اسٹیٹس مین‘‘۔ ۸ مئی ۲۰۱۱ء۔ ترجمہ: سعید حسن خان)
Leave a Reply