
سولہ؍دسمبر ۱۹۷۱ء کا زخم آسانی سے مندمل ہونے والا نہیں تھا۔ بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی میں ایک عظیم ریاست کا دولخت ہوجانااسلامی تاریخ کا ایک ہولناک واقعہ تھا، جو ہماری روح کے اندر پیوست ہو گیا اور ہماری نفسیات پر نہایت گہرائی سے اثر انداز ہوا۔ سب سے زیادہ اذیت ناک بات یہ تھی کہ آل انڈیا مسلم لیگ جس نے قائداعظم کی مدبرانہ اور بااصول قیادت میں پاکستان حاصل کیا، اُس کی تخلیق ۱۹۰۶ء میں ڈھاکا میں ہوئی تھی اور ۱۹۴۰ء میں مسلمانانِ ہند کے عظیم الشان اجتماع میں بنگال کے وزیراعظم جناب اے کے فضل الحق نے قراردادِ لاہور پیش کی، جو قائداعظم کی زیرِ صدارت منظور ہوئی تھی۔ اِس میں برِصغیر کے مسلمانوں کے لیے جداگانہ وطن کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ سات سال کی انتہائی قلیل مدت میں آل انڈیا مسلم لیگ نے مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں میں مسلمانوں کی تمام نشستیں جیت لیں اور منتخب نمائندوں کا ایک تاریخ ساز کنونشن دہلی میں قائداعظم کی زیرِصدارت منعقد ہوا۔ قراردادِ لاہور میں خودمختار ریاستوں (states) کے الفاظ استعمال ہوئے تھے جن سے بعض حلقوں نے یہ تاثر لیا تھا کہ شمال مغربی اور شمال مشرقی حصوں میں دو ریاستیں قائم ہوں گی، مگر مشرقی بنگال سے جناب حسین شہید سہروردی نے دہلی کنونشن میں ’ایک پاکستان‘ کی قرارداد پیش کی، جو بہت بھاری اکثریت سے منظور ہوئی۔ بنگال کی مسلم قیادت کو شدید احساس تھا کہ وہ مغربی پاکستان کے ساتھ علاقائی وابستگی رکھے بغیر اپنی آزادی قائم نہیں رکھ سکے گا اور ہندوستان اُس پر اپنا غلبہ حاصل کر لے گا۔ اِس اعتبار سے مشرقی پاکستان کا صرف چوبیس برس بعد اپنے مرکز سے الگ ہو جانا ایک دل دہلا دینے والا سانحہ تھا۔
اِس علیحدگی میں ہماری سیاسی اور عسکری قیادتوں کی بے تدبیری اور کوتاہ نگاہی کا بھی بڑا عمل دخل رہا، لیکن فیصلہ کن کردار بھارت نے ادا کیا۔ میں مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان بار بار جانے والے صحافیوں میں شمار ہوتا تھا۔ مجھے وہاں کے سیاسی حالات کے علاوہ بھارتی ریشہ دوانیوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ میں پہلی بار چیف جسٹس ڈھاکا ہائی کورٹ جسٹس محبوب مرشد کا انٹرویو لینے ۱۹۶۳ء کے وسط میں ڈھاکا گیا اور ایک عجیب و غریب تجربے سے دوچار ہوا۔ اُن دنوں اُردو ڈائجسٹ کے قارئین بنگالی بھی تھے اور بہاری بھی۔ اِن میں نوجوان بھی تھے اور بڑی عمر کے بھی۔ بنگالی نوجوانوں کا ایک گروپ مجھ سے رات کے آخری پہر ملا اور مجھے اپنے ساتھ ایک چھوٹے سے کمرے میں لے آیا۔ اِس نے مغربی پاکستان کے خلاف شکایات کا انبار لگا دیا۔ اُنہوں نے کہا کہ آپ اہلِ مشرقی پاکستان سے ہمدردی رکھتے ہیں، اِس لیے ہم آپ سے اپنے دل کی بات کہنا چاہتے ہیں۔ مجھے خوشی کے ساتھ ساتھ حیرت بھی ہوئی۔ اِس میں ایک درازقد نوجوان نے ۱۹۶۲ء کے دستور کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم سے صوبائی خودمختاری کے تمام حقوق چھین لیے گئے ہیں اور اب ہم صدر ایوب کے رحم و کرم پر ہیں۔ ہماری اسمبلی وزیراعلیٰ کا انتخاب کر سکتی ہے، نہ صدر کی پیشگی اجازت کے بغیر بجٹ منظور کرسکتی ہے، نہ قانون بنا سکتی ہے۔ گورنر جنرل اعظم نے ہمارے حالات بہتر بنانے میں نہایت سرگرمی سے کام کیا اور ہمارے دل جیت لیے، مگر اُنہیں منصب سے ہٹا کر ہم پر بہت ظلم ڈھایا گیاہے۔ اِس کے بعد اب ہم نوجوانوں کے لیے اپنی بقا کی خاطر بھارت سے مدد حاصل کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہا۔
مجھے اُن کی باتوں نے ہکا بکا کر دیا تھا، تاہم اپنے حواس پر قابو رکھتے ہوئے میں نے پوچھا آپ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ اِسی اثنا چائے آ گئی اور خوش گپیوں کا دور چل نکلا۔ میں نے دیکھا کہ برابر کے کمرے سے ایک نوجوان داخل ہوا جس کے ہاتھ میں لپٹے ہوئے کاغذات تھے۔ اُس نے اُنہیں میز پر پھیلاتے ہوئے کہا کہ ہم جو کچھ کرنا چاہتے ہیں، اِس کی تفصیلات اِن نقشوں میں درج ہیں۔ اِس نے بتایا کہ ہم نے دریاؤں پر تعمیر شدہ پُلوں کا پورا نقشہ تیار کر لیا ہے، ریل کی پٹری، فوجی تنصیبات اور ذرائع آمدورفت کی تمام تفاصیل اِن کاغذات میں درج ہیں۔ ہم کئی ماہ سے تربیت حاصل کر رہے ہیں کہ یہ تنصیبات اور مراکز کس طرح تباہ کیے جا سکتے ہیں اور پورے صوبے کا نظم و نسق تہہ و بالا کیا جاسکتا ہے۔ مجھے اُن کی باتوں سے خوف آنے لگا تھا اور میرے اعصاب شل ہوتے جا رہے تھے۔ مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ میرا انجام کیا ہونے والا ہے۔ میں نے اُن سے وعدہ کیا کہ میں تمہارے احساسات مغربی پاکستان کے اعلیٰ حلقوں تک پہنچانے کی کوشش کروں گا۔ وہ مجھے ہوٹل تک چھوڑنے آئے۔
میں نے اُردو ڈائجسٹ میں یہ پورا واقعہ تحریر کیا، مگر حکومت کے کسی ادارے نے مجھ سے رابطہ نہیں کیا۔ اِس کا مطلب یہ تھا کہ مغربی پاکستان کے حکمرانوں نے مشرقی پاکستان میں وقوع پذیر ہونے والے بھونچال کی طرف سے آنکھیں بند کر لی تھیں۔ تب مجھے یاد آیا کہ صدر ایوب خان نے اپنے وزیرِ قانون سابق چیف جسٹس محمد منیر کے ذمہ یہ مشن سونپا تھا کہ مشرقی پاکستان کی قیادت سے علیحدگی کے معاملات طے کر لیے جائیں۔ جسٹس منیر نے اپنی کتاب ’جناح سے ضیاء تک‘ میں تحریر کیا ہے کہ میں نے مشرقی پاکستان کے سینئر لوگوں سے اِس موضوع پر گفتگو کی، تو اُنہوں نے جواب میں کہا کہ ہم تو اکثریت میں ہیں، اِس لیے کبھی علیحدگی کا آپشن اختیار نہیں کریں گے۔ آٹھ سال بعد میں نے اپنی آنکھوں سے وہ سب کچھ وقوع پذیر ہوتے دیکھا جس کا ذکر ڈھاکا میں یونیورسٹی کے طلبہ نے کیا تھا۔پاکستان کو دولخت کرنے کے لیے بھارت نے ایک لاکھ بنگالی نوجوانوں پر مشتمل مکتی باہنی تیار کی، جس کے تربیتی کیمپ مغربی بنگال، آرونچل پردیش، بہار، آسام، ناگالینڈ اور تری پورہ ریاستوں میں قائم تھے۔ مکتی باہنی جسے بھارتی فضائیہ اور بحریہ کی کمک حاصل تھی اوربھارتی فوج کے جوان اِس میں شامل ہو گئے تھے، اُس نے مارچ ۱۹۷۱ء کے اوائل میں بہاریوں، بنگالیوں اور مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے فوجی افسروں، خواتین اور بچوں کا قتلِ عام شروع کیا۔ بھارت سے تربیت یافتہ مکتی باہنی کے دہشت گرد پاور پلانٹس، ریلوے، صنعتوں، پُلوں، تیل کے ذخائر، بینک، بندرگاہیں اور فوجی تنصیبات کو نشانہ بناتے اور اپنے مخالفین کو ذبح کرنے کا وحشیانہ کھیل کھیلتے رہے۔ میں چٹاگانگ میں عورتوں، بچوں اور بے سہارا لوگوں کے خونیں غسل کے دو ماہ بعد مئی ۱۹۷۱ء میں اُس ریسٹ ہاؤس میں گیا جہاں پاکستان کے شہری نہایت سفاکی سے قتل کیے جاتے تھے۔ خون کے دھبے بہت ساری برساتیں گزرنے کے باوجود تازہ تھے۔ اِس انتہائی نامساعد ماحول میں پاکستان سے محبت کرنے والے مکتی باہنی کے سامنے ڈٹ گئے اور پاکستان کی سالمیت کے تحفظ کی خاطر جانوں کا نذرانہ پیش کرتے اور اپنے وطن سے وفا کا عہد نبھاتے رہے۔ آج اُنہی سرفروشوں کو پاکستان سے محبت کرنے کے ’جرم‘ میں پھانسی کی سزائیں دی جا رہی ہیں اور دہشت گردی کا ایک ڈراؤنا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ یہ بہنے والا خون ضرور رنگ لائے گا اور ہمارے پرانے زخم جو ہرے ہوتے جا رہے ہیں، عالمی ضمیر کے لیے ناقابلِ برداشت کسک ثابت ہوں گے اور تاریخ کو جلد اپنا فیصلہ صادر کرنا پڑے گا۔ اس مرحلے میں پاکستان کے حکمرانوں اور عوام پر گراں قدر ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’جنگ‘‘ کراچی۔ ۱۸؍مارچ ۲۰۱۶ء)
Leave a Reply