بھارت نے اپنی غیر معمولی آبادی، معاشی ڈھانچے اور وسیع تر مارکیٹ کی بدولت جنوبی ایشیا میں اپنے لیے عمدگی سے جگہ بنائی ہے اور اب اس کے اثرات پورے خطے پر دکھائی دیتے ہیں۔ بھارت پورے خطے میں تاریخ اور ثقافت کے اعتبار سے بھی نمایاں اور مضبوط ہے۔ جنوبی ایشیا میں چین کے اثرات ہمیشہ محدود رہے ہیں، مگر اب ایسا نہیں ہے۔ پاکستان سے بہتر تعلقات کی بدولت چین نے اس خطے میں اپنے لیے تھوڑی بہت جگہ بنائی تھی مگر اب وہ اپنی غیر معمولی معاشی قوت کی بدولت خطے کے بڑے کھلاڑیوں میں شامل ہوگیا ہے۔ چین نے اپنی انتہائی مضبوط معیشت کو عمدگی سے بروئے کار لاتے ہوئے خطے میں اپنے اثرات کا دائرہ بھی وسیع کیا ہے۔ مثلاً پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات ایسے ہیں کہ دنیا رشک کی نظر سے دیکھتی ہے۔ اس وقت چین چاہتا ہے کہ پاکستان مضبوط ہو، اس لیے وہ پاکستان کو کھل کر نواز رہا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ خطے کے دوسرے ممالک کے ساتھ بھی اس کے معاشی اور تکنیکی تعلقات استوار ہوتے جارہے ہیں۔ چین نے کئی ممالک میں شراکت داریاں قائم کی ہیں۔ بڑے پیمانے پر سرمایہ لگاکر چین خطے کے بیشتر ممالک میں اپنے Stakes کو بہتر اور مضبوط حالات میں رکھنا چاہتا ہے۔
معاملہ یہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں بھارت کے لیے چین ایک بڑا خطرہ بن کر ابھرا ہے۔ معاشی امور کے ماہرین اور تجزیہ کار کہتے ہیں کہ چین نے بھارت کی تیز رفتار ترقی کو اب اپنے سائے میں لے لیا ہے۔ بھارت کے پالیسی ساز بھی یہ محسوس کرتے ہیں کہ چین ہر معاملے میں بھارتی معیشت کے لیے خطرہ بنتا جارہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ بھارت کے لیے امکانات ختم ہوکر رہ گئے ہیں، مگر مسئلہ یہ ہے کہ چین ایک ترقی یافتہ ملک ہے اور اس کے معیارات بہرحال بھارت سے بلند ہیں۔ چین نے سرمایہ کاری اور انفرا اسٹرکچر کے حوالے سے بھی جنوبی ایشیا کے کئی ممالک کو نوازا ہے۔ بھارت نے خطے میں اپنی بالادستی تو قائم کرنے کی کوشش کی ہے مگر کسی بھی چھوٹے ملک کا بھلا سوچنے کی توفیق اسے نہیں ہوئی۔ بنگلا دیش ہو یا نیپال، برما ہو یا پاکستان، کسی بھی ملک کی حقیقی ترقی میں معاون ہونے کا بھارت کے پالیسی سازوں نے کبھی نہیں سوچا۔ نیپال اور بھوٹان تو بھارت کے پیچھے چھپ کر رہ گئے ہیں۔ بنگلا دیش کا کم و بیش یہی حال ہے۔ ایسے میں چین کا سامنے آنا خطے کے بہت سے اور بالخصوص چھوٹے ممالک کے لیے غنیمت ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ بدلتی ہوئی صورت حال میں چین سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں۔
چین نے پورے خطے میں بنیادی ڈھانچے کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے کے لیے ایک خصوصی انفرا اسٹرکچر بینک قائم کردیا ہے۔ اس بینک کے ذریعے خطے کے بیشتر ممالک میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔ یہ صورت حال اس امر کی متقاضی ہے کہ بھارت بھی زیادہ کھل کر سامنے آئے اور محض فوائد نہ بٹورے بلکہ دوسروں کو بھی کچھ دے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے لیے لازم ہوگیا ہے کہ خطے کے ممالک کا دورہ کریں اور زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کرکے چین کے اثرات کا دائرہ محدود رکھنے کی کوشش کریں۔
جنوبی ایشیا کا شمار اُن خطوں میں ہوتا ہے جہاں ممالک معاشی اعتبار سے ایک دوسرے سے خاصے کم جڑے ہوئے ہیں۔ خطے کے بیشتر ممالک اب تک ایک دوسرے سے خائف اور تحفظات کا شکار ہیں۔ یہی سبب ہے کہ بیشتر ممالک نے اپنے آپ کو بچانے کے لیے کسٹم اور دیگر معاملات میں سخت پالیسیاں اپنائی ہوئی ہیں۔ کھلی تجارت خطے میں اب تک تقریباً ناپید ہے۔ بھارت، پاکستان، سری لنکا، بنگلا دیش اور نیپال اب تک خود کو بچانے کی راہ پر گامزن رہے ہیں۔ بھارت جیسا بڑا ملک بھی خطے میں غیر معمولی برتری حاصل کرنے کے باوجود اب تک اوپن اپ نہیں ہوسکا ہے۔ تجارت کے معاملے میں بھارت نے اب تک خود کو بچانے کی پالیسی ہی اپنائی ہوئی ہے۔ آزاد تجارت یقینی بنانے اور ثقافتی سطح پر خطے کے ممالک کو ایک دوسرے کے نزدیک لانے کی خاطر علاقائی تعاون کی تنظیم ’’سارک‘‘ موجود تو ہے مگر اس کا وجود بیشتر معاملات میں غیر موثر ہی ثابت ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سارک کے ارکان ایک دوسرے پر مکمل بھروسا کرنے کے لیے اب بھی تیار نہیں۔ پالیسیوں میں خوف اور ابہام کا عنصر پایا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ خواہش کے باوجود خطے میں کوئی بھی ملک حقیقی معنوں میں ترقی سے ہمکنار نہیں ہوسکا ہے۔ پورے علاقے میں ایک کرنسی کا خواب ابھی تعبیر کی منزل سے بہت دور ہے۔ بھارت جیسا بڑا ملک بھی تجارت کے حوالے سے اپنے دروازے کھولنے کو تیار نہیں۔ بھارتی پالیسی ساز اب تک ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ بھارت اور پاکستان خطے کے سب سے بڑے ممالک ہیں مگر ان کے درمیان بھی تجارت اب تک برائے نام ہی ہے۔ دونوں معدنی وسائل اور افرادی قوت سے مالا مال ہیں مگر اس کے باوجود ایک دوسرے کی صلاحیت سے کماحقہٗ مستفید ہونے کے لیے تیار نہیں۔ دونوں کے درمیان آزاد تجارت کا تصور اب تک مفقود ہے۔ سارک کے بیشتر ارکان اپنی مصنوعات کے لیے ترقی یافتہ ممالک کی منڈی تلاش کرتے ہیں اور چین کو بھی ترجیح دے رہے ہیں۔ اس کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ بھارت نے اپنے دروازے اب تک بند رکھے ہیں۔ وہ خطے کے چھوٹے ممالک کی معیشت کو مستحکم کرنے کے حوالے سے کچھ بھی کرنے کو تیار نہیں۔
بھارت اتنا بڑا ہے کہ خطے کے بیشتر ممالک کے لیے فطری تجارتی شراکت دار ہے۔ نیپال بھارت سے جڑا ہوا ہے اور بہت سے معاملات میں بھارت پر منحصر ہے۔ بھوٹان کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ سری لنکا نے بھارت سے آزاد تجارت کا معاہدہ کیا ہے۔ بنگلا دیش اور بھارت کے تجارتی تعلقات بھی وسیع ہیں۔ ۱۹۷۱ء میں قیام کے بعد سے بنگلا دیش بیشتر معاملات میں بھارت پر انحصار پذیر رہا ہے۔ مگر بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ بھارت خطے کے کسی بھی ملک کی معیشت کو مضبوط کرنے کے حوالے سے کچھ کرنے کو تیار نہیں۔ وہ اب تک صرف اپنے آپ کو مضبوط کرتا رہا ہے۔
پاک چین تعلقات خطے کے تناظر میں خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ دونوں ممالک اپنے اپنے حالات کے تناظر میں ایک دوسرے کے نزدیک رہے ہیں۔ چین اس خطے میں پاکستان کو اپنا اہم اسٹریٹجک پارٹنر گردانتا ہے اور اس حوالے سے بہت کچھ کرنے کو تیار بھی ہے۔ پاکستان کے بنیادی ڈھانچے کو مستحکم کرنے میں چین نے ہر دور میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے اور اب بھی وہی مرکزی کردار ادا کر رہا ہے۔ بھارت کے سامنے کھڑا رہنے کے قابل ہونے میں بھی پاکستان کو چین سے بھرپور حمایت اور مدد درکار ہے۔ دونوں ممالک معیشت اور سفارت کاری دونوں میں ہم آہنگی کی راہ پر گامزن ہیں۔ بہت سے سفارتی معاملات میں پاکستان اور چین ایک دوسرے کی بھرپور معاونت کرتے ہیں۔ عالمی امور میں چین جو کچھ چاہتا ہے، پاکستان وہی کرتا ہے اور اس کے جواب میں چین بھی مختلف معاملات میں پاکستان کے اصولی مؤقف کی بھرپور تائید کرتا ہے۔ پاکستان اور چین نے تجارت اور سرمایہ کاری کے حوالے سے بھی ایک دوسرے پر غیر معمولی انحصار کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔ اس دقت دونوں ممالک کے درمیان تجارت کم و بیش ۱۶؍ارب ڈالر کی ہے۔
چین کے معاملات محض پاکستان تک محدود نہیں رہے ہیں۔ بنگلا دیش بھی اب چین کی طرف جھکتا جارہا ہے۔ چار عشروں کے دوران بھارت نے بنگلا دیش کو اپنے انگوٹھے کے نیچے رکھا ہے مگر اب ایسا نہیں ہے۔ بنگلا دیش کی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے چین نے کئی ایسے اقدامات کیے ہیں جو بھارت کے لیے محض درد سر ثابت ہو رہے ہیں۔ مثلاً بنگلا دیش کی گارمنٹ انڈسٹری کے لیے ضروری سمجھی جانے والی اشیا کی فراہمی چین انتہائی کم نرخ پر کر رہا ہے۔ بنگلا دیش کو بہت سے معاملات میں بھارتی معیشت پر انحصار کرنا پڑتا تھا مگر اب ایسا نہیں ہے۔ بنگلا دیش چینی مصنوعات کے لیے محض منڈی نہیں بلکہ سرمایہ کاری کا مرکز بھی ہے۔ چین نے بنگلا دیش کے بنیادی ڈھانچے کو بھی مضبوط بنانے کے اقدامات کیے ہیں۔ کئی منصوبوں میں چین کی سرمایہ کاری ہے۔ بہت سی بھارتی اشیا کے لیے بنگلا دیش واضح منڈی ہوکر رہ گیا تھا۔ چین نے وہ اشیا کہیں کم نرخ پر فراہم کرنا شروع کردی ہیں، جس کے نتیجے میں بھارتی مصنوعات کے لیے مقابلہ کرنا ممکن نہیں رہا۔ چین نے بنگلا دیش میں قدم جمانے کا سلسلہ شروع کیا ہے تو بھارت کا ماتھا ٹھنکا ہے اور اب وہ بعض معاملات میں بنگلا دیش کو رعایتیں دینے کے لیے تیار ہے۔ ۲۰۰۵ء میں دونوں ممالک کے درمیان لینڈ باؤنڈری معاہدہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ بھارت چند ایک معاملات میں بنگلا دیش کے مفادات کا خیال رکھنے پر مجبور ہے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں وہ اور خطے کے دیگر ممالک واضح طور پر چین کی طرف جھکتے چلے جائیں گے۔
سری لنکا اور دیگر ممالک اب بھی بھارتی مصنوعات کے لیے سب سے بڑی منڈی ہیں۔ سمندر اور خشکی کے راستے آسان رسائی نے بھارت کو سری لنکا اور نیپال وغیرہ کے لیے آسان آپشن کا درجہ دے رکھا ہے مگر معاملہ یہیں تک محدود نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تجارت اور صنعت میں بلند ہونے کا بھارت نے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے اور ان دونوں ممالک کو سفارت کاری کے میدان میں بھی زیر نگیں رکھنے کی کوشش کی ہے۔ ایسی ہر کوشش ان ممالک کو کسی اور طرف دیکھنے پر مجبور کرتی رہی ہے۔ سری لنکا اور نیپال بھارت کے سب سے بڑے تجارتی شراکت دار ہیں، مگر سچ یہ ہے کہ چین اب تیزی سے جگہ بنارہا ہے اور وہ فرق کو کم سے کم کرتا جارہا ہے۔ بہت سے معاملات میں چین ان چھوٹے ممالک کے لیے سرپرست کی سی حیثیت کے ساتھ سامنے آیا ہے۔ ان کے سائے میں آکر یہ چھوٹے ممالک بھارت کا سامنا کرنے کی تھوڑی بہت سَکَت اپنے اندر محسوس کرنے لگے ہیں۔
افغانستان میں چین اور بھارت دونوں کی دلچسپی بڑھتی جارہی ہے۔ اس وقت دونوں بڑے ممالک کی افغانستان سے تجارت ایک ارب ڈالر تک ہے مگر اس میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ افغانستان میں بھارت کا مفاد کئی اعتبار سے اہم ہے۔ ایک طرف تو وہ وسط ایشیا کی مسلم ریاستوں تک رسائی کے لیے افغانستان کو اہم مرکز کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے اور اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ایران سے بہتر تعلقات کے ذریعے بھارت افغان سرزمین پر قدم جماکر پاکستان کو بھی ایک خاص حد تک رکھنا چاہتا ہے۔ افغانستان نے ہر دور میں بھارت کی طرف جھکاؤ رکھا ہے، سوائے طالبان کے دورِ اقتدار کے۔ چین بھی افغانستان میں بھارت کو ٹف ٹائم دینے کی تیاری کر رہا ہے۔ افغانستان میں چین کا بنیادی مفاد معدنیات کے حوالے سے ہے۔ چین کو اپنے صنعتی ڈھانچے کے لیے دنیا بھر سے خام مال کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ ایشیا اور افریقا اس کے لیے خاص طور پر اہم ہیں کیونکہ یہاں سے خام مال کی ترسیل میں آسانی رہتی ہے۔ بھارت نے ایران سے معاہدہ کیا ہے جس کے تحت وہ افغانستان تک رسائی کے لیے ۲۰۱۶ء تک ایران کی چاہ بہار بندرگاہ استعمال کرنے لگے گا۔ ایسی صورت میں بھارت کے لیے پاکستان کو بائی پاس کرنا ممکن ہوگا اور یوں افغانستان کو بھیجی جانے والی اشیا کی لاگت کنٹرول کی جاسکے گی۔
بھارت اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرسکتا کہ چین کی حکومت نے پاکستان کی بندرگاہ گوادر سے مغربی چین تک اقتصادی راہداری کے منصوبے پر کام شروع کردیا ہے۔ یہ خاصا بڑا منصوبہ ہے جس کی تکمیل سے افغانستان سمیت خطے کے کئی ممالک مستفید ہوں گے۔ چین کے لیے پاکستان کے راستے تجارت کرنا انتہائی آسان ہوجائے گا۔ اسے جنوبی ایشیا میں ایک ایسی بندرگاہ درکار ہے جس کی مدد سے دنیا بھر سے اشیا منگوانا آسان ہو۔ اس معاملے میں گوادر کی بندر گاہ اس کے لیے بہت اہم اور سہل الحصول ہے کیونکہ یہ خلیج فارس کے خطے سے جڑی ہوئی ہے اور مشرق وسطیٰ اور یورپ سے آنے والے مال کی ترسیل میں چین کی بھرپور مدد کرسکتی ہے۔ اسی طور ان خطوں کے لیے چینی برآمدات بھی آسان ہوجائیں گی۔ چین کے لیے سب سے بڑا مسئلہ لاگت کا ہے۔ اقتصادی راہداری منصوبہ مکمل کرلیے جانے سے چین کو لاگت اور بالخصوص ترسیلی لاگت کے حوالے سے خاصی آسانی ہوگی۔
بھارت گوادر پورٹ کے حوالے سے چین کے منصوبوں کو یکسر نظر انداز نہیں کرسکتا۔ اقتصادی راہداری منصوبہ مکمل ہوجانے سے چین کے لیے پورے خطے میں تجارت اور سرمایہ کاری کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ اگر یہ منصوبہ کامیابی سے مکمل کرلیا گیا تو خطے کے بیشتر ممالک کا جھکاؤ لازمی طور پر چین اور پاکستان کی طرف ہوجائے گا۔ ایسے میں بھارت کے لیے علاقائی سطح پر اپنی برتر حیثیت کو برقرار رکھنا انتہائی دشوار ہوجائے گا۔ اقتصادی راہداری منصوبہ افغانستان کے لیے آسان راستے کھولے گا۔ افغانستان چونکہ خشکی سے گھرا ہوا ہے، اس لیے وہ بھی راہداری چاہتا ہے۔ ٹرانزٹ ٹریڈ کے معاملے میں وہ پاکستان پر انحصار کرنے پر مجبور ہے۔ ایران اس معاملے میں اس کا زیادہ ساتھ نہیں دے پایا ہے۔ چین اور پاکستان کے درمیان اقتصادی راہداری منصوبہ بخوبی تکمیل کی منزل تک پہنچ گیا تو یہ بھی ممکن ہے کہ افغانستان کا جھکاؤ بھارت کے بجائے چین کی طرف ہوجائے۔ اقتصادی راہداری منصوبے کی عمدگی سے تکمیل کی صورت میں افغانستان کے لیے عالمی منڈیوں تک رسائی مزید آسان ہوجائے گی۔
خطے میں محنت کی حرکت پذیری اب تک وہ نہیں، جو ہونی چاہیے۔ بھارت محنت کشوں کی ایک بڑی منڈی ہے۔ جنوبی ایشیا کے بہت سے ممالک سے کم و بیش ۵۰ لاکھ تارکین وطن بھارت میں کام کرتے ہیں اور وہ ہر سال اپنے ملک کو اربوں ڈالر کا زر مبادلہ بھیجتے ہیں۔ دوسری طرف چین میں محض چند ہزار جنوبی ایشیائی محنت کش کام کرتے ہیں، جو اپنے اپنے ممالک کو بہت معمولی رقم بھیجتے ہیں۔ بھارت کے لیے بنگلا دیش کی برآمدات ۵۷ کروڑ ڈالر تک رہی ہیں۔ دوسری طرف بھارت میں کام کرنے والے بنگلا دیشی محنت کش ہر سال کم و بیش چار ارب ڈالر وطن بھیجتے ہیں۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بنگلا دیشی معیشت کے لیے ترسیلاتِ زر کس قدر اہم ہیں۔
جنوبی ایشیا کے ممالک میں بھارت اور چین کی افرادی قوت بھی مصروفِ کار ہے۔ بھارت کو خطے کے ممالک سے ترسیلاتِ زر کی صورت میں سالانہ کم و بیش ۹؍ارب ڈالر حاصل ہوتے ہیں۔ چین ابھی ایک ارب ڈالر کی منزل میں ہے۔
دوسری ترقی یافتہ اور ابھرتی ہوئی اقوام کی طرح چین نے بھی تعاون اور اشتراکِ عمل کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے امدادی پروگرام بھی شروع کیے ہیں۔ چین کی حکومت بیرون ملک سرمایہ کاری اور تعاون کی مدد میں سالانہ اربوں ڈالر خرچ کر رہی ہے۔ جنوبی ایشیا کو بھی خاص ترجیح دی جارہی ہے۔ چین چاہتا ہے کہ خطے میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کرے اور دوسری طرف کمزور تر ممالک کو امداد بھی دی جاتی رہے تاکہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے رہنے کے قابل رہیں۔ اس معاملے میں وہ اپنی پالیسیاں بھی تبدیل کر رہا ہے۔ دوسری طرف بھارت بھی خطے میں اپنے اثرات کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے امدادی پروگرام چلا رہا ہے۔ اس نے نیپال، سری لنکا اور بنگلا دیش کو بہت سے معاملات میں امداد دی ہے تاکہ تعلقات بہتر رہیں اور یہ ممالک کسی بھی نازک وقت میں بھارت سرکار کو یاد رکھیں۔ بھارت نے نیپال اور بھوٹان کے ساتھ ساتھ افغانستان کو بھی بڑے پیمانے پر امداد سے نوازا ہے۔ حالیہ بجٹ میں بھارت نے افغانستان کے لیے امداد کی مد میں ۲؍ارب ڈالر رکھے ہیں جو اس امر کا اشارہ ہے کہ بھارت کے لیے افغانستان اب بھی بہت اہم ہے۔
بھارت کے لیے سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ چین اس خطے میں محض تجارت کو فروغ نہیں دے رہا بلکہ سرمایہ کاری بھی کر رہا ہے اور کئی ممالک کو غیر معمولی حد تک امداد بھی فراہم کر رہا ہے۔ مثلاً سری لنکا کے بنیادی ڈھانچے کو مستحکم کرنے اور اس کی معیشت کو عالمی منڈی میں تھوڑا بہت مقابلہ کرنے کے قابل بنانے میں چین نے نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔ چند برسوں کے دوران سری لنکا میں چین کے اثرات نمایاں ہوئے ہیں۔ سری لنکا کی حکومت نے بہت سے منصوبوں میں چین سے شراکت کو ترجیح دی ہے۔ بھارت کے ساتھ اس کی تجارت اچھی خاصی رہی ہے مگر بھارت نے جواب میں سری لنکا کے بنیادی ڈھانچے کو مستحکم کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ سری لنکا میں بھارت کی امدادی سرگرمیاں بھی برائے نام ہیں۔ ایسے میں سری لنکا کی قیادت کا چین کی طرف دیکھنا فطری امر ہے۔ چین نے سری لنکا میں بندرگاہ، ہوائی اڈہ اور کھیل کے میدان تعمیر کرنے میں غیر معمولی دلچسپی لی ہے۔ یہ سب کچھ سری لنکا میں چین کی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لیے کافی ہے۔ چین کی قیادت سری لنکا کو اپنے سمندری تجارتی راستے میں بہت اہمیت دیتا ہے۔
سری لنکا نے چین کی آبدوزوں کو اپنی بندرگاہ پر لنگر انداز ہونے کی بھی اجازت دی ہے۔ ۲۰۱۴ء میں دو چینی آبدوزیں کولمبو کی بندرگاہ پر آئیں۔ ہمبنٹوٹا کی بندرگاہ کی تعمیر میں چین مرکزی کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ سب کچھ بھارت کے لیے بہت پریشان کن ہے۔ اس کی علاقائی بالادستی کا خواب چکنا چور ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان چند ایک امور پر شدید اختلافات بھی ابھرے ہیں۔ سری لنکن قیادت نے چین کی طرف جھکاؤ دکھانے کے معاملے میں کئی خطرات بھی مول لیے ہیں۔ سب سے بڑا خطرہ تو بھارت کی ناراضی کا ہے۔ مگر سری لنکن قیادت کو بھی اندازہ ہے کہ چین کی طرف جھکاؤ دکھانے کی صورت میں کچھ مل تو رہا ہے، بھارت کی حاشیہ برداری سے اب تک کچھ بھی حاصل نہیں ہوسکا ہے۔
اگر پاکستان میں چین کا اقتصادی راہداری منصوبہ بخوبی اور بروقت مکمل کرلیا گیا تو پورے خطہ میں انقلابی نوعیت کی تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ یہ منصوبہ صرف پاکستان کے لیے اہم نہیں ہے بلکہ خطے کے دوسرے ممالک کے لیے بہت بڑے مواقعوں کا درجہ رکھتا ہے۔ افغانستان کے لیے بھی غیر معمولی مواقع پیدا ہوں گے۔ جو ممالک اب تک بھارت پر انحصار پذیر رہے ہیں، ان کے لیے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی معرفت غیر معمولی مواقع پیدا ہوں گے اور وہ بھارت کے دائرۂ اثر سے نکلنے کے قابل ہوسکیں گے۔
چین اور بھارت روایتی حریف کی حیثیت کے ساتھ خطے میں بالادستی قائم کرنے کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کی کوشش کرتے آئے ہیں۔ بھارت نے چین کی طرف سے جنوبی ایشیا میں قدم جمانے کی کوششوں کو ہمیشہ شک کی نظر سے دیکھا ہے۔ اب بھی ایسا ہی ہے۔ چین جو کچھ کر رہا ہے، وہ بھارتی قیادت کے لیے انتہائی پریشان کن ہے۔ چین تیزی سے ابھرتی ہوئی قوت ہے۔ بھارت بھی غیر معمولی رفتار سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ مگر خیر، چین کو بہت سے معاملات میں بھارت پر برتری حاصل ہے۔ ٹیکنالوجی اور اعلیٰ تربیت یافتہ افرادی قوت کی تیاری اور فراہمی کے معاملے میں چین کو اب بھی بھارت پر غیر معمولی برتری حاصل ہے۔ ایسے میں بھارت کا پریشان ہونا فطری ہے۔ اس حوالے سے کسی کو حیرت بھی نہیں ہونی چاہیے۔
چین کی طرف سے جنوبی ایشیا میں زیادہ فعال ہونے کی کوشش کے جواب میں بھارت جنوب مشرقی ایشیا میں قدم جمانے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ ایسے میں دونوں بڑے ممالک کے درمیان تھوڑی بہت رنجش اور کشیدگی کا پیدا ہونا غیر متوقع نہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بھارت اس خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرات کو کنٹرول کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوتا ہے۔ سوال صرف پاکستان کا نہیں، خطے کے کئی دوسرے ممالک بھی چین کو بہترین متبادل کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ اس وقت چین جنوبی ایشیا میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کی راہ پر گامزن ہے۔ وہ خطے کے بیشتر ممالک سے اسٹریٹجک اور تجارتی پارٹنر شپ قائم کرنا چاہتا ہے۔ یہ سب کچھ بھارت کو بھی پالیسیاں تبدیل کرنے پر مجبور کرے گا۔ اگر بھارت چاہتا ہے کہ خطے کے بیشتر ممالک کا جھکاؤ چین کی طرف نہ ہو تو لازم ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں میں ایسی تبدیلیاں لائے جن سے چھوٹے ممالک کو بھی کچھ حاصل کرنے کا موقع ملے۔ اگر بھارتی قیادت صرف فوائد بٹورنے پر توجہ مرکوز رکھے گی اور کسی بھی علاقائی ملک کو حقیقی معنوں میں کچھ دینے پر رضامند نہیں ہوگی تو چین کے لیے امکانات بہتر ہوتے جائیں گے۔
افغانستان سے غیر ملکی افواج کے مکمل انخلا کے بعد خطے میں سکیورٹی کا مسئلہ پھر سر اٹھا سکتا ہے۔ ایسے میں یہ ناگزیر سا ہے کہ چین اور بھارت خطے کی سلامتی کے معاملے میں ایک صفحے پر ہوں۔ دونوں بڑی علاقائی طاقتوں کے درمیان ہم آہنگی سے خطے کے لیے پنپنے کے امکانات وسیع اور روشن ہوجائیں گے۔ اس وقت جنوبی ایشیا کو عالمی منڈی کا سامنا کرنے کے لیے بنیادی ڈھانچے میں استحکام اور صنعتی ڈھانچے میں وسعت کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے چین اور بھارت کا ہم آہنگ ہونا لازم ہے۔ یہ دونوں ممالک مل کر خطے کے امکانات کو نئی زندگی دے سکتے ہیں۔ چین نے تجارتی راہداری کی طرف قدم بڑھادیا ہے۔ یہ بھارت کے لیے بھی فیصلے کی گھڑی ہے۔ اسے بہت سے معاملات میں اپنی پوزیشن بہتر بنانے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑے گا۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Economics of Influence: China and India in South Asia”. (“cfr.org”. August 7, 2015)
Leave a Reply