
نائن الیون کو آٹھ سال بیت گئے مگر مغرب میں بہت سے لوگ آج بھی اسلام کو خطرہ سمجھتے ہیں۔ مغرب میں یہ تاثر عام ہے کہ مسلم انتہا پسند ایسے روبوٹ ہیں جن کی برین واشنگ کی گئی ہے اور دوسری طرف مسلم اکثریت اپنے (انتہا پسند) قائدین کی ہر بات پر آمنا و صدقنا کہنے کے معاملے میں بس ذرا ہی پیچھے ہیں۔ اہل مغرب جس نکتے کو نظر انداز کردیتے ہیں وہ یہ ہے کہ مسلم انتہا پسندی نے کسی نظریے کی کوکھ سے جنم نہیں لیا بلکہ یہ تو حالات کی پیداوار ہے۔ اسلامی دنیا میں ملوکیت اور اشتراکیت کے ذریعے شخصی ملکیت کی حوصلہ شکنی کی جاتی رہی ہے۔ اسلامی دنیا کی اکثریت کو جان بوجھ کر بدحالی کی دلدل میں پھنسایا گیا ہے۔ عالمی معیشت سے اس کے رابطے کاٹ کر اس پر معاش کے دروازے بھی بند کیے جاتے رہے ہیں اور تابناک مستقبل کی امید پیدا نہیں ہونے دی جاتی۔ ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ ایک اچھی خبر بھی ہے، اور وہ اچھی خبر یہ ہے کہ یہ سب کچھ تبدیل ہوسکتا ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ تبدیلی شروع بھی ہوچکی ہے۔ چند برسوں کے دوران مسلم دنیا میں متوسط طبقہ تیزی سے ابھرا ہے۔ مغرب اگر بروقت معاونت کرے تو یہ رجحان مسلم انتہا پسندی کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
سب سے پہلے تو بنیادی مسئلے پر غور کیجیے۔ ایک طویل مدت سے اسلامی دنیا میں زندگی کا معیار گرتا ہی رہا ہے۔ نوجوانوں کی تعداد میں جس رفتار سے اضافہ ہوا ہے اس رفتار سے ملازمتوں کی تعداد نہیں بڑھائی جاسکی۔ اسلامی دنیا کے بیشتر ممالک میں نئی نسل اپنی حکومت پر اس حوالے سے دباؤ بڑھاتی رہی ہے۔ بعض اندازوں کے مطابق صرف عرب دنیا کی حکومتوں کو ۲۰۲۰ء تک ملازمت کے ۱۰ کروڑ مواقع کا اہتمام کرنا پڑے گا، اور اس ہدف کا حاصل کیا جانا فی الحال ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ بیروزگاری بڑھتی جارہی ہے اور جن ’’خوش نصیبوں‘‘ کو ملازمت مل بھی جاتی ہے انہیں معمولی یا توہین آمیز کام بھی کرنے پڑتے ہیں۔ معاشرتی حرکت پذیری کم ہے اور نئی نسل میں پائے جانے والے اشتعال اور مایوسی کے باعث انتہا پسندی پروان چڑھ رہی ہے۔ انقلاب پسند اسلامی عناصر مایوس نوجوانوں کو زندگی کا ایسا مفہوم اور شناخت دیتے ہیں جو انہیں عمومی حالات میں دکھائی نہیں دیتا۔ پاکستان کے ایک جہادی نوجوان کے والد نے مجھ سے کہا ’’میرے بیٹے کو شہید ہوجانے دو۔ یہاں اس کے لیے ہے ہی کیا؟ اس کا کوئی مستقبل نہیں۔ شہید ہوگیا تو خاندان کی توقیر کا سبب تو بنے گا۔‘‘
غور کرنے پر اس مایوسی کی تہہ میں تبدیلی بھی لہریں مارتی دکھائی دے گی۔ ترکی، دبئی، ملائیشیا، پاکستان اور مصر جیسے ممالک میں معاشی اصلاحات کے نتیجے میں اب مقامی اور بین الاقوامی تجارت فروغ پارہی ہے۔ مقامی آجر، صنعت کار اور سرمایہ کار کاروباری مواقع سے خوب مستفید ہو رہے ہیں۔
بڑھتے ہوئے کاروباری مواقع کے بطن سے متوسط طبقہ جنم لے رہا ہے۔ ۱۹۶۰ء کے عشرے میں ایران، ترکی اور پاکستان جیسے بڑی آبادی والے مسلم ممالک میں ایک تہائی سے کم آبادی شہروں میں رہتی تھی اور اس میں متوسط طبقہ صرف ۶ فیصد نفوس پر مشتمل تھا۔ آج انہی ممالک میں دو تہائی آبادی شہروں میں رہتی ہے اور ان میں ۱۲ فیصد سے زائد کو متوسط طبقہ شمار کیا جاتا ہے۔ اگر متوسط طبقے میں شمار کیے جانے کا معیار یہ ہے کہ مستقل نوعیت کی ملازمت ہو اور ایک تہائی آمدنی مستقل بنیاد پر اہم ضرورتوں کی تکمیل پر خرچ کرنا ممکن ہو تو پاکستان کے ۱۵ فیصد اور ترکی کے ۳۰ فیصد باشندے متوسط طبقے میں شمار کیے جانے کے قابل ہیں۔ اگر خاندان سے متعلق جدید مغربی طور طریقے اپنانے اور بچوں کی تعداد کم رکھنے والوں کو بھی شمار کیا جائے تو دونوں ممالک میں متوسط طبقہ مزید مستحکم ہوکر ابھرتا ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ ۶۰ فیصد ایرانی اب متوسط طبقے میں شمار کیے جانے کے قابل ہوچکے ہیں۔
جنگ سے تباہ حال بیروت ہو یا بنیاد پرست تہران، مسلم دنیا میں ہر مقام پر متوسط طبقے کا منصۂ شہود پر آنا اور اس کے نتیجے میں خوش حالی کی نئی لہر کا ابھرنا واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ مسلم ممالک پر اجمالی نظر ڈالیں تو مایوسی ہوتی ہے تاہم سچ یہ ہے کہ معاشی بحالی کے آثار نمایاں ہوچلے ہیں۔ ۲۰۰۲ء سے ۲۰۰۸ء کے دوران مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقا میں مجموعی قومی پیداوار میں ۷ء۳ فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا جبکہ گزشتہ عشرے میں یہی رفتار تین فیصد تک تھی۔ یہ تبدیلی متوسط طبقے کے ابھرنے سے ممکن ہوسکی ہے۔ یہی طبقہ معیشت کے لیے امید کی کرن ہے اور مذہبی انتہا پسندی کا سامنا کرنے میں غیر معمولی حد تک مدد کرسکتا ہے۔ نائن الیون کے ملزمان کا (جیسا کہ دوسرے کیسز میں بھی دیکھا گیا ہے) تعلق بھی متوسط طبقے سے تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ متوسط طبقہ انتہا پسندی کی حمایت کرتا ہے یا نہیں۔ مسلم دنیا کا اب تک بنیادی مسئلہ یہ رہا ہے کہ چھوٹے حجم کا متوسط طبقہ کاروباری مواقع اور ملازمتوں وغیرہ کے لیے حکومت کی معاونت حاصل کرنے پر مجبور رہا ہے۔ مقامی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کا استحکام اور عالمی معیشت سے بہتر روابط اس صورت حال کو تبدیل کرسکتے ہیں۔
تبدیلی اب محسوس بھی ہونے لگی ہے۔ ایران میں حالیہ صدارتی انتخاب کے موقع پر اپوزیشن کا احتجاج اسی کا مظہر تھا۔ صدر محمود احمدی نژاد معیشت پر ریاست کے وسیع تر کنٹرول کے حامی ہیں۔ ان کی پالیسیوں کے خلاف ایران کے متوسط طبقے نے اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کیا۔ ترکی نے مستقبل کو عمدگی سے گلے لگالیا ہے۔ عالمی معیشت سے ترکی کی وابستگی بہترین اندازے کے ساتھ ہے۔
اسلامی دنیا میں ۵۰ کروڑ سے زائد افراد چاہتے ہیں کہ انتہا پسندی کا زور ٹوٹے اور روایات کے ساتھ جدت کو بھی اپنایا جائے۔ وہ معاشی امور میں توازن کے لیے عالمی معیشت سے بہتر رابطوں اور مغرب کی لبرل ڈیموکریسی کو اپنانے کے حق میں ہیں۔ مسلم دنیا کی اکثریت حلال اشیائے خوردونوش اور اسکارف وغیرہ کی خواہش مند ہے تاہم ساتھ ہی ساتھ وہ جدید ترین بینکاری نظام، مالیاتی اصول، میڈیا اور تعلیم بھی چاہتی ہے۔ وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھتی ہے کہ دنیا بھر میں جو کچھ فیشن کے طور پر اپنایا جا رہا ہے وہی اگر انہوں نے بھی نہ اپنایا تو پیچھے رہ جائے گی۔
مسلم دنیا کی اکثریت جدید ترین مالیاتی خدمات میں بھی اسلامی رنگ دیکھنا چاہتی ہے۔ سود سے پاک مالیاتی خدمات کی طلب میں اضافے نے عالمی معیشت میں بھی طوفان اٹھایا ہے۔ بہت سے بین الاقوامی بینک اب اسلامی نقطۂ نظر سے درست مالیاتی خدمات بھی پیش کر رہے ہیں۔ ۷۵ سے زائد ممالک میں ۳۰۰ اسلامی بینک اور دوسرے مالیاتی ادارے اسلامی مالیاتی خدمات پیش کر رہے ہیں۔ یہ کاروبار ۵۰۰ ارب ڈالر تک کا ہے۔ دوسری اسلامی بانڈز کی عالمی مارکیٹ ۸۲ ارب ڈالر کی ہے۔ عالمی معیشت میں یہ سب مل کر ایک فیصد کے دسویں حصے کے برابر ہے، تاہم اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلامی دنیا میں تبدیلی رونما ہوچکی ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ ۲۰۱۵ء تک اسلامی بینکاری کے اثاثوں کی مجموعی مالیت ۴ ہزار ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ بہتوں کی نظر میں یہ عالمی معیشت سے متصادم معاملہ ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ اسلامی دنیا کے لوگ سرمایہ دارانہ نظام کو پارسائی اور تقویٰ کے ساتھ اپنانا چاہتے ہیں۔
اسلامی ممالک میں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد میں بیورو کریٹس کی اولاد بھی ہے تاہم اکثریت کا تعلق مختلف صوبوں اور پس ماندہ علاقوں سے ہے۔ دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے لڑکوں اور لڑکیوں نے جدید معاشی رجحانات کو گلے لگاکر خود کو متوسط طبقے کا حصہ بنایا ہے۔ ان میں سے بہتوں کا فکری رجحان مذہبی ہے، تاہم ان کی دولت اور آگے بڑھنے کی تمنا انہیں انتہا پسندوں سے الگ کردیتی ہیں۔ دولت اپنے ساتھ صرف کے رجحان کے علاوہ لبرل اور سیاسی اقدار بھی لاتی ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انسان دنیا سے وابستہ رہنے پر زیادہ توجہ دینے لگتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسلامی دنیا میں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد نہیں ہوں گے۔ ہاں، اتنا ضرور ہوگا کہ دہشت گردی مسلم دنیا کے (حقیقی مربوط) متوسط طبقے میں حمایت حاصل کرنے میں ناکام ہوتی جائے گی۔ ۱۹۹۰ کے عشرے میں لاطینی امریکا میں یہی تو ہوا تھا۔ جو لوگ کاروبار اور تجارت میں دلچسپی لیتے ہیں وہ مستقبل کو داؤ پر لگانے والے کسی بھی تباہ کن آئیڈیا کی حمایت نہیں کریں گے۔ مغرب کے حوالے سے مسلم دنیا کے لوگ جو اجنبیت اور نفرت محسوس کرتے ہیں وہ تاریخ کی پیداوار ہے تاہم اسے خطرناک حد تک پہنچانے میں مرکزی کردار اس حقیقت نے ادا کیا ہے کہ مسلم دنیا کو عالمی معیشت سے الگ تھلگ کردیا گیا۔ تبدیل ہونے کے لیے بیشتر مسلم ماضی کو دیکھنے کے بجائے مستقبل کی طرف دیکھنے کو ترجیح دیں گے۔ مسلم متوسط طبقے کا ابھرنا بھی ویسا ہی طاقتور اور اہم رجحان ہے جیسا کہ دہشت گردی ہے۔ اور اسی میں مسلم دنیا کے دل اور دماغ کو ہمیشہ کے لیے بدلنے کی کنجی بھی چھپی ہوئی ہے۔
یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ لاہور، تہران اور قاہرہ کا کاروباری طبقہ سرمایہ دارانہ نظام کے حوالے سے وہ انقلاب برپا کرنے میں کامیاب ہوگا جو ہالینڈ میں چار سو سال قبل پروٹیسٹنٹ متوسط طبقے نے برپا کیا تھا۔ یورپ کی تاریخ اس امر کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ ایسے باہمت کاروباری افراد اور آزاد منڈی کی معیشت پر غیر متزلزل یقین ہی مسلم دنیا کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تبدیل کرسکیں گے۔ جدید سرمایہ دارانہ مغرب کو اصلاحی دور کے بچوں نے پیدا کیا مگر خیر تمام چیزوں کو تبدیل کرنے میں مرکزی کردار حد سے بڑھی ہوئی پارسائی کی ذہنیت نے ادا نہیں کیا۔ سچ تو یہ ہے کہ کاروبار اور تجارت میں ان کا غیر معمولی اعتقاد اور اعتماد ہی اسکاٹ لینڈ جیسے ملک میں ایڈم اسمتھ اور ڈیوڈ ہیوم جیسی شخصیات کو پروان چڑھانے میں کامیاب ہوا۔ آج کی مسلم دنیا میں مذہبی انتہا پسندی کو ختم کرنے میں مرکزی کردار سیکولر ڈکٹیٹرز، روشن خیال علماء یا لبرل اصلاح پسند نہیں بلکہ کاروباری طبقے کے افراد اور بالخصوص آجر ادا کریں گے۔
یہ وہ سچائی ہے جس پر مغربی حکومتوں کو بھی غور کرنا چاہیے۔ وہی اقدار تیزی سے فروغ پاتی ہیں جن سے لوگوں کا معاشی اور معاشرتی مفاد وابستہ ہو اور جب اقدار کو کنٹرول کرنے والے لوگ یا گروپ اقتدار میں آتے ہیں تو ریاست کا کردار تبدیل کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ اگر اسلامی دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کی اقدار کو اب تک فروغ نصیب نہیں ہوا تو اس کا سبب اسلام کا بنیاد پرستانہ مزاج نہیں بلکہ یہ حقیقت ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی بات کرنے والے تعداد اور قوت کے اعتبار سے کم ہیں۔ اگر مغرب چاہتا ہے کہ اسلامی دنیا میں انتہا پسندی کی راہ مسدود ہو تو لازم ہے کہ کاروباری اور آجر طبقے کو مستحکم کیا جائے۔
اب سوال یہ ہے کہ واشنگٹن اور اس کے اتحادیوں کو کیا کرنا چاہیے؟ مسلم دنیا سے تجارتی روابط بڑھانے کے سوا چارہ نہیں۔ امریکا اب تک مشرقِ وسطیٰ میں غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ کرتا رہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ترکی کے سوا اس خطے کے کسی بھی ملک کے ساتھ معاشی روابط کی توسیع یا بہتری پر اس نے توجہ کم دی ہے۔ تیل یا اسلحے کی تجارت کو شمار نہ کیا جائے تو امریکا اور پوری عرب دنیا کی تجارت لاطینی امریکا، مشرقی یورپ یا بھارت سے امریکا کی تجارت کا عشر عشیر بھی نہیں۔ امریکا نے اردن اور مراکش سے آزاد تجارت کے معاہدے کیے ہیں۔ اب یورپ بھی بحیرہ روم کے گرد واقع عرب ممالک سے آزاد تجارت کے معاہدے کرنے میں دلچسپی لے رہا ہے۔ یہ تمام اقدامات اچھے ہیں مگر آج بھی مغرب میں عرب دنیا کی بنی ہوئی اشیاء کم ہی پائی جاتی ہیں۔
کسی کا مذہب تبدیل کرنے کی کوشش احمقانہ عمل ہے۔ اور اس معاملے میں مغرب کا دامن بہت داغ دار ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادی کاروبار کے ماحول کو تبدیل کرنے کے فن سے بخوبی واقف ہیں۔ اگر مغرب چاہتا ہے کہ اسلامی دنیا میں متوسط طبقہ فروغ پائے تو لازم ہے کہ کاروباری ماحول کو ریاستی کنٹرول سے آزاد کرایا جائے۔ مسلم حکومتوں پر قانون کی علمداری یقینی بنانے، آئینی چیک اینڈ بیلنس کو قبول کرنے، معیشت کو براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کے لیے کھولنے، اشیاء اور وسائل کی آزاد ترسیل ممکن بنانے اور کاروباری امور میں سرکاری قواعد و ضوابط کی پابندیاں نرم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جائے۔ ترقی یافتہ دنیا کو مسلم ممالک میں سرکاری کنٹرول والے اداروں کی تعداد گھٹانے، سرکاری (اقتصادی) شعبے کو محدود کرنے اور سرکاری ملازمین کی تعداد ایک خاص حد تک رکھنے پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ ساتھ ہی ساتھ مغربی دنیا کو مسلم ممالک سے اشیاء کی ترسیل یقینی بنانی چاہیے اور اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ قرضوں یا امداد کی شکل میں دی جانے والی رقوم مسلم دنیا میں معاشی اور معاشرتی حالات بہتر بنانے پر صرف ہوں۔
یہ تمام تبدیلیاں محض چند برسوں میں کوئی انقلاب برپا نہیں کرسکیں گی۔ مسلم دنیا کے مسائل کی تعداد زیادہ ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ تبدیلی ممکن ہے۔ ترقی یافتہ دنیا کو مسلم دنیا میں متوسط طبقے کو پروان چڑھانے پر توجہ دینی چاہیے۔ جس تاریخی عمل نے مغرب کو تبدیل کردیا تھا وہی عمل اب عظیم تر مشرقِ وسطیٰ میں شروع ہوچکا ہے۔ امریکا اور یورپ کو مسلم دنیا کی معاونت میں بخل سے کام نہیں لینا چاہیے تاکہ انہیں یہ یقین ہو کہ ایک تاریخی عمل میں وہ درست جانب کھڑے ہیں۔
(نوٹ: ولی نصر ٹفٹس یونیورسٹی میں بین الاقوامی سیاست کے پروفیسر ہیں۔ ان کی کتاب ’’فورسز آف فورچیون: دی رائز آف اے نیو مسلم مڈل کلاس اینڈ واٹ اٹ مینز فار اور ورلڈ‘‘ جلد شائع ہو رہی ہے۔ زیر نظر مضمون اسی کتاب سے لیا گیا ہے۔)
(بشکریہ: ’’نیوز ویک‘‘۔ شمارہ ۲ نومبر۲۰۰۹ء۔ ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
Leave a Reply