اکبر حسین اکبر الہ آبادی کے والد کا نام تفضّل حسین تھا۔ ان کا سادات کے متوسط گھرانے سے تعلق تھا۔ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار کے مطابق ۱۸۴۵ء کو ضلع الہ آباد کے ایک قصبے ’’بارہ‘‘ میں اکبر حسین نے جنم لیا۔
اکبر حسین کے والد علم ریاضی میں مہارت رکھتے تھے۔ اکبر نے والد سے علم ریاضی کی تمام بنیادی چیزیں سیکھ لیں۔ اکبر کو الہ آباد کے مشن اسکول میں داخل کرادیا گیا۔وہ ہنگاموں اور جنگ آزادی کی وجہ سے کچھ زیادہ نہ پڑھ نہ سکے۔ بس چار پانچ سال تک اسکولوں میں پڑھتے رہے لیکن ذاتی مطالعہ تادم حیات جاری رکھا اور اپنے مطالعے کو اتنی وسعت دی کہ بقول سید عشرت حسین:
حضرت قبلہ نے مسلسل مطالعے سے کتنی قابلیت بڑھائی اس کا اندازہ عربی، فارسی اور انگریزی کی ان کتابوں سے ہوسکتا ہے جو حضرت قبلہ کے کتب خانے میں موجود ہیں۔ اسکول سے الگ ہوکر کلکتہ یونیورسٹی کی انٹرنس تک کی انگریزی کتابیں پرھیں۔ سائنس، جغرافیہ اور تاریخ کی طرف بھی توجہ کی‘ بنیادوں پڑی‘ پھر ضرورت اور رغبت کے مطابق رو زبروز علم میں ترقی ہوتی گئی۔
شاعری کا آغاز:
شاعری کا شوق اکبرکو بچپن ہی سے تھا۔ چنانچہ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار کے مطابق اکبر نے گیارہ سال کی عمر میں شاعری شروع کردی۔ اگرچہ اکبرکی ابتدائی غزلیں ایسی تھیں جن پر داد اور مسابقت پانے کا رجحان زیادہ نظر آتا تھا لیکن بعد کی شاعری میں انھوں نے معاشرتی مطالعے، تجربے اور حالات سب کو تجزیاتی نگاہ سے دیکھتے ہوئے قومی و سیاسی علامتیں شامل کرلیں اور ان کا ہم و غم اصلاحِ معاشرہ ٹھہرا۔ بیسویں صدی کے ابتدائی سالوں میں ہندوستانی معاشرے پر انگریزی تہذیب و معاشرت کے اثرات زیادہ گہرے طور پر پڑنے لگے جو کہ اکبر پر شاق گزرتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے طنزیہ شاعری اور ظرافت کا سہارا لے کر ہندوستانی مسلمانوں کو اپنی تہذیب، رہن سہن، نظریات اور تمدن کو اپنانے اور احساس کمتری سے نکالنے کی کوشش کی۔
اکبر حسین کی شاعری میں سیاسی، تہذیبی، صوفیانہ اور اصلاحی اشعار نمایاں طور پر ان کے افکار و نظریات اور ان کی بصیرت کی نشاندہی کرتے ہیں۔
سید اکبر حسین کے افکار و نظریات:
اکبر اگرچہ انگریزی حکومت میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوئے اور سامراجی حکومت انہیں ہر طرح کی سہولت مہیا کرنے پر آمادہ تھی لیکن اکبر کے دل میں ہندوستانی مسلمانوں کی مجموعی عزت و وقار، درد، غلامی اور تہذیبی شکست وغیرہ کے خیال نے ایک ایسا درد اور تاثیر پیدا کی جس نے ان کی شاعری کو اپنے وقت کے مسلمانوں کی بیماری اور پریشانی کا مداوا بنایا اور ’’لسان العصر‘‘ کے لقب کا سزاوار ٹھہرایا۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال اپنے ایک خطبے میں فرماتے ہیں:
جناب مولانائے اکبر الہ آبادی جنہیں موزوں طور پر لسان العصر کا خطاب دیا گیا ہے، اپنے بذلہ سنجانہ پیرایہ میں ان قوتوں کی ماہیت کے احساس کو چھپائے ہوئے ہیں جو آج کل مسلمانوں پر اپنا عمل کررہی ہیں۔ ان کے شباب آور قہقہے ان کے آنسوئوں کے پردہ دار ہیں۔
اقبال کی طرح اکبر کے دل میں بھی مسلمان قوم کا درد اور اس کی اصلاح کی فکر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ چنانچہ اکبر حسین کے بیٹے عشرت حسین کے نام اکبر حسین کی وفات کے تعزیت نامے میں اقبال نے یہ الفاظ لکھے تھے:
اسلامی ادیبوں میں تو شاید آج تک ایسی نکتہ رس ہستی پیدا نہیں ہوئی اور مجھے یقین ہے کہ تمام ایشیا میں کسی قوم کی ادبیات کو اکبر نصیب نہیں ہوا۔ کاش اس انسان کا معنوی فیض اس بدقسمت ملک اور اس کی بدقسمت قوم کے لیے کچھ عرصہ اور جاری رہتا۔
اقبال کی طرح اکبر کے اشعار سے بھی ادب، علمِ تاریخ، علمِ سیاسیات اور علمِ عمرانیات سب کے طالب علم فیض یاب ہوسکتے ہیں۔ اکبر کے افکار و نظریات کو درج ذیل بڑے گروہوں میں تقسیم کیاجاسکتا ہے:
۱۔ سیاسی افکار
۲۔ تہذیبی افکار
۳۔ تعلیمی افکار
۴۔ صوفیانہ افکار یا مذہبی افکار
اکبر کے تعلیمی افکار:
۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی نے مسلمانوں کے خلاف انگریزوں کو اس فیصلے کی طرف بھی متوجہ کیا کہ ایسا تعلیمی نصاب بنا کر ہندوستان میں رائج کیا جائے جو مسلمانوں کو دوبارہ حکومت اور انگریزی سرکار کے خلاف سوچنے سے باز رکھے۔ اس لیے انگریزوں نے تمام ہندوستانیوں کو تعلیم دینے کی ذمہ داری بھی لی۔ اس کے پس پردہ درج ذیل اہم مقاصد تھے:
۱۔ جدید فلسفہ اور سائنسی علوم کی اتنی ترویج کریں کہ لوگ پرانی روایات خصوصاً مذہبی روایات کو نفرت کی نگاہ سے دیکھیں۔
۲۔ ہندوستان میں انگریزی طرزِ معاشرت کی تقلید پر کٹ مرنے والا ایک گروہ خود مسلمانوں کے درمیان پیدا کیا جائے۔
۳۔ انگریز حکومت کے لیے کم تنخواہ پر کام کرنے والے افراد پیدا ہوں تاکہ انگلستان سے ملازمین زیادہ تنخواہ دے کر نہ منگوانے پڑیں۔
۴۔ برطانوی تہذیب اور معاشرت کو شعوری طور پر فروغ دینے اور اس کو ترقی و خوشحالی کی علامت قرار دینے وال ایک گروہ پیدا ہو۔
ان چار بڑے مقاصد کی تکمیل کے لیے تعلیمی نصاب کو تبدیل کرکے جتنا فائدہ اٹھایاجاسکتا تھا اس کا اندازہ انگریزوں کو تھا۔ لارڈ میکالے کے اس بیان سے یہ بات اوربھی واضح ہوتی ہے۔
[english]I feel…that it is impossible for us with our limited means to attempt to educate the body of the people. We must at present do our best to form a class who may be interpreters between us and millions whom we govern, a class of persons, Indian in blood and colour but English in tastes, in opinions, in morals and in intellect.[/english]
اکبر الہ آبادی انگریزوں کی تعلیمی پالیسی کے پس پردہ مقاصد سے بخوبی آگاہ تھے۔ اسی لیے اپنا کلام انھوں نے مسلمانوں کو ان مذموم مقاصد سے آگاہ کرنے کے لیے وسیلے کے طور پر استعمال کیا۔ مغربی پالیسی کے اثرات کو آپ نے شیخ کی زبانی یوں بیان کیا ہے:
شیخ مرحوم کا قول اب مجھے یاد آتا ہے
دل بدل جائیں گے تعلیم بدل جانے سے
تعلیم کے طور طریقے بدلنے سے زندگی گزارنے اور اولاد کی تربیت کے قدیم طور طریقے بھی بدل جاتے ہیں۔ رہن سہن اور خوراک بھی تبدیل ہوتی ہے جس کا اثر نئی نسلوں پر ضرور پڑتا ہے۔ اکبر کو اس بات کا بھی شدید احساس تھا:
طفل سے بُو آئے کیا، ماں باپ کے اَطوار کی
دودھ تو ڈبے کا ہے، تعلیم ہے سرکار کی!
دراصل اکبر اپنے اشعار کے ذریعے انگریزوں کی نئی تعلیمی پالیسی کے اثرات اور نتائج سے آگاہ کررہے ہیں وہ کہتے ہیں کہ سامراج کی اس نئی تعلیمی پالیسی سے اپنے ماں باپ، اپنی تہذیبی و تمدنی عروج، دینی غیرت اور ہمدردی سب کو بھول جانا اور فقط یہ خواہش دل میں پیدا ہونا کہ مجھے ڈاکٹر یا ماسٹر یا انجینئر بننا ہے اور بس اس جیسی اور باتیں مسلمان نوجوانوں کے ذہنوں میں رچ جاتی ہیں۔ ایسے خیالات کو اکبر قوم اور ملت کے لیے خطرناک قرار دیتے ہیں:
ماں باپ سے، شیخ سے، اللہ سے کیا ان کو کام
ڈاکٹر جنوا گئے، تعلیم دی سرکار نے!
جدید تعلیمی پالیسی کا مقصد معمولی سے دولت حاصل کرنا اور کاغذی ڈگری پاکر پنشن لینا اور پھر اسی سے زندگی گزارنے کا رجحان تیز کرنا تھا۔ اکبر اس قسم کے مقاصد پر مشتمل تعلیم کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے:
تعلیم جو دی جاتی ہے ہمیں وہ کیا ہے فقط بازاری ہے
جو عقل سکھائی جاتی ہے وہ کیا ہے، فقط سرکاری ہے
نیز:
پڑھ کے انگریزی میں دانا ہو گیا
’’کم‘‘ کا مطلب ہی کمانا ہو گیا
مغرب اور انگریزوں کی نئی تعلیمی پالیسی کا ماحصل اکبر یوں سامنے لاتے ہیں:
میں کیا کہوں احباب کیا کارِ نمایاں کر گئے
بی اے کیا، نوکر ہوئے، پنشن ملی اور مر گئے
اکبر کے نزدیک سامراج کی نئی تعلیمی پالیسی میں انسان کو انسانیت اور کمال کی طرف لے جانے کا عنصر موجود نہیں کیونکہ تعلیمی نصاب مرتب کرنے والے انسان کو ابتدائی طور پر حضرت آدم کی صورت میں پانے کے بجائے ڈارون کے نظریے کے مطابق بندر کی شکل میں پانے کے قائل ہیں۔ ان کا مرتب کردہ نصاب بندر کی شکل کے انسان کے لیے تو موزوں ہوسکتا ہے لیکن آدم کی شکل میں انسان سے مناسبت یقیناً نہیں رکھتا:
نئی تعلیم کو کیا واسطہ آدمیت سے
جناب ڈارون کو حضرت آدم ؑ سے کیا نسبت
اکبر کے بعض اشعار کو پڑھنے کے بعد کچھ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کا تصورِ زندگی بہت محدود، فرسودہ اور ترقی و جدیدیت سے عاری ہے۔ علاوہ ازیں انہیں سائنس اور ٹیکنالوجی کا مخالف قرار دیتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ جدید علوم کے مخالف ہیں نہ سائنسی ترقی اور زندگی کے روشن پہلوئوں سے استفادہ کرنے کے، بلکہ وہ تو صرف یہی چاہتے ہیں کہ مسلمان جدید علوم و مہارت میںحاصل کریں، جدید ٹیکنالوجی حاصل کریں، تہذیب کو جدید تر بنائیں لیکن اپنی ثقافت، اپنی شناخت، اپنی فکری شناخت، اپنا طرزِ حیات، اپنا نظریۂ حیات بھی کسی طور پر نہ چھوڑ یں۔ مسلمان قوم کے پاس اپنا واضح اور کامل تصّورِ زندگی ہے۔ انہیں ضرورت ہی کیا ہے کہ وہ کسی غیر سے تصّورِ زندگی لیں۔ یہ تصور زندگی مسلمانوں کو ان کے روحانی پیشوا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی شکل میں عطا کیا ہے لیکن جدید تعلیمی پالیسی میں دین اور خصوصاً اسلام کو کوئی خاص جگہ نہیں دی گئی، لہٰذا اکبر اس تعلیمی پالیسی سے اتفاق نہیں کرتے:
نئی تہذیب میں بھی مذہبی تعلیم شامل ہے
مگر یوں ہی کہ گویا مے زمزم میں داخل ہے
اکبر ان تمام نصابی کتابوں کو قابل ضبط سمجھتے ہیں جن سے اخلاقی اور دینی قدریں پامال ہوتی ہوں:
ہم ایسی کل کتابیں قابلِ ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
مغربی تعلیمی پالیسی کی مخالفت کرنے کے ساتھ ساتھ اکبر اپنا ایک تعلیمی تصور پیش کرتے ہیں۔ وہ ایک ایسی تعلیمی پالیسی اور تعلیمی ادارے کا قیام چاہتے ہیں جس میں علوم کے ساتھ مختلف فنون بھی سکھانے کا انتظام ہو۔ تھیوری (نظریے) کے ساتھ تجربات بھی کیے جاتے ہوں، صنعتوں کے ساتھ ساتھ حرفتیں بھی سکھائی جاتی ہوں، سائنس کے ساتھ ساتھ دین اور اخلاق بھی سکھائے جاتے ہوں، لوگوںسے سروکار اور روابط پیدا کرنے کے ساتھ خدا، رسول اور رہبرانِ دین سے بھی عقیدت کا سلیقہ سکھایا جاتا ہو، انسان کو چاند پر پہنچنے کے بعد بھی خدا کے سامنے جھکنا اور سرِتسلیم خم کرنے کا درس ملتا ہو‘ مادی اشیاء کے ساتھ معنوی اور روحانی اقدار اورروحانی ترقی کے بھی ضامن ہوں۔ اکبر کے چند اشعار اس سلسلے میں ملاحظہ کیجیے:
تعلیم وہ خوب ہے جو سکھلائے ہنر
اچھی ہے وہ تربیت جو روحانی ہے
نیز ان اشعار کو ملاحظہ کرنے کے بعد ان کے تعلیمی نظریات بڑی حد تک آسانی سے سمجھے جاسکتے ہیں:
وہ باتیں جن سے قومیں ہورہی ہیں نامور سیکھو
اٹھو تہذیب سیکھو، صنعتیں سیکھو، ہنر سیکھو
بڑھائو تجربے، اطرافِ دنیا میں سفر سیکھو
خواصِ خشک و تر سیکھو، علومِ بحر و بر سیکھو
خدا کے واسطے اے نوجوانو! ہوش میں آئو
دلوں میں اپنی غیرت کو جگہ دو، جوش میں آئو
روحانی تعلیم اور روحانی ترقی کے سلسلے میں کہتے ہیں:
مجھے اس درس سے خواہش تھی روحانی ترقی کی
یہاں ہر چیز لیکن مادّی و عنصری نکلی
مغرب والوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کو ایسا نصاب دیا جو فلسفہ کی پیچیدگیوں سے پُراور دینی تعلیمات سے خالی تھا۔ فلسفے میں وہ طالب علموں کو اتنا الجھا کر رکھ دیتے کہ فلسفی کو بحث کا ابتدائی اور آخری سرا ہی نہیں ملتا اور وہ اسی الجھن کو سلجھانے کی فکر میں مہذب اور بعض دنیاوی معاملات سے کٹ کر رہ جاتا:
فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں
محض فلسفی اور لفظی بحثوں میں الجھ کر زندگی بسر کرنے کو اکبر فضول سمجھتے ہیں:
بحثیں فضول تھیں یہ کھلا حال دیر میں
افسوس عمر کٹ گئی لفظوں کے پھیر میں
جدید مغربی تعلیمی پالیسی ۱۸۵۷ء کے بعد یہ تھی کہ ہندوستان میں ایک ایسا طبقہ بنایا جائے جو انگریزوں اور کروڑوں رعایا کے درمیان وسیلہ اور مترجم ہو۔ یہ طبقہ ایسا ہو جو رنگ و خون کے اعتبار سے ہندوستانی مگر مذاق، رائے، اخلاق اورذہن کے اعتبار سے انگریز ہو۔ اکبر الہ آبادی نے اس قسم کی تعلیمی پالیسی کو متعارف کرانے والوں کو’’صیاد‘‘ کے استعارے سے بیان کیا اور بتایا کہ ان کی مجوزہ تعلیمی پالیسی کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کالجوں، یونیورسٹیوں میں یہی نصاب پڑھ کر نکلنے والے کل اور متعدد تعلیمی ادارے بنا کر دوسرے تمام افراد کو بھی اسی جال میں پھنسا دیں گے اور چند ہی سالوں میں پوری نئی نسل ذہنی اعتبار سے انگریز اور خون اور رنگ کے لحاظ سے ہندوستانی بن کر رہ جائے گی:
میرے صیاد کی تعلیم کی ہے دھوم گلشن میں
یہاں جو آج پھنستا ہے، وہ کل صیاد ہوتا ہے
اکبر تعلیم کی تبدیلی کو قتل کا مترادف سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فرعون نے تو موسیٰؑ کی پیدائش کے خوف سے ہزاروں بچوں کو قتل کیا اور بدنام ہوا، اگر وہ تعلیمی پالیسی تبدیل کرکے تمام نئے پیدا ہونے والوں کے ذہنوں کو اپنی محبت کے جال میں پھنسا دیتا تو فرعون پر قتل کا الزام بھی نہ آتا اور سلطنت کو بھی کوئی خطرہ لاحق نہ ہوتا ۔ ذہنیت کی تبدیلی قتل و غارت سے کہیں زیادہ موثر اور مفید ہوتی ہے:
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
اکبر کے نزدیک بقول ڈاکٹر ذوالفقار حسین علمی اور صنعتی ترقی کا سبب افکار کی آزادی ہے۔ ڈاکٹر ذوالفقار لکھتے ہیں:
ہم اور ہمارے ذہن غلامی، محکومی کی زنگ آلود زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ یہ کمالات محکومی کی حالت میں ہمیں حاصل نہیں ہوسکتے۔ ایک تو اس لیے کہ ہمارے سب وسائل پر استعماری طاقتوں کا قبضہ ہے۔ دوسرے، ہمارے ضمیر مردہ ہوچکے ہیں اور تخلیقی صلاحیتیں سوچکی ہیں۔ تیسرے، استعماری نظامِ تعلیم ہمارے پائوں کی زنجیر بن گیا ہے جو ہمیں تخلیق اور تجربے کی بجائے تقلید اور نقالی کی راہ پر لے جارہا ہے۔
اکبر جدید علوم و فنون کے حصول کے بارے میں یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ بیشک انسان کالج میں پڑھے، پارک میں اچھلے، کودے، غباروں کے ذریعے خلائی سفر کرے، جھولا جھولے لیکن خدا اور اپنی حقیقت کو ہرگز نہ بھولنے پائے۔ دراصل یہ اکبر کی طرف سے پیش کردہ ایک راہ حل ہے۔ مسلمان تعلیمی اداروں سے کٹ کر بھی نہیں رہ سکتے تھے اور وابستگی کی صورت میں نصاب تعلیم ایسا مرتب کیا گیا تھا کہ طالب علم اپنی دینی اور تہذیبی شناخت کھو بیٹھتا تھا۔ ایسے میں اکبر نے بتادیا کہ مغربی تعلیمی اداروں میں پڑھو لیکن دلوں میں اللہ کی یاد اور اپنی اسلامی اقدار کی محبت کو کم نہ ہونے دو:
تم شوق سے کالج میں پھلو، پارک میں پھولو
جائز ہے غباروں میں اڑو، چرخ پہ جھولو
بس ایک سخن بندۂ عاجز کا رہے یاد
اللہ کو اور اپنی حقیقت کو نہ بھولو
یہی نظریۂ علامہ اقبال نے بھی پیش کیا تھا۔ شعر دیکھیے:
جوہر میں ہو لا الہ تو کیا خوف
تعلیم ہوکر گو فرنگیانہ
اقبال اور اکبر کا نظریہ دراصل ایک عبوری دور سے گزرنے والے اور حالات کے ہاتھوں پسے ہوئے مسلمان کے لیے ترقی اور تعلیم کی راہوں پر لگانے کا بہترین وسیلہ ہے۔ اکبر تعلیم کی ساتھ ساتھ دفاعی اور مدافعتی طاقتوں کا حصول بھی ضروری سمجھتے ہیں یعنی وہ قلم کے ساتھ ساتھ تیغ کا حصول بھی ضروری قرار دیتے ہیں:
کوئی عرب کے ساتھ ہو یا ہو عجم کے ساتھ
کچھ بھی نہیں ہے تیغ نہ ہو جب قلم کے ساتھ
غرض یہ کہ اکبر انگریزوں کے نظامِ تعلیم، طرزِ تعلیم اور مقاصدِ تعلیم کو ہندوستانی مسلمانوں کے لیے مضر سمجھتے تھے۔ وہ جدید سائنسی، تکنیکی، مادّی اور دنیاوی ترقی کے مخالف نہیں تھے بلکہ بقول ڈاکٹر سجاد باقر رضوی’’وہ ہنرمندی اور دینوی ترقی کے حق میں تھے اور صرف اتنا چاہتے تھے کہ مسلمان تقلید مغرب صرف ان کے ہنر میں کریں نہ کہ فلسفۂ زندگی اور معیارات و اقدار میں۔جو قومیں اپنے ماضی اور اپنی تاریخ کو بھول جاتی ہیں ایک بار اپنے مرکز سے ہٹ کر کہیں کی نہیں رہتیں‘‘۔
عزم کو تقلید مغرب کا ہنر کے زور سے
لطف کیا ہے لَد لیے موٹر پہ زر کے زور سے
غیر ملکیوں میں ہنر کو سیکھ، تکلیفیں اٹھا
روکتے ہیں وہ اگر اپنے اثر کے زور سے
کون کہتا ہے کہ تو علم نہ پڑھ، عقل نہ سیکھ
کون کہتا ہے نہ کہ حسرتِ لندن پیدا
درخت جڑ پہ ہو قائم تو استوار بھی ہے
کبھی خزاں ہے اور اس پر کبھی بہار بھی ہے
اکبر اس چیز کے مخالف ہیں کہ مسلمان کی ادائیں مغربی تقلید پر منحصر ہوں اور کلی کی گڑیا کی طرح ان کے اشارے پر ناچیں:
اس کی حرکت ہے کلیدِ مغربی پر منحصر
دل یہ سینے میں ہے یا پاکٹ کے اندر واچ ہے
اکبر کے تعلیمی افکار اور تہذیبی افکار آج بھی مسلمانوں خصوصاً برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ مغربی غلبہ سے نجات پانے کے لیے اکبر حسین اور علامہ اقبال جیسے مفکروں کے افکار اور نظریات پڑھنے اور ان پر عمل کرنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر جمیل جالبی اکبر کے حوالے سے لکھتے ہیں:
اکبر جیسا شاعر ایشیا کی کسی بھی دوسری زبان میں مجھے نظر نہیں آتا جس نے مغربی تہذیب کے غلبے سے بچنے کے لیے اس دلچسپ اور دلکش انداز میں اپنی جڑوں سے پیوستہ رہنے کی تلقین کی ہو اور قوموں کی تخلیقی صلاحیتوں کو زندہ و باقی رکھنے کا گُر سکھایا ہو۔ اسی لیے میں اکبر کو صرف مزاحیہ نہیں بلکہ جدید فلسفی شاعر سمجھتا ہوں۔
(بشکریہ: سہ ماہی ’’پیغامِ آشنا‘‘ اسلام آباد۔ شمارہ:جولائی تا ستمبر ۲۰۰۶ء)
Suprb dear😊
پر مغز تحریر ہے