محمد سلام ۱۹۳۸ء میں پیدا ہوئے، آپ نے انقرہ یونیورسٹی کے شعبہ قانون سے گریجویشن کیا اور پی ایچ ڈی کی ڈگری امریکا کی نیویارک یونیورسٹی سے پبلک گورننس میں حاصل کی۔ ان کی زندگی تعلیم کے لیے وقف ہے۔ وہ جن جن مناصب پر رہے اس کی فہرست بنانا مشکل ہے۔ وہ شریک پروفیسر، پروفیسر، رئیس کلیہ (ڈین فیکلٹی) ریکٹر، ترکی کے چیمبرز اور کموڈیٹی ایکسچینجز یونین کے معتمد عمومی، اعلیٰ تعلیم بورڈ کے سربراہ (YOK) سول سرونٹس کے اخلاقی بورڈ کے سربراہ، اب وہ سیاسی معاملات میں شامل ہیں۔ آجکل چار میقات کے لیے پارلیمنٹ کے ڈپٹی اسپیکر ہیں۔
وہ پارلیمنٹ کے قومی تعلیمی کمیشن کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ وہ یورپین یونین اور ترکی کے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے نائب صدر رہ چکے ہیں۔ دوسری بہت سی حیثیتوں کے علاوہ وہ وزارت تعلیم میں اعلیٰ ترین عہدے پر بھی رہے ہیں۔ وزارتِ تعلیم کو خیرباد کہنے سے پہلے وہ پارلیمنٹ کے قومی تعلیم، ثقافت، امورِ نوجوانان اور کھیل کے کمیشن کے سربراہ بھی رہے ہیں۔ وہ جامعہ خلیج کے متولیان کے بورڈ کے صدر رہے ہیں اور اولمپیاڈ کی مجلس منتظمہ کے صدر بھی رہے ہیں۔ ہم پروفیسر محمد سلام کی بات کر رہے ہیں۔
سلام شادی شدہ اور دو بچوں کے باپ ہیں۔ ان کے مطابق وہ تعلیم کے ذریعہ نوجوانوں کو بہتر مستقبل فراہم کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی میں تعلیم کے لیے جو مقام متعین کیا ہے وہ تعلیم کے لیے ان کے خیالات کا بہترین اشاریہ ہے۔ سلام نے اس کا اظہار کرتے ہوئے کہ عوامی تعلیم نے اشرافیہ کی تعلیم کی جگہ لے لی ہے بتایا کہ ۲۰۰۲ء تا ۲۰۱۱ء میں تعلیم کا مختص میزانیہ تین گنا ہو گیا ہے۔ ہم نے تعلیم میں ان کی مہم کے بارے میں گفتگو کی۔
٭… آپ بطور ایک ایسے فرد کے جس نے اپنی زندگی تعلیم کے لیے وقف کر دی ہے، اگر اب اپنے تعلیمی نظام کی گزشتہ اور موجودہ صورتحال کا موازنہ کریں تو آپ ترکی کے تعلیمی نظام کے نقطہ آغاز کے بارے میں کیا کہیں گے۔
O… جمہوریہ ترکی میں تعلیم کا سروے کامیابیوں کی داستان ہے۔ جمہوریہ قائم ہونے سے پہلے خلافت عثمانیہ کی آبادی جو پہلی جنگ عظیم میں کافی بڑھ گئی تھی کم ہو کر ۶۰ ملین رہ گئی اور اس آبادی میں بھی بیشتر افراد بچے تھے۔ عبدالحمید کے زمانے میں تعلیم کی اہم بنیادیں ڈالی گئیں۔ مڈل اور ہائی اسکول جو غیر ملکی زبان میں تعلیم دے رہے تھے ان کی تعداد ۱۲۰۰ سے زیادہ تھی، جو اُن اسکولوں سے دس گنا تھی جو ترکی زبان میں تعلیم دے رہے تھے۔ رہا یہ سوال کہ ہم نے بیسویں صدی میں تعلیم کی ابتدا کیسے کی تو اس پر توجہ کی جانی چاہیے کہ جب جمہوریہ قائم ہوئی تو حالات بڑے ناسازگار تھے۔ ملک عرصے سے جنگوں میں ملوث تھا، غربت تھی اور کام کرنے والوں کی کمی تھی۔ جمہوریہ نے تعلیم کے لیے فوری طور پر اپنے سارے وسائل استعمال کیے مگر مواقع بہرحال محدود تھے۔ اتاترک نے انقرہ میں ایک تعلیمی کونسل قائم کی۔ سرکاری اسکولوں میں چونکہ اساتذہ کی کمی تھی اس لیے جمہوریہ میں عوامی تربیت کے مراکز قائم کر دیے گئے۔ (عربی حروف تہجی کو لاطینی حروف تہجی میں بدلنے کے بعد ان مراکز کی سخت ضرورت تھی کہ لاطینی حروف تہجی کو کیسے لکھا اور پڑھا جائے) ۱۹۳۰ء میں ایک جامعہ بھی قائم کردی گئی تھی، مگر پھر بھی بیشتر شہروں میں اسکولوں کی کمی تھی۔ کیونکہ جمہوریہ کے قیام کے بعد تعلیم کی ضرورت اور توقیر میں اضافہ ہو رہا تھا۔ رضاکارانہ کام کرنے والے اساتذہ اور بچوں کی تربیت کی گئی کیونکہ بلاشبہ تعلیم یافتہ افراد اور اسکولوں کی تعداد بہت کم تھی۔
٭… اب تعلیم کی صورتحال کیا ہے؟
O… ہم اب بھی یورپین یونین کے تعلیمی معیار تک نہیں پہنچے۔ جمہوریہ نے اخراجات کے لیے رقم تو فراہم کر دی ہے مگر اساتذہ کی تربیت اور اسکولوں کے معیار کے معاملے میں اب بھی مسائل ہیں۔ ان مسائل کے حل کے لیے ۸ سال کی ابتدائی تعلیم لازمی کر دی گئی ہے جو بہت اہم تھی اور ہائی اسکولوں میں پیشہ ورانہ تربیت فراہم کرنے کا اہتمام کیا گیا تاکہ نئی نسل ہنرمند ہو کر نکلے۔ اس طرح ہائی اسکول سے فارغ طلبہ ۴۵ سے ۵۰ فیصد ہو گئے۔ ترکی میں اب پہلی مرتبہ اسکول سے پہلے (Pre-School) کی تعلیم پر توجہ دی جارہی ہے۔ یہ بہت اہم ہے کیونکہ تقریباً ۷۰ فیصد بچوں کی ذہنی نشوونما چار پانچ یا چھ سال میں ہو جاتی ہے۔ ہم نئے کلاس روم تعمیر کر رہے ہیں اور تعلیم کے میدان میں سامنے آنے والی نئی ٹیکنالوجی کو بھی اپنا رہے ہیں تاکہ اس باخبری کے دَور میں ترکی پیچھے نہ رہ جائے۔
٭… مثلاً فاتح منصوبہ
O… جی ہاں! یہ انتہائی اہم منصوبہ ہے۔ اسکولوں کے بہتر کمروں میں بہتر بورڈز اور کمپیوٹر کے استعمال سے بچوں کو کچھ سکھانا خاصا سود مند ثابت ہوا ہے۔ ترکی نے بطور خاص ۲۰۰۴ء سے وزارت تعلیم کے لیے وافر بجٹ مختص کیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اگر ۲۰۰۲ء اور ۲۰۱۱کے دوران تعلیم کے لیے دی جانے والی رقم کا موازنہ کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ قومی تعلیم کے لیے مختص کی جانے والی رقم سہ گنا ہوگئی ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے رکھی جانے والی رقم بھی ڈھائی سے تین گنا ہوگئی ہے۔
٭… ترکی کے تعلیمی نظام میں اب کیا خامیاں ہیں؟
O … بعض دور افتادہ علاقوں میں زیادہ اسکول نہیں ہیں۔ ان علاقوں کے بچوں کا بھی تعلیم پر پورا حق ہے۔ حکومت کو اس حوالے سے اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ معاشرے کے تمام طبقات بہتر تعلیم حاصل کرسکیں۔ ہر کلاس روم کا ایک نگراں استاد لازمی ہونا چاہیے اور پھر وقتاً فوقتاً ان کی کارکردگی کا جائزہ لیا جانا چاہیے۔ اس حوالے سے چند ایک اقدامات ضرور کئے گئے ہیں مگر ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اقتصادی تعاون و ترقی کی تنظیم اور یورپی یونین کے مطابق یورپ میں ترک معیشت چھٹے اور دنیا بھر میں سولھویں نمبر پر ہے۔ معاشی میدان میں جو کچھ حاصل ہوسکا ہے اس سے مطابقت رکھنے والی انسانی ترقی ہم نہیں کر پائے۔ ہیومن ریسپانس انڈیکس میں ہم آج بھی چھیاسٹھویں نمبر پر ہیں۔
٭… اس کا حل کیا ہے؟
O… ترکی میں تعلیم لازمی ہے۔ ہمیں اِس کا دورانیہ ۱۳ سال کردینا چاہیے۔ پری اسکول تعلیم بھی لازمی ہونی چاہیے۔ دنیا بھر میں ہائی اسکول کے طلبہ کو پیشہ ورانہ تربیت فراہم کرنے کا رجحان پنپ رہا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد طلبہ کو بہتر مستقبل کے لیے تیار کرنا ہے۔ جامعات میں امتحانی گریڈز کے تعین میں کو ایفیشنٹ کے حوالے سے گراوٹ آئی ہے اور اس کا نتیجہ ہائی اسکولوں میں پیشہ ورانہ تعلیم کی گراوٹ کی شکل میں برآمد ہوا ہے۔ ۱۹۶۰ء کے عشرے تک پیشہ ورانہ تربیت پانے والے طلبہ کو ہائی اسکولوں کے عام طلبہ میں شمار کیا جاتا تھا۔ جامعہ میں داخلہ لینے کے لیے انہیں فاصلاتی تعلیم دینے والے کسی ادارے کا سرٹیفکیٹ بھی حاصل کرنا پڑتا تھا۔ ۱۹۸۰ء اور ۱۹۹۰ء کے عشرے میں بہت کچھ بدل گیا۔ پیشہ ورانہ تربیت حاصل کرنے والے طلبہ پر جامعات کے دروازے کھول دیئے گئے۔ دنیا بھر میں یہی طریقہ رائج ہے کہ پیشہ ورانہ تربیت لینے والے طلبہ کو بھی جامعات میں عام طلبہ کی طرح داخلہ دیا جاتا ہے۔ بعض ترامیم کی بدولت آج ترکی کا تعلیمی نظام عمدگی سے کام کر رہا ہے۔ چند ایک معاملات میں خرابی اب بھی باقی ہے۔ نصاب کے حوالے سے اہم تبدیلیاں لائی جارہی ہیں۔ نئی تعلیمی ٹیکنالوجی اپنانے اور کلاس روم تیار کرنے کے حوالے سے تو ہم نے پیش رفت کی ہے مگر اساتذہ کی تربیت کے حوالے سے اب بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
٭… اعلیٰ تعلیم کی کیفیت کیا ہے۔
O… ترک جمہوریہ بننے کے بعد خواص کی تعلیم عوامی تعلیم میں بدل گئی۔ابتدائی سالوں میں چند ہی جامعات تھیں مگر جب YOK قائم ہوئی تو جامعات کی تعداد ۱۹ اور پھر ۲۷ ہوگئی۔ اس حقیقت کا تصور کیجیے کہ ہر شہر میں کم ازکم ایک جامعہ اور کبھی ایک سے زیادہ جامعات قائم ہوئیں۔ اب ہماری جامعات کی تعداد ۱۶۵ ہے۔ یہ بہت مناسب تعلیمی ترقی ہے۔ مگر سینئر طلبہ میں سے صرف ۲۰ فیصد طلبہ کو چار سالہ انڈر گریجویٹ پروگرام میں پڑھنے کا موقع ملتا ہے۔ اہم یہ ہے کہ یہ تعداد ۳۰ فیصد تک بڑھ جائے۔ اگر یہ تعداد اس سے کم رہتی ہے تو ترکی کو ترقی یافتہ ملک نہیں کہا جاسکتا۔ اب کوریا میں اعلیٰ تعلیم میں طلبہ کی تعداد ۷۵ فیصد سے زیادہ ہے اور انڈر گریجویٹ میں تعلیم پانے والوں کا تناسب ۵۰ فیصد ہے۔ اناطولیہ (نصف مشرقی ترکی) میں جامعات کھولنا اور طلبہ کی تعداد کو بڑھانا نہایت مناسب اقدام ہیں۔ لوگوں کا اعلیٰ تعلیم کا مطالبہ واضح ہے۔ بہرحال اگر ان لوگوں میں سے صرف ۲۰ فیصد اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکیں تو اس مطالبے پر غور کیا جاسکتا ہے۔
٭… کیا یہی سبب ہے کہ جامعات کے امتحانی نظام پر تنقید کی جاتی ہے؟
O… اگر امتحان دینے والوں کی ایک چوتھائی کی بات درست مان لی جائے تو آپ کا نظام امتحان ہمیشہ تنقید کی زد میں رہے گا۔ مگر اس معاملہ پر غور ضرور کیا جانا چاہیے۔ کیونکہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کا امکان کم ہوتا ہے۔ جب یہ طے کیا جائے کہ کون جامعہ جاسکتا ہے امتحانی نتائج کی بنیاد پر یا ہائی اسکول کے گریڈ کی بنیاد پر۔ اس پر گفتگو کرتے ہوئے یہ طے کرنا مشکل ہو جائے گا کہ ان ۸۰ فیصد طلبہ میں کیا صلاحیت ہونی چاہیے جو ۴ سال انڈر گریجویٹ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اب سرکاری اور نجی جامعات اس ضمن میں معاونت کر سکتی ہیں۔ اگر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والوں کی تعداد ۶۰ فیصد ہو جاتی تو ترکی میں انسانی اقدار بہت بہتر ہو چکی ہوتیں۔ ہم نئی جامعات کے ذریعہ بین القومی مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ہم یہ مقاصد حاصل کر لیں تو ہمارے دیرینہ خواب پورے ہو جائیں گے اور ۲۰۲۳ء میں ہمارا شمار سیاست، سفارت کاری اور معیشت میں کامیاب اعلیٰ ترین دس ممالک میں ہونے لگے گا۔
٭… اس وقت صورت حال یہ ہے کہ بعض شعبوں میں اساتذہ زیادہ ہیں اور ملازمت کے مواقع کم ہیں۔ کیا بعض جامعات ضرورت سے کہیں زیادہ گریجویٹ تیار کر رہی ہیں؟
O… جامعات اپنے اپنے پیشوں میں ماہرین تیار کرنے کی فائونڈیشنز نہیں ہیں۔ نہ آپ جامعات میں تربیت حاصل کرتے ہیں۔ معیشت میں جو افراد کار درکار ہوتے ہیں وہ جامعات فراہم کرتی ہیں۔ کسی انجینئر کو کارخانے میں کام کرنے کی تربیت نہیں دی جاتی۔ وہ کام شروع کرنے کے بعد کام کے دوران تربیت سے ہی سیکھتا ہے۔ اس لیے یہ سوال درست نہیں ہے کہ مختلف شعبوں میں اتنے زیادہ طلبہ کیوں قبول کیے جاتے ہیں۔ ہر فرد اپنی پسند کے شعبے کو ترجیح دیتا ہے جس میں وہ تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یہ بالکل ذاتی فیصلہ ہے کہ وہ فرد کام کرنا چاہتا ہے یا متعلقہ شعبے میں ماہر بننا چاہتا ہے۔ سائنسی ترقی کا صرف یہی ایک طریقہ ہے۔ مخصوص شعبوں میں فارغ طلبہ کی تعداد اور ان کی ضرورت کا ایک اور معاملہ بھی ہے۔ کچھ شعبے طلبہ کی تعداد محدود کر سکتے ہیں مگر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان شعبوں کو ضرورت سے زیادہ گریجویٹس فراہم نہیں کرنا چاہیے۔ کارگر معیشت میں طلبہ کو نہیں کھپایا جاسکتا تو ان کو دوسری اقسام کی تربیت دینی چاہیے۔ سماجی ترقی کا یہی واحد راستہ ہے۔ اگر جامعات میں صرف وہی شعبے رہ جائیں جن کی معیشت کو ضرورت ہے تو جامعات اور عام اسکولوں میں کچھ فرق نہیں رہ جائے گا۔ اس لیے جامعات میں سائنس، فلسفہ اور فنون کی کلیات قائم ہیں۔ نئی صلاحیتوں کے حامل لوگوں کی معیشت کی ضرورت کے مطابق کام کے دوران تربیت کی جاسکتی ہے جس کے لیے ایک مختلف نصاب تیار کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ ابتدائی تعلیم اور خصوصی تعلیم کے لیے نئے انتظامات کیے جارہے ہیں۔ ہمیں اس کی ضرورت ہے۔ ان درجات کے لیے اساتذہ کی خصوصی تربیت کی جاسکتی ہے۔
(بشکریہ: ’’ٹوڈیززمان‘‘ ترکی۔ ۲۷ نومبر۲۰۱۱ء۔ ترجمہ: ڈاکٹر وقار احمد زبیری)
Leave a Reply