پوری دنیا بالخصوص مغرب میں جس تیزی سے جرائم، تشدد، دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا ہے اور جس متنوع انداز میں ان کے تعلیمی اداروں میں یہ مرض عام ہو رہا ہے اس کے لیے خود ان کے بعض ماہرین تعلیم اس بات پر متفکر ہیں کہ مستقبل کے حوالے سے دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ ایک اہم مسئلہ یہ بھی آنے والا ہے کہ معاشرہ صرف ماحولیاتی آلودگی کا شکار نہیں ہو گا بلکہ اخلاقی آلودگی بھی پورے معاشرے کو لے ڈوبے گی۔ اگر ایسا ہوا، جس کے بہت امکانات ہیں تو اس کا ذمہ دار نظام تعلیم ہو گا۔ اس خوف کے زیر اثر، مغرب میں یہ نقطۂ نظر بڑی شدت سے پیش کیا جانے لگا ہے کہ والدین تو اپنے بچوں کو بنیادی اخلاقی قدروں کی تعلیم نہ دے سکے، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بھی یہ کام نہ کر سکا، لہٰذا اب یہ کام صرف تعلیمی ادارہ کو ہی کرنا ہو گا….. لیکن یہ عجیب بات ہے کہ انہیں اس پر کوئی پریشانی نہیں کہ ان کا پورا معاشرہ تو اسی بے راہ روی کی ڈگر پر چلتا رہے، البتہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ یہ کام تعلیمی ادارہ بالخصوص اسکول ٹیچر سرانجام دے۔ ظاہر ہے کہ تنہا کوئی ادارہ یا شخص یہ کام حسن و خوبی سے سرانجام نہیں دے سکتا، جب تک دیگر معاشرتی ادارے بھی اس میں تعاون نہ کریں۔ اب جہاں تک استاد کا تعلق ہے وہ بھی اسی معاشرہ کا حصہ ہے خود اس کی تعلیم میں جن افکار کی آبیاری کی گئی ان میں اکیڈمک فریڈم کی آڑ میں آزاد فکری (Free Thinking) کا مرض، طالب علم مرکز تعلیم کے نام پر مادر پدر آزادی، اقدار و روایات کی قید سے آزاد نصابی سرگرمیاں اور بحیثیت مجموعی لبرل تعلیمی فضا کا اسلوب بڑا نمایاں ہے۔ ایسے میں اخلاق و کردار کی تعلیم ایک اچھی خواہش تو ہے، لیکن بدقسمتی سے مغربی دانشوروں کا فکری تضاد تعلیم کا کوئی جامع معیاری تصور پیش نہ کر سکا البتہ ان مشینی یا میکانکی اقدار کو ضرور اہمیت دی گئی جو ان کے نزدیک ایک اچھے شہری (Good Citizen) کے حوالے سے ضروری ہیں۔ چنانچہ اسی ’’نظریۂ اخلاق‘‘ کے تحت اساتذہ کو بھی تربیت دینے کی کوشش کی گئی کہ وہ اپنے طلبہ کو علمی مباحث میں ’’صحیح یا غلط‘‘ کی تعلیم نہ دیں بلکہ اس کا فیصلہ طالب علم کی سوچ پر چھوڑ دیں۔ وہ طلبہ کو دائمی اقدار سے متعلق کسی ایک جواب پر قائل نہ کریں بلکہ ان کی ذہنی تربیت اس رُخ پر کریں کہ وہ یہ طرز فکر اپنائیں کہ اخلاقی اور مذہبی اقدار کے دائمی جواب کے بجائے کئی متبادل جواب بھی ہو سکتے ہیں۔ ہر طالب علم کی اپنی مرضی اور اپنی دلیل ہے۔ ان کے نزدیک یہی تنقید و تفکیر (Reflection)، آزاد مکالمہ (Free Dialogue)، تنقیدی طریق تعلیم (Critical Pedagogy) کی علامت ہے۔ حقیقت میں اسی فکری بنیاد پر ’’کوالٹی ایجوکیشن‘‘ کی تعریف کی گئی، جس میں ان اخلاقی قدروں کا کوئی دخل نہیں جن کی روح مذہب سے وابستہ ہے۔ بہرحال اب مغرب کے تعلیمی لٹریچر میں اس نکتہ کو اہمیت ملنی شروع ہو گئی ہے کہ کردار سازی کے لیے اخلاقی تعلیم (Moral Education) کو عام کیا جائے جس کے لیے ایسا متعین نصاب ہو جو جدید معلومات و مہارات تو طلبہ کو دے، لیکن ان کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کو بھی مرکزی مقام دے۔
یہ بات بلاشبہ خوش آئند ہے کہ ہر چند کہ ناقص اور نامکمل انداز میں ہی سہی دنیا میں اب یہ سوچا تو جا رہا ہے کہ جس رخ پر دنیا میں جرائم، تشدد، دہشت گردی، اخلاقی بے راہ روی اور خاندانی شکست و ریخت کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے، اس کے سدّباب کے لیے تعلیمی اداروں میں ایسا تعلیمی نصاب اور ایسا ماحول ہونا چاہیے جو طلبہ کو ایسی اخلاقی تعلیم دے جو معاشرے کو ایک صحت مند ادارہ بنانے میں معاون ثابت ہو۔ پھر بجائے اس کے کہ تعلیمی آزادی کے نام پر طالب علم اچھائی اور برائی کا فیصلہ خود کرے، یہ کام اساتذہ کا ہونا چاہیے کہ وہ طلبہ کی رہنمائی کریں اور اس سلسلے میں انہیں قطعی رائے تک پہنچنے میں مدد دیں۔ اس ضمن میں ہیوساکٹ (Hugh Socket) کا یہ نقطۂ نظر ہے کہ بعض اساتذہ طلبہ کو صحیح اور غلط کی تعلیم تو دیتے ہیں لیکن یہ فریضہ وہ کیسے ادا کرتے ہیں، واضح نہیں۔ اس کے خیال میں جہاں نسلی تعصب اور جنسی بے راہ روی عام ہو وہاں اساتذہ کے لیے مذہبی اقدار کے حوالے سے بات کرنا مشکل ہے۔ لہٰذا معلوم نہیں کہ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ اپنے طلبہ کو کس طرح نصابی سرگرمیوں میں شریک کرتے ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ اگر کوئی استاد اس رُخ پر کام کرتا بھی ہو گا تو اس کے نزدیک اچھائی اور برائی یا صحیح اور غلط کا اپنا پیمانہ ہو گا۔ پھر یہ بھی ایک المیہ ہے کہ والدین یہ تو چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں کو بااخلاق بنایا جائے لیکن اس کوشش میں اپنے آپ کو بری الذمہ سمجھتے ہیں۔ وہ اس کی ذمہ داری تعلیمی ادارہ پر ڈالتے ہیں لیکن جس معاشرہ میں گھر صرف ’’مرکز تولید‘‘ بن کے رہ جائے اور معاشرے کے دیگر ادارے آزادی کے نام پر جو چاہیں کریں، تو ایسے میں وہ اساتذہ جو خود اس معاشرہ کا حصہ ہیں، اچھائی اور برائی کا کیا تصور دیں گے؟ اب یہ لوگ چاہتے تو ہیں کہ اساتذہ ایسا ماحول تشکیل دیں جو طلبہ کو ایک ذمہ دار اور بااخلاق شخص بنائے، لیکن اس کے لیے وہ بالآخر انسان دوستی یا ڈاکٹر عبدالمغنی مرحوم کی اصطلاح میں ’’انسان پرستی‘‘ (Humanism) کے فلسفہ کا سہارا لیتے ہیں۔ لیکن جو فلسفۂ عظمت خدا کا قائل نہیں، وہ عظمت اور آدمیت، اعلیٰ اخلاقیات کی کیا آفاقی تعلیم دے گا۔
مغرب کے تعلیمی نظام میں اخلاقیات کے حوالے سے ایک اور نعرہ (Slogan) بڑی شدت سے لگایا جاتا ہے اور وہ ہے سارے تعلیمی عمل میں جمہوری اسلوب کی کار فرمائی۔ بظاہر اس میں کوئی برائی نظر نہیں آتی کہ طلبہ کو تعلیمی مباحث میں شریک کیا جائے، ان کا احترام کیا جائے اور ان کی رائے کو اہمیت دی جائے۔ لیکن عملاً بے خدا آزادی کے تصور نے اجتماعیت کے مفاد کو نقصان پہنچایا۔ صداقت اور حقیقت اصلیہ کا فیصلہ محض ذاتی آراء کو ٹھہرایا گیا۔ اچھائی اور برائی کے بارے میں معیارات کا تعین بھی افراد کی عددی قوت پر کیا جانے لگا۔ یوں جمہوریت کے اس غلط مفہوم نے معاشرہ کو کسی صحت مند نظام فکر سے محروم کر دیا اور ہر فرد افادۂ ذات تک محدود ہو گیا۔ اس طرح ایک دوسرے کے لیے قربانی دینے کا جذبہ نظروں سے اوجھل ہوتا چلا گیا۔ اب بعض مغربی مفکرین کو اس کا کسی حد تک احساس تو ہو چلا ہے کہ فرد میں اجتماعیت کے لیے کام کرنے کا جذبہ ٹھنڈا پڑ رہا ہے لہٰذا انہوں نے اجتماعی معاشرتی تعلم (Service Learning) کے نام پر اسکولوں کے نصاب میں ایسی تبدیلیاں تجویز کی ہیں جن کا مقصد ہر طالب علم میں رضاکارانہ طور پر لوگوں کے لیے کام کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا کہ وہ اخلاقی اصولوں کا پاس کرتے ہوئے شہریت کے فرائض اور معاشرتی خدمت کے کاموں میں اجتماعی طور پر شریک ہوں۔
معاشرتی خدمت اور اخلاقی تعلیم کی آرزو بلا شبہ اچھی بات ہے، لیکن مغربی معاشرہ بالعموم جس اخلاقی بحران کا شکار ہو چکا ہے، وہاں تعلیمی ادارہ کوئی جزیرہ تو نہیں بن سکتا، کیونکہ وہ بھی معاشرہ کا حصہ ہے۔ اصل میں کسی بھی لادین معاشرہ کا مسئلہ یہ ہے کہ اس نے مذہب کا انکار کرنے کے بعد یا اسے نجی معاملہ قرار دے کر اپنے پاس کوئی مستقل پیمانہ نہیں چھوڑا۔ حقیقت میں مستقل پیمانہ، انبیاء و رسل کی تعلیمات سے ہی استوار ہوتا ہے۔ صرف زمانۂ حال کی مادی آسائشوں میں ڈوبے رہنے اور ماضی سے بے نیازی کی سوچ کوئی مستقل تبدیلی نہیں لا سکتی۔ خود ممتاز امریکی دانشور، فیوچر شاک (Future Shock) کا مصنف ایلون ٹافلر (Alvin Toffler) جس طنز بھرے لہجے میں اپنے کلچر کا مضحکہ اڑاتا ہے وہ بڑا با معنی ہے۔ وہ کہتا ہے:
“Americans have no past and no future. it is the now generation. the pepsi slogan embodied…..”
یعنی اپنے ماضی اور مستقبل سے بے خبر، محض مادی سہولیات و لذات کے علاوہ اس نسل کے پاس کیا ہے؟ وہ نئی نسل کو کیا دینا چاہتی ہے؟ یہ سوال بڑا اہم ہے کیونکہ مستقبل کے جو بھیانک مسائل سامنے آ رہے ہیں، ان کا سامنا کرنے کے لیے جس انسان کی ضرورت ہے ویسا انسان، نظام تعلیم تیار کر کے نہیں دے رہا، چنانچہ بعض مغربی مفکرین اب اس پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں کہ تعلیمی اداروں کے نصاب میں اگر کردار سازی کو اہمیت نہ دی گئی تو یہ عالمی معاشرہ جرائم کا گڑھ بن جائے گا۔
دور حاضر کا معروف اسکالر پیٹر سنگے (Petter Senge) بھی مغربی نظریۂ تعلیم پر تنقید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ تو صرف منتشر مضامین پر مشتمل ہے اور کلیت بینی کا تصور اس میں سے غائب ہے۔ اس کے خیال میں اسکول ایک مشین بن چکا ہے جسے اب ایک زندہ نظام میں بدلنے کی ضرورت ہے۔ وہ کردار سازی سے متعلق براہ راست تو بات نہیں کرتا لیکن وہ یہ ضرور چاہتا ہے کہ تعلیم میں کلیت اور جامعیت ہونی چاہیے وہ کہتا ہے:
“It is deeply fragmented. there is no notion that reality is made up of interelatedness of things. Our education system does not allow the idea…..”
اصل میں مغربی مفکرین کا ایک مشترک مسئلہ یہ ہے کہ وہ بعض اوقات بیماری کا تشخص تو صحیح کرتے ہیں لیکن اس کا علاج اس کے مطابق تجویز نہیں کرتے یا صحیح جواب تک ان کی رسائی نہیں ہو پاتی، مثلاً پیٹرسنگے (Petter Senge) نصاب میں کلیت کا تصور تو دیتا ہے، لیکن اس کلیت بینی کے لیے جو حل وہ پیش کرتا ہے صرف مروجہ مضامین (Disciplines) کا باہمی اشتراک ہے، لیکن ساری جزئیات کو باہم مربوط کر کے ایک فکری اکائی میں لانے کا کوئی فارمولا پیش نہیں کرتا۔ یہی حال کردار سازی یا اخلاقی تعلیم کا ہے۔ آخر اس ربط و اشتراک کے لیے قوت جاذبہ (Binding Force) ہو گی کیا؟ کمرۂ جماعت کے نظام کو زندہ بنانے کے لیے زندگی کی حرارت کہاں سے ملے گی؟ یہی وہ مقام ہے، جہاں بعض مفکرین کوئی دوٹوک بات نہیں کرتے مثلاً کردار سازی کی خواہش اپنی جگہ بہت اچھی ہے لیکن محض شہریت سے متعلق چند میکانیکی اخلاقیات (Ethics) کی تعلیم ان مسائل کا حل نہیں۔ بے خدا اور سیکولر تہذیب کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس نے علم اور انسانی فطرت کے تصور کو بری طرح مسخ کیا اور یہ طے کر لیا ہے کہ صرف وہی حقائق ہیں جو سادہ حواس، ٹیسٹ ٹیوب، ترازو، خردبین یا دور بین کے ذریعے ہمیں معلوم ہوں، صرف وہی علم کی تعریف میں داخل ہو سکتے ہیں۔ اس طرح حیوانی جبلت کو انسانی فطرت کے ہم معنی قرار دیا گیا۔
اس یک رخے اور ادھورے نقطۂ نظر سے نہ تو کائنات کے نظم و قانون کی توجیہہ کی جا سکتی ہے، نہ انسان کے لیے کوئی ایسا مقصد، ماسوا دولت، لذت اور اقتدار کے معین کیا جا سکتا ہے، جو اس میں اخلاقی اصول و حدود کی پابندی یا بعض طریقوں پر قدغن لگا سکے۔ وہ کس اعلیٰ چیز کے لیے قربانیاں دے؟ وہ کیوں انسانی فلاح کے لیے کام کرے؟ کیوں غریبوں اور مظلوموں سے ہمدردی و تعاون کا رشتہ رکھے؟ الحاد یا سیکولرازم تو صرف اپنی ہی اغراض کے لیے جینے اور ان کو سیدھے اور الٹے ہر طریقے سے حاصل کرنے والے انسان پیدا کر سکتا ہے۔ اپنی اغراض کے لیے کام کرنے والے انسان، حقیقی معنوں میں دوسروں کی فلاح کے لیے قربانیاں نہیں دے سکتے اور نہ وہ لازمی طور پر معاشرے کے حقیقی دیانتدار خادم ہو سکتے ہیں۔ آج مغربی دنیا اخلاقی تعلیم کو جو اہمیت دے رہی ہے وہ عملاً اس وقت تک بار آور نہیں ہو سکتی جب تک علم، انسان، کائنات، خدا، آخرت اور اقدار کا صحیح مفہوم متعین نہیں ہو گا۔ بہرحال یہ بات اپنی جگہ قابل تعریف ہے کہ چاہے محدود یا ادھورے معنی میں ہی سہی، عالمی سطح پر تعلیم میں کردار سازی اور کلیت بینی کو مستقبل کی ایک ضرورت تو سمجھا جانے لگا ہے۔
آجکل ہم اپنے ہاں تعلیمی تبدیلی (Educational Change) کی اصطلاح کا بڑا شور سُن رہے ہیں اور اس کے لیے مغرب کے نئے رجحانات (New Trends) کو ایک کسوٹی (Benchmark) جان کر اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ طبقہ جو ’’مرعوبیت‘‘ میں مغرب کی ہر بات کو قبول کرنے کی تلقین کرتا ہے، اسے اب گو مگو کی کیفیت سے نکلنا چاہیے اور اس عالمی رجحان کو اہمیت دینی چاہیے لیکن اپنے علمی اور اخلاقی شعور کے ساتھ۔ لیکن عملاً ہوا کیا؟ حکومت پاکستان نے مجوزہ تعلیمی پالیسی ۲۰۰۷ء کے ڈرافٹ ’’قرطاس ابیض‘‘ میں تعلیم اخلاقیات کا ذکر تو کیا لیکن اسے اسلامی نظریۂ تہذیب سے مکمل طور پر بیگانہ رکھا۔ اس ڈرافٹ میں ایسی تعلیم کو طنز کا نشانہ بنایا گیا جس کی بنیاد کسی دائمی عقیدہ و اصول پر ہے۔ مرتبین کے نزدیک یہی وہ اساسی نکتہ ہے جو پاکستان کو روشن خیالی اور ترقی پسندیت سے دور رکھنے کا باعث ہے۔ چنانچہ اس ڈرافٹ میں سیکولر عالمی ایجنڈے کے تحت ایسی میکانکی اخلاقیات کو محوری حیثیت دی گئی جن کا دائمی معروف قدروں، قرار داد مقاصد، یا دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان سے دور کا بھی تعلق نہیں….. حقیقت میں ایک ایسی قوم جس کے تعلیمی وژن میں ’’تعلیم و تربیت‘‘ کو پہلے ہی ایک اکائی یا وحدت کی صورت میں پیش نظر رکھنے کی تلقین کی گئی ہے اس کی تعلیمی پالیسی اس پہلو سے کیوں غافل ہے؟ نظری طور پر تو ہم پہلے ہی اخلاقیات کے قائل ہیں، لیکن عملی طور پر ہمیں بڑی جرأت سے اپنے سارے تعلیمی پروگرام (بشمول پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا) کی تعمیر نو کرنا ہو گی۔ اخلاقی تعلیم کا جامع، صحت مند اور متوازن ماڈل تو قائد اعظم نے ۱۹۴۷ء کی تعلیمی پالیسی میں بڑے واضح اور دوٹوک انداز میں پیش کر دیا تھا۔ اس حوالے سے ہمیں یہ بنیادی نکتہ پیش نظر رکھنا ہو گا کہ انسانیت کی فلاح کے لیے اور تمام علوم کو کلیت اور وحدت کے نظام میں ڈھالنے کے لیے اللہ کی آخری کتاب قرآن حکیم ہے جو نبی اکرم ﷺ پر اتاری گئی۔یہ سب علم ہے اور اس علم کا ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ ہماری زندگی کی نعمتوں اور کارناموں کا حساب لیا جائے گا۔ پس تعلیم کی جامع، صحت مند اور متوازن تشکیل جس میں تربیت کا عنصر پنہاں ہو، کے لیے ہمارا پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ ہم علم وحی کو تسلیم کریں اور دیگر ذرائع علم کے حاصل کو وحی الٰہی کی کسوٹی پر پرکھیں۔ ہم خدا کی طرف سے اخلاقی منزلت لے کر آئے ہیں۔ ہمیں ایک دن احتساب کے لیے پیش ہونا ہے۔ لہٰذا ہماری زندگی کا اصل نصب العین، الٰہی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنا ہے۔ یہی وہ اساسی نکتہ ہے جس کے گرد ہم اخلاقی تعلیم کا عمل مرتب کر سکتے ہیں۔ حقیقت میں ہمارے پاس دائمی سرچشمۂ ہدایت قرآن حکیم اور سنت رسولﷺ موجود ہے۔ قرآن حکیم کا ارشاد ہے:
’’اے ایمان لانے والو! تم پورے کے پورے اسلام میں آجاؤ اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘۔(البقرۃ:
۲۰۸)
یعنی کسی استثنا اور تحفظ کے بغیر اپنی پوری زندگی کو اسلام کے تحت لے آؤ۔ تمہارے خیالات، تمہارے نظریات، تمہارے علوم، تمہارے طور طریقے، تمہارے معاملات اور تمہاری سعی و عمل کے راستے سب کے سب بالکل تابع اسلام ہوں۔ ایسا نہ ہو کہ تم اپنی زندگی کو مختلف حصوں میں تقسیم کر کے بعض حصوں میں اسلام کی پیروی کرو اور بعض حصوں کو اس کی پیروی سے مستثنیٰ کرلو۔
قرآن حکیم کی یہ دائمی ہدایت دراصل، تعلیمِ اخلاقیات کے لیے قطعی اور مستقل حکمت عملی ہے۔ اس کا شعور جتنا جلد ماہرین تعلیم کو ہو جائے اتنا ہی ان کے بھی اور پوری انسانیت کے حق میں بھی بہتر ہے۔ بہرحال اس شعور کی بیداری کے لیے اہم ترین فریضہ خود امت مسلمہ کے اساتذہ کو ادا کرنا ہے۔ وہی سب سے زیادہ ذمہ دار اور مسئول ہیں۔ انہیں ہی اخلاقیات کے حوالے سے دنیا کے لیے مثالی نمونہ (Role Model) بننا ہے۔ مستقبل بینی کے حوالے سے ہمیں سائنس اور ٹیکنالوجی کے نئے رجحانات کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ کردار سازی کو اساسی اہمیت دینا ہو گی، جس کا جامع نقشہ دین اسلام دیتا ہے۔ اگر ہم وحدت علم و عمل کے تصور کے تحت اس اخلاقی تربیت کو اپنے تعلیمی نظام میں مرکزی حیثیت دیں جس کی بنیاد اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی تعلیم ہے، تو کوئی وجہ نہیں کہ قیادت عالم کا وہ منصب جو ہمارا اصل نصب العین ہے، حاصل نہ کر سکیں۔
(بحوالہ: ماہنامہ ’’چشم بیدار‘‘ لاہور۔ شمارہ: جولائی ۲۰۰۸ء)
Leave a Reply