ملک میں تعلیمی مراکز کی کل تعداد

نیشنل ایجوکیشن سینسس (NEC-2005) کے مطابق پاکستان میں تعلیم کے زمرے میں آنے والے تمام اداروں کی تعداد ۲۴۵۶۸۲ ہے۔ ان اداروں میں ۱۶۴۵۷۹ (۶۷%) کا تعلق پبلک سیکٹر سے ہے جبکہ ۸۱۱۰۳ (۳۳%) کا تعلق پرائیویٹ سیکٹر سے ہے۔ سروے جس کا اہتمام وزارتِ تعلیم، اکیڈمی آف ایجوکیسنل پلاننگ اینڈ مینجمنٹ (AEPAM) اور فیڈرل بیورو آف اسٹیٹسٹکس (FBS) نے مل کر کیا تھا، انکشاف کرتا ہے کہ ۱۹۹۹۔۲۰۰۰ میں پرائیویٹ سیکٹر کے تعلیمی اداروں کی تعداد ۳۶۰۹۶ تھی‘ جو ۲۰۰۵ء میں تقریباً ۲۵ فیصد اضافے کے ساتھ ۸۱۱۰۳ ہو گی۔

سینسس کے اعداد و شمار پورے ملک سے جمع کیے گئے ہیں جن میں وفاق کے زیرِ انتظام فاٹا، وفاقی حدود اسلام آباد، شمالی علاقہ جات اور آزاد جموں و کشمیر شامل ہیں۔ اعداد و شمار جمع کرنے کے لیے خاص طور سے کارکنان کو بحال کیا گیا تھا اور انھیں سینسس کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ اعداد و شمار پر مامور کارکنان نے تمام سرکاری، نجی اور مذہبی اداروں کا دورہ کیا اور طے شدہ سوالات کے مطابق اعداد و شمار جمع کیے۔

NEC-2005 کے مطابق کل تعلیمی اداروں میں سے ۱۱۵۳۱۱ (یعنی ۴۷%) ادارے پنجاب میں واقع ہیں اور ان کی ۶۶۷۷۰ تعداد (۵۸%) پبلک سیکٹر میں ہے جبکہ ۴۸۵۴۱ تعداد (۶۷%) پرائیویٹ سیکٹر میں ہے۔ سندھ میں تعلیمی اداروں کی تعداد ۵۹۳۱۲ (۲۴%) ہے جن میں سے ۴۶۷۳۸ (۷۹%) ادارے پبلک سیکٹر میں ہیں اور ۱۲۵۷۴ ادارے (۲۱%) پرائیویٹ سیکٹر میں ہیں۔

صوبہ سرحد میں یہ تعلیمی ادارے ۴۰۷۰۶ کی تعداد میں ہیں جو کُل کا ۱۷% ہیں اور ان میں ۲۹۴۳۰ کی تعداد (۷۲%) پبلک سیکٹر میں ہے جبکہ ۱۱۲۷۶ کی تعداد (۲۸%) پرائیویٹ سیکٹر میں ہے۔ کُل تعداد میں سے ۱۱۴۹۲ (۴۷%) ادارے بلوچستان میں موجود ہیں جن میں سے ۹۷۴۲ (تقریباً ۸۵%) پبلک سیکٹر میں ہیں اور ۱۷۵۰ (۱۵%) پرائیویٹ سیکٹر میں ہیں۔ اسی طرح کُل تعداد میں سے ۱۳۴۸ ادارے (۵ء۰%) وفاقی صدور اسلام آباد میں ہیں جن میں ۵۹۸ (۴۴%) پبلک سیکٹر میں ہیں اور ۷۵۰ (۵۶%) پرائیویٹ سیکٹر میں ہیں۔

فاٹا کے ۵۳۴۴ اداروں میں جو کُل تعداد کا ۲ء۲% ہیں، ۴۷۰۴ (۸۸%) کا تعلق پبلک سیکٹر سے ہے اور ۶۴۰ (۱۲%) کا تعلق پرائیویٹ سیکٹر سے ہے اور ۶۴۰ (۱۲%) کا تعلق پرائیویٹ سیکٹر سے۔ شمالی علاقہ جات میں ان اداروں کی تعداد ۴۳۶۶ ہے یعنی کل کا ۸ء۱%۔ ان میں سے ۱۵۰۵ (۵ء۳۴%) پبلک سیکٹر میں ہیں اور ۲۸۶۱ (۵ء۶۵%) پرائیویٹ سیکٹر میں ہیں۔

(بحوالہ روزنامہ ’’ڈان‘‘ کراچی۔ شمارہ: ۱۵ جنوری ۲۰۰۷ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*


This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.