
نائن الیون (۱۱/۹ )کا تریاق شاید ۱۱/۲ ثابت ہو جائے، جس دن حسنی مبارک نے تسلیم کر لیا کہ ان کی ۳۰ سالہ آمریت کا کھیل ختم ہوچکا، اور وہ دارالحکومت کے محل کو چھوڑ کر فوج کے گھیرے میں ساحل سمندر کے لیے روانہ ہوگئے۔ ہم نے مسلمانوں کے ملکوں پر حملوں کی کوششیں کی ہیں، ہم نے ان کے اوپر نئے نظامِ حکومت تھوپنے کی کوشش کی۔ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ چھیڑنے کی کوششیں کیں، ہم نے اربوں ڈالر خرچ کرنے کی کوشش کی لیکن ہم نے ایسا کچھ بھی کرنے کی کوشش نہیں کی جو عرب دنیا میں امریکا کی پشت پناہی والی پولیس اسٹیٹ کو مستحکم جمہوریت میں بدلنے کے لیے خود ان ملکوں کے اندر اٹھنے والی تحریک کی مدد کرنے کا کام کرتی۔
یہ ایک سنگین مرحلہ ہے جو اب مصر پیش کر رہا ہے۔ مبارک جیسے حکمرانوں کی بھرپور مدد کے سلسلہ میں امریکا کے دوہرے معیار سے اسلام پسندوں کی شدت پسندی کو فروغ ملا۔ اُن کو اس ظالمانہ و بے رحمانہ استحصال سے فروغ ملا ہے جسے جہادیوں کو روکنے کے لیے ضروری قرار دیا گیا اور اُن کو کروڑوں عرب باشندوں کو محض اشیا سمجھے جانے، عزت و وقار سے محروم کیے جانے وغیرہ سے فائدہ ہوا ہے، جس سے پرتشدد تحریکوں کو بامقصد بنانے کے راستے کھلے۔
اگر مغربی رنگ میں رنگے ہوئے مصری اور الاخوان المسلمون مصر کی نوزائیدہ جمہوریت میں ساتھ ساتھ رہ سکتے ہیں اور اگر طویل مدت سے غلام بنا کر رکھے گئے عرب عوام یہ دکھا سکتے ہیں کہ یہ کسی بے کس و بے بس یرغمالی کی بجائے تاریخ کا عنصر ہے تو یہ بھی امکان ہے کہ قاہرہ کی سڑکوں پر کوئی دوسرا محمد عطا لوٹ آئے۔
۱۸ پرپیچ دنوں میں مصر ۱۱/۹ کے لاینحل معمہ کے لیے بنیاد بن گیا ہے۔ امریکا کے صدر بارک اوباما نے افغانستان سے واپس نکلنے سے پہلے مسلم دنیا کے ساتھ روابط مستحکم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ نوبل انعام یافتہ حزبِ اختلاف کی شخصیت محمد البرادعی نے مجھ سے کہا ’’اگر ہم مصر کو راہ راست پر چلائیں گے تو یہ انتہا پسندی پر قابو پانے کا ایک طریقہ ہوگا۔ مغربی ایشیا کے بارے میں آپ بدترین حالت کا تصور کر سکتے ہیں لیکن مصر میں مبارک کو معزول کرنے کے لیے جو غیرمعمولی شہری اتحاد بنا جس کا مشاہدہ تحریر اسکوائر میں کیا گیا۔ جس نے باہمی تعاون کے لیے مرکزیت حاصل کر لی اور مصر کی فوج نے جس پیشہ ورانہ ذمہ داری کا ثبوت دیا، ان سب کو دیکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ اس ملک میں وہ سب کچھ موجود ہے جو اس کو ایک شائستہ اور نمائندہ سوسائٹی بنا سکتا ہے۔ جو ’’دی عرب اسٹریٹ‘‘ کی شارٹ ہینڈ سے وابستہ پوری بحث کو غلط قرار دے سکتا ہے‘‘۔
حقیقت تو یہ ہے کہ تحریر اسکوائر کے مظاہر نے اس کہاوت کو بے بنیاد قرار دے دیا ہے۔ جہاں تک گلی کوچوں کا تعلق ہے میں نے انقلاب کے بعد صبح سویرے ہی ان کو صاف ہوتے دیکھا۔ وہاں کی صفائی کوڑے کرکٹ کو دور کرنے اور رگڑ رگڑ کر شفاف بنا دینے کے عمل نے مجھے یہ ماننے پرمجبور کر دیا کہ یہاں سے کچھ بھی لے جانے اور شاندار میٹرو پولس عروس البلاد قاہرہ کو زیورچ (Zurich) میں لے جانے کی کوشش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے لیکن ماروا کمال نے میری تصحیح کردی۔
۲۶ سالہ کمال اپنے ارغوانی حجاب میں خوش اور شاداں نظر آرہی تھیں۔ وہ ایک بورڈ کے پاس تھیں جس پر لکھا تھا ’’برائے مہربانی پریشان نہ ہوں، ہم نے مصر بنایا ہے‘‘۔ میں نے اس سے پوچھا وہ صفائی کیوں کررہی ہیں؟ وہ کہتی ہیں ’’تمام گندگی ماضی کے کوڑا گھر میں پھینک دی گئی ہم پرانی چیزوں کو صاف کر دینا اور سب کچھ صاف شفاف طریقہ سے شروع کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
ایک ریٹائر کیمسٹ محمود عبداللہ آگے بڑھ کر کمال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’یہ بیش قیمت اور عزیز ترین نسل ہے۔ انہوں نے وہ کچھ کر ڈالا جو ہم نہیں کرسکے‘‘۔
یہ صحیح ہے کہ اس وقت مصر میں کوئی صدر نہیں ہے، نہ ہی کوئی دستور ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ ہے اور نہ ہی گلیوں اور سڑکوں پر کوئی قابل ذکر پولیس ہے لیکن یہ ان دنوں مصریوں کے درمیان نسلوں (جنریشنوں) کا ملاپ ہے اور یہ قومیت کا ایک نیا احساس ہے جو ۱۸ انقلابی دنوں کے انکشاف سے بے شمار رکاوٹوں کو دور کرکے سامنے آیا ہے۔
شاید کہ یہ کوئی اچھی چیز تھی جو مبارک کی جی حضوری کرنے والوں نے اپنے گرد حفاظتی گھیرا بندی کے طور پر تان لی تھی۔ مبارک ایک خودسر حکمراں ثابت ہوئے جو اپنی عربی اور عبرانی قیدوں کے اندر بند تھے۔ جبکہ زبانوں اور قومیت نے خود کو کھول کر رکھ دیا۔ میں سمجھتا ہوں یہ وقت ختم ہو گیا تھا جب فوج نے گولی چلانے سے انکار کر دیا لیکن مبارک کی ٹال مٹول نے مصریوں کو ایک دوسرے کو جاننے اور سمجھنے میں مدد دی۔
جنگوں کی طرح انقلابات کی بھی اکتاہٹ کا ایک وقفہ ہوتا ہے۔ جو باہمی چیٹ سے پورے ہوگئے اور اس سے مصریوں کو کیا ملا؟ اس کا ایک منظر یہ ہے، ۳۳ سالہ ماروا نسیم جو پوری طرح مغربی رنگ میں رنگی ہوئی ہیں، جنیوا میں رہتی ہیں الاخوان المسلمون کے باریش مقدی آشور کے ساتھ بہت اطمینان کے ساتھ بات کر رہی ہیں۔ وہ شورش شروع ہونے کے بعد قاہرہ آئیں جب کہ آشور نے ایک دوست کے مارے جانے کے بعد مظاہروں میں شمولیت اختیار کی۔ اگر وہ دونوں ایک ماہ قبل کسی گلی یا سڑک سے گزرتے تو دونوں ایک دوسرے سے دور ہی دور رہتے۔ وہ خوف و اندیشوں کے تحت الگ الگ ہو گئے تھے۔ آشور، ماروا نسیم کو بتاتے ہیں انہیں تھوڑے تھوڑے وقفے سے بار بار گرفتار کیا گیا۔ کتنی بار؟ کبھی کبھی تو مہینے میں دو دو بار اور آشور کا چودہ سالہ بیٹا انہیں ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا ہے۔ وہ یہ کہتے ہوئے ان سے رخصت لیتے ہیں ’’میں انہیں آزادی سے روشناس کرانا چاہتا تھا‘‘۔
ذہنی تشنج سے پریشان آشور اٹھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں وہ کہتے ہیں ’’انہوں نے مجھے بالکل ننگا کر دیا۔ میری آنکھوں پر پٹی باندھ دی۔ ہاتھ پشت کے پیچھے باندھ دیے مبارک کے سیکورٹی والے غنڈو ںنے مجھے توڑ کر ڈال دیا۔ انہوں نے دیوار پر لگی ایک کیل پر مجھے لٹکا دیا پھر پیروں کے انگوٹھوں پر، سینے پر اور پوشیدہ اعضا پر الیکٹرک شاٹ لگائے‘‘۔ ان کی آنکھوں میں آج بھی خوف و دہشت کے آثار تھے ان کی آنکھوں سے آنسو بھی بہہ رہے تھے۔ انہوں نے اپنی پینٹ، گھٹنوں تک اٹھا کر دکھائی ان کی پنڈلی پر سیاہ داغ پڑے ہوئے تھے۔ وہ یہ معلوم کر رہے تھے تم اسامہ بن لادن کے بارے میں کیا جانتے ہو؟
اب یہ دونوں مصری سیکولر خاتون اور مذہبی مرد قانون اور حقوق کی بحالی چاہتے ہیں۔ ۱۱/۲ کے راستہ ۱۱/۹ کو پار کرنے کا عمل بغداد یا کابل کے واسطے سے نہیں تحریر تحریر کے واسطے سے انجام پا رہا ہے۔
(بشکریہ: ’’نیویارک ٹائمز‘‘۔ ۱۳؍ فروری۲۰۱۱ء)
Leave a Reply