جوش ملیح آبادی نے اگست ۱۹۶۰ء کے ’’اردو نامہ کراچی‘‘ میں ایک مضمون ’’کچھ اردو کے باب میں‘‘ تحریر کیا تھا۔ اس کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمایئے:
’’صوفیا اور شعرا کی صحبت سے اس زبان کو فائدہ بھی پہنچا اور نقصان بھی۔ فائدہ تو یہ پہنچا کہ اس میں عشقِ مجازی و ’’عشقِ حقیقی‘‘ کی نئی نئی اصطلاحیں پیدا ہو گئیں، اس کی محفل میں دعائیں اور سارنگیاں گونجنے لگیں، چوکوں کے کوٹھوں، خانقاہوں کے قبوں، قوالی کے جلسوں، رقص و سرود کی محفلوں اور مشاعروں کے دائروں سے نکل نکل کر اس کے الفاظ دور دور تک سفر کرنے اور سینوں میں اترنے لگے اور ان صوفیا و شعرا کے فیضان صحبت نے ہماری زبان کے خزانے میں جھل جھلاتے الفاظ، جگ مگاتے کلمات اور ترشی ہوئی ترکیبوں کا ایک گراں قدر انبار لگا دیا اور جہاں تک کہ عاشقانہ و صوفیانہ خیالات کا تعلق ہے، انہوں نے ہماری زبان کو بے باکانہ طنزیات، جنسی کلمات، اعلان ہیجانات، مابعد الطبیعاتی تصورات، حِسن و عشق کے علامات اور زمزمہ و مناجات کے حرف و حکایات سے اس قدر مسلح کر دیا کہ ہم بلبل ہزار داستان بن کر چہچہانے لگے۔
اور ہماری زبان کو ان صوفیا و شعرا سے نقصان یہ پہنچا کہ چوں کہ یہ دونوں گروہ علوم سے بالعموم تقریباً بے نیاز اور خالصتہً پابند سوز و گداز تھے، اس لیے ہماری زبان عالمانہ الفاظ، محققانہ طرزِ بیان اور مجتہدانہ اندازِ کلام تک رسائی حاصل نہیں کر سکی۔
ان بزرگوں نے ہمارے دلوں کو تو جِلا بخشی لیکن ہمارے دماغوں میں شمعیں نہیں جلائیں، انہوں نے تقلید کے قبے تو بنائے، اجتہاد کے ایوان تعمیر نہیں کیے، انہوں نے ذکر کے ترانے چھیڑے، فکر کے بربط کو نہیں اٹھایا، تصورِ جاناں کا درس دیا، مطالعہ کائنات کے دریچے بند کر دیے۔ اقوال کو سرآنکھوں پر جگہ دی اور افکار کی خلاقی کو روند ڈالا۔
جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ہم ہلکی پھلکی صحبتوں، ضلعے جگت کی محفلوں، غزلوں کے اکھاڑوں، میلوں ٹھیلوں کی چھول داریوں، حُسن کے بازاروں اور جاہل بادشاہوں کے درباروں میں تو بڑے مزے سے بے تکلّف چہچہانے لگے، لیکن علوم کے ایوانوں اور مشاہدہ و تحقیق کی سرکاروں میں ہماری سانس رُک کر رہ گئی اور ہم گونگوں کے مانند حیران و پشیمان ہو کر رہ گئے۔ اس لیے کہ ہمارے سروں پر نہ تو محققانہ خیالات ہی کا سایہ ہے اور نہ ہماری زبانوں پر عالمانہ الفاظ ہی پر توفگن ہیں‘‘۔
{}{}{}
Leave a Reply