ڈاکٹر صلاح الدین سلطان عالم عرب کے ممتاز دانشور اور اہلِ قلم ہیں۔ اگرچہ الاخوان المسلمون سے باضابطہ اور تنظیمی تعلق نہیں رکھتے، لیکن اس کی فکر اور طریق کار کے زبردست موئید ہیں۔ اخوان کی سیاسی تنظیم حزب الحریہ والعدالہ کے رہنماؤں میں سے ہیں۔ مصر کی صورتحال پر ان کے مضامین برابر آرہے تھے۔ اب ۲۳ ستمبر کی اطلاع ہے کہ مصر کے غاصبوں نے انہیں بھی گرفتار کرلیا ہے۔ ذیل کی تحریر میں موصوف نے اسلام پسند طریق کار اور اسلام بیزاروں کے طرزِ عمل کا موازنہ کیا ہے۔
یہ مضمون میں نے چند روز قبل تحریر کیا تھا، آج میں اسے نئے حالات میں پیش کر رہا ہوں: ’’اسلام پسند مظاہرین کی رحم دلی، فراخ دلی، وسعت ظرفی اور ثابت قدمی کو تاریخ روشن حروف سے لکھے گی، دوسری طرف خوں خوار باغیوں کی خوں ریزی اور حماقت و رذالت کو، جس کی مثال ماضی میں ملنی مشکل ہے اور جس نے فوج اور پولیس کی تاریخ کو خون اور مصریوں کے جھلسے ہوئے جسموں سے آلودہ کر دیا ہے، تاریخ شعلہ زدہ حروف سے لکھے گی۔ ہر آزاد مصری، بلکہ دنیا کا ہر آدمی اس پر ندامت محسوس کرے گا۔
آج ان اسلام پسند مظاہرین کی جانب سے فراخ دلی، وسعتِ ظرفی اور خوں خوار انقلابیوں کی خست و رذالت کے چند نمونے پیش خدمت ہیں:
(۱) ڈاکٹر مرسی کو قصر صدارت میں داخل ہوئے ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا کہ میں مجلس امناءِ اتحاد اسلامی کے ایک وفد کے ساتھ ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ہمارے وفد میں موریطانیہ سے شیخ الدود، کویت سے خالد المذکور، بحرین سے عبداللطیف محمود اور مصر کے سابق مفتی اعظم شیخ فرید بن واصل شامل تھے۔ وفد کی قیادت ڈاکٹر علامہ یوسف القرضاوی فرما رہے تھے۔ مقصد صدر مصر کو نصیحت و خیر خواہی سے نوازنا تھا۔ گفتگو کے دوران ایران کی جانب سے درپیش خطرات کے متعلق خلیج کی پوزیشن زیر بحث آئی تو صدر محترم نے جواب دیا: ’’فوجی مجلس کی پہلی میٹنگ میں ہی میں نے یہ بات رکھی ہے کہ مصر کی قومی سلامتی کے دائرے کو دوبارہ بحال کر کے خلیج تک وسعت دی جائے۔ خلیجی یا مغربی ایشیا کے کسی ملک پر حملے کو ہم مکمل طور پر مصر پر حملہ تصور کریں گے‘‘۔ وفد میں شریک ایک عالم دین نے کہا: ’’کیا ضاحی خلفان کے بیانات کے بعد بھی آپ کا یہی موقف ہے؟ صدر محترم نے فوراً جواب دیا: ’’کیا یہ مناسب ہوگا کہ کسی ایک شخص کے بیان کی وجہ سے ایک ملک اور قوم کو تباہ کرا دوں؟ مصر کی حیثیت اس سے کہیں بڑھ کر ہے‘‘۔ یہ مصر کے اس صدر کی فراخ دلی، فراست، مردانگی اور عربیت کا نمونہ ہے جس کے لیے آج لاکھوں افراد مظاہرہ کر رہے ہیں۔ لیکن اس کے مقابلے میں بیشتر خلیجی ممالک کے ہاتھ مصری عوام کے خلاف بغاوت اور قتل عام سے رنگے ہوئے ہیں۔ مصر کے مستقبل کے تعلق سے زیرعمل لائے جانے والے منصوبے ’’محور قناۃ السویس‘‘ (نہر سوئز) کو تباہ کرا کے ان ممالک نے مصری عوام کی روزی روٹی کے خلاف سازش کی ہے۔ حالانکہ اس منصوبے سے مصر کو ہر سال ۱۰۰ کروڑ ڈالر حاصل ہونے والے تھے، جو اسے دوسروں کے سامنے دست سوال دراز کرنے سے بے نیاز کر دیتے اور ملک سے باہر سرمایہ کاری کے مسئلے سے آزاد کر دیتے۔
(۲) ۳۰؍اگست ۲۰۱۳ء کو جس وقت پورے مصر میں لاکھوں کروڑوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے تھے اور اسکندریہ کے سمندری کنارے پر پانچ کلومیٹر کے علاقے میں لاکھوں عوام کا ہجوم تھا، شہر اور دیہات کی سڑکیں لوگوں سے اس طرح اَٹ گئی تھیں کہ دنیا اسے دیکھ کر دنگ رہ گئی، اس وقت مصر میں بیک وقت کم ازکم ۴۰۰ مظاہرے ہو رہے تھے اور رابعہ کے مظاہرے کا تو یہ حال تھا کہ لوگوں کو اپنے اہل خانہ اور پڑوسیوں کی بھی خبر نہیں تھی۔ ان مناظر نے مصر کے ٹی وی چینلوں اور انقلابی قیادت (فوج، پولیس اور میڈیا) کے علاوہ سب کو حیرت میں ڈال دیا تھا۔ فوجی قیادت بولی بھی تو بس یہ: ’’اخوان کی حقیقت سامنے آگئی، عوام ان سے نفرت کرتے ہیں‘‘۔ بلکہ فوجی حکمرانوں میں سے ایک نے تو الجزیرہ چینل پر یہ بھی بیان دے ڈالا: ’’ان (مظاہرین) کی کل تعداد صرف ۳۰ ہزار ہے‘‘۔ حالانکہ یہ تعداد مصر کے ایک محلے میں نکلنے والے جلوس کی تھی۔ لیکن ترکی، واشنگٹن، جاپان، فرانس، لندن، اٹلی، آسٹریلیا، جرمنی، افغانستان، پاکستان، ملائیشیا میں نکلنے والے جلوسوں کا شمار کہاں گیا؟ رابعہ میں ہونے والا مظاہرہ اور اس کی چار انگلیوں والی علامت دنیا بھر میں معروف ترین علامت بن گئی ہے۔ نیز ان مظاہروں کے دوران کہیں اہل وطن کے امن میں کوئی خلل اور ان کے اثاثوں کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔ حتیٰ کہ بورسعید اور دیگر علاقوں کے باشعور باشندوں نے عام لباس میں ملبوس سیکورٹی فورس کے افراد کے اکسانے پر بھی ایسی کوئی حرکت نہیں کی۔ مجھے اس بات کا یقین ہے کہ اگر مصر کے کسی شہری یا کسی عمارت کو کوئی نقصان پہنچا ہے تو وہ فوج اور پولیس کے بعض دستوں کے ہاتھوں سے پہنچا ہے۔
(۳) مصری فوج کے بڑے افسران کو صہیونیوں سے کوئی جنگ نہیں لڑنی پڑی کیونکہ جنگ اکتوبر کو بھی چالیس برس کا عرصہ گزر چکا ہے۔ انہیں تو کوئی جنگ لڑے بغیر ہی اقتدار ہاتھ آگیا۔ اقتدار کی آرزو ان کی رگ رگ میں پیوست ہے۔ صہیون زادوں کی پشت پناہی ایک طرف امریکا کر رہا ہے، جس نے مصر کی فوج کو ہم سے چھین لیا ہے۔ دوسری طرف مصری خزانے کے ان مصارف سے ان کی پشت پناہی کی جارہی ہے جنہوں نے مصر کی معیشت کو کمزور اور لاغر کر دیا ہے۔ باغی فوج مصر کے فرزندوں کو گرفتار کر رہی ہے، انہیں قتل کر رہی ہے، انہیں گولیوں سے بھون رہی ہے، حالانکہ اس نے صہیونیوں سے جنگ کے دوران بھی ایسی حرکت نہیں کی تھی، لیکن آج وہی فوج ہم پر حاکم بھی ہے اور ہم سے ہی جنگ بھی کر رہی ہے، کبھی اپنے ہی ہاتھوں سے ہمیں قتل کر رہی ہے، کبھی صہیونی جنگی جہازوں کے ذریعے ہمیں نشانہ بنا رہی ہے اور یہ سارا کام سیسی کے ساتھ راست گٹھ جوڑ کے ذریعے ہو رہا ہے۔ اہل مصر صہیونیوں کے جاسوسوں کی بدولت قربان کیے جارہے ہیں۔ سیسی چاہتا ہے کہ عزت و شوکت کی علامت اور مصر کے لیے صہیونی خطرے سے محفوظ رکھنے والے دروازے غزہ پٹی کا گلا گھونٹ کر اپنے معزول آقا کے کردار کی تکمیل کر دے۔ عباس، دحلان اور عزام جیسے صہیونی پٹھوؤں کو ساتھ ملا کر صہیونی جب چاہیں غزہ میں داخل ہو سکتے ہیں۔ اس وقت حقیقی صورت حال یہ ہے کہ باغیوں نے ہم سے ہماری فوج چھین لی ہے اور اسے عفریت کی شکل میں مصری قوم کے اوپر مسلط کر دیا ہے، جو آگ اور اسلحے کی مدد سے اس پر حکومت کر رہی ہے۔ فوج کے اندر اس بڑی تبدیلی سے فوج کا ایک طبقہ خوش نہیں ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کا نتیجہ اسی طرح تباہی اور بربادی کی شکل میں سامنے آئے گا جس طرح جمال ناصر کے ذریعے لائے گئے فوجی انقلاب کے بعد ہوا تھا۔ اس وقت بھی فوج کا مشن صرف اخوان المسلمون کا پیچھا کرنا تھا۔ چنانچہ صہیونیوں نے ہمیں بالکل ختم کر دیا تھا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے جہنمی منصوبوں کے آگے اپنے پٹھوؤں اور ایجنٹوں کی بھی پروا نہیں کرتے۔
(۴) دستوری عدالت کی نائب صدر مستشارہ تہانی الجبالی نے مصر کے ایک ٹی وی پروگرام کے دوران اخوان المسلمون کے خلاف امریکا کی طرف سے کوئی جنگ نہ چھیڑنے کی بنیادی وجہ بتاتے ہوئے یہ کہا کہ ’’وہی امریکا جو بین الاقوامی سماج کو مصر کے خلاف اکسا رہا ہے، اس بات کا مجرم ہے اور مصر کی قومی سلامتی مشینری کے پاس ایسے شواہد بھی ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اخوان کو مصر میں برسراقتدار لانے کے لیے امریکی خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے کروڑوں روپے خرچ کیے گئے ہیں!!!‘‘ کیا یہ بیان احمقانہ نہیں ہے؟ اس نے مزید یہ بھی کہا کہ ’’ہم امریکی عوام کو یہ بتا دینا چاہتے ہیں کہ ان کا افریقی بھائی، جو ان کا صدر ہے، وہ الاخوان المسلمون کے بین الاقوامی نظم کے لیے سرمایہ کاری کی منصوبہ بندی کرنے والوں میں سے ہے‘‘۔ پروگرام کے اینکر نے جب اس بیان کی وضاحت چاہی تو اس نے کہا: ’’بھائی اوباما، وہ الاخوان المسلمون کی بین الاقوامی تنظیم کے لیے سرمایہ کاری کی منصوبہ بندی کرنے والوں میں سے ایک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی اب بھی اس تنظیم کی قیادت سے الجھنا نہیں چاہتے‘‘۔ کیا اس سے بڑی حماقت کا تصور کیا جاسکتا ہے؟ حالانکہ سیسی نے خود یہ بیان دیا تھا کہ وہ فوجی انقلاب سے پہلے بھی اور انقلاب کے بعد اب بھی مسلسل امریکی وزیر دفاع کے رابطے میں ہیں۔ قاہرہ میں امریکی سفیر ’آن پیٹرسن‘ فوجی انقلاب کی ماسٹر مائنڈ تھی۔ ٹیلی ویژن پر حزب النور کے ایک بڑی رکن نے یہ بیان دیا تھا کہ اسی خاتون سفیر نے ان سے رابطہ کرکے یہ چاہا تھا کہ اگر حزب النور البرادعی کو وزیراعظم بنانے کے لیے ان کی حمایت کرے تو اس کے بدلے میں انہیں البرداعی حکومت میں چاروزارتیں دی جائیں گی۔ اس درجہ کذب و افترا اور دوسروں کو عقل سے کورا سمجھنے پر حیرت ہی کی جاسکتی ہے۔
(۵) جس وقت کیمروں کا رُخ ہماری جانب تھا، اور تصویریں حقیقت حال بیان کرنے میں غلطی نہیں کرتیں، اس وقت ایک نوجوان فوجی ٹینک پر سوار اپنے فوجی بھائی سے حسنِ ظن قائم کرتے ہوئے ٹینک کے اوپر چڑھ گیا۔ اس نے ہاتھ بلند کر رکھے تھے، یعنی اس کا فوجی بھائی سے الجھنے کا ارادہ نہیں تھا، لیکن فوجی نے اسے قتل کر دیا۔ میدان رابعہ کے مظاہرین میں سے کچھ اور افراد نکل آئے اور ہاتھ اٹھا کر فوج اور پولیس کے ان کمانڈروں کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ لیکن فوجی کمانڈروں نے اپنے ان بھائیوں پر جنہوں نے پہلے ہی سے اپنے ہاتھ اوپر اٹھا رکھے تھے، بندوقیں چلا دیں۔ جو شخص بھی زخمی کو اٹھائے ہوئے دکھائی دیتا، صہیونی نہیں، بلکہ مصری فوجی اس پر بندوق چلا دیتا اور زخمی کے ساتھ مزید دو افراد موت کے منہ میں پہنچ جاتے۔ دوسری طرف حال یہ تھا کہ ہم مسلسل ۴۷ روز سے فوج اور پولیس کے درمیان رہے، لیکن ہم میں سے کسی نے بھی ایک پتھر نہ پھینکا۔
(۶) ڈاکٹر محمد البلتاجی کو گرفتار کرلیا جاتا ہے، انہیں مارا جاتا ہے، ان کی تذلیل کی جاتی ہے اور ان پر کوئی سزا نافذ ہونے سے پہلے ہی اس تنہا بیرک میں رکھا جاتا ہے، جس میں وہ قیدی رکھے جاتے ہیں جنہیں سزائے موت سنا دی گئی ہو۔ حالانکہ تمام قوانین اور دساتیر کی رو سے ملزم پر جب تک جرم ثابت نہ ہو جائے، شک کا فائدہ ملزم کو دیا جاتا ہے۔ میڈیا کا نیچ پن اسما بلتاجی کے قتل کے سلسلے میں سامنے آتا ہے۔ میڈیا کا ایک شخص کہتا ہے کہ اخوانی اپنے بچوں کی سوداگری کر رہے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ اسما بلتاجی ڈاکٹر محمد بلتاجی کی بیٹی تھی ہی نہیں۔ کوئی ضمیر فروش عورت سے سودا کر کے اس سے کہلواتا ہے کہ: ’’میں اسما بلتاجی ہوں، ابا نے مجھے قید کر رکھا ہے، کیونکہ وہ میرا سودا کرنا چاہتے ہیں۔ میں مری نہیں ہوں‘‘۔ ڈاکٹر بلتاجی کی والدہ کو دھمکیاں دی گئیں اور ان کو رُسوا کیا گیا، ان کے بہنوئی کے ساتھ اہانت آمیز سلوک کیا گیا، ان کے گھر پر جس وقت حملہ کیا گیا اور پیر پکڑ کر انہیں گھسیٹا گیا اور پھر گرفتار کیا گیا، اس سے محض تین گھنٹے پہلے ہی ان کی آنکھوں کا آپریشن ہوا تھا اور اس وقت بھی ان کی آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔ ان لوگوں میں ایک شخص بھی ایسا نہیں ملے گا، جس کے اندر ادنیٰ درجے کی بھی انسانیت ہو۔ لیکن اس کے باوجود میرا یقین یہ کہتا ہے کہ اللہ نے چاہا تو جیل سے آزاد ہونے کے بعد اور ان سب مظالم کو برداشت کرتے ہوئے ڈاکٹر بلتاجی مصر اور اس کی قوم کے مفاد ہی کو ترجیح دیں گے۔
(۷) کیا یہ وسعت ظرفی اور فراخ دلی کا مظاہرہ نہیں کہ اخوان نے محض مصر اور مصری عوام کے مفاد کی خاطر ان تمام مظالم کو نظرانداز کردیا جو ان پر کیے گئے۔ برطرف صدر حسنی مبارک کے زمانے میں تقریباً ۱۵؍ہزار اخوانیوں کو قید کیا گیا۔ وہ دنیا کا پہلا صدر ریاست تھا جسے رات دن گالیاں دی جاتی تھیں۔ آج مرسی کو اُسی (حسنی مبارک) کے افراد کو مارنے کے الزام میں ذلت و اہانت کے ساتھ کریمنل کورٹ کے حوالے کیا جارہا ہے۔ حسنی مبارک کو رہا کر دیا گیا ہے اور ان تمام جرائم سے اسے بری کر دیا گیا ہے کہ جن کا ارتکاب اس نے اپنے اقتدار اور عوامی انقلاب کے دوران کیا تھا۔ حسنی مبارک کے حالی موالی جو آلودہ غذائی سامان بیچتے تھے، اس کی وجہ سے لاکھوں افراد جگر اور کینسر کے امراض کا شکار ہو کر مر گئے تھے۔ اس کے جرائم کی تفصیل عالمی شہرت یافتہ صحافی رابرٹ فسک نے بیان کی ہے۔ اس نے ’’انڈیپینڈنٹ‘‘ میں ’’انتہائی رازدارانہ‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون تحریر کیا ہے، جس میں لکھا ہے: ’’متعدد ذرائع سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ سیسی کے ذریعے مبارک کو جیل سے باہر نکالنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ سیسی کے لیے خلیجی حکمرانوں سے رابطہ قائم کرکے انہیں اس بات پر آمادہ کرے کہ وہ آخری انجام تک مصر کو سہارا دیں۔ حالانکہ اس سے خود اس کے فوجی انقلاب کو خطرہ ہو سکتا تھا، لیکن وہ اس کے لیے انتہا درجہ مجبور ہو گیا تھا۔ چنانچہ مبارک نے سیسی کی مدد سے بعض خلیجی حکمرانوں کے ساتھ متعدد بار گفتگو کی اور ان کے سامنے یہ بات رکھی کہ روزانہ مسلسل بڑے بڑے مظاہرے ہونے کی وجہ سے مصر کی اقتصادی صورتحال تباہ کن ہو گئی ہے اور اس سے خطرہ لاحق ہوگیا کہ مصر کی حکومت منہ کے بَل گر پڑے۔
المیہ صرف یہی نہیں ہے کہ مبارک کو جیل سے باہر نکالا گیا ہے، بلکہ اس سے بڑا جرم یہ ہے کہ مبارک پردے کے پیچھے رہ کر صدارتی امور کو انجام دینے لگے اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہو، حتیٰ کہ مصری فوج کی بیشتر قیادت بھی اس سے بے خبر رہے۔ حسنی مبارک نے سابق اسرائیلی وزیر دفاع بن یامن بن الیعازر سے بھی بات کی۔ بن یامن سے حسنی مبارک کے بہت گہرے روابط رہے ہیں، حالانکہ یہ وہ شخص ہے جس نے ۱۹۶۷ء میں سیکڑوں مصری قیدیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ اس گفتگو میں بن یامن نے حسنی مبارک کو یہ اطمینان بھی دلایا کہ اسرائیل مغرب کو اس بات کے لیے قائل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گا کہ جنرل سیسی کو حکومت پر اپنا تسلط جمانے کا ایک موقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ مبارک نے بنیامن کو یہ بات بھی بتائی کہ اب وہ دوبارہ جیل میں نہیں جائیں گے، اِلّا یہ کہ اخوان دوبارہ برسراقتدار آجائیں۔ فوجی اسپتال میں حسنی مبارک کے وارڈ کو تمام جدید اور انتہائی قیمتی طبی وسائل سے آراستہ کیا گیا ہے۔ اس کے بالمقابل اخوان کے مرشد عام کو سیکورٹی کے لوگ بھی نہیں بخش رہے ہیں اور منتخب صدر ڈاکٹر محمد مرسی کے ساتھ وہ سلوک کیا جارہا ہے، جو منصب صدارت سنبھالنے والی شخصیت کے ساتھ کسی طرح مناسبت نہیں رکھتا۔ یہ اس غیر عرب شخص کی گواہی ہے جس کا شمار دنیا کے بڑے کالم نگاروں میں ہوتا ہے۔
(۸) اس سے زیادہ ذلت و پستی اور حماقت کوئی نہیں ہوسکتی، جس کا مظاہرہ فوجی باغیوں نے عورتوں اور لڑکیوں کے ساتھ کیا ہے۔ ہالہ شعیسع، اسماء بلتاجی اور حبیبہ احمد عبدالعزیز جیسی مثالوں کی لمبی فہرست ہے۔ نہضہ کے مظاہرے میں تو ایک پولیس افسر نے اپنی بندوق سے ایک بچی کو شہید کردیا، جس کی تجہیز و تکفین اس بچی کی والدہ نے خود کی۔ بچی کو دفنانے کے بعد اس کی ماں اور اس کے دوسرے بچوں نے قبرستان ہی میں کفن زیب تن کیا اور سیدھے مظاہرے میں پہنچ گئے۔ بچی کی ماں نے اسٹیج پر کھڑے ہو کر کہا: ’’سیسی! تو نے میری چھ سال کی بچی کو مارا ہے۔ اب میں اپنے تمام بچوں کے ساتھ جام شہادت پینے کے لیے تیار ہوں۔ ہم سب کو ایک ساتھ قتل کردو تاکہ ہم اپنی بچی سے جاملیں‘‘۔ اس کے بعد فوجیوں کے ذریعے گھروں میں داخل ہو کر عورتوں کو بے پردہ کر کے انہیں گرفتار کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا اور ۳۰۰ عورتوں کو گرفتار کیا گیا۔ ایک جرمن صحافی ’اسپاستیان پاکوس‘ جو کہ خود بھی گرفتار کر لیا گیا تھا اور اس نے اپنی آنکھوں سے قیدیوں کی گاڑیوں کے اندر خواتین کے ساتھ ہونے والی پولیس اور فوج کی زیادتیوں اور ان کے ساتھ بدتمیزی کا مشاہدہ کیا تھا، وہ کہتا ہے: ’’گرفتاری کے بعد ہمیں اذیتوں اور تعذیبوں سے گزرنا پڑا۔ عزتیں لوٹنے کی بھی کوشش کی گئی۔ ہمیں یقین ہوچلا تھا کہ ہم بھی مار دیے جائیں گے۔ لیکن ایک دن بعد ہمیں رہا کر دیا گیا۔ جرمن سفارت خانے کی مداخلت کے بغیر ہماری رہائی ممکن نہیں تھی۔ البتہ دوسرے قیدیوں کی جہاں تک بات ہے، مجھے ان کے بارے میں کچھ نہیں معلوم‘‘۔ اس کے بعد لکھتا ہے: ’’…نو قیدیوں کے ساتھ ہم دوسری گاڑی میں سوار ہوگئے۔ جب ہم گاڑی میں بیٹھے تو ایک جوان عورت گاڑی میں ہمارے ساتھ تھی۔ گاڑی کے حرکت میں آنے کے چند منٹ بعد ہی ایک شخص، جو اس عورت کے سامنے بیٹھا ہوا تھا، اس سے جسمانی چھیڑ چھاڑ کرنے لگا۔ میں اور میرا ساتھی چِلّا کر احتجاج کرنے لگے، لیکن اس نے ہماری طرف کوئی توجہ نہیں دی، پھر اس نے عورت کا حجاب نوچ ڈالا۔ پھر اس کا سر پکڑ کر شدت سے گاڑی کی دیوار سے دے مارا۔ اور جب اسے یہ یقین ہو گیا کہ وہ اُس عورت سے اپنی مراد حاصل نہیں کرسکتا تو اس کو انتہائی بے رحمی سے مارنے لگا۔ اس وقت میں نے محسوس کیا کہ اس شخص کے ہاتھوں اور پیروں پر پٹیاں بندھی ہوئی ہیں لیکن وہ باقی دوسرے لوگوں کی طرح قیدی نہیں تھا۔ اس کو کوئی سزا بھی نہیں دی گئی۔ نوجوان عورت کے پاس بیٹھے ہوئے شخص نے اس کی مدد کرنی چاہی تو اسی حملہ آور شخص نے اپنی پٹیاں کھول کر اس کے اندر چھپایا ہوا چاقو نکال لیا اور عورت کی مدد کرنے والے شخص کا ہاتھ چیر دیا۔ اس کے ہاتھ سے خون بہنے لگا اور وہ بری طرح چیخنے چلّانے لگا‘‘۔
یہ وہ چند تصویریں ہیں جنہیں ہر وہ شخص ناپسند کرے گا، جس کے اندر انسانیت اور عزت نفس باقی ہے اور جسے مصر کے حال و مستقبل کا خوف ستا رہا ہے۔
(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘ دہلی۔ ۲۸ ستمبر ۲۰۱۳ء)
Leave a Reply