مصر، پرانی راہ پر پھر گامزن!

اس مرتبہ عید الاضحی کے موقع پر مصر میں بحیرۂ احمر کے کنارے ایک تفریحی مقام پر لوگوں کا موڈ خراب ہوگیا۔ ہوا یہ کہ ایک نمایاں مقام پر مصر کے نائب وزیراعظم اور وزیر دفاع جنرل عبدالفتاح السیسی کے دو قدِ آدم پوسٹر لگائے گئے مگر جب فیس بک پر لوگوں نے الٹے سیدھے تبصرے کیے تب حکومت کو کچھ شرم محسوس ہوئی، اور راتوں رات دونوں پوسٹر ہٹا دیے گئے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جنرل عبدالفتاح السیسی کے بارے میں ناگواری اور بدگمانی کا تاثر ختم ہوتا جارہا ہے اور مقبولیت بڑھ رہی ہے۔ سرکاری کنٹرول والے میڈیا نے اب تک ایسا کوئی عندیہ نہیں دیا کہ جنرل السیسی صدارتی انتخاب لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جنوری ۲۰۱۱ء کے انقلاب کے نتیجے میں حسنی مبارک کا اقتدار ختم ہوا تھا اور کچھ مدت کے لیے اخوان المسلمون کو اقتدار میں آنے کا موقع ملا تھا۔ اب وہ دور جاچکا ہے اور سابق حکمراں طبقہ ایک بار پھر اقتدار پر متصرف ہے۔

مصر میں اقتدار پر گرفت مضبوط رکھنے کے وہ تمام اطوار ایک بار پھر اپنائے جارہے ہیں، جو اب تک حکمراں طبقے کے مزاج کا حصہ رہے ہیں۔ پولیس کو مخالفین پر جبر ڈھانے اور انہیں کچلنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ سرکاری کنٹرول والے میڈیا کو مشکوک خفیہ معلومات کے ذریعے پروپیگنڈا پھیلانے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ مساجد میں ائمہ کے خطاب کو بھی حکومت کی مرضی کے مطابق پیش کرنے پر توجہ دی جارہی ہے۔ پولیس کو مظاہرین کے خلاف موثر طور پر استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔ غیر سرکاری تنظیموں کی سخت نگرانی کی جارہی ہے۔ متعلقہ وزیر کا کہنا ہے کہ حکومت کو ہر اس تنظیم اور گروپ کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے، جو ریاست کے خلاف کام کر رہی ہو۔

لوگ اب تک ۱۹۶۰ء کے عشرے کو بھولے نہیں ہیں۔ یہی وہ زمانہ تھا جب اخوان المسلمون کے خلاف بھرپور کارروائی کی گئی۔ اس کے سیکڑوں کارکنوں کو قتل اور ہزاروں کارکنوں کو پابندِ سلاسل کردیا گیا۔ اُس دور کو کسی حد تک واپس لانے کی دُھن میں اب مصری حکمراں ڈھانچا خود کو کسی حد تک امریکا سے دور کرنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ مگر یہ سب کچھ ایسا آسان نہیں جیسا دکھائی دے رہا ہے۔ دونوں ممالک کم و بیش چار عشروں تک ایک دوسرے کے بہت قریب رہے ہیں۔ اس مدت میں مصر کے حکمراں طبقے نے امریکا سے بہت کچھ پایا ہے۔ حسنی مبارک نے امریکا کی مدد سے کم و بیش تیس سال حکومت کی اور جب اقتدار کے آخری لمحات شروع ہوئے تب انہوں نے شکایت کی کہ امریکا اخوان المسلمون کے ذریعے مصر میں جمہوریت کو فروغ دے کر ان کے اقتدار کی کمر توڑ رہا ہے۔ ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ جب انہوں نے اسلامی شدت پسندوں کو کنٹرول کرنے کے لیے امریکا سے مدد مانگی تو اس نے معذرت کرلی۔

مگر اب حالات بہت بدل چکے ہیں۔ مصر کی اسٹیبلشمنٹ نے حکومت کی تبدیلی پر امریکا کی شدید ناراضی کو اخوان المسلمون کے لیے نرم گوشے سے تعبیر کیا ہے۔ واضح رہے کہ اوباما انتظامیہ نے منتخب صدر اور اخوان المسلمون کے رہنما محمد مرسی کی برطرفی پر بدمزگی محسوس کی تھی اور اس کا اظہار بھی کیا تھا۔ امریکا کے لیے احتجاج ناگزیر تھا۔ بات یہ ہے کہ مصر میں پولیس نے مظاہرین کو کچلنے کے معاملے میں غیر معمولی تیزی اور سفاکی دکھائی۔ جون سے اب تک ہزاروں مظاہرین موت کے گھاٹ اتارے جاچکے ہیں اور ان میں اکثریت اخوان سے تعلق رکھنے والوں کی ہے۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ مصر کے پریس میں یہ تاثر پروان چڑھایا جارہا ہے کہ امریکا مصر کے معاملات میں سازش کے ذریعے مداخلت کر رہا ہے۔ میڈیا میں اس حوالے سے آنے والی بیشتر خبریں بے بنیاد اور خاصی مضحکہ خیز ہیں مگر اس کے باوجود امریکا انتشار پھیلانے والی طاقت کی حیثیت سے تو پیش کیا ہی جارہا ہے۔

اوباما انتظامیہ نے حال ہی میں مصر کے لیے ڈیڑھ ارب ڈالر کی امداد کے ایک بڑے حصے کی معطلی کا اعلان کیا ہے۔ اس کا ایک حصہ فوجی امداد سے متعلق ہے۔ ۱۹۵۰ء کے عشرے میں بھی ایسا ہوا تھا۔ جب مصر نے اسوان ڈیم کے لیے مالیاتی ذرائع کی عدم فراہمی پر مغرب کا ساتھ چھوڑ کر سابق سوویت یونین کی طرف دیکھنا شروع کردیا تھا، تب امریکا اور یورپ کو تشویش لاحق ہوئی تھی۔ اب پھر قاہرہ میں کہا جارہا ہے کہ معیشت کو سہارا دینے کے لیے قابل اعتبار سرپرستوں کی ضرورت ہے۔ جمال عبدالناصر سے غیر معمولی عقیدت رکھنے والے چند سیاست دانوں نے حال ہی میں ماسکو کا دورہ بھی کیا ہے اور یہ کہا جارہا ہے کہ شاید مصر کو نیا سرپرست مل گیا ہے۔

(“Egypt: Back to the Bad Old Ways”…”The Economist”. Oct. 19th, 2013)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*