
سلطنت نے پلٹ کر حملہ کرتے ہوئے بھرپور انتقام لیا ہے۔ اگر کسی کو انتقام والی بات پر یقین نہیں تو برطانوی صحافی رابرٹ فسک کے مضمون کو پڑھ کر دیکھ لے۔ اس نے لکھا ہے کہ مصر میں منتخب حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد فوج نے مزاحمت اور احتجاج کرنے والوں کے خلاف کوئی بھی قدم اٹھانے سے گریز نہیں کیا۔ چھ ہفتوں میں عورتوں اور بچوں سمیت سیکڑوں افراد کو موت کے گھاٹ اتارا جاچکا ہے۔ اگر برطرف کیے جانے والے صدر محمدمرسی کو سزائے موت نہ بھی دی جائے اور جاں بخشی کردی جائے تو یہ حقیقت اپنی جگہ رہے گی کہ سلطنت نے اپنی طاقت بھرپور انداز سے منوائی ہے اور عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالا ہے۔ کیا آپ اب تک اس بات کی راہ تک رہے ہیں کہ ایٹمی توانائی کے بین الاقوامی ادارے آئی اے ای اے کے سابق سربراہ محمد البرادعی، مصر کی آئینی عدالت کے سربراہ اور عبوری صدر عدلی منصور اور امریکی صدر بارک اوباما مصر میں فوجی بغاوت کو فوجی بغاوت کہتے ہیں یا نہیں۔
معاف کیجیے گا، میں تھوڑا سا جذباتی ہوگیا تھا۔ آئیے ذرا تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں۔ ۳۰ سال قبل لاطینی امریکا کے ملک چلی میں بھی یہی کچھ ہوا تھا۔ ملک کے پہلے باضابطہ منتخب صدر سلواڈور ایلینڈے نے آگسٹو پنوشے پر بھروسا کرکے اُسے آرمی چیف بنایا اور پھر یہ ہوا کہ پنوشے ہی نے اقتدار پر قبضہ کرکے سلواڈور ایلینڈے کو نا اہل اور کرپٹ قرار دیا۔ اس پر طاقت کے ناجائز استعمال کا الزام بھی عائد کیا گیا۔ فوج نے نام نہاد عوامی حمایت سے بغاوت کی یعنی منتخب حکومت کا تختہ پلٹ دیا۔ یہ سب کچھ امریکا کی معاونت سے ہوا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مصر میں جو کچھ ہوا ہے وہ کب تک چلتا رہے گا۔
چلی کے معاملے میں سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن اور سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کو یہ فکر لاحق تھی کہ کہیں ڈیموکریٹک سوشلزم کامیاب نہ ہوجائے۔ ایسا ہو جاتا تو پورے خطے میں لوگ جمہوری طریقے سے اپنے حقوق مانگنے کھڑے ہو جاتے۔ مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت قائم ہوئی تو خطے میں کئی ممالک کی پریشانی بڑھ گئی۔ سعودی عرب، کویت اور متحدہ عرب امارات نے مصر میں منتخب حکومت کے قائم ہونے کو اپنے لیے خطرے کی گھنٹی سمجھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اخوان المسلمون کی حکومت کو ناکامی سے دوچارکرنے کے تمام منصوبوں کی بھرپور حمایت کی جانے لگی۔ اخوان نے امریکا اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی ختم کرائی اور فلسطینیوں کی آزادانہ نقل و حرکت یقینی بنائی۔ مصر کو ترکی، ایران، بھارت اور پاکستان کے برابر لا کھڑا کیا گیا۔ یہ سب کچھ کرنے پر سلواڈور ایلینڈے کی طرح محمد مرسی کی مقبولیت کا گراف بھی بلند ہوا۔ امریکا کو یہ خوف لاحق ہوا کہ کہیں اخوان المسلمون مقبولیت میں دوسری جماعتوں سے آگے نہ نکل جائے۔ خطے کے جن بڑے ممالک میں آمریت اور بادشاہت ہے، وہ بھی پریشان ہوگئے۔ ان کے لیے محمد مرسی کی حیثیت سڑے ہوئے سیب کی سی تھی! یعنی اِس سیب کو نکال کر نہ پھینکا گیا تو ٹوکری میں رکھے ہوئے تمام سیب سڑ جائیں گے۔
مصر میں حسنی مبارک کے دور میں جن لوگوں کو مختلف شعبوں میں قدم جمانے کا موقع ملا، وہ اب تک اُس کے وفادار ہیں۔ حسنی مبارک کے حامی اور وفادار اب اصطلاحاً ڈیپ گورنمنٹ کہلاتے ہیں۔ یہ لوگ وزارتوں، محکموں اور سرکاری اداروں کی جڑوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کسی بھی مرحلے پر صدر مرسی کو کھل کر کام کرنے کا موقع نہیں دیا۔ قدم قدم پر مشکلات پیدا کیں۔ دو سال کی مدت میں وہ مسلسل کوشش کرتے رہے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح جمہوریت کی بساط لپیٹیں اور ایک بار پھر معاملات کو مطلق العنانیت کی طرف لے جائیں۔ یہ طریقِ کار منظم اور پیچیدہ ہے جس کا جائزہ لینا ہی پڑے گا۔
مصر میں فوج نے ریئل اسٹیٹ اور دوسرے کاروباری شعبوں میں پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ فوج اپنے کاروباری مفادات کو ہر قیمت پر تحفظ دینا چاہتی ہے۔
افریقا میں سب سے بڑی فوج مصر کی ہے۔ اور یہی فوج خطے میں اسرائیل کے بعد امریکی امداد کی سب سے بڑی وصول کنندہ بھی ہے۔ فوج کے لیے لازم ہوگیا ہے کہ اپنے کاروباری مفادات کو تحفظ دینے کے لیے کسی بھی حد سے گزر جائے، کچھ بھی کر جائے۔ غور سے دیکھیے تو دو سال قبل تحریر اسکوائر میں جمہوریت نواز مظاہروں کے دوران فوج کے لوگ بھی مظاہرین کی صفوں میں شامل ہوئے اور معاملات کو بگاڑنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ جن لوگوں نے حسنی مبارک کے دور میں خوب مزے کیے ہیں اور ہر دم بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں، انہوں نے مل کر ایک طبقے کو جنم دیا ہے۔ اس طبقے سے تعلق رکھنے والے ایک دوسرے کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ رند کے رند رہیں اور ہاتھ سے جنت بھی نہ جائے۔
دو سال قبل جب حسنی مبارک کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا، تب حسنی دور میں مزے کرنے والوں نے خود کو محفوظ رکھنے کی بھرپور تیاری کی۔ میڈیا، سرکاری اداروں اور سکیورٹی ایجنسیوں میں ان کی کمی نہیں۔ عدلیہ میں بھی حسنی دور کے لوگوں کے وفادار بیٹھے ہیں۔ ان لوگوں نے کبھی ایک دن بھی محمد مرسی کو سکون کا سانس لینے کا موقع نہیں دیا۔
حسنی مبارک نے جب اپنے اقتدار کا سورج ڈوبتا ہوا دیکھا تو اسے بچانے کی بھرپور کوشش کی۔ جمہوریت کی بات کرنے والوں کو بھرپور قوت سے کچلنے کی کوشش کی گئی۔ محمد مرسی کے حامیوں کو غیر موثر کرنے کے لیے کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا گیا۔ حسنی مبارک نے اصلاحات کے نام پر چند نمائشی اقدامات خاصی بے دِلی سے کیے اور جب دیکھا کہ دال نہیں گل رہی تو اِن اقدامات کی بساط بھی لپیٹی اور طاقت کے بھرپور استعمال سے محمد مرسی اور ان کے حامیوں کو دبوچنے کی کوشش کی۔ نوم چومسکی نے اپنی کتاب ’’ہوپز اینڈ پروسپیکٹز‘‘ میں لکھا ہے کہ حسنی مبارک نے جو کچھ بھی کیا وہ اپنے آقاؤں اور سرپرستوں کی مدد سے کیا۔ اس کے بغیر وہ کچھ بھی نہ تھا۔
جو کچھ ۲۰۱۱ء میں درست تھا وہی کچھ ۲۰۱۳ء میں بھی درست ہی ہے۔ حسنی مبارک کے حامیوں نے جو سازش رچی اور اس پر عمل بھی کیا، وہ کسی بھی حالت میں امریکی ایوان صدر کی طرف سے تختہ الٹنے کا عمل یا بغاوت قرار نہیں دی جائے گی۔ امریکی وفاقی حکومت کی چند دستاویزات حال ہی میں الجزیرہ ٹی وی نے شائع کی ہیں، جن میں بتایا گیا ہے کہ مصر میں چند سیاسی عناصر کو امریکا کی طرف سے فنڈنگ کی گئی تاکہ وہ منتخب حکومت کو بے توقیر کرنے کی بھرپور کوشش کریں۔ امریکا چاہتا تھا کہ مصر میں سیکولر عناصر کی پسپائی تھم جائے۔ اس نوعیت کی فنڈنگ مصری قوانین کے علاوہ خود امریکی قوانین کے تحت بھی غیر قانونی ہے۔ مصر میں فوجی بغاوت کے برپا ہوتے ہی غیر ملکی امداد سیلاب کی طرح چلی آرہی ہے۔ سعودی عرب نے نے پانچ ارب، کویت نے چار ارب، متحدہ عرب امارات نے تین ارب اور امریکا نے ڈیڑھ ارب ڈالر کی امداد کا اعلان کیا ہے۔
آیے، ہم کھل کر یہ اعلان کریں کہ منتخب حکومت کا تختہ الٹ دینا، جمہوریت کی بساط مکمل طور پر لپیٹ دینا کہیں اور تو بغاوت قرار دیا جاسکتا ہے، مصر میں اِسے بغاوت قرار دینے کا کوئی جواز نہیں! مزید یہ کہ کسی منتخب صدر کو ایک سال کے اندر ہی برطرف کردینا اور پارلیمنٹ کو تحلیل کردینا، کہیں اور تو غیرجمہوری اقدام ہوسکتا ہے، مصر میں اسے غیر جمہوری قرار نہیں دیا جاسکتا۔
وزیر دفاع اور آرمی چیف نے جس آئین کی پاسداری کا حلف اٹھایا تھا، اسی آئین کو روندتے ہوئے کابینہ میں جا بیٹھے۔ کیا یہ نہ سمجھا جائے کہ مصر میں ۲۰۱۱ء تک جو لوگ اقتدار پر قابض تھے، وہی ایک بار پھر اقتدار کے ایوانوں پر قابض ہوچکے ہیں؟ آئینی عدالت کے سربراہ عدلی منصور کو عبوری صدر مقرر کیا گیا جبکہ وہ ۱۹۹۲ء سے حسنی مبارک کے سیٹ اپ کا حصہ ہیں اور اس سیٹ اپ کے مفادات کے لیے کام کرتے رہے ہیں۔
حسنی مبارک کی باقیات کو انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا گیا تھا۔ فوجی بغاوت کے بعد اس قانون کو کالعدم قرار دے کر ان تمام لوگوں کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دے دی گئی ہے، جن پر کرپشن اور اقربا پروری سمیت سنگین الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ سابق وزیر اعظم احمد شفیق کو بھی صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ عدلی منصور نے قاہرہ کی سینٹرل کورٹ کی بھی نگرانی کی ہے جس نے ۲۰۱۱ء کی عوامی بیداری کے دوران مظاہرین پر گولیاں برسانے والے فورسز اہلکاروں اور اونٹوں پر سوار اہلکاروں کو تمام مقدمات میں بری کردیا تھا۔ اس وقت عدلی منصور ان ۷۰ ججوں کو برطرف کرنے کی تیاری کر رہے ہیں جو فوجی بغاوت کو جائز اقدام قرار دینے سے گریز کر رہے ہیں۔ جنوری ۲۰۱۱ء میں مصر میں جو کچھ ہوا، اس میں اور جولائی ۲۰۱۳ء کے اقدامات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اب لوگ واضح طور پر دو گروپوں میں بٹ چکے ہیں۔ تب سیاسی امور میں فوجی مداخلت کو کسی نے درست قرار نہیں دیا تھا۔ اور تب ایسے کسی بھی اقدام کی کوئی گنجائش نہیں تھی جس کے نتیجے میں قومی وحدت اور یکجہتی متاثر ہوتی ہو۔ جون ۲۰۱۳ء میں پارلیمانی انتخابات ہونے تھے مگر اپوزیشن تیار نہ ہوئی۔ اس کا کہنا تھا کہ اخوان المسلمون نے سرکاری مشینری کو کنٹرول کر رکھا ہے۔ اپوزیشن کا مطالبہ تھا کہ صدر مرسی مستعفی ہوں، تب وہ انتخابات میں حصہ لے گی۔ آئینی عدالت کی نظر پورے انتخابی عمل کی نگرانی کرنے والی واحد منتخب شخصیت محمد مرسی پر تھی۔ اب یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور سکیورٹی سیٹ اپ کسی بھی سطح پر اخوان المسلمون کے کنٹرول میں نہ تھا۔ اگر ہوتا تو اس کی حکومت کی بساط ہرگز لپیٹی نہ جاتی۔
معاملات کو خراب ہونے دیا گیا، ایندھن کی قلت پیدا کی گئی۔ جب صدر مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تب جرائم کو کنٹرول کرنے کے لیے پولیس بھی سڑکوں پر دکھائی دینے لگی اور ایندھن کی رسد بھی کافی ہوگئی۔ کیا اِس سے یہ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کہ صدر مرسی کی حکومت کے خلاف سازش کی گئی اور معاملات کو اس حد تک بگاڑا گیا کہ لوگ منتخب حکومت کے خلاف ہوجائیں۔ اپوزیشن نے اس صورتِ حال سے پورا فائدہ اٹھایا ہے تاکہ آئندہ عام انتخابات میں اخوان المسلمون کی فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کو شکست سے دوچار کیا جاسکے۔
مصر کا سرکاری میڈیا اب وہی راگ الاپ رہا ہے جسے الاپنے کی اسے ہدایت کی گئی ہے۔ برطرف صدر محمد مرسی پر جیل توڑنے کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے اور ان کے لیے سزائے موت کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ دوسری طرف یہ میڈیا ’’الجزیرہ‘‘ چینل کے معروف اسکالر علامہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی اور اخوان المسلمون کے مُرشدِ عام ڈاکٹر محمد بدیع کے لیے سزائے موت کی وکالت بھی کر رہا ہے۔
مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت کی بساط لپیٹے جانے کا مسلم دنیا پر گہرا اثر مرتب ہوگا۔ مسلم شدت پسند گروپ اپنے ہم نواؤں کو باور کرانے میں کامیاب ہوں گے کہ مغرب جمہوریت کو مسلم معاشروں کے لیے درست نہیں سمجھتا۔ اِس صورتِ حال میں القاعدہ کا پیغام سُننے والے مسلم نوجوانوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوگا۔ ایمن الظواہری اور ان کے ساتھی مسلم نئی نسل کو آسانی سے باور کراسکیں گے کہ جمہوریت میں کچھ نہیں رکھا، جو کچھ بھی حاصل کرنا ہے، طاقت ہی سے حاصل کرنا ہوگا۔
(“Egypt Coup: a page straight out of Latin America”… Daily “Dawn”. July 30, 2013)
Leave a Reply