
جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے (آئی اے ای اے) کے سابق سربراہ اور مصری سیاست میں نووارد ڈاکٹر محمد البرادعی مصری انتخابات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ گزشتہ دنوں ایک بار پھر دھاندلیوں سے بھرپور انتخابات منعقد ہوئے۔ووٹ خریدے گئے اور بیلٹ باکس بھرے گئے۔ جن لوگوں کے بارے میں شبہ تھا کہ وہ اپوزیشن جماعتوں کو ووٹ دیں گے انہیں پیشہ ور غنڈوں نے تشدد کا نشانہ بنایا، انسانی حقوق کی تنظیموں کے پاس ان تمام انتخابی دھاندلیوں کے دستاویز ی ثبوت موجود ہیں۔بظاہر مصر میں آئین موجود ہے جو مصری عوام کی مرضی کی عکاسی کرتے ہیں لیکن عملاً حکمرانی حسنی مبارک کی ہے۔پرامن مظاہرہ کرنے کے لیے پانچ سے زیادہ افراد بغیر اجاز ت اکٹھا نہیں ہوسکتے جب کہ جامعات میں سیکیورٹی فورسز موجود ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ طلباء سیاست سے دور رہیں۔
حالیہ دنوں میں ہونے والی آئینی ترمیم کے بعد یہ بات تقریباً ناممکن ہوگئی ہے کہ صدارتی انتخابات میں کوئی آزاد امیدوار حصہ لے سکے۔ البرادعی لکھتے ہیں کہ گزشتہ بارہ ماہ سے وہ مصر میں اصلاحات کے لیے مہم چلارہے ہیں،ان کے پاس انٹرویوز کی درخواستوں کا ایک طوفان آیا ہوا تھا تاہم میڈیا پر حالیہ کریک ڈائون کے بعد شاید ہی کسی مقامی ٹیلی ویژن چینل نے ان سے رابطہ کرنے کی جرات کی ہو۔
وہ لکھتے ہیںکہ مصری پارلیمنٹ کسی بھی طرح مصری عوام کی نمائندگی نہیں کرتی، مصر میں کوپٹک عیسائیوں کی تعداد دس فیصد ہے لیکن پارلیمنٹ میں ان کے پاس صرف ۳ نشستیں ہیں،۲۰۰۵ کے انتخابات میں ۲۰ فیصد (۸۸) نشستیں حاصل کرنے والی دینی جماعت اخوان المسلمون کو نومبر میں منعقدہ انتخابات میں ایک نشست بھی حاصل نہیں کرنے دی گئی لہٰذا اب پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی نہیں ہے۔ ملک کی بڑی لبرل جماعت وفد پارٹی صرف ۶ نشستیں حاصل کرسکی۔ انتخابات کے پہلے مرحلے میں بڑے پیمانے پر ہونے والی دھاندلی کے سبب ان دونوں جماعتوں نے اگلے مرحلے کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔
مصر کی اقتصادی صورتحال کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں کہ ۴۰ فیصد سے زائد آبادی دو ڈالر سے کم روزانہ پر زندگی گزاررہی ہے۔ ۳۰ فیصد کے قریب آبادی غیر تعلیم یافتہ ہے۔ مضمون کے آخر میں البرادعی لکھتے ہیں کہ جبر کی بنیاد پر مصر میں نظر آنے والا نیم استحکام ایک بم ہے جو خطرناک حد تک پھٹنے کے قریب ہے۔ کسی بھی ملک کی طرح مصر میں دیرپا امن صرف حقیقی جمہوریت کے ذریعے ممکن ہے جو عوام کی امنگوں اور خواہشات کی عکاس ہو۔ (واشنگٹن پوسٹ، ۲۶؍دسمبر ۲۰۱۰ء) محمد البرادعی کا یہ تبصرہ مصر اور مصری انتخابات کی حقیقت کو بے نقاب کرنے کے لیے کافی ہے۔
مصر میں جولائی ۱۹۵۲ء کے فوجی انقلاب کے بعد سے مسلسل رائے عامہ کو بزور بازو کچلنے کا سلسلہ جاری ہے،اس کی ابتدا ۱۹۵۴ء میں ملک کی سب سے بڑی اور مقبول جماعت اخوان المسلمون کے خلاف کریک ڈائون سے ہوئی۔اس دوران نہ صرف کئی ہزار افراد کو گرفتار کرکے طویل عرصے کے لیے پابند سلاسل کیا گیا بلکہ عبدالقادر عودہ جیسے نامور قانون دان کو پھانسی دی گئی۔ جمال ناصر کی زیر قیادت فعال اس انقلابی حکومت کے زمانے میں بدترین تشدد کا دوسرا مرحلہ ۱۹۶۶ء میں شروع ہوا تو اس بار سیّد قطب جیسے عالم و فاضل شخصیت کو موت کی سزا دی گئی۔
اس بارہ سالہ دور (۱۹۵۴ء تا ۱۹۶۶ء) میں بلامبالغہ ہزاروں افراد کو قید و بند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑا اور سینکڑوں قیمتی ذہن مصر سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے جب کہ لاتعداد افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔عرب قوم پرستی کے جنون میں مبتلا ناصر ۱۹۷۰ میں اپنے انجام کو پہنچا تو اقتدار کی باگ دوڑ انور سادات نے سنبھالی جس نے نہ صرف مصر کو امریکا سے قریب کیا بلکہ اسرائیل کو بھی تسلیم کرلیا۔ سادات کے اس اقدام پر پورے مصر میں غم و غصہ پایا جاتا تھا اور اسے ۱۹۸۱ میں ایک فوجی پریڈ کے دوران قتل کردیا گیا۔ کرنل نجیب (۲سال)، ناصر (۱۴ سال) اور سادات (۱۱سال) کے بعد قرعہ فعال حسنی مبارک کے نام نکلا۔ ان کا تعلق بنیادی طور پر مصری فضائیہ سے تھا۔
حسنی مبارک ۱۹۸۱ء میں منصب صدارت پر فائز ہونے کے بعد سے تقریباً تین عشروں سے مصر پر حکومت کررہے ہیں۔ یوں مصری عوام اپنی امنگوں اور خواہشات کے ۵۴ سال بدترین آمریت کی نذر کر چکے ہیں۔ حسنی مبارک جو کہ اب ۸۲ سال کے ہوچکے ہیں اپنے بیٹے کو صدارتی امیدوار کے طور پر سامنے لانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
صدارتی انتخابات سے قبل ۲۸؍ نومبر کو مصر میں پارلیمانی انتخابات کا انعقاد ہوا۔یہ انتخابات دو مرحلوں میں منعقد ہوئے دوسرا مرحلہ پانچ دسمبر کو تھا۔ پہلے مرحلے میں ہونے والی بڑے پیمانے پر دھاندلیوں کے بعد دو بڑی جماعتوں اخوان المسلمون اور وفد پارٹی نے انتخابات کے دوسرے مرحلے کا مکمل بائیکاٹ کیا،محمد البرادعی نے پہلے ہی انتخابی عمل کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا تھا۔ یوں ۱۹۷۸ء میں اپنے قیام کے وقت سے برسراقتدار نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی پارلیمنٹ کی ۹۰ فیصد نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ انتخابی عمل کے دوران اخوان المسلمون کو، جس کا نعرہ اسلام ہی مسائل کا حل ہے، سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے ۱۴۰۰ کارکنان و حامیوں کو گرفتار کیا گیا۔ انتخابات سے قبل ہی اخوان کی جانب سے کئی نامز د امیدواروں کو نااہل قرار دے دیا گیا تاہم عدالتوں نے اکثر کو بحال کردیا لیکن ان امیدواران کے نام بیلٹ پیپر سے غائب تھے۔ انتخابی نتائج کے بعد اپنے ایک بیان میں اخوان المسلمون کے مرشد عام نے کہا کہ ہم پر امن طریقے سے سیاسی نظام میں اصلاح کی جدوجہد جاری رکھیں گے، تاہم اخوان دیگر حکومت مخالف جماعتوں کے ساتھ مل کر اپنی آواز بلند کرتی رہے گی۔
مصری انتخابات کے نتائج کے حوالے سے زیادہ حیرانی کی بات یہ ہے کہ امریکا جو عرب دنیا میں جمہوریت متعارف کرانے کے نعرے لگاتا ہے اور جسے ایران کے صدارتی انتخابات کے نتائج پر سخت تشویش تھی مصری انتخابات پر صرف تشویش کے اظہار کو ہی کافی سمجھا۔یہی معاملہ مغربی ذرائع ابلاغ کا تھا جسے آج ایک عرصہ گزرنے کے بعد بھی ایرانی صدارتی انتخابات تو متنازعہ دکھائی دیتے ہیں لیکن مصری انتخابات میں ہونے والی بدترین دھاندلیوں کو خاموشی سے ہضم کر گیا۔
☼☼☼
Leave a Reply