
کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے نتیجے میں مصر اور اسرائیل کے باہمی تعلقات قائم ہوئے تھے۔ اس معاہدے کی بابت عالمی ذرائع ابلاغ نے یہ تاثر دیا تھا کہ یہ معاہدہ مصریوں کے لیے خصوصاً اور مشرق وسطیٰ کے لیے عموماً امن و سلامتی کا نقطۂ آغاز اور اقتصادی ترقی کا باعث بنے گا، لیکن نتائج اس کے بالکل برعکس نکلے۔
اس معاہدہ کے بعد علاقہ میں اسرائیلی جارحیت اور مختلف النوع جنگوں میں اضافہ ہوا اور مصر کی اقتصادی زبوں حالی نے قوم کا گلا گھونٹ دیا۔ ہر ذی شعور یہ سب کچھ دیکھ رہا ہے اور سرکاری اعداد و شمار و رپورٹیں بھی اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہیں کہ یہودیوں نے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی آڑ میں مصری معاشرے کو تباہ و برباد کرنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جن میں منشیات کی اسمگلنگ اور فحاشی و ایڈز کو عام کرنا سرفہرست ہے۔ نیز مصری اقتصادیات کو تباہ کرنے کے لیے اسرائیلیوں نے جعلی ڈالر مصر میں اسمگل کیے اور ایسے زہریلے بیج، خوراک اور کھادیں سپلائی کیں جن سے مصری زراعت اور مویشیوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ اس معاہدے کے نتیجہ میں ہی اسرائیلی جاسوسوں کو سیاحوں کے روپ میں مصر کی جاسوسی کرنے کا موقع ملا۔
اس سب کے باوجود ایک عرصہ سے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ امن و سلامتی اور پُرامن بقائے باہمی کے خوشنما نعروں کے نام پر یہ کوششیں ہو رہی ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک بھی اسرائیل کے ساتھ ایسے ہی تعلقات قائم کریں۔ بالفرض اگر دیگر ممالک نے بھی اسرائیل کے ساتھ ایسا کوئی معاہدہ کیا تو اس کے کتنے بھیانک نتائج ہوں گے، درج ذیل حقائق سے اس کا اندازہ ہو سکے گا۔
یہودی سیاح
مصر اسرائیل تعلقات کی بحالی کے بعد مصر میں اسرائیلی سیاحوں کا ایک سیلاب امڈ آیا۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کے بعد سے ۱۹۸۸ء تک ۳۳ فیصد اسرائیلی سیاحت کی غرض سے مصر آئے جن کے خطرناک تخریبی عزائم کا اندازہ ۱۹۹۰ء میں مصر کے ایک ذمہ دار محکمہ کی طرف سے شائع ہونے والی رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے کہ زمینی راستوں سے آنے والے ۸۰ فیصد سے زیادہ سیاح مصر میں طویل المدت قیام کرتے ہیں۔ وہ تیسرے درجے کے ہوٹلوں، پرائیویٹ مکانوں اور نوجوانوں کے ہاسٹلوں کے قریب رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ اس دوران وہ مصری نوجوانوں کی اخلاقیات کو بگاڑنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں اور اس مقصد کی تکمیل کے لیے اپنے ہمراہ لڑکیاں اور منشیات بھی لاتے ہیں۔
یہودی سیاحوں کے مذموم مقاصد اخلاقیات کی تباہی تک ہی محدود نہیں۔ ان کا مقصد خطرناک متعدی امراض پھیلانا بھی ہوتا ہے کہ ان میں بہت سے سیاح ایڈ جیسے مہلک مرض میں مبتلا ہوتے ہیں… بطور مثال ایک بدنامِ زمانہ کیس کا حوالہ دینا کافی ہے کہ ۱۹۹۰ء میں چارلس نامی یہودی سیاح کو گرفتار کیا گیا جو ایڈ کا مریض تھا اور اس نے مصر میں قیام کے دوران ۲۰۰ غریب مصری بچوں کو پیسوں کا لالچ دے کر ان سے بدفعلی کی تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ایڈ کا مرض لاحق ہو، لیکن افسوس کہ اس مجرم کو چھڑانے کے لیے امریکا نے مصرپر دبائو ڈالا اور اسے کسی سزا کے بغیر چھوڑ دیا گیا۔
اسرائیلی اکیڈمی کا قیام
قاہرہ میں اسرائیل نے تحقیق کے نام پر ایک اکیڈمی قائم کی ہے جس کے اہم مقاصد صدیوں ظاہر کیے گئے ہیں:
۱۔ تمام ایسے اقدامات جن سے ثابت ہو کہ مسلمانوں اور یہودیوں کے اختلافات بنیادی نوعیت کے نہیں۔
۲۔ اسلامی تاریخ و ثقافت کی تدوین نو (تاکہ یہودیوں کے تاریخی جرائم پر پردہ ڈالا جا سکے)
۳۔ تعلیمی مناہج کا ازسرِنو جائزہ لینا تاکہ قابلِ حذف چیزوں کو نکال دیا جائے۔ (اس مقصد میں اسرائیلی کاوشیں رنگ لائیں اور تعلیمی مناہج سے ایسی تمام آیات و احادیث اور واقعات حذف کر دیے گئے جن میں یہود کی خباثت، خیانت، عہد شکنی اور اسلام دشمنی کا تذکرہ ہے)
۴۔ ریڈیو، ٹی وی اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ثقافتی و تاریخی مضامین و پروگراموں کا تبادلہ (اس منصوبہ کے ضمن میں ایسے پروگراموں کی اشاعت مقصود ہے جن سے عرب عوام کو یہ تاثر دیا جا سکے کہ فلسطین یہودیوں کی اصل سرزمین ہے)
اہلِ دانش اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان عناصر میں یہودیوں نے کس عیاری سے اپنے دور رس مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ واضح رہے کہ اس اکیڈمی کے انتہائی خطرناک خفیہ مقاصد اس کے علاوہ ہیں جن کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ سالوں میں پکڑے جانے والے اکثر اسرائیلی جاسوسوں کا تعلق اسی اکیڈمی سے تھا۔
جاسوسی
سیاحت کے بہانے آنے والے اسرائیلی مصر کے ہر کونہ میں پہنچ کر حساس مقامات اور اہم تنصیبات کے نقشے اور دیگر اہم معلومات جمع کر کے اسرائیل لے جاتے ہیں۔
۱۔ اگست ۱۹۸۵ء میں مصریوں نے قاہرہ میں جاسوسی کرنے والے ایک گروہ کو گرفتار کیا جن میں اسرائیلی سفارت خانہ کے ملازمین، فوجی مشیر اور اسرائیلی اکیڈمی کے بعض ماہرین شامل تھے۔ ان کے ہمراہ دو امریکی بھی تھے جو رفاہی تعاون کے بہانے مصر آئے تھے۔ یہ گروہ اسرائیلی سفارتخانہ کے جدید ترین وائرلیس نظام کی مدد سے مصر کی تازہ ترین رپورٹ تل ابیب بھیجتا تھا۔
۲۔ جولائی ۱۹۸۷ء میں مصری وزارتِ خارجہ نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ اسرائیلی اکیڈمی کے سربراہ کو واپس بلا لیا جائے۔ ساتھ ہی ایک تفصیلی رپورٹ میں اس کی جاسوسی سرگرمیوں کا تذکرہ بھی کیا گیا۔
۳۔ جنوری ۱۹۸۹ء میں مصری پولیس نے قاہرہ کے ایک ہوٹل میں اسرائیل کا ایک بہت بڑا جاسوسی مرکز دریافت کیا۔
۴۔ ۱۹۸۹ء میں اسرائیلی اکیڈمی قاہرہ کے تین ماہرین کو جاسوسی میں ملوث ہونے کے سبب مصر بدر کیا گیا۔
۵۔ ۱۹۸۹ء میں چار اسرائیلی جاسوس پکڑے گئے جن کے پاس ۷ برطانوی جعلی پاسپورٹ اور ۱۹ مائیکرو فلمیں تھیں جن میں مصر کی فوجی تنصیبات کی بابت انتہائی اہم معلومات تھیں۔
۶۔ ۱۹۹۲ء میں چار سیاحوں کو گرفتار کیاگیا جن میں تین یہودی، باپ بیٹا، بیٹی اور ایک انگریز تھا۔ جاسوسی کا یہ کیس ذرائع ابلاغ میں ’’آل مصراتی‘‘ کے نام سے مشہور ہوا اور ان پر مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا گیا، لیکن مصری قوم کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے اسرائیلی ٹی وی پر دیکھا کہ یہ چاروں جاسوس اسرائیل پہنچ چکے ہیں اور گرم جوشی سے ان کا استقبال کیا جا رہا ہے۔ مصری حکومت نے انہیں کیوں رہا کیا، یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔
جعلی ڈالروں کی اسمگلنگ
گزشتہ عرصہ میں مصری اقتصادیات کو تباہ کرنے کے لیے اسرائیلی سیاحوں نے بھرپور کوششیں کیں، جن میں ڈالروں کی اسمگلنگ سرفہرست ہے۔ اس طرح کے سینکڑوں کیس تو وہ ہیں جو پکڑے گئے۔ بطور مثال:
۱۔ ۱۹۸۸ء میں اسرائیلی سیاحوں کے ہمراہ ۴۰ لاکھ جعلی ڈالر تھے جو پکڑے گئے۔
۲۔ ۱۹۸۹ء میں گیارہ اسرائیلیوں کو گرفتار کیا گیا جن کے پاس ۲۰ لاکھ جعلی ڈالر تھے۔ ان یہودیوں نے اعتراف کیا کہ وہ ایک خفیہ ایجنسی کے منصوبہ کے مطابق یہ کام کرتے ہیں جس کا مرکز تل ابیب میں ہے اور اس کا سربراہ ایک ریٹائر فوجی آفیسر ہے۔ نیز یہ کہ وہ اس سے قبل کئی دفعہ جعلی ڈالروں کی کامیاب اسمگلنگ کر چکے ہیں۔
۳۔ اس مکروہ سازش میں یہودیوں کے مذہبی پیشوا بھی شریک ہیں کہ قاہرہ میں یہودی معبد کے قریب ایک یہودی پیشوا کو پکڑا گیا جس کے پاس ایک لاکھ تیس ہزار جعلی ڈالر تھے۔ الغرض سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۱۹۸۴ء میں جعلی ڈالروں کی اسمگلنگ کے ۳۴ اور ۱۹۸۹ء سے ۱۹۹۰ء تک ۱۴۵ کیس پکڑے گئے۔
زراعت کی تباہی
دوستی کی آڑ میں دشمنی کرنے والے بزدل اسرائیلیوں نے مصری قوم کو خطرناک قحط سالی میں مبتلا کرنے کی مسلسل کوششیں کیں۔ جن کا آغاز ۱۹۸۴ء میں زرعی تعاون کے معاہدے سے ہوا۔ اس میں مصر کی زرعی اراضی پر تحقیق کے لیے اسرائیلی و مصری ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی اور امریکی حکومت نے مالی اخراجات اپنے ذمہ لیے۔ اس معاہدے کا نتیجہ یہ نکلا کہ:
۱۔ ۱۹۸۴ء سے ۱۹۹۰ء تک اسرائیل کے ۱۵۵۰ زرعی ماہرین نے مصر کا دورہ کیا جبکہ مصر کے صرف ۱۸۰ زرعی ماہرین نے فلسطین کا دورہ کیا۔ یوں مصر کے زرعی پروگرام میں اسرائیلیوں کا اثر و رسوخ بڑھنا شروع ہوا، اور انہوں نے زرعی تحقیق کے بہانے وسیع اراضی پر مشتمل ایسے زرعی فارم بنا لیے جن میں اسرائیلیوں کے علاوہ کسی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ فارم مصر کے مشہور علاقوں جمیزہ، شرقیہ، اسماعیلیہ اور بحیرہ میں موجود ہیں۔
۲۔ مصری زراعت کے تفصیلی تجربات کے بعد یہودیوں کی تخریبی سرگرمیوں کا آغاز یوں ہوا کہ انہوں نے مصری زمینداروں کو ایسے بیج فراہم کیے جن کا جھاڑ اور پھل ابتداً ایک دو سال بہت اچھا تھا۔ نتیجتاً یہ بیج بہت مقبول ہوئے، لیکن مصریوں کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب یہ انکشاف ہوا کہ ان بیجوں کی پیداوار میں مختلف بیماریاں جنم دینے والے زہریلے اثرات ہیں، خصوصاً گردہ کے امراض۔ نیز ان بیجوں کے استعمال سے زمین کی مٹی میں بھی ایسے جراثیم پھیل گئے جن سے پیداوار کم ہو گئی ہے۔ صرف ۱۹۸۹ء میں اس قسم کے ۴۴۶ کیس پکڑے گئے۔
۳۔ ۱۹۸۶ء میں مصری حکام نے اسرائیل سے درآمد شدہ ۳۰۰ ٹن کھاد قبضہ میں لی، کیونکہ عالمی سطح پر اس کا استعمال ممنوع ہے او ریہ فصلوں کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ ۱۹۹۰ء میں عالمی محکمہ خوراک و زراعت نے انکشاف کیا کہ بعض اسرائیلی کمپنیوں نے زہریلی کھاد مختلف ملکوں کو سپلائی کی، اس میں سے دس ہزار ٹن کھاد مصر کو سپلائی کی گئی جبکہ عالمی سطح پر اس کھاد کا استعمال ممنوع ہے۔
۴۔ کیڑے مار زرعی ادویات کی نگرانی کرنے والے ایک عالمی ادارہ نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل نے مصر اور تیسری دنیا کے بعض ممالک کو بارہ اقسام کی ایسی کیڑے مار ادویات سپلائی کی ہیں جو بانجھ پن اور سرطان کا سبب بنتی ہیں، حتیٰ کہ رحم میں بچے کی صحت پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔ چھڑکائو کے دوران یہ جس کنویں یا ڈیم پر گرتی ہیں اس کے پانی میں بھی مضر اثرات چھوڑتی ہیں۔
۵۔ مصر میں مرغی کے گوشت کی پیداوار ۳ لاکھ ۵ ہزار ٹن سالانہ سے کم ہو کر ۱۹۹۰ء میں ایک لاکھ ۳۵ ہزار ٹن رہ گئی اور مرغیوں کے ۱۸۶۳ فارم مقروض ہو گئے اور سینکڑوں فارم بند ہو گئے، چونکہ بعض اسرائیلی کمپنیوں نے زہریلی خوراک اور بیماریوں کے حامل انڈے اور چوزے پولٹری فارموں کو مہیا کیے اور یہ تاثر دیا کہ یہ بہترین نسل ہے۔ اس سے واضح ہوا کہ یہودیوں کے مظالم صرف انسانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ جانوروں کی معصوم زندگی بھی ان کی زَد میں ہے۔
شہد کی مکھی
مصر میں ۱۹۹۰ء کے دوران شہد کے دس لاکھ چھتے ناکارہ ہو گئے۔ جس سے شہد کی پیداوار میں ۸۰ فیصد کمی واقع ہوئی اور شہد کی قیمت میں تین گنا اضافہ ہو گیا کیونکہ اسرائیل نے پالتو مکھیوں کے ایسے چھتے مصر کو برآمد کیے جو متعدی امراض میں مبتلا تھے اور مصر میں موجود مکھیوں کی بیماری اور موت کا سبب بنے۔ یہ صورتحال واضح ہونے پر مصریوں نے نگرانی شروع کی تو اس طرح کے ایک سو کیس پکڑے گئے جو اسرائیل سے مصر بھیجے جا رہے تھے۔
مچھلیاں اور پانی
بحیرۂ احمر پر مصری ساحل کی لمبائی ڈھائی سو کلومیٹر ہے لیکن اس ساحل کے ۴۵ کلومیٹر حصہ کی تو مکمل نگرانی کی جاتی ہے جبکہ بقیہ ساحل پر صرف چوکیاں قائم کی گئی ہیں تاکہ غیر قانونی آمدورفت اور اسمگلنگ کی روک تھام کی جا سکے۔ یہودیوں نے اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کئی بار اس ساحلی پانی کو ملوث کرنے کی کوشش کی۔ گویا یہودیوں کی مجرمانہ سرگرمیوں نے سمندری پانی اور مچھلیوں کو بھی معاف نہیں کیا۔
۱۔ ۲۳ اکتوبر ۱۹۸۹ء کو مصری بحریہ نے ایک یہودی کپتان کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا جب وہ بحری جہاز کے ذریعے پیٹرول پھینک کر سمندری پانی کو ملوث کر رہا تھا۔
۲۔ ۱۲ ستمبر ۱۹۸۹ء کو صحرائے سینا کی جنوبی جانب سمندری پانی کو زہریلا کرنے کی ایک بہت بڑی کوشش اس وقت ناکام بنا دی گئی جب تین سو کلومیٹر کے علاقہ میں زہر پھیلایا جا چکا تھا۔ اگر یہ یہودی سازش مکمل ہو جاتی تو سینکڑوں کلومیٹر علاقہ میں بیسیوں سال تک کوئی مچھلی اور سمندری جانور زندہ نہ رہ سکتا۔
منشیات کی اسمگلنگ
قوموں کی تباہی و بربادی کا کون سا ہتھیار ہے جو یہودیوں نے دوستی کے نام پر مصری قوم کے خلاف نہ آزمایا ہو! منشیات کی اسمگلنگ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ مصری وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق صرف ۱۹۸۹ء میں منشیات کی اسمگلنگ کے ۴۴۵۷ کیس پکڑے گئے جن میں یہودیوں نے ۵۱ ٹن حشیش اور وسیع مقدار میں ہیروئن و افیون مصر اسمگل کرنے کی کوشش کی۔ ان میں اسرائیلی اکیڈمی قاہرہ کے پانچ زرعی ماہرین بھی گرفتار ہوئے۔ منشیات کی اسمگلنگ کے ایک بہت بڑے یہودی مجرم طحان کو سزائے موت سنائی گئی لیکن تاحال اس پر عملدرآمد نہیں ہوا جبکہ اسی جرم میں ملوث ایک صومالی اور دوسرے پاکستانی باشندے کی سزائے موت پر عملدرآمد ہو چکا ہے۔
مندرجہ بالاسطور میں اسرائیلی جرائم کی ایک جھلک پیش کی گئی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ امن و سلامتی، پُرامن بقائے باہمی، زرعی، تجارتی اور ثقافتی تعاون کے خوشنما نعروں کے نام پر یہودیوں نے کس قدر خباثت، خیانت اور غداری کی۔ یہ رپورٹ ان ملکوں کے لیے بھی لمحۂ فکریہ ہے جو اسرائیل سے تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’مکالمہ بین المذاہب‘‘ لاہور)
Leave a Reply