
مصر کو جمہوری تبدیلی کے لیے اس وقت تین بڑے سیاسی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ایک طرف فوج ہے جو معاملات بہت حد تک اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتی ہے۔ دوسری طرف طاقتور اخوان المسلمون، سلفی اور الجماعۃ الاسلامیہ ہیں اور تیسری طرف نام نہاد ڈیموکریٹس ہیں جو ملک میں حقیقی جمہوریت متعارف کرانے کے دعویدار ہیں۔ ان تینوں طاقتوں کے درمیان کشمکش کی جو بھی صورت ہوگی وہی ملک میں جمہوریت کے مستقبل کا رخ متعین کرے گی۔ اور یہ اندازہ بھی قائم کیا جاسکے گا کہ مصر میں حقیقی جمہوریت وارد ہوگی یا یہ ملک ایک بار پھر مطلق العانیت کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔ اگر اسلامی اور لبرل عناصر نے متحد ہوکر کام کرنے کا فیصلہ نہ کیا تو اس کا منطقی نتیجہ مطلق العنانیت پرمنتج ہوگا اور فوج اور نام نہاد لبرل عناصر مل کر پھر اقتدار پر قبضہ کرلیں گے اور ایسا اب فطری سا دکھائی دینے لگا ہے۔
فوج:
ملک کا عبوری طور پر نظم و نسق چلانے والی سپریم کونسل آف آرمڈ فورسز نے چند حالیہ بیانات میں واضح کیا ہے کہ وہ سیاست میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی اور ملک میں جمہوریت کو دیکھنے کی خواہش مند ہے۔ حسنی مبارک کے اقتدار کے خاتمے کے بعد فوج نے ملک کو سنبھالا ہے۔ جون ۲۰۱۲ء میں صدارتی انتخاب تک وہ ملک کو چلانے اور مستحکم رکھنے کی ذمہ دار ہے۔ اس مرکزی کردار کو ادا کرنے کے ساتھ ساتھ وہ اب منظر سے ہٹنا چاہتی ہے۔ اس کی خواہش یہ دکھائی دیتی ہے کہ حسنی دور کی طرح پردے کے پیچھے بیٹھ کر معاملات چلائے جائیں اور ملک میں استحکام کی ضمانت دی جائے۔
مگر چند امور اب تک وضاحت طلب ہیں۔ اب تک یہ واضح نہیں کی سپریم کونسل اپنے لیے بات کر رہی ہے یا پوری فوج کے لیے۔ سپریم کونسل میں کیا ہو رہا ہے اور فوج میں اعلیٰ ترین اور درمیانی سطح پر کیا سوچا جا رہا ہے اس کا کسی کو کچھ علم نہیں۔ کسی کو اندازہ نہیں کہ فوج میں سیاسی عزائم رکھنے والے گروپ ہیں یا نہیں۔ اکتوبر میں اچانک ایک مہم سی چلائی گئی کہ فیلڈ مارشل طنطاوی کو صدر بنایا جائے۔ اس سے یہ اشارہ ضرور ملتا ہے کہ فوج میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو چاہتے ہیں کہ اقتدار فوج ہی کے ہاتھ میں رہے۔
یہ بات بھی واضح ہے کہ سپریم کونسل آف آرمڈ فورسز سویلین حکومت کا نعم البدل تو نہیں بننا چاہتی مگر اقتدار کی منتقلی کے بعد وہ یہ بھی نہیں چاہتی کہ سویلین حکومت اس کے معاملات پر نظر رکھے اور احتساب کرے۔ وہ اس سطح سے بلند رہنا چاہتی ہے۔ بالخصوص دفاعی بجٹ اور معاشی مفادات کے معاملے میں۔ ایک بحث یہ بھی ہے کہ مصر کی معیشت کس حد تک فوج کے کنٹرول میں ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ۵ سے ۴۰ فیصد معیشت فوج کے کنٹرول میں ہے۔ فوج نے صنعتوں، تعمیراتی منصوبوں، تفریحی مقامات پر ہوٹل وغیرہ اور چند دوسرے شعبوں میں خوب فوائد بٹورے ہیں۔
مصر کی فوج نے ایسے کئی اشارے دیے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ حکومت کی تبدیلی کے لیے تو تیار ہے، اقتدار کی منتقلی کے لیے تیار نہیں۔ وہ اب بھی بہت سے معاملات کو اپنے ہی کنٹرول میں رکھنا چاہتی ہے۔ انتخابات کا شیڈول غیر حقیقت پسندانہ تھا۔ صدارتی انتخاب کو آئندہ سال جون تک موخر رکھے جانے سے بھی شکوک پیدا ہوئے ہیں۔ فوج چاہتی ہے کہ انتخابات اس انداز سے ہوں کہ اقتدار پر اس کی گرفت کسی صورت کمزور نہ پڑے اور وہ نئے سیٹ اپ میں بھی اپنی مرضی کے مطابق کام کرتی رہے۔ جب تک صدارتی انتخاب نہیں ہو جاتا، مصر میں سب کچھ فوج کے ہاتھ میں رہے گا کیونکہ صدر کے نہ ہونے کی صورت میں سپریم کونسل آف آرمڈ فورسز صدر کی حیثیت سے کام کر رہی ہے۔ مارچ ۲۰۱۲ء میں تشکیل پانے والی منتخب عوامی حکومت کو بھی فوج کے ماتحت رہتے ہوئے کام کرنا پڑے گا۔ اپریل میں آئین سازی کا مرحلہ شروع ہوگا اور فوج اس معاملے میں بھی اپنی قوت بھرپور طور پر استعمال کرے گی۔
یکم نومبر کو فوج نے چند ماورائے آئین اصولوں پر مشتمل دستاویز جاری کیں جس میں اس امر پر زور دیا گیا کہ فوج کے بجٹ کو منتخب حکومت کے دائرہ کار سے باہر رکھا جائے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ اگر فوج کے آئینی اعلانات کسی بھی اعتبار سے آئین کے دائرہ کار سے باہر ہوں تو معاملات کو اعلیٰ ترین آئینی عدالت میں پیش کرنے کی اجازت دی جائے۔ فوج یہ بھی چاہتی ہے کہ آئین سازی پر مامور کمیشن اگر ۶ ماہ میں اپنا کام مکمل نہ کرسکے تو اسے برطرف کرنے کا اختیار فوج کے پاس ہونا چاہیے۔ ۳ نومبر کو فوج نے اعلان کیا کہ وہ آئین ساز کمیشن کے ۱۰۰ ؍میں سے ۸۰ ؍ارکان کو خود منتخب کرے گی۔ سویلین حکومت کے پاس صرف ۲۰ نامزدگیوں کا اختیار ہوگا۔
سابق حکمراں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (این ڈی پی) کے دوبارہ سیاست میں سرگرم ہونے اور اقتدار تک پہنچنے کے معاملے میں بھی فوج بہت پرامید ہے۔ مصر بھر میں یہ مطالبہ پوری شدت سے کیا جاتا رہا ہے کہ این ڈی پی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکا جائے مگر فوج نے اِس مطالبے کی اب تک مخالفت کی ہے اور بظاہر این ڈی پی کے ارکان کے دفاع کے لیے سینہ سپر رہی ہے۔ فوج نے متناسب نمائندگی کے اصول کو اپنانے کا سیاسی جماعتوں کا مطالبہ بھی مسترد کیا ہے۔ اس کے بجائے نصف کی بنیاد پر آزاد امیدواروں کی نمائندگی قبول کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ اس اقدام کا مقصد بظاہر این ڈی پی کے ارکان کو مضبوط کرنا ہے۔
مصر کی فوج اقتدار میں براہ راست رہنا نہیں چاہتی مگر جو اشارے وہ دے رہی ہے ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اقتدار کے بیشتر معاملات میں اپنی گرفت مضبوط رکھنا چاہتی ہے تاکہ اس کے مفادات متاثر نہ ہوں۔ اس حوالے سے اس کے عزائم جمہوریت کی راہ میں دیوار کھڑی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
اسلامی عناصر:
جنوری ۲۰۱۱ء تک مصر میں اسلامی عناصر کی بحث اخوان المسلمون پر ختم ہوتی تھی۔ اب صورت حال بدل چکی ہے۔ اخوان نے فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی (ایف جے پی) کے نام سے سیاسی بازو کو رجسٹر کرایا ہے۔ پندرہ سال سے الوسط نامی اخوان سے ٹوٹنے والا گروپ بھی سیاسی جماعت کی حیثیت سے خود کو رجسٹر کرانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا اب یہ گروپ بھی میدان میں ہے۔ اخوان سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں نے بھی ایجپشین کرنٹ پارٹی (الطیار المصری) کے نام سے میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا ہے۔
سابق دور حکومت میں بظاہر خاموش رہ کر حکومتی سرپرستی حاصل کرنے والے سلفی عناصر نے بھی اب میدان میں آنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سلفی مکتب فکر کے لوگوں نے کئی گروپ بنائے ہیں جن میں النور، الاصالہ اور الفضیلۃ نمایاں ہیں۔ ۱۹۸۱ء میں انور سادات کے قتل کے بعد مصر کی سیاست میں تیزی سے داخل ہونے والی الجماعۃ الاسلامیہ نے بعد میں بہت کچھ گنوادیا۔ اس کے رہنما طویل اسیری کا بوجھ برداشت نہ کرسکے۔ اب یہ گروپ بلڈنگ اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کے نام سے میدان میں اترا ہے۔ اور صوفی بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ انہوں نے اپنی دو جماعتیں (دی ایجپشین صوفی لبریشن پارٹی اور دی وائس آف فریڈم پارٹی) تشکیل دی ہیں۔ عربی میں انہیں التحریر المصری الصوفی اور صوت الحریہ کہا جاتا ہے۔
مصر کے اسلامی گروپوں میں اخوان المسلمون سب سے نمایاں اور کامیاب ہے۔ اس کا تنظیمی ڈھانچا بہت مضبوط ہے اور اس نے حالات کی سختی کو بھی عمدگی سے برداشت کیا ہے۔ اخوان کے رہنما اپنے نظریات پر ڈٹے رہے ہیں اور انہوں نے کسی بھی مرحلے پر داخلی کمزوری نہیں دکھائی۔ بہبودِ عامہ کے شعبے میں بھی اخوان نے اپنے اخلاص کو منوایا ہے۔ مصر کے عوام جانتے ہیں کہ کسی بھی مشکل گھڑی میں اخوان المسلمون کے لوگ ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔ برسوں عوام کی خدمت کرکے اخوان نے اپنی ساکھ میں جو اضافہ کیا ہے وہ حالیہ انتخابات میں نمایاں ہوکر سامنے آیا ہے۔ اخوان المسلمون کی قائم کردہ فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی تمام اسلامی گروپوں کو متحد تو نہیں کرسکی تاہم حکومت کی تشکیل میں سب اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
روشن خیالی سے عاری جمہوریت پسند (Illiberal Democrats):
یہ وہ لوگ ہیں جو جمہوریت کی بات کرتے نہیں تھکتے مگر ساتھ ہی ساتھ اس تشویش میں بھی مبتلا رہتے ہیں کہ جمہوریت کو پنپنے دیا گیا اور اگر لوگوں کو ووٹ ڈالنے کا حق ملا تو اخوان المسلمون اقتدار میں آ جائے گی۔ یہی سبب ہے کہ وہ جمہوریت کے تو حامی ہیں مگر آزاد خیالی نہیں چاہتے۔ بعض معاملات کو وہ کنٹرول کرنا چاہتے ہیں تاکہ اسلامی عناصر اقتدار تک نہ پہنچ سکیں۔ مصر میں ایسے جمہوریت پسندوں کی بھی کمی نہیں جو کسی بھی حوالے سے تشویش میں مبتلا نہیں اور چاہتے ہیں کہ عوام کی رائے اور مینڈیٹ کا احترام کیا جائے۔
لبرل اور سیکولر عناصر اخوان کے حوالے سے خوف میں مبتلا ہیں۔ اور یہ خوف آئین سازی کے عمل پر بھی اثر انداز ہوسکتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے پہلی جنگ عظیم کے بعد یورپ پر اشتراکیت کا خوف طاری تھا۔ کئی ملکوں میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ جمہوریت کے نتائج سے بچنے کی کوشش میں کسی قدر غیر جمہوری حکومتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یورپ میں اشتراکیت کی راہ مسدود کرنے کی کوششیں انتہائی مطلق العنان اور فسطائی حکومتوں کے ظہور پذیر ہونے کی صورت میں برآمد ہوئیں۔ اٹلی اور جرمنی اس کی واضح ترین مثالیں ہیں۔ رومانیہ اور مشرقی یورپ کے چند اور ممالک میں بھی یہی ہوا۔ بائیں بازو کو دبانے کی کوشش میں انتہائی دائیں بازو کی حکومتیں معرض وجود میں آئیں۔ اگر مصر میں جمہوریت کی راہ روکنے کی کوشش کی گئی تو انتہائی غیر جمہوری نتائج کے برآمد ہونے کا امکان ہے۔
حاصل کلام
فوج، اسلامی عناصر اور لبرل ازم پر یقین نہ رکھنے والے جمہوریت پسند عناصر مصر میں جمہوریت کی راہ میں حقیقی دیوار ثابت ہو رہے ہیں۔ ان کے درمیان بہتر تعلقات اور قومی مفاد میں ہم آہنگی ہی معاملات کو درست کرسکتی ہے۔ سب کو اپنے خدشات دور کرنے اور مفادات قربان کرنے ہوں گے۔ اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش قومی مفادات کو قربان کرنے پر منتج ہوگی جو کسی بھی اعتبار سے کوئی پسندیدہ بات قرار نہیں دی جاسکتی۔
(انتخابات کے حالیہ مراحل میں اخوان، سلافی، الجماعۃ الاسلامیہ اور صوفی گروپوں نے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ مارچ میں حتمی انتخابی نتائج کے سامنے آنے پر ان کی حکومت بنتی دکھائی دیتی ہے۔ اخوان چالیس فیصد کامیابی کے ساتھ سر فہرست ہے۔ مترجم)
(بحوالہ: www.carnegieendowment.org۔ ۳ نومبر ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply