
مصر میں دو سال سے بحرانی کیفیت برقرار ہے۔ فوج نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد اِخوان المسلمون کو دیوار سے لگانے کا جو عمل شروع کیا تھا، وہ اب قومی معیشت اور سلامتی دونوں کے لیے انتہائی خطرناک شکل اختیار کرگیا ہے۔ اخوان المسلمون کی حکومت ختم کرکے فوج نے ملک کے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کو بھی برطرف ہی نہیں کیا بلکہ گرفتار کرکے سزائے موت سنادی۔ یہ سب کچھ اس قدر خطرناک تھا کہ کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ اس کے ملک کی سیاست اور معیشت، دونوں پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے تھے اور ہوئے۔
۳۰ جون ۲۰۱۳ء کو مصر میں عوام کی سطح پر احتجاج شروع ہوا، جس کے نتیجے میں صدر مرسی اور دیگر اخوان رہنماؤں کے لیے حالات دن بہ دن خراب ہوتے گئے یا خراب کیے جاتے رہے۔ فوج تیار بیٹھی تھی۔ جیسے ہی عوام میں ایک بڑا گروپ اخوان المسلمون کی حکومت کے خلاف کھڑا ہوا، فوج نے موقع غنیمت جان کر اس کا ساتھ دیا اور اخوان حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ اس کے بعد ملک بھر میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ ۱۴؍اگست ۲۰۱۳ء کو ملک بھر میں شدید احتجاجی لہر پیدا ہوئی جس نے اخوان کو عوام کے مقابل لا کھڑا کیا۔ محمد مرسی منتخب صدر تھے مگر انتخابات میں شکست کھا جانے والے عناصر انہیں برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ تیس سال تک فوجی حکومت برداشت کرنے والے منتخب حکومت کو ایک سال کے لیے برداشت نہ کرسکے۔ یہ سب کچھ یقیناً نادیدہ قوتوں کے اشارے پر ہو رہا تھا۔ ملک بھر میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ عوامی سطح پر بہت بڑا تصادم ہوا۔ پھر سکیورٹی فورسز حرکت میں آئیں تو ان سے بھی جھڑپیں ہونے لگیں۔ ۲۳ ستمبر ۲۰۱۳ء کو ایک عدالت نے اِخوان المسلمون پر پابندی عائد کرتے ہوئے اس کی تمام ذیلی تنظیموں کو بھی کالعدم قرار دے دیا۔ ساتھ ہی حکم دیا گیا کہ اخوان اور اس کی ذیلی تنظیموں کی تمام سرگرمیاں روک دی جائیں۔ بعد میں اسی سال دسمبر میں حکومت نے اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم بھی قرار دے دیا۔
اخوان کی قیادت مذاکرات چاہتی تھی تاکہ خون خرابہ نہ ہو اور معاملات بخوبی درست ہوجائیں مگر تنظیم سے وابستہ نوجوانوں کی اکثریت چاہتی تھی کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے یعنی اگر فوجی حکومت تشدد کا راستہ اختیار کرنے پر بضد ہو تو اسے تشدد ہی کی زبان میں جواب دیا جائے۔ اخوان سے وابستہ بہت سے نوجوانوں کی نظر میں فوجی حکومت سے بات چیت کرنا شہیدوں کے خون سے غداری کے مترادف تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ فوجی حکومت کے کسی بھی ہتھکنڈے کا نرمی سے نہیں بلکہ اتنی ہی سختی سے جواب دیا جائے۔
ملک بھر میں سکیورٹی فورسز پر حملے ہوتے رہے۔ بہت سے مقامات پر مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے کارکنوں کا اخوان کے کارکنوں سے تصادم بھی ہوا۔ اس کے نتیجے میں حالات دن بہ دن ابتر ہوتے گئے۔ اخوان کی قیادت بات چیت چاہتی تھی مگر نوجوانوں نے صاف کہہ دیا کہ اب غاصب فوجی حکومت سے بات چیت کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔ یوں ملک دن بہ دن زیادہ سے زیادہ خرابی کی نذر ہوتا گیا۔ کم ہی لوگوں کو اندازہ ہوسکتا ہے کہ اس صورت حال نے مصر کو کس حد تک نقصان پہنچایا۔ ایک منتخب حکومت کے خاتمے کے بعد جو خرابیاں پیدا ہوئیں، وہ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے بیٹھیں۔
ایسا نہیں ہے کہ خطے کے دیگر ممالک نے مصر کے معاملات درست کرنے پر توجہ نہیں دی ہے۔ خلیجی ریاستوں میں قطر نے بھرپور کوشش کی ہے کہ مصر کے معاملات درست ہوجائیں۔ وہ مصالحت اور ثالثی کی پیشکش کرچکا ہے مگر مصر کی فوجی حکومت اب تک اس کے لیے تیار نہیں ہوئی۔
۸؍اگست ۲۰۱۵ء کو مصر کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ قطر کی حکومت نے اخوان المسلمون سے معاملات درست کرانے کے حوالے سے ثالثی کی پیشکش کی ہے، مگر یہ پیشکش قبول نہیں کی جاسکتی کیونکہ اخوان ایک دہشت گردی تنظیم ہے اور دہشت گرد تنظیم سے بات چیت نہیں ہوسکتی۔ مصر کے وزیر خارجہ خالد بن محمد العطیہ نے ۶؍اگست کو العربیہ ٹیلی وژن سے گفتگو میں کہا کہ مصر اور قطر کے تعلقات بہت اچھے ہیں۔ صرف ایک معاملے میں تھوڑا بہت اختلاف پایا جاتا ہے اور وہ ہے اخوان المسلمون۔ قطر کا کہنا ہے کہ اخوان ایک بڑی سیاسی جماعت ہے جسے مرکزی دھارے سے نکالنا درست نہیں۔ وہ مصری حکومت اور اخوان کے درمیان مصالحت کے لیے بھی تیار ہے۔
بین الاقوامی تعلقات سے متعلق اخوان کے سابق کمشنر یوسف ندا نے ۱۲؍جون کو اناطولیہ نیوز ایجنسی کو ایک بیان بھیجا جس میں کہا گیا کہ مصر کے خراب حالات دیکھتے ہوئے اخوان کسی بھی سطح پر بات چیت کے لیے تیار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فوجی حکومت کی طرف سے اِخوان پر پابندی سے ملک کے حالات بگڑے ہیں۔ تمام معاملات کو بات چیت ہی کے ذریعے درست کیا جاسکتا ہے۔ اس بیان میں یوسف ندا نے کہا کہ اخوان چاہتی ہے کہ عوام کو بھی یہ احساس ہو کہ معاملات درست نہ کیے گئے تو خرابیاں بڑھتی جائیں گی اور پھر ایک وقت ایسا بھی آسکتا ہے جب مصر کو ناکام ریاست قرار دے دیا جائے۔ ایسا کوئی بھی وقت آئے، اس سے قبل اخوان چاہتی ہے کہ مذاکرات کی میز پر معاملات طے یا درست کرلیے جائیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ مصر میں جو لوگ سیاہ و سفید کے مالک اور تمام فیصلے کرنے والے ہیں، وہ اِس بیان پر ضرور غور کریں گے اور یوں مذاکرات کی راہ ہموار ہوگی۔
۱۶؍جون کو مصر کی ایک عدالت نے معزول صدر محمد مرسی کے خلاف کئی مقدمات پر رولنگ دی۔ ان پر جیل توڑنے اور ریاست کی عملداری کے خلاف جانے کا مقدمہ بھی تھا۔ اخوان کے دیگر رہنماؤں کی طرح محمد مرسی کو بھی سزائے موت سنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ ایسے میں ایک واقعہ ایسا ہوا جس نے مصالحت کا تھوڑا بہت امکان بھی ختم کردیا۔ ہوا کچھ یوں کہ ۲۹ جون کو ایک بم حملے میں مصر کے اٹارنی جنرل ہشام برکات ہلاک ہوگئے۔ اس حملے کا الزام براہِ راست اخوان المسلمون پر عائد کیا گیا۔ مصر کی فوجی حکومت نے اس حملے کو بنیاد بناکر صاف کہہ دیا کہ اب وہ کسی بھی سطح پر اخوان سے مذاکرات نہیں کرے گی۔
ہشام برکات کی ہلاکت کو ایک بہترین موقع سمجھتے ہوئے مصر کے فوجی حکمران جنرل السیسی نے قوم سے خطاب میں کہا کہ اب تک تو کوئی بھی غیر معمولی اقدام نہیں کیا گیا مگر اب معاملات کو جوں کا توں رہنے نہیں دیا جائے گا اور قوانین میں ایسی ترامیم کی جائیں گی کہ انصاف جلد از جلد ہو اور مجرموں کو جلد از جلد سزا ملے۔ یہ گویا اس بات کا اعلان تھا کہ مصر کی فوجی حکومت اب اخوان کے خلاف ایک نیا مرحلہ شروع کرنے والی تھی۔ وہ بات چیت کا دروازہ مستقل طور پر بند کرنے کے حق میں تھی تاکہ معاملات مزید خرابی کی طرف جائیں اور اخوان کے خلاف جو کچھ بھی کرنا ہے، وہ کھل کر کیا جائے اور کہیں سے کوئی صدائے احتجاج بھی بلند نہ ہو۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ نوجوان کارکنوں کی اکثریت کی طرف سے شدید احتجاج کی خواہش کے اظہار کے باوجود اخوان کی قیادت بات چیت کے لیے تیار ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ ملک میں جو بھی بحران ہے، وہ ختم ہو اور معاملات درستی کی طرف جائیں۔ اس کے لیے لازم ہے کہ تمام فریق مذاکرات کی میز تک آئیں، بات ہو، اختلافات کا اظہار ہو، ایک دوسرے کو قبول کرنے کی راہ ہموار ہو۔ مگر دوسری طرف فوجی حکومت نہیں چاہتی کہ اخوان کو بات چیت کا موقع دیا جائے۔ وہ اس تصور ہی سے الرجک دکھائی دیتی ہے کہ اخوان کو اپنے سامنے میز پر بٹھائے۔ یہ گویا اس امر کا اعلان ہوگا کہ اس نے اخوان کی قیادت اور اس کی اعلیٰ حیثیت کو قبول کرلیا ہے۔
سیاسی محقق عمار علی حسن کا کہنا ہے کہ اب مصر کی حکومت سمجھتی ہے کہ اخوان کو مکمل طور پر ختم کرنے کا وقت آگیا ہے کیونکہ فوج کے اقتدار کی راہ میں اگر کوئی قوت رکاوٹ بن سکتی ہے تو وہ اخوان ہی ہے۔ فوجی قیادت نے بہت سوچ سمجھ کر یہ پالیسی اپنائی ہے کہ اخوان کو کسی بھی حالت میں اور کسی بھی سطح پر قبول نہ کیا جائے۔ وہ چاہتی ہے کہ اخوان کے ہر سطح کے اثرات ختم کیے جائیں۔ اور اس کا ایک موثر طریقہ یہ بھی ہے کہ اسے قبول ہی نہ کیا جائے یعنی بات چیت کا دروازہ مکمل طور پر بند کردیا جائے۔
بات چیت سے انکار کی صورت میں اخوان کے لیے مشکلات ضرور پیدا ہوں گی مگر ساتھ ہی ساتھ عوام کی نظر میں اس کا وقار بھی بلند ہوگا کیونکہ عوام بھی اچھی طرح سمجھ جائیں گے کہ یہ فوجی حکومت ہی ہے جو اِخوان سے بات کرنے کو ذرا بھی تیار نہیں۔ ایسے میں اخوان کی سیاسی حیثیت کمزور ہونے کے بجائے مزید مستحکم ہوگی۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Egypt must take ‘serious step’ to resolve crisis with Brotherhood”.
(“al-monitor.com”. August 17, 2015)
Leave a Reply