مصر ’’نئی صبح‘‘ اور کٹھن مراحل

Egyptian man

مصر میں ’’نئی صبح‘‘ کے بعد دشوار گزار تین مرحلوںمیں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے نتائج کا اعلان ہو گیا ہے جس کی رُو سے فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی (حزب الحریۃ والعدالۃ) نے دوسری تمام سیاسی جماعتوں پراپنی برتری قائم رکھی ہے۔ تینوں مرحلوںمیں یہ دوسری تمام جماعتوں سے آگے ہی نہیں بلکہ کافی آگے رہی ہے۔ پہلے مرحلے میں اسے تقریباً ۴۸ فیصد سیٹیں ملی تھیں، دوسرے اور تیسرے مرحلوں میں بھی اسی تناسب سے اسے ووٹ حاصل ہوئے۔ دوسرے نمبر پر جماعت النور (حزب النور) رہی، جسے پہلے مرحلے میں ۲۰ فیصد اور دوسرے مرحلے میں ۲۸ فیصد سیٹیں ملی تھیں۔ تیسرے اور حتمی مرحلے میں بھی اس نے دوسرا مقام برقرار رکھا اور اس کی نشستوں کا حتمی تناسب ۲۹ فیصد ٹھہرا۔ تیسرا مقام وفد پارٹی (حزب الوفد الجدید) کو حاصل ہوا اور چوتھے نمبر پرمصری بلاک (الکتلۃ المصریۃ) رہا۔ دونوں کے درمیان بہت معمولی سا فرق ہے۔ دونوں کو تقریباً ۹ء۹ فیصد سیٹیں حاصل ہوئی ہیں۔ مغربی ذرائع ابلاغ اس کی تعبیر یوں پیش کر رہے ہیں کہ پارلیمان پر اسلام پسندوں کا قبضہ ہو گیا ہے کیونکہ فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی بھی اسلام پسند جماعت ہے اور النور بھی اسلام پسند عناصر کی جماعت ہے بلکہ اس کے بارے میں تویہ کہا جارہا ہے کہ یہ سخت گیر ہے۔ اس کی دوسری تصویر یہ بتائی گئی ہے کہ فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی اور النور کو یعنی اسلام پسندوں کو پارلیمان میں دو تہائی اکثریت حاصل ہو گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آگے کے مراحل میں ان کااتحاد فیصلہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ آگے کچھ بتانے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ان کے نزدیک یہ ایک بڑی بلکہ انقلابی تبدیلی بھی ہو سکتی ہے۔ امریکا کے نقطہ نظر سے بھی یہ اہمیت کی حامل ہے۔ یورپ کے لیے بھی یہ ایک غیر معمولی حالت ہوگی اور اسرائیل کے لیے تو اس کی جو اہمیت ہے اس میں کوئی کلام ہی نہیں ہے۔ اس لیے اس میں ان سب کی دلچسپی ایک قدرتی امر ہے۔

مصرکی مجلس قانون ساز دو ایوانی ہے، ایوان بالا جس کو مجلس شوریٰ کہتے ہیں، ایوان زیریں کا نام مجلس الشعب ہے، ابھی اس کا انتخاب ہوا ہے، اس کے ممبروں کی مجموعی تعداد ۴۹۸ ہے۔ ممبران کا انتخاب دو جدا جدا طریقوں سے ہوتا ہے۔ ان میں سے ۳۳۲ ممبران کے انتخاب کا ایک طریقہ ہے جب کہ ۱۶۶ ممبران دوسرے طریقے سے منتخب کیے جاتے ہیں۔ اس ایوان کی مدت کارکردگی پانچ سال ہے۔ ابھی ایوان بالا یعنی مجلس شوریٰ کا انتخاب باقی ہے۔ یہ مجلس ۲۶۴ ارکان پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس کے ارکان بھی دو جداگانہ طریقوں سے منتخب کیے جاتے ہیں۔ ۱۷۶ ممبران کے انتخاب کا ایک طریقہ ہے جب کہ باقی ماندہ ۸۸ ممبران ایک دوسرے طریقے سے منتخب کیے جاتے ہیں۔ اس مجلس کی مدتِ کارکردگی چھ برس ہوتی ہے، اس کے لیے انتخاب ابھی ہونا باقی ہے۔ اس کے لیے انتخاب دو مرحلوں میں ہوگا۔ پہلا ۲۹، ۳۰ جنوری اور دوسرا ۱۴، ۱۵ فروری کو منعقد ہوگا۔ اس کے بعد صدارتی الیکشن ہونا ہے، جو اندازہ ہے کہ جون میں ہوگا۔ ملک میں ایک نیا دستور بنایا جانا ہے، اس لیے کہ اب تک جو دستور نافذ تھا وہ فوجی حکومتوں کا بنایا ہوا تھا جس میں حسب منشا تبدیلیاں بھی ہوتی رہی ہیں۔ عام آدمی کا اس پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ دستور سازی کا کام ظاہر ہے پارلیمان کے ذمے ہے، مگر یہ اتنا آسان کام نہیں ہے، اس لیے کہ یہ ایک بہت کٹھن مرحلہ ہے۔ پہلے تو خود اسلام پسندوں کا ایک نکتے پر اتفاق ضروری ہے، اس کے بعد بھی اس کی مشکلیں آسانی سے دور نہیں ہوں گی۔ اس وقت ملک کی باگ ڈور فی الواقع فوج نے سنبھال رکھی ہے اور فوج یہ چاہتی ہے کہ ملکی سیاست میں اس کا کردار ہونا چاہیے اور وہ اس کے تعین کے لیے کوشاں ہے۔ بیرونی عناصر کے بھی اپنے مفادات ہیں، خود ملکی آبادی کا وہ عنصر جو غیر مسلموں پر مشتمل ہے اس کی اپنی ترجیحات ہیں، ان تمام مراحل سے گزر کر ہی کوئی تصویر واضح ہو سکتی ہے۔

(اداریہ، سہ روزہ ’’دعوت‘‘ دہلی۔ ۲۵ جنوری ۲۰۱۱ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*