
مصر کی اخوان المسلمون صدر حسنی مبارک کی اپنے بیٹے کو اقتدار کی منتقلی کی مخالفت سے احتیاط کرے گی۔ کیونکہ اس مزاحمت سے حکومت کی جانب سے کریک ڈائون کا خطرہ ہے جس سے اسلامی تنظیم کو نقصان پہنچے گا۔
تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ اس تنظیم کو جو کہ مصر کی سب سے مضبوط اپوزیشن قوت ہے، ریاست کی طرف سے دیئے گئے محدود آزاد ماحول ہی میں رہنا ہو گا اور انتخابات میں حصہ لے کر ہی اپنے تاثر کو پھیلانا ہو گا۔
اخوان المسلمون مصر کی واحد اپوزیشن تنظیم ہے کہ جو لاکھوں لوگوں کو اکٹھا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ۲۰۰۵ء کے عام انتخابات میں بھی اخوان المسلمون نے ۲۰ فیصد نشستیں حاصل کیں۔ گو کہ ان انتخابات میں دھاندلی کی کئی رپورٹس بھی سامنے آئیں لیکن حکومت نے انہیں مسترد کر دیا تھا۔ اگر یہ سارے حامی امکانی طور پر بھی ۸۰ سالہ حسنی مبارک سے اس کے بیٹے ۴۵ سالہ کمال تک اقتدار کی پُرامن منتقلی میں مسائل اور رکاوٹ پیدا کر سکے تو ان کا یہ قدم یقینا کافی لوگوں کی توقعات کے مطابق ہو گا جو کہ آجکل مصر میں مسلسل موضوع بحث چل رہا ہے۔ لیکن ایسی مزاحمت اس تنظیم کے لیے بہت مہنگی پڑ سکتی ہے کہ جو اتنے طویل المیعاد استحکام کو پہلے ترجیح دے گی۔
’’کینٹ اسٹیٹ یونیورسٹی‘‘ کے شعبہ سیاسیات کے اسسٹنٹ پروفیسر جوشواء اسٹیشر کہتے ہیں کہ ’’وہ جانتے ہیں کہ بادشاہت کی مخالفت کرنے سے کوئی فائدہ نہیں، سوائے اس کے کہ یہ انہیں کچلے، جیلوں میں دکھیلے اور اس سے تنظیم کی خود مختاری اور آزادی کو بھی خطرہ ہے۔
مبارک خاندان کے تہی اس اقتدار کی منتقلی کوئی حتمی نہیں اور نہ ہی یہ واحد راستہ ہے لیکن زیادہ تر تجزیہ نگار ایسا ہونے کو زیادہ قریب تر سمجھتے ہیں اور اس حوالے سے اخبارات کی سطح پر کافی بحث بھی دیکھنے میں آئی ہے۔
حالیہ خبریں عام طور پر کمزور ذرائع سے اس بات کو ظاہر کررہی ہیں کہ پارلیمنٹ تحلیل ہو سکتی ہے کیونکہ لوئر ہائوس میں خواتین کی مخصوص نشستوں کے حوالے سے قانون کا نفاذ مطلوب ہے۔ لہٰذا ۲۰۱۰ء سے پہلے انتخابات کا انعقاد بھی ممکن ہے تاکہ اخوان المسلمون کی فیصد کو کم کیا جا سکے۔
پارلیمنٹ کے اسپیکر جو کہ حکمران جماعت کے ممبر بھی ہیں اس قسم کے کسی بھی ارادے سے انکار کر چکے ہیں لیکن پھر بھی اس حوالے سے بحث جاری ہے۔ اخوان المسلمون سرکاری طور پر کالعدم تنظیم ہے لیکن اسے اس حد تک برداشت کیا جاتا ہے کہ اس کے نمائندے پارلیمنٹ میں آزاد حیثیت سے منتخب ہوتے ہیں تاہم ان کے کئی کارکنان اکثر نظر بند کر دیئے جاتے ہیں۔
۲۰۱۱ء کے صدارتی انتخابات سے قبل از وقت ووٹنگ اخوان المسلمون کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ بہرحال حسنی مبارک کی تنظیم ایک بہت بڑی عوامی حمایت رکھتی ہے کہ جو اپنی تنظیم کے منتخب نمائندوں کے مدمقابل کو شکست دینا جانتی ہے۔ “Egyptian Initiative for Personal Rights” کے سربراہ موھام بغت کہتے ہیں کہ یہ نظامِ حکومت کسی قسم کا بھی خطرہ مول لینے کے لیے تیار نہیں۔ مصر کے اس سیاسی کھیل میں کوئی بھی تبدیلی اب صرف بادشاہت کے تناظر میں ہی دیکھی جا سکتی ہے۔
اخوان المسلمون کا احساس یہ ہے کہ کمال ایک سابقہ انویسٹمنٹ بینکر رہے ہیں اور جن کے حصہ داروں سے لبرل معاشی اصلاحات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی تجوریاں بھری ہیں۔ ان کی بادشاہت غریبوں کے لیے نقصان دہ ہو گی۔ مصر کے جہاں ۷۷ ملین آبادی کا ۲۰ فیصد حصہ انتہائی اذیت ناک مفلسی کی زندگی گزار رہا ہے۔ اخوان المسلمون کے ڈپٹی لیڈر محمد حبیب نے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ان کی تنظیم بڑے پیمانے پر مخالفت اور شاہراہوں پر مظاہروں سے گریز کرے گی البتہ وہ اپنی جنگ دھاندلی ہونے کے باوجود بھی انتخابات کے ذریعے جاری رکھیں گے لیکن اگر ہم شہریوں کو قائل کریں اور انہیں پولنگ اسٹیشن تک بھیجیں تو اس سے دھاندلی میں کمی آئے گی۔ لہٰذا ہم انتخابات سے پیٹھ نہیں پھیر سکتے، گو کہ یہاں کسی بھی اقتدار کی تبدیلی کے بعد بھی اصلاحات کی کوئی امید نہیں۔ غیر ملکی انویسٹرز کی اصلاحات سے گزشتہ سال گروتھ ریٹ ۷ فیصد تک بڑھا اور اس سال ۴ فیصد رہا لیکن پھر بھی غریبوں کا یہ احساس ہے کہ اس سے نچلی سطح تک عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔
تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ طویل المیعاد استحکام اسی وقت ممکن ہے کہ جب غریب اور مزدور عوام کے شکایات کو ترجیح دی جائے۔ وہ عام لوگ اور مزدور عوام ہی تھی اخوان نہیں تھی کہ جنہوں نے گزشتہ سال گندم کی قحط سالی اور قیمتوں میں اضافہ کے خلاف پرتشدد مظاہرے کیے۔
اخوان نے کئی دہائیوں سے پرتشدد رویہ کو ترک کر دیا ہے اور بڑے پیمانے پر سول نافرمانی کی طریقہ کار سے دور رہی ہے۔ اس نے اپنی توجہ کو سیاست، سماجی، فلاحی، طبی اور تعلیمی کاموں سے عوامی حمایت حاصل کرنے پر مرکوز کیا ہوا ہے۔
ایک ایسی تنظیم کے جس نے ۸۰ سال پہلے پوری دنیا سے اسلامی نظریات اور تنظیموں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ بہت بڑے پیمانے پر ظلم و بربریت کو برداشت کیا صرف اپنے خطروں کو مول لینے اور طویل المیعاد نتائج حاصل کرنے کی حکمت عملی کی وجہ سے۔ جورج ٹائون یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر عرب پولیٹکس سمیر شیہاتا کہتے ہیں کہ ’’وہ ایک ایسا معاشرہ، مصر اور مصری چاہتے ہیں کہ جو انفرادی اور اجتماعی طور پر تبدیل ہوں۔ اور وہ ایک ایسا اسلامی معاشرہ چاہتے ہیں جو کہ ایک اسلامی ریاست بن سکے اور وہ ناقابل یقین صابر ہیں۔
ایک اسلامی ریاست کی بات کرنا آزاد خیال طبقہ کے لیے خطرہ کی گھنٹی سے کچھ کم نہیں۔ وہ ڈرتے ہیں کہ اخوان کی بڑھتی ہوئی قوت مشترکہ سیاسی نظام کو ختم کر دے گی۔ لیکن اخوان نے اس تاثر کو دور کیا اور اپنے جمہوری عزائم کو واضح کیا۔ اس وقت مصر میں کوئی بھی اپوزیشن جماعت اخوان جتنی تعداد نہیں رکھتی۔ ۲۰۰۵ء کے صدارتی انتخابات کہ جس میں مصر میں پہلی مرتبہ کئی صدارتی امیدوار کھڑے ہوئے۔ اس دوران جمہوری تحریکی گلیوں اور سڑکوں پر دیکھنے میں آئیں لیکن یہ شاید چند سو مظاہرین ہی تھے۔
(بحوالہ: ’’رائٹرز‘‘۔ جولائی ۲۰۰۹ء۔ ترجمہ: فرقان انصاری)
Leave a Reply