ابھی کل تک اس امر کا امکان معدوم سا تھا کہ مصر کے سابق وزیر خارجہ اور عرب لیگ کے سربراہ امر موسیٰ صدر کے منصب پر فائز ہوسکیں گے۔ سابق صدر حسنی مبارک کے دور میں امر موسیٰ نے وزیر خارجہ کی حیثیت سے طویل مدت تک خدمات انجام دیں۔ لوگ اب تک ان کے کردار کو بھلا نہیں پائے ہیں۔ انہیں حسنی مبارک کے قریب ترین لوگوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ امر موسیٰ ۱۹۹۱ء سے ۲۰۰۱ء تک مصر کے وزیر خارجہ رہے اور اس کے بعد سے وہ عرب لیگ کے سربراہ ہیں۔ یہ ادارہ بھی دراصل مشرق وسطیٰ کے جابر ترین حکمرانوں ہی کی نمائندگی کرتا ہے۔
حسنی مبارک کے ساتھ دس سال سے بھی زیادہ مدت تک کام کرنے والے امر موسیٰ اب اس صدارتی انتخاب کے ممکنہ مضبوط ترین امیدوار ہیں جس کی سال رواں کے دوران موسم خزاں میں تیاری کی جارہی ہے۔ محمد البرادعی بھی صدارتی امیدوار ہوں گے اور انہیں بھی اچھی خاصی حمایت حاصل ہے مگر اب ایسا لگتا ہے کہ امر موسیٰ ان پر برتری حاصل کرتے جارہے ہیں۔ امر موسیٰ کو مصر کے مختلف گروپوں اور حلقوں کی حمایت حاصل ہو رہی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ حسنی مبارک کی حکومت کا تختہ الٹنے والے مظاہرین کی حمایت بھی محمد البرادعی کو حاصل ہے مگر اس کے باوجود ان کی پوزیشن امر موسیٰ کے سامنے زیادہ مستحکم دکھائی نہیں دیتی۔ محمد البرادعی ایک ایسے لیڈر کے روپ میں ابھرے تھے جس نے مصر کے لوگوں کو یقین دلایا تھا کہ وہ حسنی مبارک کی تیس سالہ پالیسیوں سے ملک کو نجات دلائیں گے اور خارجہ و داخلہ پالیسی کو ہر قسم کے دباؤ سے آزاد کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امر موسیٰ میں ایسا کیا ہے کہ ان کے حامیوںکی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور لوگ انہیں ملک کے صدر کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ امر موسیٰ کی عمر ۷۴ سال ہے اور انہوں نے کئی ادوار دیکھے ہیں۔ ملک کی تاریخ اور سیاست پر ان کی گہری نظر اور گرفت ہے۔ جس بات نے انہیں تیزی سے مقبولیت دلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے وہ ان کا اسرائیل مخالف رویہ ہے۔ امر موسیٰ نے یہ بات کہنے میں ذرا بھی باک محسوس نہیں کی کہ امن عمل کے نام پر اسرائیل نے اب تک عربوں کو صرف بے وقوف بنایا ہے۔ جس انداز سے امن کے لیے بات چیت کی جاتی رہی ہے اس سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیلی صرف کیمروں اور مائکروفونز کو مصروف رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کاکہنا ہے کہ امن عمل وقت کے ضیاع کے سوا کچھ نہیں اور اگر وہ اقتدار میں آئے تو اسرائیل سے بات چیت نہیں ہوگی۔
امر موسیٰ کے پیشہ وارانہ کیریئر میں اسرائیل ایک اہم تھیم رہا ہے۔ ۱۹۷۰ء کی دہائی میں مصر کے وزیر خارجہ اسماعیل فہمی تھے جن کی نظر میں امر موسیٰ کا اہم مقام تھا۔ ۱۹۷۷ء میں جب اس وقت کے صدر انور سادات نے مقبوضہ بیت المقدس کا دورہ کیا تب اسماعیل فہمی نے یہ کہتے ہوئے استعفیٰ دے دیا کہ اس اقدام سے مصر عرب دنیا میں قائدانہ حیثیت سے محروم ہو جائے گا۔ اس موقع پر امر موسیٰ نے اسماعیل فہمی کا ساتھ چھوڑ کر انور سادات کی ٹیم میں جگہ بنائی اور ۱۹۷۹ء میں کیمپ ڈیوڈ کے مشہور مصر اسرائیل سمجھوتے کا مسودہ تیار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسماعیل فہمی نے جو کچھ کہا تھا وہی ہوا۔ اسرائیل سے معاہدے کے نتیجے میں صحرائے سینا کا ایک حصہ تو مصر کو ضرور مل گیا تاہم عرب دنیا میں اس کی قائدانہ حیثیت کو زبردست دھچکا لگا۔ جب امر موسیٰ نے مصر کے وزیر خارجہ کا منصب سنبھالا تب تک اسرائیل نے مغربی کنارے کے علاقے میں بستیاں تعمیر کرنا شروع کردیا تھا۔ اس کے نتیجے میں عربوں کی نظر میں اسرائیل مزید ناقابل قبول ہوگیا۔
امر موسیٰ نے اسرائیل کے بدلتے ہوئے رویوں سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ انہوں نے واضح طور پر محاذ آرائی اختیار کی۔ کانفرنسوں اور انٹرویوز میں انہوں نے اسرائیل کو نشانہ بنانے میں کبھی تساہل سے کام نہیں لیا۔ مصر کے مشہور گلوکار عبدلرحیم نے ایک مشہور گانے میں امر موسیٰ کے اسرائیل مخالف رویے کو موضوع بنایا۔ اس گانے پر صدر حسنی مبارک نے خاصی ناراضی کا اظہار کیا۔ عبدالرحیم نے ایک اور گانے میں حسنی مبارک کی تعریف و توصیف کو موضوع بنایا۔ یہ گانا ہٹ نہ ہوسکا۔
نگوئی الغطریفی نے وزارت خارجہ میں چار سال تک امر موسیٰ کے ترجمان کی حیثیت سے کام کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ امر موسیٰ کا اسرائیل مخالف رویہ بالکل اصلی ہے۔ امر موسیٰ کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ مصر میں عوام کی اکثریت اسرائیل سے دوستی کے حق میں نہیں۔ فروری میں رونما ہونے والے عوامی انقلاب کے دو ماہ بعد امریکا کے پیو ریسرچ سینٹر نے ایک سروے کیا جس میں ۵۴ فیصد مصری باشندوں نے صاف الفاظ میں کہا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تیس سال قبل کیے جانے والے امن معاہدے کو برقرار رکھنے کے حق میں نہیں۔ ایک مغربی سفارتکار کا کہنا ہے کہ امر موسیٰ کو غیر معمولی مقبولیت دلانے میں اسرائیل مخالف رویے کا اہم ترین کردار ہے۔
کیا امر موسیٰ اسرائیل کے ساتھ طے پانے والے اس معاہدے کو ختم کردیں گے جس کی تیاری میں خود انہوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے امر موسیٰ کہتے ہیں کہ اسرائیل سے معاہدہ ختم نہیں کیا جائے۔ اور اس کا سبب بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ مصر کی تعمیر نو بنیادی مسئلہ ہے۔ اور کوئی بھی ملک تعمیر نو کے مرحلے میں کسی بھی نوع کی مہم جوئی پر مبنی پالیسی نہیں اپنایا کرتا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب امر موسیٰ اسرائیل کے اس قدر مخالف تھے تو انہوں نے حسنی مبارک کے ساتھ اتنی طویل مدت تک کام کیسے کیا؟ وزیر خارجہ کی حیثیت سے ان کا کیریئر خاصا مبہم سا رہا ہے۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے بعض ہم معاملات میں حسنی مبارک سے اختلاف بھی کیا اور ان کے ذاتی تعلقات بھی متاثر ہوئے۔ مگر اب تک وہ اس حوالے سے کوئی ثبوت پیش کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ ایک سال پہلے ہی کی بات ہے، امر موسیٰ نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ جب تک حسنی مبارک صدر کے منصب کے لیے امیدوار کی حیثیت سے سامنے آتے رہیں گے، وہ (امر موسیٰ) انہیں ووٹ دیتے رہیں گے!
جنوری میں جب مصر میں لوگ حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے تب امر موسیٰ عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے سوئٹزر لینڈ کے شہر ڈیووس میں مشہور زمانہ ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس میں شریک تھے۔ مظاہروں کا سُن کر انہوں نے اپنی مصروفیات ترک کیں اور قاہرہ کی راہ لی۔ وہ کہتے ہیں کہ لاکھوں افراد کو سڑکوں پر دیکھ کر انہوں نے حسنی مبارک کو فون کیا اور ان سے کہا کہ خون خرابے کو ٹالنے کے لیے انہیں عوام کی بات سننا پڑے گی۔ اس بات کی تصدیق اب تک کسی بھی ذریعے سے نہیں ہوسکی ہے۔
بعض اخبارات میں یہ خبریں بھی شائع ہوئی ہیں کہ مظاہروں کے آغاز کے دو ہفتوں بعد امر موسیٰ بھی مظاہرین میں شامل ہوئے تاہم انہوں نے حسنی مبارک سے مستعفی ہونے کے مطالبے کے خلاف کام کیا۔ اب امر موسیٰ کہتے ہیں کہ یہ خبریں ان کے مخالفین نے پھیلائی ہیں۔
مصر میں انتخابی نتائج کیا ہوں گے، کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ مارچ میں امر موسیٰ کو رائے عامہ کے جائزوں میں ۴۰ فیصد مصریوں کی حمایت حاصل تھی۔ اب یہ مزید گھٹ گئی ہے۔ ایسے میں ۵۷ فیصد مصری وہ ہیں جو اب تک کسی بھی امیدوار کے بارے میں ذہن نہیں بناسکے ہیں۔ امریکی کی جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے سیاسیات کے ماہر پروفیسر مارک لنچ کہتے ہیں کہ امر موسیٰ امریکا کے لیے بہتر صدر ثابت ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے دفتر خارجہ میں عشرہ گزارا ہے اور اس دوران امریکیوں سے ان کا رابطہ کئی بار اور اعلیٰ ترین سطحوں پر ہوا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امر موسیٰ کو حسنی مبارک کے مخالفین برداشت کریں گے؟ کیا جمہوریت کے لیے خون بہانے والے ایک ایسے لیڈر کو قبول کریں گے جس کے بارے میں پورے یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ وہ جمہوریت کی حمایت کرے گا یا نہیں؟ حسنی مبارک کے ساتھ کام کرنے کے ریکارڈ سے تو اندازہ ہوتا ہے کہ امر موسیٰ جمہوریت نواز رویہ نہیں اپنا سکتے۔ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ وہ کس طور چلنا پسند کریں گے۔
(بشکریہ: ’’نیوز ویک پاکستان‘‘۔ ۲۹ جولائی ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply