مصر کا نیا دستور ۲۰۱۲ء|2

دفعہ ۲۱: ریاست قانونی ضوابط کے مطابق تمام اقسام کی سرکاری، کوآپریٹو اور نجی املاک اور اوقاف کی قانونی ملکیت کی ضمانت دیتی ہے اور اس کا تحفظ کرے گی۔

دفعہ ۲۲: سرکاری رقوم قابلِ احترام (Inviolable) ہیں۔ ان کی حفاظت کرنا ریاست اور معاشرے کا قومی فرض ہے۔

دفعہ ۲۳: ریاست کوآپریٹو اداروں کے ساتھ ہر طرح سے تعاون کرے گی اور ان کی آزادی کو یقینی بنائے گی۔

دفعہ ۲۴: نجی املاک (جائیداد) قابلِ احترام ہیں اور قومی معیشت میں ان کا ایک کردار ہے، بشرطیکہ وہ انحراف یا اجارہ داری سے گریز کریں۔ وراثت کے حق کی حفاظت کی جائے گی۔ نجی املاک اُس وقت تک قرق نہیں کی جائے گی، جب تک قانون کے مطابق اور عدالتی احکام اس کی اجازت نہ دیں۔ جائیداد کا حقِ ملکیت اس وقت تک ساقط نہ ہو گا، جب تک عوام کا مفاد نہ ہو اور اس صورت میں ہرجانے کی منصفانہ رقم پیشگی ادا کی جائے گی۔

مذکورہ تمام صورتیں قانون کے مطابق طے ہوں گی۔

دفعہ ۲۵: ریاست فلاحی و خیراتی اوقاف کے نظام کی بحالی کے لیے مخلص ہے۔ وقف کی تشکیل، اس کی رقوم کے بندوبست، ان کی سرمایہ کاری اور استفادہ کنندگان (Beneficiaries) کو منافع کی تقسیم کے طریقوں کو ٹرسٹیز کی شرائط اور قانون کے مطابق چلایا جائے گا۔

دفعہ ۲۶: محصول کاری (Taxation) اور سرکاری مالیات کے دیگر فرائض کی بنیاد سماجی انصاف ہے۔

سرکاری محصولات مقرر کرنے، ان میں ترمیم کرنے یا منسوخ کرنے کا اختیار صرف قانون کے پاس ہو گا۔ محصولات سے استثنیٰ صرف ان صورتوں میں ملے گا، جو قانون میں وضع کر دی گئی ہیں۔ اضافی ٹیکس یا فیس ادا کرنے کی پابندی کسی پر نہ ہو گی تاوقتیکہ وہ قانون کے دائرے میں ہو۔

دفعہ ۲۷: اداروں کے انتظام اور منافع میں کارکنوں کا بھی حصہ ہو گا۔ اس کے بدلے میں وہ قانون کے مطابق پیداوار بڑھانے، ادارے کے ذرائع کے تحفظ اور پیداواری یونٹس میں منصوبوں پر عمل درآمد کے ذمہ دار ہوں گے۔

سرکاری شعبے کے اداروں کے بورڈز آف ڈائریکٹرز میں کارکنوں کو بھی زیادہ سے زیادہ ۵۰ فیصد تک نمائندگی دی جائے گی۔ قانون اس امر کی ضمانت دیتا ہے کہ زرعی اور صنعتی کوآپریٹو اداروں کے بورڈز آف ڈائریکٹرز میں چھوٹے کاشت کاروں اور چھوٹے ہنرمندوں کو ۸۰ فیصد نمائندگی ملے گی۔

دفعہ ۲۸: ریاست بچت کی حوصلہ افزائی اور اس کا تحفظ کرے گی۔ ریاست قانونی ضوابط کے مطابق بیمہ اور پنشن فنڈ کو بھی تحفظ دے گی۔

دفعہ ۲۹: اداروں کو قومیانے کی اجازت اس وقت تک نہیں دی جائے گی، جب تک قانون کے مطابق مفاد عامہ کو اور منصفانہ حرجانے کو زیر غور نہ لایا جائے گا۔

دفعہ ۳۰: جائیداد کی سرکاری ضبطی ممنوع ہو گی۔

نجی ضبطی صرف عدالتی حکم پر کی جائے گی۔

حصہ دوم: حقوق اور آزادیاں

باب اول: انفرادی حقوق

دفعہ ۳۱: عزت و احترام ہر انسان کا حق ہے، ریاست اس حق کا تحفظ کرے گی۔

کسی بھی انسان کی توہین یا اس کی تذلیل ممنوع ہو گی۔

دفعہ ۳۲: مصری شہریت ایک حق ہے، اسے قانونی تحفظ حاصل ہے۔

دفعہ ۳۳: قانون کی نظر میں تمام شہری برابر ہیں۔ ان کے سرکاری حقوق اور فرائض بلاامتیاز مساوی ہیں۔

دفعہ ۳۴: فرد کی آزادی ایک فطری حق ہے، یہ قابلِ احترام ہے اور اس کی حفاظت کی جائے گی۔

دفعہ ۳۵: کسی شخص کو گرفتار، زیر تفتیش، محبوس یا نقل و حرکت کی آزادی سے محروم نہیں رکھا جائے گا تاوقتیکہ وہ صریح جرم (Flagrante Delicto) کا مرتکب نہ ہوا ہو، اور اس سلسلے میں عدالتی حکم کے تحت اس سے تفتیش ضروری سمجھی جائے۔

زیر حراست یا محبوس شخص کو اس گرفتاری کی وجوہات سے ۱۲؍ گھنٹے کے اندر تحریری طور پر لازماً آگاہ کیا جائے گا، اور اسے گرفتاری کے ۲۴ گھنٹے کے اندر مجاز تفتیشی ادارے کے سامنے پیش کیا جائے گا، صرف وکیل کی موجودگی میں اس سے تفتیش کی جائے گی، اور ضرورت پڑنے پر اسے وکیل بھی مہیا کیا جائے گا۔

گرفتار یا زیر حراست شخص، اور دیگر کو گرفتاری کے خلاف عدالتوں میں اپیل کا حق حاصل ہو گا۔ اگر ایک ہفتے میں کوئی فیصلہ نہ ہو تو رہائی لازمی ہو جائے گی۔

عارضی حراست، اس کی مدت اور اس کے اسباب، حرجانے کے استحقاق، خواہ حراست عارضی ہو یا کوئی عدالت حتمی فیصلے میں سزا کو منسوخ کر دے، تمام کے ضوابط قانون طے کرے گا۔

دفعہ ۳۶: جس شخص کو گرفتار، زیر حراست رکھا جائے یا اس کی نقل و حرکت کسی بھی طرح محدود کر دی جائے، اس کے ساتھ انسانی عزت و احترام کا سلوک کیا جائے گا۔ اس شخص کو کسی جسمانی یا اخلاقی نقصان سے دوچار نہیں کیا جائے گا۔

صرف ان جگہوں کو حراست کے لیے استعمال کیا جائے گا، جو انسانی عزت و وقار اور حفظانِ صحت کے اصولوں پر پوری اترتی ہوں، اور ان کا عدالتی معائنہ بھی لازمی ہو گا۔

مذکورہ بالا میں سے کسی بھی دفعہ کی خلاف ورزی جرم ہو گی، جو قانون کے تحت مستوجب سزا ہو گی۔

اگر یہ ثابت ہوا کہ کسی شخص نے کوئی بیان جبر یا زبردستی کی مذکورہ بالا کسی نوعیت کے تحت دیا ہے تو اس بیان کو کالعدم اور بے اثر تصور کیا جائے گا۔

دفعہ ۳۷: قید خانہ نظم و ضبط اور اصلاح کا مقام ہے، یہ عدالتی معائنے سے مشروط ہو گا، انسانی عزت و وقار یا کسی انسان کی صحت کے منافی ہر چیز وہاں ممنوع ہو گی۔

ریاست اس امر کی ذمہ دار ہو گی کہ وہ مجرموں کی رہائی کے بعد ان کی بحالی اور ان کے لیے شریفانہ طرز زندگی میں مدد دے۔

دفعہ ۳۸: شہریوں کی نجی زندگی قابلِ احترام ہے۔ خط و کتابت، تار، برقی خط و کتابت، ٹیلی فون پر بات چیت یا دیگر ذرائع رابطہ کی اپنی حرمت اور رازداری ہو گی، متعلقہ عدالتی وارنٹ کے بغیر اس حرمت اور رازداری کے حق کو ضبط کیا جائے گا، نہ اس کی نگرانی (Monitor) کی جائے گی۔

دفعہ ۳۹: نجی رہائش گاہیں قابلِ احترام ہیں۔ ماسوائے فوری خطرے اور مصیبت کے، ان رہائش گاہوں میں داخل ہونا، تلاشی لینا یا نگرانی کرنا ممنوع ہو گا تاوقتیکہ قانون چند صورتیں وضع کر دے اور ایسا متعلقہ عدالتی وارنٹ کے تحت کیا جائے جس میں مقام، وقت اور مقصد کی صراحت کی گئی ہو۔ داخلے یا تلاشی سے قبل گھر میں موجود افراد کو اطلاع دی جائے گی۔

دفعہ ۴۰: تمام باشندے سلامتی کا حق رکھتے ہیں اور اس حق کی حفاظت ریاست کا کام ہے، قانون مجرمانہ دھمکیوں سے ان کی حفاظت کرے گا۔

دفعہ ۴۱: انسانی جسم کی حرمت ناقابلِ تنسیخ ہے، اور انسانی اعضا کی خریدوفروخت ممنوع ہے۔ کسی شخص کو کسی طبی یا سائنسی تجربے سے اس وقت تک نہیں گزارا جا سکے گا، جب تک اس کی آزادانہ، تحریری مرضی، طبی علوم کی مسلمہ بنیادوں کے مطابق، قانون کے وضع کردہ طریقے کے تحت حاصل نہ کر لی جائے۔

دفعہ ۴۲: نقل و حرکت، رہائش اور نقل مکانی کی آزادی کا تحفظ کیا جائے گا۔

کسی شہری کو ملک بدر کیا جائے گا، نہ ملک میں واپسی سے روکا جائے گا۔

کسی شہری کو ملک چھوڑنے سے روکا نہیں جائے گا، نہ ہی اسے مکانی حراست (House Arrest) میں رکھا جائے گا ماسوائے متعلقہ عدالتی وارنٹ کے، اور ایک معینہ مدت کے لیے۔

باب دوم: اخلاقی اور سیاسی حقوق

دفعہ ۴۳: عقیدے کی آزادی قابلِ احترام حق ہے۔

ریاست قانون کے تحت مذہبی رسوم پر عمل کی آزادی اور آسمانی مذاہب کی عبادت گاہوں کے قیام کی ضمانت دے گی۔

دفعہ ۴۴: تمام پیغمبروں اور انبیا کی توہین اور ان پر دشنام طرازی ممنوع ہو گی۔

دفعہ ۴۵: خیالات اور رائے کی آزادی کی ضمانت دی جائے گی۔

ہر فرد کو اظہار رائے اور اس کی اشاعت کا حق حاصل ہے، اظہار خواہ زبانی ہو یا تحریری، تصویری ہو یا ذرائع اشاعت اور اظہار کے کسی اور طریقے سے ہو۔

دفعہ ۴۶: مختلف صورتوں میں تخلیقیت (Creativity) کی آزادی ہر شہری کا حق ہے۔

ریاست سائنس، ادب اور فنون کو ترقی دے گی، تخلیقی افراد اور موجدوں کی دیکھ بھال کرے گی، ان کی تخلیق اور ایجادات کی حفاظت کرے گی اور معاشرے کے فائدے کی غرض سے ان کے اطلاق کے لیے کوشاں رہے گی۔

ریاست قوم کے ثقافتی ورثے کے تحفظ اور ثقافتی خدمات کے فروغ کے لیے ضروری اقدامات کرے گی۔

دفعہ ۴۷: اطلاعات، مواد، دستاویزات اور اعدادوشمار تک رسائی اور ایسے انداز میں ان کا انکشاف اور اشاعت کہ دوسروں کی نجی زندگی یا حقوق کی حرمت پامال نہ ہو اور ریاست کی سلامتی کے لیے خطرہ نہ ہو، ایک حق ہے جس کی ضمانت ریاست دیتی ہے۔

سرکاری دستاویزات کی جلد بندی (Filing) اور ان کی آثار بندی (Archiving)، معلومات تک رسائی کے طریقوں، رسائی سے منع کیے جانے کی شکایت کے طریقوں، اور نتیجتاً جواب دہی کے تمام ضوابط قانون کے تحت بنائے جائیں گے۔

دفعہ ۴۸: اخبارات، پرنٹنگ، اشاعت اور ابلاغ عامہ کی آزادی کی ضمانت دی جائے گی۔ ذرائع ابلاغ ملکی آبادی کی ضروریات کی تکمیل، رائے عامہ کے مختلف رجحانات کے اظہار، ریاست اور معاشرے کے بنیادی اصولوں کے مطابق صورت گری اور رہنمائی کے لیے آزاد اور خودمختار ہوں گے، نیز وہ شہریوں کے حقوق، آزادیوں اور سرکاری فرائض کے تحفظ، شہریوں کی ذاتی زندگی کے تقدس اور قومی سلامتی کے تقاضوں کا پاس کریں گے۔ میڈیا مراکز کی بندش یا ضبطی ماسوائے عدالتی حکم کے، ممنوع ہو گی۔

میڈیا پر کنٹرول ممنوع ہو گا، ماسوائے مخصوص سنسرشپ کے جو جنگ کے دنوں میں سرکاری لام بندی (Mobilization) کے دوران نافذ کی جائے۔

دفعہ ۴۹: مصر کے ہر پیدائشی شہری یا قانونی حکم سے ہر شہری کو نوٹیفکیشن کے تحت ہر قسم کے اخبارات کی اشاعت اور ملکیت کی آزادی کی ضمانت ہے۔

ریڈیو اسٹیشن، ٹی وی نشری یا ڈیجیٹل میڈیا کے قیام کے ضوابط قانون طے کرے گا۔

دفعہ ۵۰: شہریوں کو حق ہے کہ قانون کے تحت جاری کیے گئے اعلانات پر مبنی، غیر مسلح ہو کر عوامی اجتماعات منعقد کریں، جلوس نکالیں اور پرامن مظاہرے کریں۔

(ترجمہ: منصور احمد)

☼☼☼

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*