مصر کا نیا دستور ۲۰۱۲ء|3

دفعہ۵۱: شہریوں کو تنظیمیں اور شہری ادارے بنانے کا حق حاصل ہے، جس کا صرف اعلامیہ درکار ہو گا۔ ایسے ادارے آزادانہ کام کر سکیں گے اور انہیں قانونی فرد (Legal Person) جیسا درجہ حاصل ہو گا۔

حکام ان اداروں یا ان کے انتظامی ڈھانچے کو عدالتی حکم، اور قانون میں بتائے گئے طریقۂ کار کے بغیر منسوخ نہیں کر سکیں گے۔

دفعہ۵۲: قانون سنڈیکیٹ (Syndicate)، یونینوں اور کوآپریٹو اداروں کی آزادی کا حق دیتا ہے۔ انہیں قانونی فرد جیسا درجہ حاصل ہو گا، انہیں جمہوری اساس پر تشکیل دیا جائے گا، وہ کمیونٹی کی خدمت میں شرکت کریں گے، وہ اپنے ارکان میں پیداواریت کا معیار بلند کریں گے اور ان کے اثاثوں کی حفاظت کریں گے۔

حکام صرف عدالتی حکم کے تحت انہیں یا ان کے ڈھانچے کو منسوخ کر سکیں گے۔

دفعہ۵۳: پیشہ ورانہ سنڈیکیٹ کے ضوابط قانون بنائے گا اور انہیں جمہوری اساس پر چلایا جائے گا، ان کے ارکان کی جواب دہی پیشہ ورانہ ضابطۂ اخلاق پر منحصر ہو گی۔ ایک پیشے میں ایک ٹریڈ یونین کی اجازت ہو گی۔

حکام صرف عدالتی حکم کے تحت پیشہ ورانہ سنڈیکیٹ کے بورڈز کو منسوخ کر سکیں گے اور انہیں مال ضبطی کے زمرے میں نہیں رکھ سکیں گے۔

دفعہ۵۴: ہر شخص کو سرکاری حکام کو تحریری طور پر اور اپنے دستخط کے ساتھ مخاطب کرنے کا حق حاصل ہو گا۔

سرکاری حکام کو کوئی بھی شخص کسی گروپ کی طرف سے مخاطب نہیں کر سکے گا، صرف عدالتی شخصیات اس پابندی سے مستثنیٰ ہوں گی۔

دفعہ۵۵: ریاستی امور میں شہریوں کی شرکت ایک قومی فریضہ ہے۔ ہر شہری کو ووٹ ڈالنے، انتخابات لڑنے اور ریفرنڈم میں رائے کے اظہار کا قانون کے مطابق حق ہو گا۔

ووٹ ڈالنے کے اہل ہر شخص کا نام ووٹروں کے ڈیٹا بیس (ووٹر لسٹوں) میں درج کرانے کی ذمہ داری ریاست کی ہو گی، وہ ووٹر کی طرف سے درخواست کا انتظار نہیں کرے گی۔

ریاست ریفرنڈم اور انتخابات کے منصفانہ، جائز، غیر جانبدارانہ اور ایمان دارانہ انعقاد کو یقینی بنائے گی۔ مذکورہ فرائض میں مداخلت قانون کے تحت قابلِ سزا جرم ہو گا۔

دفعہ۵۶: بیرونِ ملک مقیم مصریوں کے مفادات کا تحفظ ریاست کرے گی، ان کی اور ان کے حقوق اور آزادیوں کی حفاظت کرے گی، مصری ریاست اور معاشرے کے حوالے سے ان کے فرائض کی انجام دہی میں ان کی مدد کرے گی اور قوم کی ترقی میں حصہ ڈالنے میں ان کی حوصلہ افزائی کرے گی۔

انتخابات اور ریفرنڈم میں ان کی شرکت کے ضوابط قانون طے کرے گا۔

دفعہ۵۷: جس غیر ملکی کو اس کا ملک اس کے مسلمہ آئینی حقوق اور آزادی سے محروم کرے گا، اس غیر ملکی کی سیاسی پناہ کا حق اسے (مصری) ریاست عطا کرے گی۔

سیاسی پناہ گزینوں کی تحویل (Extradition) ممنوع ہو گی۔

مذکورہ تمام دفعات قانونی ضوابط پر منحصر ہوں گی۔

باب سوم: معاشی اور سماجی حقوق

دفعہ۵۸: اعلیٰ معیار کی تعلیم ہر شہری کا حق ہے، ریاست جس کی ضمانت دیتی ہے۔ تمام سرکاری اداروں میں تمام مرحلوں کی تعلیم مکمل طور پر مفت ہو گی، پرائمری تعلیم لازمی ہو گی اور ریاست لازمی تعلیم کی دوسرے مرحلوں تک توسیع کے لیے کام کرے گی۔

ریاست تکنیکی تعلیم میں تعاون اور حوصلہ افزائی کرے گی، اور تمام صورتوں میں تعلیم کی نگرانی کرے گی۔

تمام سرکاری اور نجی، ملکی اور دیگر تعلیمی ادارے ریاست کے تعلیمی منصوبوں اور اہداف کی پابندی کریں گے اور معاشرے کی ضروریات اور پیداوار کے مطابق تعلیم فراہم کریں گے۔

دفعہ۵۹: ریاست سائنسی اور ادبی تحقیق کی آزادی کی ضمانت دے گی۔ جامعات، سائنسی اور لسانی درسگاہوں اور تحقیقی مراکز کی خودمختاری کو تحفظ دیا جائے گا، ریاست قومی آمدنی کا مناسب حصہ انہیں مہیا کرے گی۔

دفعہ۶۰: عربی زبان تمام تعلیمی اداروں میں تمام مرحلوں کی تعلیم میں بنیادی مضمون (Primary Subject) ہو گی۔

مذہبی تعلیم اور قومی تاریخ جامعہ سے قبل کی تعلیم کی تمام صورتوں میں بطور بنیادی مضامین شامل ہوں گے۔

دفعہ۶۱: ریاست ہر عمر کے مردوں اور عورتوں سے ناخواندگی ختم کرنے کی غرض سے ایک جامع منصوبہ تیار کرے گی، جس پر آئین کی تشکیل کے دس سال کے اندر سماجی شراکت کی مدد سے عمل درآمد کیا جا ئے گا۔

دفعہ۶۲: علاج معالجہ ہر شہری کا حق ہے اور ریاست قومی آمدنی کا مناسب حصہ اس کے لیے مختص کرے گی۔

ریاست منصفانہ اور اعلیٰ معیار کے مطابق علاج معالجے کی سہولتیں اور صحت کا بیمہ فراہم کرے گی۔ جو لوگ یہ اخراجات برداشت نہ کر سکیں، انہیں مفت سہولت ملے گی۔

صحت عامہ کے تمام ادارے ہر شہری کو ہنگامی صورتحال یا جان کو خطرہ لاحق ہونے کی صورت میں مختلف اقسام کا طبی علاج فراہم کریں گے۔

ریاست صحت عامہ کے تمام اداروں کی دیکھ بھال کرے گی، خدمات کا معیار جانچنے کے لیے ان کا معائنہ کرے گی اور صحت سے متعلق تمام تشہیری مواد، مصنوعات اور ذرائع کی نگرانی کرے گی۔ ایسی دیکھ بھال کو باضابطہ بنانے کی خاطر قانون سازی کی جائے گی۔

دفعہ۶۳: ملازمت ہر شہری کا حق، فرض اور اعزاز ہے، ریاست جس کی ضمانت دے گی اور اس میں وہ مساوات، انصاف اور مساوی مواقع کے اصولوں کو مدنظر رکھے گی۔

جبری محنت ہرگز نہیں ہو گی، ماسوائے قانون کے تحت جس کی گنجائش ہو۔

سرکاری شعبے کے ملازمین عوام کی خدمت کے لیے کام کریں گے۔ ریاست اقربا پروری یا سفارش کے بجائے صرف اہلیت (میرٹ) کی بنیاد پر شہریوں کو ملازمت دے گی۔ اس کی خلاف ورزی پر قانون کے تحت سزا دی جائے گی۔

ریاست ہر ملازم کے لیے منصفانہ معاوضے، چھٹیوں، سبکدوشی اور سماجی تحفظ، علاج معالجے، پیشہ ورانہ خطرات سے تحفظ اور جائے ملازمت پر پیشہ ورانہ حفاظت کے طریقوں کے حق کی قانون کے مطابق ضمانت دے گی۔

کسی ملازم کو قانون میں تجویز کردہ صورتوں کے بغیر برطرف نہیں کیا جا سکے گا۔

پرامن ہڑتال کا حق قانون کے مطابق دیا جائے گا۔

دفعہ۶۴: جنگوں، انقلاب ۲۵ جنوری ۲۰۱۱ء، اور قومی فرض کی انجام دہی کے دوران شہید اور زخمی ہونے والوں، جنگوں میں شریک رہنے والوں اور زخمیوں، اور جنگوں میں لاپتا ہو جانے والوں اور ایسی ہی صورتوں کے متاثرین کا ریاست احترام اور اکرام کرے گی اور ان کے اہل خانہ سے تعاون کرے گی۔

انہیں، ان کے بچوں اور ان کی بیویوں کو ملازمتوں میں ترجیح دی جائے گی۔

مذکورہ تمام صورتوں کو قانون کے مطابق رو بہ عمل لایا جائے گا۔

دفعہ۶۵: ریاست سماجی بیمہ کی خدمات فراہم کرے گی۔

وہ تمام شہری جو معذوری، بیروزگاری اور پیرانہ سالی کی بنا پر اپنی یا اپنے اہل خانہ کی کفالت نہیں کر سکتے، سماجی بیمے کے حقدار ہوں گے جو انہیں کم سے کم ذریعۂ معاش کی ضمانت دے گا۔

دفعہ۶۶: ریاست چھوٹے کاشت کاروں، زرعی کارکنوں، عارضی ملازمین، اور ان تمام کو جو سماجی بیمہ نظام تک رسائی نہیں رکھتے، مناسب پنشن فراہم کرے گی۔

یہ تمام ضوابط قانون پر منحصر ہوں گے۔

دفعہ۶۷: مناسب رہائش، صاف پانی اور صحت بخش خوراک مسلمہ حقوق کا درجہ رکھتی ہے۔

ریاست سماجی انصاف، آزادانہ اقدامات کے فروغ اور ہائوزنگ کوآپریٹو اداروں اور قومی اراضی کے تعمیرات کی غرض سے استعمال کے ضوابط کی بنیاد پر اور مفادِ عامہ اور مستقبل کی نسلوں کے حقوق کو مدنظر رکھتے ہوئے رہائش کے حوالے سے ایک قومی منصوبہ اپنائے گی۔

دفعہ۶۸: کھیلوں میں حصہ لینا ہر ایک کا حق ہے۔

ریاست اور سماجی ادارے باصلاحیت ایتھلیٹس کی تلاش اور ان کی معاونت کے لیے کوشش کریں گے، وہ کسرت (Exercise) کی حوصلہ افزائی کے لیے ضروری اقدامات کریں گے۔

دفعہ۶۹: صحت بخش ماحول ہر فرد کا حق ہے۔ ریاست ماحول کو آلودگی سے بچائے گی اور قدرتی وسائل کے ایسے استعمال کو فروغ دے گی، جس سے ماحول کا نقصان نہ ہو اور مستقبل کی نسلوں کے حقوق بھی محفوظ رہیں۔

دفعہ۷۰: نام، خاندان کی طرف سے تحفظ، بنیادی تغذیہ، ٹھکانہ، صحت کی دیکھ بھال اور مذہبی، جذباتی اور شعوری آگاہی کا حصول پیدائش کے لمحے سے ہر بچے کا حق ہے۔

خاندان سے محروم ہو جانے والے بچے کی دیکھ بھال اور حفاظت ریاست کا کام ہے۔ ریاست معذور بچوں کے حقوق کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ان کی بحالی اور معاشرے میں ان کے فعال کردار کو تحفظ دے گی۔

لازمی تعلیم کی عمر پوری کرنے سے پہلے، ان ملازمتوں میں بچہ مزدوری ممنوع ہو گی جو بچے کی عمر سے مطابقت نہ رکھتی ہوں، یا جو بچے کے تعلیم جاری رکھنے میں رکاوٹ بنیں۔

کسی بچے کو ایک مخصوص مدت تک کے لیے ہی زیر حراست رکھا جا سکے گا، اسے لازماً قانونی مدد فراہم کی جائے گی، اسے اس کی جنس، عمر اور جرم کی نوعیت کے لحاظ سے ایک باسہولت مقام پر رکھا جائے گا اور بالغ افراد کے حراستی مراکز سے دور رکھا جائے گا۔

دفعہ۷۱: ریاست بچوں اور نوجوانوں کو دیکھ بھال فراہم کرے گی۔ وہ ان کی روحانی، اخلاقی، تہذیبی، تعلیمی، جسمانی، نفسیاتی، سماجی اور مالی ترقی میں معاون ہو گی اور انہیں فعال سیاسی شرکت کا اختیار دے گی۔

دفعہ۷۲: ریاست معذوروں کو صحت، مالی اور سماجی تحفظ دے گی، انہیں ملازمت کے مواقع فراہم کرے گی، ان کے بارے میں سماجی آگاہی میں اضافہ کرے گی اور عوامی سہولت کے مقامات کو ان کی ضروریات کے مطابق ڈھالے گی۔

دفعہ۷۳: انسانوں پر جبرواستحصال کی تمام صورتیں اور جنسی تجارت ممنوع اور قانون کے تحت مستوجب سزا ہوں گی۔

باب چہارم: حقوق اور آزادیوں کے تحفظ کی ضمانت

دفعہ۷۴: قانون کی برتری ریاست پر حکمرانی کی بنیاد ہو گی۔

عدلیہ کی آزادی اور مامونیت (Immunity) حقوق اور آزادیوں کے تحفظ کی دو بنیادی ضمانتیں ہیں۔

دفعہ۷۵: ہر ایک کو قانونی کارروائی (Litigation) کا حق حاصل ہے اور اس حق کی ضمانت دی جاتی ہے۔

ریاست مدعیان کو نظامِ انصاف تک رسائی اور مقدمات پر تیزی سے کارروائی کی ضمانت دے گی۔

کسی اقدام یا انتظامی فیصلے کو عدلیہ کے اختیار سے مامونیت حاصل نہیں ہو گی، ایسا کوئی اقرار کرنا ممنوع ہو گا۔

کوئی شخص عام (Natural) جج کے سوا کسی اور کے سامنے پیش نہیں کیا جائے گا، استثنائی (Exceptional) عدالتیں ممنوع ہوں گی۔

دفعہ۷۶: سزا اور تعزیر جرم کے مطابق دی جائے گی۔ صرف آئین کا قانون ہی جرم یا سزا کا تعین کرے گا۔ عدالتی حکم کے بغیر کوئی سزا نہیں دی جا سکے گی۔ کسی قانون کے نفاذ کے بعد جرم کے ارتکاب پر سزا دی جا سکے گی۔

دفعہ۷۷: کسی عمل کو اس وقت تک جرم قرار نہیں دیا جاسکے گا جب تک کوئی عدالتی ادارہ اس بارے میں حکم جاری نہ کرے، ماسوائے ان صورتوں کے قانون جن کی تشریح کرے۔

مدعا علیہ (ملزم) اس وقت تک بے قصور ہے، جب تک باضابطہ مقدمے میں وہ مجرم ثابت نہ ہو جائے اور اسے صفائی کا حق نہ دے دیا جائے۔ سنگین جرائم کے ہر ملزم کو وکیل صفائی مہیا کیا جائے گا۔ معمولی جرائم جن میں وکیل صفائی کی ضرورت ہوتی ہے، کی تشریح قانون کرے گا۔

سنگین جرائم اور معمولی جرائم میں اپیل کے قواعد و ضوابط قانون طے کرے گا۔

جرم کا نشانہ بننے والوں، گواہوں، ملزموں اور مخبروں کا تحفظ جہاں ضروری ہوا، ریاست کرے گی۔

دفعہ۷۸: بالاصل پیش ہو کر (In Person) یا متبادل (Proxy) کے ذریعے صفائی کے حق کی ضمانت دی جاتی ہے۔

قانون مالی لحاظ سے کمزور شہریوں کو انصاف دلانے کے ذرائع اور ان کے حقوق کے دفاع کی ضمانت دیتا ہے۔

دفعہ۷۹: عدالتی فیصلے عوام کے نام پر جاری اور نافذ کیے جائیں گے۔ ان فیصلوں پر متعلقہ سرکاری ملازمین کی جانب سے (عمل درآمد سے) گریز یا ان کے نفاذ میں رکاوٹ بننا قابلِ سزا جرم ہو گا۔ ایسی صورت میں، جس شخص کے حق میں عدالت کا فیصلہ آ چکا ہو گا، اسے حق حاصل ہو گا کہ مجاز عدالت میں مجرمانہ کارروائی کی براہ راست شکایت درج کرائے۔

دفعہ۸۰: آئین جن حقوق اور آزادیوں کی ضمانت دیتا ہے، ان پر تجاوز (Encroachment) کو جرم تصور کیا جائے گا۔ ریاست ایسے تجاوز سے متاثرہ فرد کو منصفانہ حرجانہ دے گی۔

متاثرہ فریق کو حق حاصل ہو گا کہ مجرمانہ کارروائی کی براہ راست شکایت درج کرائے۔

’قومی کونسل برائے انسانی حقوق‘ ان حقوق کی کسی خلاف ورزی سے سرکاری وکیل کو مطلع کرے گی، وہ مقدمے کی کارروائی میں متاثرہ فریق کے ساتھ ہو گی اور اس کی جانب سے اپیل کر سکے گی۔

دفعہ۸۱: شہریوں کے حقوق اور آزادیوں کو انتشار (Disruption) یا ہتک (Detraction) کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔

حقوق اور آزادیوں پر عمل کا ضابطہ بنانے والے کسی قانون میں اس کی روح کے منافی کوئی شق شامل نہیں کی جائے گی۔

مذکورہ حقوق اور آزادیوں پر عمل اس طور کیا جائے گا کہ اس آئین کے حصہ اول میں درج ریاست اور معاشرے سے متعلق اصولوں سے تصادم نہ ہونے پائے۔

(ترجمہ: منصور احمد)

☼☼☼

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*