
سب سے پہلے تو میں یہ اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ اِس تحریر کا عنوان میرا نہیں۔ مجھ میں فیلڈ مارشل (ریٹائرڈ) السیسی کو مصر کے نئے سلطان کا لقب دینے کی جرأت ہر گز نہیں۔ برطانیہ کے اخبار ’’گارڈین‘‘ کے مصر میں نامہ نگار رابرٹ فِسک نے اپنے تازہ کالم میں جنرل السیسی کو Egyptian Emperor کا خطاب عطا فرمایا۔
مصر کی ہمسایہ خاندانی بادشاہتیں اِس خطاب کو فی الفور پسندیدگی کی سند عطا کر چکی ہیں- السیسی کی تاجپوشی اور تخت نشینی کی رسومات میں ان کی پرجوش اور بھرپور شرکت اِس حقیقت کا بیّن ثبوت ہیں۔ خوشی کی اِس گھڑی میں اِن خاندانی بادشاہتوں نے خطیر مالی امداد کے نئے اعلانات کیے۔ امریکا، برطانیہ اور فرانس نے فی الفور مبارکباد پیش کی ۔
جمہوریت کے نام لیوا اِن ممالک نے صدر السیسی کے اِس اعلان کو سُنا اَن سُنا کر دینا ہی مناسب سمجھا کہ مصر میں جمہوریت کو جڑ پکڑنے میں کم از کم مزید بیس سال کا عرصہ درکار ہے۔ اِس اعلان پہ مجھے صدر السیسی کی پہلی انتخابی پریس کانفرنس یاد آئی جس میں انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ ہرچندمصر میں امریکا کی سفیراین پیٹرسن نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ اقتدار پر قبضہ کرنے میں ایک دو روز کی تاخیر مناسب رہے گی، تاہم میں نے مزید ایک دو روز انتظار کرنا مناسب نہ سمجھاتھا۔ ان کے اِس اعتراف سے یہ حقیقت تو منکشف ہو گئی کہ صدر السیسی کے جمہوریت کش اور آمریت دوست اقدام کو امریکا کی درپردہ حمایت حاصل تھی۔ آج مصر میں امریکا کی یہی سفیر، امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں جا بیٹھی ہیں۔ کچھ عجب نہیں کہ وہ اب بھی جنرل صاحب کو اپنے مشوروں سے نواز رہی ہوں۔ کچھ عجب نہیں کہ جب الیکشن کے روز لوگ گھروں سے بہت کم تعداد میں نکلے، تب پولنگ کا وقت بڑھا دینے کا مشورہ بھی وہیں سے آیاہو۔ اخوان المسلمون انواع و اقسام کی پابندیوں میں جکڑ دی گئی ہے۔ سرکاری طور پر دہشت گرد تنظیم قرار دیے جانے کے بعد اِس کے جو تھوڑے بہت ہمنوا قید خانوں سے باہر سانس لے رہے ہیں، انھوں نے انتخابات کے اِس ڈھونگ کا مکمل بائیکاٹ کیا ہے۔
تعزیر و احتساب کی شدت کا یہ عالم ہے کہ ٹیلی ویژن چینلز کے مقبول ترین طنزیہ و مزاحیہ پروگرام کے اینکر اور روح رواں، بسام یوسف نے یہ پروگرام بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ان کے اہلِ خاندان اور خود انہیں مسلسل دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ یاد رہے کہ بسام یوسف آزادیٔ صحافت کا بین الاقوامی ایوارڈ جیت چکے ہیں اور ان کا یہ طنزیہ و مزاحیہ پروگرام عرب دنیا کے مقبول ترین پروگراموں میں سے ایک ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں پر مکمل سکوت طاری ہے۔ انسانی حقوق کی اِس پامالی پر اِن تنظیموں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔
انہی دنوں شام کے صدر بشارالاسد نے بھی اپنا انتخابی معرکہ اسی انداز کی کامیابی سے سر کیا ہے۔ وہ بھی ایک بار پھر شام کے صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ انہیں روس کی حمایت حاصل ہے۔ جس طرح مصر میں مغربی دنیا کی حمایت سے عوام کو جمہوریت کے نظام اور تمام تر انسانی حقوق سے محروم رکھا جارہا ہے۔ بالکل اسی انداز میں روس کی تائید وحمایت سے شام میں بھی خاندانی آمریت کا بول بالا ہے۔ ہر دو ممالک کی حکومتوں کو سب سے بڑا خطرہ اخوان المسلمون کی اسلامی عوامی جمہوریت سے ہے۔ سرمایہ پرست مغربی دنیا بھی اور سوشلسٹ دنیا بھی اسلام کی حقیقی روح کی بازیافت کواپنے مخصوص مفادات کے لیے سب سے بڑا خطرہ تصور کرتی ہے۔ شام میں تو اسلام کے مبارک نام پر دہشت گردوں کے نامبارک گروہ اسلام کی حقیقی روح کو کچلنے میں مصروف ہیں۔ مگر مصر میں دہشت گردی کا یہ سلطانی فریضہ فوج سرانجام دے رہی ہے۔
اپنی پہلی انتخابی تقریر میں صدر السیسی نے یہ بڑا بول بولا تھا کہ وہ اخوان المسلمون کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گا اور اب منصبِ صدارت پر فائز ہونے کے بعد اس نے اپنے اِس عزم بالجزم کو ایک مرتبہ پھر دہرایا ہے کہ وہ اخوان المسلمون کے وجود کو ہر گز برداشت نہیں کرے گا۔ اگر صدر السیسی شاعری کے فیضان سے محروم نہ ہوتے تو میں ان کی خدمت میں علامہ اقبال کا درج ذیل شعر پیش کرتا:
رہے ہیں اور ہیں فرعون، میری گھات میں اب تک
مگر کیا غم کہ میری آستیں میں ہے یدِبیضا
اِس پہ مجھے قطر میں مقیم اخوان المسلمون کے ترجمان شیخ یوسف القرضاوی یاد آئے ہیں۔ القرضاوی کے خطبات پر برافروختہ ہو کرسعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے قطر سے اپنے سفیر واپس بلا لیے ہیں۔
خلیجی ممالک کے مابین اِن اختلافات کو دور کرنے کی خاطر شیخ القرضاوی نے اعلان کیا ہے کہ: ’’میرے خیالات اور تصورات میرے اپنے ہیں، قطر کی حکومت کے ہر گز نہیں‘‘۔
جب شیخ قرضاوی نے قطر کے سرکاری ٹیلی ویژن پر اپنی گفتگو کے دوران متحدہ عرب امارات کے نظام کو غیر اسلامی نظام قرار دیا تھا، تب یہ سفارتی اِنقطاع عمل میں لایا گیا تھا ۔ شیخ قرضاوی نے اپنے تازہ بیان میں اِس بات کا اقرار کیا ہے کہ میں تمام خلیجی ممالک سے محبت کرتا ہوں اور انہیں اپنا وطن تصور کرتا ہوں۔ اگر میں نے اپنے خطاب کے دوران چند ایسے جملے کہہ دیے ہیں جو تمہاری طبع نازک پر گراں گزرے ہیں تو سوچو کہ ’’اگر میں ایک پورا خطبہ تمہارے ظلم و ستم اور تمہارے اسکینڈلز کے موضوع پر دے ڈالوں تو تم میرا کیا بگاڑ لو گے؟‘‘
شیخ قرضاوی نے اِن افواہوں کو سراسر بے بنیاد قرار دیا ہے جن کے مطابق وہ بہت جلد قطر سے کسی اور ملک چلے جائیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’میں قطر کے وجود کا حصہ ہوں اور قطر میرے وجود کا حصہ ہے۔ میں ہمیشہ قطر میں رہوں گا اور بالآخر قطر ہی میں دفنایا جائوں گا‘‘۔
یہاں یہ بتا دینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ شیخ یوسف القرضاوی فی الحقیقت مصر کے باشندے ہیں۔ وہی مصر جہاں کا نیا فرعون ان کے اور ان جیسے دوسرے اخوان رہنمائوں کے خوف سے کانپ رہا ہے۔ وہ اپنے لرزتے ہوئے جسم اور اپنی ڈری سہمی جان کو توانائی بخشنے کے لیے بڑی بلند آہنگی سے یہ کہنے پہ مجبور ہے کہ وہ اخوان المسلمون کو جڑ سے اکھاڑپھینکے گا۔
ارے میاں! اخوان المسلمون کی جڑیں تو پورے مشرقِ وسطیٰ میں پھیلی ہوئی ہیں۔ صرف مشرقِ وسطیٰ ہی نہیں مغربِ اقصیٰ میں بھی۔ اِن جڑوں کو اکھاڑنے کی تمنّا میں کئی فرعون اپنے کیفرِ کردار کو پہنچ چکے ہیں۔ باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں۔
یاد کروکہ مصر میں انتخابات کے اعلان پر قطری عالمِ دین شیخ یوسف القرضاوی نے ۲۶مئی کو مصریوں سے اپیل کی تھی کہ وہ صدارتی انتخاب اور فیلڈ مارشل السیسی کا بائیکاٹ کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ السیسی نے خدا کی نافرمانی کی ہے۔ اِس لیے وہ انتخاب میں ووٹ ڈالنے کے لیے گھروں سے نکلنے کے گناہ میں ہرگز شریک نہ ہوں۔ تمہارے لیے سوچنے کا مقام ہے کہ مصریوں نے مصر سے دور قطر میں بیٹھے ہوئے عالمِ دین کے مشورے پر عمل کیا یا تمہارے شور و غل پر۔ سوچو، اور گِنو کہ پورے خطے کے ہر ملک میں کتنے جاں نثارانِ اسلام، شیخ القرضاوی کی ہم نوائی میں مصروف ہیں!
(بشکریہ: روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ لاہور۔ ۱۲؍جون ۲۰۱۴ء)
Leave a Reply