مصری ریفرنڈم کے پہلے مرحلے کے نتائج

پندرہ دسمبر ۲۰۱۲ء کو مصر کے نئے دستور پر جاری ریفرنڈم کے پہلے مرحلے کے ابتدائی نتائج کے مطابق، دستور کی حمایت میں ۵۹ فیصد لوگوں نے ووٹ دیے۔ پہلے مرحلے میں قاہرہ، اسکندریہ، شمالی اور جنوبی سینا، اسوان اور اسیوط سمیت مصر کے دس بڑے اضلاع میں پولنگ ہوئی۔ قاہرہ اور غربیہ کے علاوہ تمام اضلاع میں لوگوں کی اکثریت نے دستور کے حق میں ووٹ ڈالے۔ قاہرہ میں دستور کے حق میں ۹ لاکھ، ۵۰ ہزار ۵۰۰ ووٹ اور مخالفت میں ۱۲؍ لاکھ ۵۶ ہزار جبکہ غربیہ میں ۴ لاکھ ۸ ہزار ۲۰۰ ووٹ حق میں اور تقریباً ۵ لاکھ دس ہزار ووٹ مخالفت میں پڑے۔ مجموعی طور پر دستور کی تائید میں ۴۶ لاکھ چار ہزار اور مخالفت میں تقریباً ۳۵ لاکھ ۴۰ ہزار افراد نے رائے دی۔

متحدہ اپوزیشن نے زور و شور کے ساتھ ٹیلی ویژن پر اشتہارات چلا کر دستور کی مخالفت اور اسے مسترد کرنے کی دعوت دی، تاہم غیر متوقع طور پر لوگوں کی بڑی تعداد نے ووٹنگ میں حصہ لیا۔ کئی مقامات پر ووٹ ڈالنے کے لیے آئے ہوئے لوگوں نے کئی کئی کلومیٹر لمبی قطاریں بنا کر اپنی باری کا انتظار کیا۔ ووٹنگ کے لیے وقت دو گھنٹے بڑھا دیا گیا۔

اس سے قبل بیرون ملک مقیم مصریوں کے لیے ۱۲ سے ۱۵ دسمبر ۲۰۱۲ء تک مصر کے سفارت خانوں میں پولنگ کے انتظامات کیے گئے تھے، تاہم لوگوں کی زیادہ تعداد اور بیرون ملک مصریوں کے مخصوص حالات کے پیش نظر ان کے لیے مزید دو دن اضافہ کیا گیا۔ اب ۱۷؍ دسمبر تک بیرون ملک ووٹنگ جاری رہے گی۔ بیرون ملک مصر کے رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد تقریباً ۵ لاکھ ۸۶ ہزار ہے، جن میں زیادہ تعداد بالترتیب سعودی عرب، کویت، امارات، قطر اور امریکا میں ہے۔ ذرائع کے مطابق جمعہ ۱۵؍دسمبر کی شام تک ایک لاکھ بیس ہزار سے زائد لوگوں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا تھا۔

پولیس اور فوج کے ڈھائی لاکھ جوانوں نے پولنگ کو پُرامن بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ چھ ہزار ۳۷۶ پولنگ اسٹیشن بنائے گئے تھے، جہاں اتنے ہی ججوں نے نگرانی کے فرائض انجام دیے۔ جب کہ ۱۷۵؍عام پولنگ اسٹیشنوں میں تین سے چار ججوں نے انتخابی عمل کی نگرانی کی۔ مجموعی طور پر کہیں سے بھی کسی ناخوشگوار واقعہ کی اطلاعات موصول نہیں ہوئیں۔

ریفرنڈم کے دوسرے مرحلے میں ۲۲ دسمبر کو اسماعیلیہ، بورسعید اور جیزہ سمیت ۱۷؍ اضلاع میں پولنگ ہوگی اور اسی دن، رات تک نتیجے کا اعلان کیا جائے گا۔ ان اضلاع میں رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد تقریباً دو کروڑ ۵۰ لاکھ ہے۔

واضح رہے کہ مصر میں جاری سیاسی بحران کے خاتمے کے لیے، صدر محمد مرسی کی دعوت پر حکومت، اپوزیشن اور قانونی ماہرین کے مابین گزشتہ دنوں مذاکرات ہوئے، جن میں اپوزیشن کا بنیادی مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے، صدر کو خصوصی اختیارات دینے والا متنازعہ صدارتی آرڈیننس منسوخ کردیا گیا۔

اس آرڈیننس کی منسوخی کے بعد توقع کی جارہی تھی کہ تقریباً دو ہفتے سے جاری سیاسی بحران ختم ہوجائے گا، لیکن مرسی حکومت کو ہر صورت میں ناکام کرنے پر تُلی ہوئی بعض اپوزیشن جماعتوں نے نیا فیصلہ بھی مسترد کرتے ہوئے احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ دستور پر ریفرنڈم منسوخ کیا جائے، بلکہ دستوری اسمبلی ہی ختم کردی جائے۔

حالیہ مذاکرات کے بعد جاری ہونے والے اعلان میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ عبوری دستور کی شق ۶۰ کے مطابق دستوری مسودہ تیار ہوجانے کے ۱۵ روز کے اندر اندر اس پر ریفرنڈم ضروری ہے اور وہ طے شدہ وقت پر ہی ہوگا، البتہ اگر عوام کی اکثریت نے اس دستوری مسودے کو مسترد کردیا تو صدر تین ماہ کے اندر نئی دستوری اسمبلی منتخب کرنے کا پابند ہوگا، جو ۶ ماہ کے اندر نیا دستوری مسودہ پیش کرے گی اور پھر ایک ماہ کی مدت میں اس پر عوامی ریفرنڈم کروایا جائے گا۔

نئے صدارتی آرڈی ننس میں بھی یہ بات واضح کی گئی ہے کہ اسے کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا کیونکہ صدارتی ذرائع کے مطابق بعض سابق صدارتی اُمیدواروں نے دستوری عدالت کے کئی ججوں کے ساتھ مل کر فیصلہ کیا تھا کہ وہ دستور سازی کے اس پورے عمل کو ’’دستوری عدالت‘‘ میں چیلنج کرتے ہوئے کالعدم کروادیں گے۔

تازہ صدارتی آرڈی ننس کی ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اس سے گزشتہ آرڈی ننس کے نتیجے میں مرتب اثرات کالعدم قرار نہیں ہوں گے، جس کا مطلب ہے کہ سابق پراسیکیوٹر جنرل کی برطرفی اور نئے پراسیکیوٹر کا تعین جوں کا توں رہے گا۔ حسنی مبارک کی باقیات کے لیے یہ سب سے تکلیف دہ امر ہے۔ سابق پراسیکیوٹر، حسنی مبارک کا متعین کردہ تھا اور وہ سابق حکمرانوں کو قانون کی زد سے بچانے اور عدالتوں کے ذریعے ریاستی اداروں (مثلاً قومی اسمبلی) کو کالعدم کروانے میں بنیادی کردار ادا کررہا تھا۔

دوسری طرف اخوان کے مرشد عام نے مصری اور عالمی ذرائع ابلاغ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ایوان صدر کے سامنے اور دیگر حادثات میں اب تک ۸؍ افراد شہید ہوچکے ہیں۔ یہ سب کے سب اخوان المسلمون کے کارکنان تھے، لیکن میڈیا اور اپوزیشن تشدد اور خوں ریزی کا الزام بھی اخوان ہی پر تھوپ رہی ہے۔

تیسری جانب فوج کے ترجمان نے اہم بیان جاری کرتے ہوئے اپوزیشن کو مذاکرات ہی کے ذریعے اختلافات دور کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ عسکری ترجمان کے الفاظ میں ’’مذاکرات ہی مسئلے کا اکلوتا اور بہترین حل ہیں۔ مذاکرات ہی کے ذریعے ملک اور شہریوں کے مفادات کی حفاظت کی جاسکتی اور قومی یکجہتی یقینی بنائی جاسکتی ہے‘‘۔

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*