
مصری بغاوت سب کے لیے غیر متوقع تھی، جن میں خود مصری بھی شامل ہیں، جو اپنے حکام کے سلسلے میں طویل صبر کے عادی ہیں، خواہ ان کا طغیان آخری حد کو پہنچ جائے۔ اس بغاوت کا مقصد استبدادی نظام کو جمہوری نظام سے بدلنا تھا، اس کا شعار تھا: قائم نظام کے صدر رخصت ہوں۔ یہ نئی شرعیت قدیم شرعیات کے ملبے کے ڈھیر پر پیدا ہوئی تھی، جن کی نمایاں غلطیاں: آزادیوں کا گلا گھونٹنا، رائے کا استبداد اور زبردست کرپشن تھیں۔ اب یہ نئی شرعیت حاصل شدہ مقاصد پر قائم ہوگی اور قاتل غلطیوں سے بچے گی۔ اس عوامی بغاوت کی رہنمائی کوئی سیاسی گروہ یا جماعت نہیں کر رہی تھی بلکہ اس کو تمام فکری و سیاسی رجحانات کے حامل نوجوانوں نے (جن میں اسلام پسند بھی شامل تھے) برپا کیا تھا، اگرچہ وہ اخوان کا کام نہیں تھا لیکن وہ اس میں فعال طور پر شریک تھے اور انہوں نے اس کو اس مخالفانہ تشدد سے بچانے کی کوشش کی، جس کو حکومتی اداروں اور پولیس نے غنڈوں اور قیدیوں کو شکاری کتوں کی طرح چھوڑ کر پھیلایا تھا، اس کے باوجود نوجوان میدان میں ڈٹے رہے اور اگر کہیں گئے بھی تو صرف عوام کی طرف اقتدار کی پرامن منتقلی کی گفتگو کے لیے۔ اس بغاوت نے اس جھوٹے استحکام کو ہلا دیا جس کا معزول صدر پروپیگنڈا کیا کرتے تھے، حالانکہ وہ صحیح بنیادوں پر قائم نہیں تھا، بلکہ انہوں نے خطے میں حالات کو دھماکا خیز بنا دیا تھا اور ان کے اثرات دیگر ممالک تک بھی پہنچے تھے۔
مصر متعدد خطرناک عوامل کی وجہ سے بغاوت کے مرحلے تک پہنچا، جو مبارک کی تیس سالہ حکومت میں پیدا ہوئے اور سابق حکام کی برائیوں نے خطرناک شکل اختیار کی اور اس کا شعلہ ان آخری پارلیمانی انتخابات نے بھڑکایا جن کی حکمراں نیشنل پارٹی کے حق میں مکمل جعلسازی کی گئی اور اپوزیشن کو پارلیمانی، پیشہ ورانہ یونینوں و انجمنوں کی نمائندگی سے بالکل علیحدہ کر دیا گیا، تو اس کے لیے بغاوت کے دوران عوام کے ساتھ سڑک پر کام کے علاوہ کوئی میدان نہیں بچا… نیز انتخابات سے پہلے میڈیا بلیک آئوٹ کی وجہ سے مصریوں کو انتہائی ذلت کا احساس اس وقت اور زیادہ ہوا جب صدر اور اس کے کارندوں نے حقیقت کے اعتراف کے بجائے انتخابات کے نتائج پر فخر کرنا شروع کیا۔ طویل مدت تک استبداد بھگتنے کے علاوہ مصریوں کا واسطہ حکومت کے اعلیٰ محکموں میں عام کرپشن سے بھی پڑا، جس نے آخری دہائی میں اقتدار اور دولت کے درمیان حرام رشتہ قائم کیا، پھر حسنی مبارک کے فرزند جمال کی وراثت کی واضح تمہیدیں سامنے آنی شروع ہوئیں کہ اس کی وجہ سے بھی مصریوں میں شدید توہین کے ساتھ تبدیلی کی ضرورت کا احساس ہوا، جو ۲۵ جنوری ۲۰۱۱ء کو بغاوت کے دھماکے کے ساتھ سامنے آئی، پھر پولیس راج، خوفناک جبر و قہر اور سیاسی کارکنوں خاص طور سے اخوان کی متواتر گرفتاریوں نے (مبارک کے نامبارک عہد میں اخوان کے تیس ہزار لوگ گرفتار ہوئے تھے جن میں سے آخری گرفتاری ۲۹ جنوری ۲۰۱۱ء کو جمعہ کے دن صبح کے وقت ۳۴ اخوانیوں کی ہوئی تھی) آگ پر تیل کا کام کیا، یہاں تک کہ قیدیوں نے خود اپنے آپ کو بغاوت کے دوران آزاد کرایا… نیز یہ انقلاب ایسے علاقائی ماحول میں آیا جبکہ امن کے تقاضوں سے بار بار صہیونی فرار کی وجہ سے وہ چیز جس کو ’’امن کا عمل‘‘ کہا جاتا ہے، واضح طور پر رک کر فلسطینیوں کا امن و استقرار کا خواب و ہم خیال بن چکا تھا اور متشدد انتہا پسند دائیں بازو کی صہیونی حکومت عرب و فلسطینیوں کی عمداً توہین کر رہی تھی اور ان کے خلاف نسل پرستانہ پالیسی چلا رہی تھی اور مصری حکومت کا استحصال کر رہی تھی جو مسلسل امریکی مدد اور مزید دستبرداریوں کے لیے دبائو کے سائے میں آخرکار صہیونی وجود کے لیے حفاظت کا آلۂ کار بن گئی تھی، مگر یہ دبائو کبھی بھی مصریوں کی آزادانہ زندگی، اجتماعی عدل و انصاف، عدالت کے احترام اور آزادیٔ رائے کے لیے بروئے کار نہیں آئے، اگر امریکا اور اس کے عرب اتحادیوں نے خطے میں اپنی سیاست نہیں بدلی اور اپنے تزویراتی اتحادوں پر نظرثانی نہیں کی تو وہ خسارہ اٹھاتے رہیں گے۔ اس لیے کہ جمہوری تبدیلی کی موج خطے میں پہنچ چکی ہے، اور وہاں آزادی کی ہوائیں چلنے لگی ہیں اور عوام ہی باقی رہنے والے ہیں۔ افغانستان اور پھر عراق میں جمہوری نظام کی تعمیر میں جب امریکا کی جھوٹی کوششیں بری طرح ناکام ہو چکیں، اس وقت مصریوں نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ امریکی مدد کے بغیر اپنا بہتر مستقبل بنانے پر قادر ہیں، وہ مصر میں انشاء اللہ حقیقی جمہوری نظام تعمیر کریں گے جس کا نور پورے خطے میں پھیلے گا۔ امریکا اس وقت دنیا میں سب سے مالدار اور طاقتور ملک ہے اور طویل مدت سے وہ دعوے کرتا رہتا ہے کہ وہ آزاد دنیا کا لیڈر ہے اور اس کے لیے اس نے بڑے شعار بلند کیے تو اس کا کیا جاتا، اگر وہ اقوام کے حق خود اختیاری، ان کے اپنے حکام کے خود انتخاب اور جمہوریت کے قواعد خود متعین کرنے کے حق کا احترام کرنا، اور عالمی امن و امان کے قیام اور اقتصادی سائنسی و ٹیکنالوجی کے میدانوں میں بین الاقوامی تعاون کی فکر کر کے ایسا انسانی ماڈل پیش کرتا جس سے اس کو دنیا کی ہمدردی ملتی۔
جہاں تک الاخوان المسلمون کا تعلق ہے جن کو مبارک کے نظام حکومت نے امریکا و مغرب کو ڈرانے کے لیے ہوّا کے طور پر پیش کیا تو انہوں نے اپنے صبر واستقلال، قربانی اور انکار ذات کی قدرت و صلاحیت کو ثابت کیا اور مصر اور اس کے استقرار اور استحکام کے لیے وہ کچھ جھیلا جس کو کوئی فروبشر برداشت نہیں کر سکتا، وہ تشدد پر نہیں اترے، جبکہ امریکی و مغربی خاموشی، عرب رضامندی اور سابق حکومت کی پروپیگنڈا مشنری کے استقبال کے درمیان ان پر فوجی مقدمے چلائے گئے، نہ انہوں نے قوم سے خیانت کی، نہ اس کے پس پشت سودے بازی کی، بلکہ ان کے مطالبات کو مذاکرات کے لیے اٹھایا کہ وہ حاصل ہوں، مگر ان سے جماعتی فائدہ نہیں اٹھایا۔ الاخوان المسلمون نے اعلان کیا کہ وہ آئندہ صدارت کے لیے اپنا امیدوار کھڑا نہیں کریں گے بلکہ دیگر امیدواروں میں ترجیح کے لیے ان کے پروگراموں کا مطالعہ کریں گے، ہاں ساجھے داری کے قاعدے کے مطابق نہ کہ اکثریت حاصل کرنے کے لیے پارلیمانی انتخابات میں امیدوار کھڑے کریں گے اور حریت و آزادی، عدل و انصاف، انسانی عزت و کرامت اور اجتماعی عدالت پر قائم حقیقی استقرار و استحکام کے لیے تمام وطنی طاقتوں سے اتحاد قائم کریں گے۔ وہ ایک عام اسلامی جماعت ہیں جو جامع و مشاغل اسلام کے مفہوم کے قائل ہے، وہ اسلامی معاشرت کے احیاء کے لیے کوشاں ہے، اور دستوری و پارلیمانی چیلنجوں کے ذریعے پرامن تدریجی اصلاحات پر یقین رکھتی ہے۔
اس وقت مشکل سے نکلنے کے لیے ایسی گفتگو مطلوب ہے جس کی بدولت عوام کو پرامن آسان طریقے سے اقتدار منتقل ہوتا کہ وہ بغیر کسی جعل و فریب کے نئی پارلیمنٹ، پرامن طریقے سے چنیں، پھر اختیار کی آزادی کے لیے ضروری دستوری ترمیمات کی نئی پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد ایک ایسے صدر کا انتخاب کریں جو اس مشکل وقت میں وطن کی کشتی کو بحفاظت پار لگانے کی صلاحیت و قدرت رکھتا ہو، اس کے بعد اہم پیچیدہ مسائل پر جامع و شامل وطنی گفتگو ہو جیسے دستوری ترمیمات یا نیا دستور، وطنی اقتصاد و معیشت، ملک کی لوٹی ہوئی دولت کی واپسی، سب مصریوں کے حالات زندگی کی بہتری، سرکاری ملازمین و فوج و پولیس کے کارندوں کے اعتبار و اعتماد کی بحالی، استبدادی دور کے خاتمے کے بعد مصری پولیس کا نیا دور، امن و امان کے ظالمانہ محکموں اور اہل وطن پر ظلم و ستم کا فوری خاتمہ وغیرہ۔ جہاں تک خارجی امور کا تعلق ہے تو ابھی اس کا وقت نہیں آیا ہے، مصری تاریخ میں عوام کی عظیم ترین فتح کے حصول میں قدم دو قدم کا معاملہ ہے اور وہ متعدد عوامل پر موقوف ہے جن میں آج اہم ترین یہ ہیں: (۱) اپوزیشن کی صفوں میں حقیقی اتحاد اور عدم انتشار اور ان چیلنجوں کے مقابلے کی تیاری جن کے لیے وہ پہلے سے مستعد نہیں ہے (۲) حقیقی اپوزیشن کے لیے عوام کی تائید تاکہ وہ ملک کو محفوظ کنارہ پر پہنچائے اور بہتر مستقبل کی مصری تمنائوں کو پورا کرے (۳) سابق نظام کی طرف سے عوام کو اقتدار کی پرامن منتقلی اور انقلاب کی فتح کو تسلیم کرنا۔
(بشکریہ: ہفت روزہ ’’الامان‘‘ بیروت۔ شمارہ:۹۴۶، ص۶۔ ترجمہ: مسعود الرحمن خان ندوی)
Leave a Reply