
جولائی میں منتخب صدر محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹے جانے اور انہیں منصب سے برطرف کیے جانے کے بعد سے مصر کی فوجی حکومت اور اسرائیل کے درمیان روابط تیزی سے بڑھے ہیں۔ مشہور اسرائیلی اخبار ’’ہاریز‘‘ کی ایک رپورٹ میں ایموز ہاریل نے بتایا ہے کہ اس وقت مصر اور اسرائیل کے تعلقات ایسے مستحکم ہیں کہ حسنی مبارک کے دور میں بھی نہ تھے۔ حالیہ بغاوت کے بعد مصر کی فوجی حکومت نے امریکا سے روابط بہتر بنائے رکھنے کے لیے اسرائیل سے مدد چاہی۔ ویسے تو خیر مصری فوج نے ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر بغاوت ہی کا ارتکاب کیا تھا مگر اسرائیل نے اس اصطلاح کو استعمال کرنے سے گریز کیا اور امریکا پر زور دیا کہ وہ مصری فوج کے اس اقدام کو حکومت کی تبدیلی کی حیثیت سے قبول کرے۔ اسرائیل نے اس بات کو بھی یقینی بنایا کہ مصر کے لیے امریکی امداد جاری رہے۔ اگر امریکی حکومت مصری فوج کے اقدام کو بغاوت کی حیثیت سے قبول کرلیتی، تو امریکی قوانین کے تحت امداد روکنا لازم ہے۔
اسرائیل نے مصر کی نئی فوجی حکومت کے لیے امریکی امداد کی فراہمی جاری رکھنے کا اہتمام کرکے مصر سے بہتر تعلقات کی نئی بنیاد رکھی ہے۔ جب سے مصر میں فوجی بغاوت ہوئی ہے، صاف محسوس کیا جاسکتا ہے کہ فوجی حکومت اسرائیل کی غیر معمولی حد تک شکر گزار ہے۔ مصر کی فوج نے صحرائے سینا اور غزہ کے علاقے پر توجہ دے کر اسرائیل کو مزید خوش کردیا ہے۔ غزہ کے باشندوں کو مصر اور اسرائیل کے گرم جوشی پر مبنی تعلقات کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔ مصر کی فوج نے چند ہفتوں کے دوران مصر اور غزہ کے درمیان تمام سرنگیں بند کرکے رفاہ کی کراسنگ سے بھی آمد و رفت محدود کردی ہے۔ سرنگوں کی بندش سے غزہ کے باشندوں کے لیے مشکلات بڑھ گئی ہیں، اور وہ ایندھن اسرائیل سے چھ گنا قیمت پر خریدنے پر مجبور ہیں۔ اسرائیلی محاصرے کے باعث غزہ کے باشندوں کے لیے زندگی ویسے ہی دشوار ہے۔ سرنگوں کے ذریعے بہت سی ضروری اشیا غزہ کے باشندوں کو مل جایا کرتی تھیں۔ مصری فوج نے اسرائیل کو خوش رکھنے کے لیے غزہ کے مفادات کی ایک بار پھر قربانی دے دی ہے۔ غزہ کی معیشت مزید کمزور ہوتی جارہی ہے۔ رفاہ کراسنگ پر آمد و رفت محدود کرنے کے مصری فیصلے نے غزہ کے باشندوں کے لیے معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی غرض سے اپنے علاقوں سے نکلنا مزید دشوار کردیا ہے۔ بیماروں کو علاج میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ صدر محمد مرسی کے دور میں رفاہ کراسنگ سے غزہ کے باشندوں کی آمد و رفت پر کوئی پابندی عائد نہ تھی۔ یہ سب کچھ اسرائیل کے لیے انتہائی ناقابل برداشت تھا۔
مصر جس سیاسی سمت میں بڑھ رہا ہے، اس نے غزہ کی تنظیم حماس کو بھی مشکلات سے دوچار کردیا ہے۔ اور اس صورتِ حال سے اسرائیل بہت خوش ہے۔ صدر محمد مرسی کے ایک سالہ دور میں اخوان المسلمون نے حماس کی حمایت کی تھی، جس پر اس کی پوزیشن مضبوط ہوگئی تھی اور اس نے شام میں بشارالاسد انتظامیہ کا سامنا کرنے کی بھی سکت پیدا کرلی تھی۔ مگر اب وہ پھر تنہائی کا شکار ہوگئی ہے۔ مصر کی فوجی حکومت نے حماس کی مشکلات میں اضافہ کرنے کے لیے یہ افواہ بھی پھیلائی کہ وہ مصر میں دہشت گردی میں ملوث ہے۔ گزشتہ ماہ مصر کے وزیر داخلہ پر قاتلانہ حملہ ہوا تو شک کی سُوئی کو حماس پر روک دیا گیا۔ یہ الزام انتہائی بھونڈا تھا، مگر اس کے باوجود حماس پر دباؤ بڑھا ہے۔ اسرائیل ایک عرصے سے یہی چاہتا تھا۔
سینائی کے علاقے میں بھی مصری فوج نے حماس اور دیگر اسلامی گروپوں کے بارے میں یہ افواہ پھیلائی ہے کہ وہ دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ مصر کی فوجی حکومت نے سینائی کے علاقے میں اسلامی گروپوں کے موجود اور فعال ہونے کا پروپیگنڈا کرکے وہاں مزید فوجی، ٹینک اور ہیلی کاپٹر بھیجے ہیں۔ یہ سب کچھ ویسے تو اسلامی گروپوں کی سرکوبی کی خاطر ہے مگر در پردہ مصر کی فوجی حکومت اسرائیل کو کسی نہ کسی طرح خوش رکھنا چاہتی ہے تاکہ وہ ضرورت پڑنے پر امریکا پر دباؤ ڈال سکے۔ مصر اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدے کے تحت سینائی کے علاقے میں عسکری موجودگی بڑھانے کے لیے مصر کو اسرائیل کی رضامندی درکار ہوتی ہے۔ اسرائیل نے مصر کی فوجی حکومت کو ایسا کرنے کی بخوشی اجازت دی ہے، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات ایک بار پھر خاصے وسیع اور دوستانہ ہوچلے ہیں۔ مصر کی فوج نے سینائی کے علاقے میں چند ہفتوں کے دوران ۱۰۰ سے زائد مخالفین کو قتل اور ہزاروں کو زخمی اور گرفتار کیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ غزہ سے سینائی اور سینائی سے غزہ کے علاقے میں اسلحے کی اسمگلنگ کی روک تھام بھی کی جارہی ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ایک بفر زون بنایا گیا ہے۔ یہ بفر زون فوجی علاقہ ہے اور اس کے مکینوں کو پہلے سے مطلع اور متنبہ کیے بغیر گھروں سے بے دخل کیا جارہا ہے۔
مصر کی فوجی حکومت نے اس امر کو یقینی بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی کہ اقتدار پر اس کی گرفت مضبوط رہے۔ ساتھ ہی ساتھ اسرائیل سے تعلقات بہتر بناکر اس بات کو بھی یقینی بنانے کی کوشش کی گئی ہے کہ امریکی امداد جاری رہے۔ مصر کی فوجی حکومت کو اپنے عوام کی ذرا بھی پروا نہیں۔ وہ تو صرف اسرائیل کو بتانا چاہتی ہے کہ وہ اس کی کس حد تک شکر گزار ہے۔ ایسے میں خدشہ یہ ہے کہ اسرائیل کو خوش کرنے اور اس کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کی غرض سے مخالفین پر مصری فوج کے حملے جاری رہیں گے۔
(“Egypt’s Coup Leaders Grateful for Israeli Support”… “Middleeastmonitor.com”Sep. 9, 2013)
Leave a Reply