مصر کی ’’خاتونِ اوّل‘‘

بین الاقوامی سیاست کے موجودہ فیشن کے مطابق مصر کے نئے صدر محمد مرسی کی اہلیہ اُم احمد مصر کی فرسٹ لیڈی (خاتون اول) کہلائیں گی۔وہ ایک سیدھی سادھی باحجاب خاتون ہیں، بہت زیادہ پڑھی لکھی نہیں ہیں، مغربی سیاست کے آداب و اطوار سے واقفیت کا تو سوال ہی پیدا نہیںہوتا۔ وہ خاتونِ اول کہلانا بھی پسند نہیں کرتیں۔ اس لیے عالمی میڈیا بہت فکرمند ہے۔ پریشانی میڈیا کی یہ ہے کہ پروٹوکول کے مواقع پر اُم احمد کا طرزِ عمل کیا ہوگا۔ اپنے ملک میں وہ غیر ملکی سربراہان حکومت کا استقبال کس طرح کریں گی، مغربی روایت کے مطابق اُن سے مصافحہ کریں گی یا اپنے شوہر کے مصافحے کو کافی سمجھیں گی۔ ان کے ساتھ فوٹو سیشن میں شریک ہوں گی یا نہیں۔ صدر مرسی کے ساتھ غیر ملکی دوروں پر جائیں گی یا نہیں۔ اگر جائیں گی تو اُن کا رویہ اسلامی روایات کے مطابق ہوگا یا مغربی روایات کی رعایت کریں گی۔ اپنے ان وسوسوں کا اظہار میڈیا اسی دن سے کر رہا ہے جس دن ڈاکٹر مرسی کی صدارت یقینی ہو گئی تھی۔ اس سلسلے کی ایک رپورٹ نیویارک ٹائمز کے حوالے سے انڈین ایکسپریس (۲۹ جون۲۰۱۲ء) میں آئی ہے۔ سرخی ہے ’’مصر کی نئی خاتونِ اول، جمہوریت کی علامت یا ایک قدم پیچھے کی طرف‘‘۔

یہ تشویش اچانک نہیں ہے!

عالمی میڈیا کی یہ فکرمندی اچانک نہیں ہے۔ جب سے مصر کی اسلامی پارٹیوں نے پارلیمان کے انتخابات جیتے ہیں، مغرب کی جانب سے طرح طرح کے اندیشوں کا اظہار کیا جارہا ہے۔ ’’مصر اب معاشی اور ثقافتی لحاظ سے پسماندگی کی طرف لوٹ جائے گا… قرون وسطیٰ کا دَور واپس آجائے گا… اسلامی حکومت ترقی مخالف فیصلے کرے گی‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ ان اندیشوں میں سے ایک اندیشہ یہی تھا کہ مصر کی خاتونِ اول حجاب میں ہوا کریں گی اور سرکاری یا بین الاقوامی پروٹوکول کی پروا نہیں کریں گی۔ ایک مثال میڈیا کے سامنے پہلے ہی سے تھی۔ عبداللہ گل جب ترکی کے صدر منتخب ہوئے تو اُن کی حلف برداری کی تقریب میں فوجی جنرلوں نے شرط رکھی تھی کہ ان کی اہلیہ اسکارف کے بغیر یعنی کھلے سر شرکت کریں۔ اب عبداللہ گل اور اہلیہ کو دو میں سے ایک چیز کا انتخاب کرنا تھا۔ تقریب حلف برداری میں ننگے سر شرکت یا عدم شرکت۔ دونوں نے متفقہ طور پر مؤخر الذکر آپشن کو ترجیح دی۔ بین الاقوامی میڈیا نے اس پر بڑے تیکھے تبصرے کیے تھے۔ اب مصر کے تناظر میں مبصرین کو اُسی واقعہ کا تصور پریشان کر رہا ہے۔

یہ بحث ضرور ہو!

لیکن عالمی مبصرین کو یہ پورا معاملہ اس پہلو سے دیکھنا چاہیے کہ یہ دو تہذیبوں کا مسئلہ ہے… اسلامی اور مغربی۔ جب وہ تسلیم کرتے ہیں کہ اسلامی روایات مغربی ثقافت سے بالکل مختلف ہیں تو پھر کسی مسلم مملکت میں اسلامی روایات علانیہ جمہوری طریقوں سے آتی ہیں تو انہیں ان کا احترام بھی کرنا چاہیے۔ پھر یہ بحث بھی ہو کہ کون سی روایات اعلیٰ اخلاقی اَقدار اور فطرت انسانی کے مطابق ہیں۔ کون سے کلچر نے عورت کو عریاں اور بے آبرو کر کے محض تفریح اور کاروباری اشتہار بنا کر رکھ دیا ہے اور کون سا تمدن اُس کی عزت و آبرو کا محافظ ہے۔ عورت کی بے پردگی نے انسانی معاشرہ اور خود دنیائے صنف نازک پر کیا کیا ظلم ڈھائے ہیں جبکہ پردے نے اُسے کس طرح محفوظ و مامون بنا دیا ہے۔ یہ بحث ہو اور ضرور ہو۔ باعمل مسلمان جب حجاب اور پردے کی بات کرتے ہیں تو اس کے پیچھے مضبوط تاریخی و اخلاقی دلائل بھی رکھتے ہیں۔ جبکہ اہل مغرب کے پاس سوائے عورت کے جذبات سے کھیلنے کے کوئی دلیل نہیں ہوتی۔

(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘ دہلی۔ ۴ جولائی ۲۰۱۲ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*