مصر کے فوجی انقلاب نے عالمی سطح پر بہت سے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ جمہوریت کا اصل چہرہ کیا ہے؟ اسلامی تحریکات سے باطل اس قدر خائف کیوں ہے؟ اسلامی تحریکات کا مستقبل کیا ہو گا؟ وغیرہ۔ اخوان المسلمون کے ساتھ باطل کے حالیہ رویہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلامی تحریکات کے سلسلے میں اس کے عزائم کیا ہیں؟ وہ یہ گوارا نہیں کرسکتے کہ اسلام پسند اقتدار میں آئیں اور اسلامی نظام کے قیام کا راستہ ہموار ہو سکے۔ پوری دنیا میں اسلامی تحریکات کے سلسلے میں ان کا رویہ یکسا ں ہے۔ بظاہر اسلوب اور حکمت عملی کا فرق ہو سکتا ہے لیکن جوہری اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے۔
الاخوان المسلمون اور مصر
حسن البنا شہیدؒ (۱۴؍اکتوبر ۱۹۰۶ء، ۱۲؍فروری ۱۹۴۹ء) نے الاخوان المسلمون کو ۲مارچ ۱۹۲۸ء کو اسماعیلیہ، مصر میں قائم کیا۔ اصلاح، تربیت، دعوت اور جہاد پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہوئے مکمل اسلام کے قیام کو اپنا نصب العین قرار دیا۔ راہ حق میں آنے والی آزمائشوں پر صبر اور قربانیوں کی ایک لمبی داستان اس سے وابستہ ہے۔ جمال عبدالناصر، انورالسادات اور حسنی مبارک کے ادوار میں اخوان شدید تعذیب کے مرحلے سے گزرے، بسا اوقات ایسا محسوس ہوا کہ شاید اب جماعت ختم ہو جائے گی، لیکن انہوں نے ہر بار اپنے آپ کو منظم کیا۔ ان کو سزائیں دینے والے ختم ہوتے رہے لیکن الحمد للہ اخوان باقی ہیں۔ اخوان کے ناقدین نے ان کے بے اثر ہونے پر مضامین اور کتابیں لکھیں۔ مصر میں فوج کے حالیہ انقلاب کے بعد ناقدین کی ایک فوج یہ ثابت کرنے پر تُلی ہوئی ہے کہ یہ اخوان کا آخری وقت ہے۔
باطل کی سازشیں
مشہور اخبارات وال اسٹریٹ جرنل، ہیرالڈ ٹریبون اور لیموند نے محمد مرسی حکومت کے خلاف سازشی منصوبے کے بارے میں لکھا ہے۔ تجزیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جس دن مرسی کی حلف برداری ہوئی، اسی دن سے ان کو ہٹانے کی سازش شروع ہو گئی تھی۔ مصری فوج کے اعلیٰ افسران کے ساتھ محمد البرادعی، عمرو موسیٰ اور حمدین صباحی کو سازش میں استعمال کیا گیا۔ یہ سب امریکا اور اسرائیل کی سرپرستی میں ہوا۔ امارات اور سعودی عرب نے چھ ارب ڈالرکی مالی مدد دی۔ آزاد ذرائع کا خیال ہے کہ انقلاب CIA، موساد اور السیسی کے باہم تعاون اور اشتراک سے لایا گیا۔ بجلی اور پٹرول کی مصنوعی قلت پیدا کرکے مرسی کے خلاف مظاہروں کا آغاز کیا گیا۔ جو باتیں سامنے آگئی ہیں وہ بہت کم ہیں، جو پس پردہ ہیں وہ غیر معمولی ہیں۔
فتنوں کو ہوا دینا، افواہوں کو پھیلانا، بھاری رقمیں دے کر افراد کو خریدنا اور بڑے پیمانے پر پیشہ ور قاتلوں کے ذریعہ قتل وغارت گری مچانا سازشی عناصرکا شیوہ ہے۔ مصر کا حالیہ انقلاب اس طرح کی حرکتوں سے بھرا پڑا ہے۔
الاسلام السیاسی کی اصطلاح
اخوان کے مخالفین نے ان پر ایک بڑا الزام یہ لگایا کہ اخوان ’’الاسلام السیاسی‘‘ (سیاسی اسلام) کے علمبردار ہیں۔ بڑے پیمانے پر پروپیگنڈا کیا گیا اور کتابیں لکھی گئیں اور یہ ثابت کرنے کی کوششیں کی گئیں کہ اسلامی شریعت میں سیاسی اسلام کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور یہ صرف اخوان کی اختراع ہے۔
پہلے ’’الاسلام السیاسی‘‘ کے بجائے ’’الاسلام الاصولی‘‘ (Islamic Fundamentalism) کی اصطلاح استعمال کی گئی اور ستمبر ۱۹۹۴ء میں ایک کانفرنس بعنوان ’’شمالی افریقا پر بنیاد پرست اسلام کا خطرہ‘‘ واشنگٹن میں منعقد ہوئی۔ نشانہ سوڈان تھا کہ اسلامی انقلاب کا سوڈان میں امکان ہے۔ پھر نوے کی دہائی میں الجزائر کے تناظر میں اسلامی بنیاد پرستی کی اصطلاح آئی اور اب ۱۱؍ستمبر ۲۰۱۱ء کے بعد باقاعدہ ’’الاسلام السیاسی‘‘ کی اصطلاح رائج ہوگئی۔ باطل کے نزدیک الاخوان المسلمون، جماعت اسلامی اور اسلامی تحریکات ’’الاسلام السیاسی‘‘ کی علمبردار ہیں۔
’’الاسلام السیاسی‘‘ آج پوری دنیا میں موضوع بحث ہے۔ اس پر متعدد کتابیں انگریزی اور عربی میں منظر عام پر آچکی ہیں اور مزید لکھی جا رہی ہیں۔ پوری کوشش اس بات کی ہے کہ دنیا کو یہ باور کرایا جائے کہ اب ’’الاسلام السیاسی‘‘خواب وخیال کی بات ہے اور مصر کے فوجی انقلاب کے بعد اس کا نام لینے والا بھی کوئی نہیں ہوگا۔
اخوان کی حکمت عملی
اس سلسلے میں بھی بحث چھڑی ہوئی ہے کہ اب اخوان کے سامنے کیا متبادل ہے۔اس وقت جو تجزیات پیش کیے جارہے ہیں، ان میں کہا جارہا ہے کہ اخوان کے سامنے صرف دو راستے ہیں:
۱۔ تشدد
۲۔ اپنے مؤقف سے دست برداری اور خاموشی
بعض لوگ اخوان کو ایک دہشت گرد تنظیم سمجھتے ہیں، وہ ماضی میں بھی تشدد اور خونریزی کے بے بنیاد الزام اخوان پر لگاتے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اخوان اب پوری طرح سے تشدد کی راہ اپنائیں گے اور مصر کے حالات خراب ہوں گے۔ اس کا اثر دیگر عرب ممالک پر پڑے گا، جہاں اخوان کے اثرات قابلِ ذکر ہیں۔ مصر کے حالیہ فوجی انقلاب کے موقع پر گرچہ اخوان کا احتجاج مکمل طور پر پُرامن رہا اور فوج نے یکطرفہ کارروائی کی، لیکن تشدد اور قتل کے سیکڑوں الزامات اخوان کے سر تھوپے گئے۔ مخالفین کی کوشش ہے کہ کسی طرح اخوان تشدد کے راستے پر چل نکلیں تو باطل کو اپنے عزائم پورا کرنے میں مدد ملے گی۔ بہرحال اخوان نے اپنے آئندہ کے لائحہ عمل میں تشدد کومسترد کر دیا ہے۔
دوسرا راستہ بددلی، مایوسی اور مؤقف سے دست برداری کا ہے۔ بعض تجزیہ نگار لکھتے ہیں کہ اب مصر میں اخوان یہ رویہ اپنائیں گے اور ’’الاسلام السیاسی‘‘ کے قیام سے دست بردار ہو جائیں گے۔ مصر کی فوجی حکومت کی پوری کوشش ہے کہ اخوان اس دوسرے راستے کو اختیار کر لیں۔ اخوان کی قیادت کی گرفتاری، ان سے تعلق رکھنے والے لوگوں پر تشدد، مظاہرین پر اندھا دھند فائرنگ اور بڑے پیمانے پر خوف زدہ اور ہراساں کرنا اس حکمت عملی کا حصہ ہے۔
خوشگوار پہلو
اس پورے منظر نامے میں تحریکات اسلامی کے لیے خوش آئندہ باتیں بھی ہیں۔ اخوان نے جرأت و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انقلاب کے بعد جان ومال کی بے مثال قربانیاں پیش کیں۔ انہوں نے نازک سے نازک گھڑی میں بھی اپنے مظاہروں کو پُرامن رکھا، ان کے خلاف تشدد کے سلسلے میں پروپیگنڈا بھی ہوا، لیکن حقیقت دنیا کے سامنے واضح ہو کر آگئی اور مخالفین کے جھوٹ کی پول کھل گئی۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق اخوان اپنی ۸۵ سالہ تاریخ میں جبروتشدد کے سب سے سنگین دور سے گزر رہے ہیں۔ اخوان کے مثالی طرزِ عمل سے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ان کونیک نامی حاصل ہوئی ہے۔
منتخب صدر کو بِلاسبب برطرف کرنے سے مخالفینِ اسلام کا اصل چہرہ کھل کر دنیا کے سامنے آگیا ہے، وہ اخوان اور اسلام پسندوں سے خائف ہیں، یہ بات واضح ہوگئی ہے۔ پوری دنیا میں عوامی سطح پر اخوان کے لیے ہمدردی پیدا ہوئی ہے۔ یہ بھی واقعہ ہے کہ پُرامن مظاہرین پر فوج کی فائرنگ اور بڑی تعداد میں لوگوں کی ہلاکت سے فوج کی بڑی رُسوائی ہوئی ہے اور اخوان کے صبر وثبات کے چرچے عام ہیں۔
مخالفین دن رات اس پروپیگنڈے میں لگے ہوئے ہیں کہ اخوان ختم ہوگئے اور ’’الاسلام السیاسی‘‘ کا نظریہ پوری طرح ناکام ہو گیا۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اخوان کے حق میں جو کچھ لکھا جا رہا ہے، وہ کم نہیں ہے۔ متعدد آزاد تجزیہ نگار لکھتے ہیں کہ فوجی انقلاب کے اس پورے واقعے سے اخوان کا وقار بلند ہوا ہے، ان کی عوامی تائید میں اضافہ ہوا ہے اور آئندہ ان کے حکومت میں آنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
ایک تجزیہ نگار محسن محمد صالح لکھتے ہیں کہ اخوان پھر حکومت میں آئیں گے، اس کے چند اسباب ہیں:
۱) اخوان کی دعوت اسلام کی دعوت ہے۔اسلام کی دعوت ہمہ گیر ہے۔زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے۔ بے داری وانقلاب اسلام کی تاریخ ہے۔
عالمِ اسلام میں استعمار کا مقابلہ کرنے والی طاقت تحریک اسلامی کی طاقت ہے۔ جیسے جزیرۃ العرب میں وہابیۃ، سوڈان میں مہدیہ، لیبیا میں سنوسیہ، ہندوستان میں سید احمد شہید کی تحریک، جزائر میں بن بادیس کی تحریک، اخوان المسلمون، برصغیر ہندو پاک میں جماعت اسلامی اور ترکی میں نورسیہ، تیونس اور روس کی اسلامی ممالک میں النہضہ۔
۲) ۱۹۶۷ء کی جنگ میں یہودیوں نے فلسطین اور سیناء وغیرہ کی باقی زمینیں بھی ہڑپ کرلیں۔ایک اضمحلال پیدا ہوا، اس میں روشنی کی کرن اخوان کی تحریک ہی تھی۔
۳) استعمار اور صہیونیت کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے امت ابتلا اور آزمائش میں ہے۔ اس کے جواب میں البعثیہ،الناصریہ،العلمانیہ،الاشتراکیہ اور الراسمالیہ سب ناکام ہو گئے۔ صہیونیت کے مقابلے میں کسی کے پاس کچھ نہیں ہے، اب صرف اسلام کی لہر ہے۔
۴) اسلامی تحریکات نوجوانوں سے مالا مال ہیں جب کہ دوسری تحریکوں کے پاس اذکار رفتہ پرانے لوگ ہیں۔
۵) اسلام پسندوں نے نمونہ قائم کیا۔ جمہوریت کا احترام کیا، امن وامان باقی رکھا اور انتخابات کو قبول کیا۔ مصر میں پانچ انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ مرسی نے کسی میڈیا پر پابندی نہیں لگائی اور کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کی، جب کہ فوجی حکومت نے میڈیا پر پابندی لگا دی، اِن اسباب کی بنا پر اسلام پسندوں کی تائید میں اضافہ ہو رہا ہے اور لوگوں کی ہمدردیاں بڑھ رہی ہیں۔ اب لوگ کہہ رہے ہیں کہ جمہوریت کو بچانے والے اور دستور کی حفاظت کرنے والے اصل میں اخوان ہی ہیں۔
۶) انقلاب سے واضح ہو گیا ہے کہ اخوان کا مقابلہ عام شفاف انتخابات میں کرنا ناممکن ہے۔
۷) اب اس خطہ میں خوف کی نفسیات ختم ہو گئی ہے۔اب کوئی جبر و جور نہیں کر سکتا۔ اسلامی تحریک عوام کی واحد امید ہے۔
(بشکریہ: ماہانہ ’’زندگی نو‘‘ نئی دہلی۔ دسمبر ۲۰۱۳ء)
Leave a Reply