مصر کا نیا دستور ۲۰۱۲ء|9

دفعہ ۲۱۱: ریفرنڈم، پارلیمانی یا صدارتی انتخابات اور ان کے نتائج سے متعلق قومی انتخابی کمیشن کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں پر ’اعلیٰ ترین انتظامی عدالت‘ فیصلہ دے گی۔ مقامی (بلدیاتی) انتخابات سے متعلق اپیلیں انتظامی عدالت کے سامنے پیش کی جائیں گی۔

قانون اپیلوں کا طریقہ کار اور فیصلوں کی حتمی تاریخ (Timeline) کا ضابطہ اس طرح بنائے گا کہ انتخابی عمل یا نتائج کا حتمی اعلان اس سے متاثر نہ ہو۔ ریفرنڈم یا صدارتی انتخاب کے حتمی نتائج کو ان کے اعلان کے بعد چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔

تمام صورتوں میں پولنگ کی تاریخ کے آٹھ دن سے زیادہ انتخابی نتائج کے اعلان میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔

باب پنجم: خودمختار ادارے

سیکشن 1: اعلیٰ ترین ادارہ برائے امور اوقاف

دفعہ ۲۱۲: ’اعلیٰ ترین ادارہ برائے امور اوقاف‘ سرکاری اور نجی وقف اداروں کے لیے ضوابط سازی کرے گا اور نگرانی کرے گا، اور اس بات کو یقینی بنائے گا کہ یہ ادارے مسلمہ انتظامی اور اقتصادی معیارات کی پابندی کریں اور معاشرے میں وقف کے حوالے سے آگاہی میں اضافہ کریں۔

سیکشن 2: اعلیٰ ترین ادارہ برائے تحفظِ ورثہ

دفعہ ۲۱۳: ’اعلیٰ ترین ادارہ برائے تحفظِ ورثہ‘ مصریوں کے ثقافتی اور تعمیراتی ورثے کے تحفظ کے طریقوں کے لیے ضوابط بنائے گا، وہ ان ورثوں کو منضبط کر کے دستاویزی صورت دینے کا ذمہ دار ہو گا، مصریوں کے اثاثے کی حفاظت کرے گا اور انسانی تہذیب کے لیے مصریوں کی خدمات کے بارے میں آگاہی کو فروغ دے گا۔

یہی ادارہ ۲۵ جنوری کے انقلاب کو دستاویزی صورت میں محفوظ کرے گا۔

سیکشن 3: قومی ادارہ برائے تعلیمی و سائنسی تحقیق

دفعہ ۲۱۴: ’قومی ادارہ برائے تعلیمی و سائنسی تحقیق‘ تعلیم کی تمام صورتوں اور اس کے تمام مراحل کے لیے قومی حکمت عملی وضع کرے گا، وہ ان تمام مراحل کے مابین ارتباط یقینی بنائے گا، سائنسی تحقیق کو فروغ دے گا، معیاری تعلیمی اور سائنسی تحقیق کے قومی معیارات تشکیل دے گا اور ان معیارات پر عمل درآمد کی نگرانی کرے گا۔

سیکشن 4: آزاد پریس اور میڈیا ادارے

دفعہ ۲۱۵: ’قومی میڈیا کونسل‘ دیگر کاموں کے ساتھ ساتھ ریڈیو، ٹی وی، پرنٹ اور ڈجیٹل پریس کے امور چلائے گی۔

کونسل ذرائع ابلاغ کی آزادی کی تمام صورتوں کو یقینی بنائے گی، تکثیریت (Plurality) کی حفاظت کرے گی، مرکزیت اور اجارہ داری کی مزاحمت کرے گی، عوام کے مفادات کا تحفظ کرے گی اور ایسے ضوابط تیار کرے گی کہ ذرائع ابلاغ پیشہ ورانہ اور اخلاقی معیارات کی پابندی کریں، عربی زبان کو تحفظ دیں اور سماجی اقدار اور تعمیری روایات کے پابند رہیں۔

دفعہ ۲۱۶: ’نیشنل پریس اینڈ میڈیا ایسوسی ایشن‘ سرکاری تحویل کے اخبارات اور ذرائع ابلاغ کے ادارے چلائے گی اور ان کی ترقی اور اثاثوں کی ذمہ دار ہو گی، تاکہ ان کی قومی سرمایہ کاری مالیت (Value) زیادہ سے زیادہ ہو اور اس بات کو یقینی بنائے گی کہ وہ معروف پیشہ ورانہ، انتظامی اور اقتصادی معیارات کی پابندی کریں۔

حصہ پنجم: حتمی اور عبوری شرائط

باب اول: آئین میں ترامیم

دفعہ ۲۱۷: آئین کی کسی ایک یا زائد دفعات میں ترمیم کی درخواست صدر جمہوریہ یا ایوانِ نمائندگان کرے گا۔ اس درخواست میں یہ بیان کیا جائے گا کہ کن دفعات میں ترمیم کرنی ہے اور کن وجوہات کی بنا پر کرنی ہے۔ اس درخواست پر ایوان نمائندگان کے کم از کم پانچ ارکان کے دستخط ہونے چاہئیں۔

تمام صورتوں میں ایوانِ نمائندگان اور شوریٰ کونسل، درخواست کی وصولی کے ۳۰ دن کے اندر اس پر بحث مباحثہ کریں گے، ان دونوں میں سے ہر ادارہ اس درخواست کی کلی یا جزوی منظوری کا فیصلہ دو تہائی اکثریت سے کرے گا۔

اگر درخواست مسترد ہو جائے تو قانون ساز ادارے کی اگلی مدت سے پہلے ان ہی ترامیم کی دوبارہ درخواست نہیں کی جائے گی۔

دفعہ ۲۱۸: اگر دونوں ایوان ترمیم کی درخواست منظور کر لیں تو منظوری کے ۶۰ دن کے اندر متعلقہ دفعات کے متن پر دونوں ایوانوں میں بحث ہو گی، اگر ہر ایوان کی دو تہائی اکثریت ترمیم کو منظور کر لے تو اس منظوری کے ۳۰ دن کے اندر اسے عوامی ریفرنڈم کے لیے پیش کر دیا جائے گا۔

ریفرنڈم کے نتیجے کے اعلان کے ساتھ ہی ترمیم مؤثر ہو جائے گی۔

باب دوم: عمومی شرائط

دفعہ ۲۱۹: اسلامی شریعت کے اصولوں میں یہ چیزیں شامل ہوں گی: عمومی شہادت، اساسی ضوابط، اصول قانون (Jurisprudence) کے ضوابط اور عام اکثریتی طبقے کی جانب سے سنّی عقائد میں مسلمہ سمجھے جانے والے ذرائع۔

دفعہ ۲۲۰: قاہرہ ریاست کا دارالحکومت ہے۔ دارالحکومت کی منتقلی صرف قانون کے ذریعے عمل میں آ سکتی ہے۔

دفعہ ۲۲۱: قومی پرچم، ریاستی نشان (Emblem)، تمغے، طغرے (Insignia)، مُہر اور قومی ترانہ سب کی تشریح قانون کرے گا۔

دفعہ ۲۲۲: اس آئین کے باضابطہ اعلان سے قبل قوانین و ضوابط کی جو شرائط جاری کی گئی تھیں، وہ بھی نافذالعمل رہیں گی۔ ان میں ترمیم یا ان کی تنسیخ کے لیے صرف آئین میں بیان کردہ ضوابط اور طریقوں کو اختیار کیا جائے گا۔

دفعہ ۲۲۳: قوانین تاریخِ اجرا کے ۱۵ دن کے اندر سرکاری گزٹ میں شائع کر دیے جائیں گے اور تاریخِ اشاعت کے ۳۰ روز بعد یہ قوانین مؤثر تصور ہوں گے، ماسوائے اس صورت کے کہ قانون ہی کوئی اور تاریخ مقرر کرے۔

قوانین پر عمل درآمد ان کے نفاذ کی تاریخ سے کیا جائے گا، یہ مؤثر بہ ماضی (Retroactive Effect) نہیں ہوں گے۔ تاہم غیر مجرمانہ اور غیر ٹیکس معاملات سے متعلق دفعات میں، برخلاف قانونی شرائط شامل کی جا سکیں گی جس کے لیے ایوان نمائندگان کے دو تہائی ارکان کی منظوری درکار ہو گی۔

دفعہ ۲۲۴: ایوان نمائندگان، شوریٰ کونسل اور مقامی کونسلوں کے انتخابات انفرادی امیدواری کے نظام، فہرست پر مبنی نظام، ان دونوں کے مجموعے، یا کسی اور طریقۂ انتخاب کے مطابق منعقد ہوں گے۔

دفعہ ۲۲۵: یہ آئین عوام کی جانب سے ریفرنڈم میں اکثریتی ووٹوں سے منظور ہونے کے اعلان کی تاریخ سے نافذ العمل ہو گا۔

باب سوم: عبوری شرائط

دفعہ ۲۲۶: موجودہ صدارتی مدت صدر کے عہدہ سنبھالنے کی تاریخ کے چار سال مکمل ہونے پر ختم ہو گی۔ صدر کو صرف ایک بار اور منتخب کیا جا سکتا ہے۔

دفعہ ۲۲۷: آئین یا قانون میں ہر اس عہدے کے لیے جس کی ایک محدود مدت مقرر ہے، خواہ وہ ناقابلِ تجدید ہو یا ایک بار قابلِ تجدید، مدت اس تاریخ سے شمار کی جائے گی جس تاریخ سے عہدہ سنبھالا گیا ہو گا۔ عہدے کی مدت اُس تاریخ کو ختم ہو جائے گی، جس تاریخ کو عہدیدار قانون کے مطابق ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچے گا۔

دفعہ ۲۲۸: اس آئین کے نافذالعمل ہونے کے وقت موجود ’اعلیٰ انتخابی کمیشن‘ اولین پارلیمانی انتخابات کی مکمل نگرانی انجام دے گا۔ کمیٹی کی اور ’اعلیٰ صدارتی انتخابی کمیشن‘ کی رقوم ’قومی انتخابی کمیشن‘ کو، مؤخر الذکر کی تشکیل کے ساتھ ہی منتقل ہو جائیں گی۔

دفعہ ۲۲۹: اس آئین کے نافذ العمل ہونے کے ۶۰دن کے اندر اولین پارلیمانی انتخابات کے مراحل شروع ہو جائیں گے۔ ان انتخابات کے حتمی نتائج کے اعلان کے ۱۰؍ دن کے اندر، قانون ساز ادارے کی پہلی مدت شروع ہو جائے گی۔

اس ایوان نمائندگان میں کم ازکم ۵۰ فیصد نمائندگی کاشت کاروں اور مزدوروں کو حاصل ہو گی۔

ہر اس فرد کو مزدور تصور کیا جائے گا جس کی خدمات کوئی شخص فیس یا معاوضے پر حاصل کرے۔ ہر اس فرد کو کاشت کار تصور کیا جائے گا جو پارلیمانی نامزدگی سے کم از کم ۱۰؍ سال پہلے زراعت کو بطور پیشہ اختیار کر چکا ہو۔

کسی امیدوار کو کاشت کار یا مزدور گرداننے کے لیے مطلوبہ معیار اور ضوابط قانون طے کرے گا۔

دفعہ ۲۳۰: نئے ایوان نمائندگان کی تشکیل تک موجودہ شوریٰ کونسل قانون سازی کے مکمل اختیار کی حامل رہے گی۔ بعد ازاں نئی شوریٰ کونسل کے انتخاب تک قانون سازی کا مکمل اختیار ایوانِ نمائندگان کو منتقل ہو جائے گا۔ نئی شوریٰ کونسل کا انتخاب ایوانِ نمائندگان کے سیشن کے آغاز سے چھ ماہ کے اندر منعقد ہو گا۔

دفعہ ۲۳۱: اس آئین کے نفاذ کے بعد اولین قانون ساز انتخابات درج ذیل طریقے کے مطابق منعقد ہوں گے: دو تہائی نشستیں فہرست پر مبنی انتخابی طریقے کے لیے مختص ہوں گی اور ایک تہائی انفرادی امیدواری کے طریقے کے لیے، دونوں طریقوں میں سیاسی جماعتوں کے امیدوار اور آزاد امیدوار مقابلہ کر سکیں گے۔

دفعہ ۲۳۲: نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے لیڈرز کے لیے سیاسی سرگرمیاں ممنوع ہوں گی، وہ صدارتی یا قانون ساز اداروں کے انتخابات میں بھی ۱۰ سال تک حصہ نہیں لے سکیں گے، پابندی کی یہ مدت اس آئین کے نفاذ کے دن سے شمار ہو گی۔ ’لیڈرز‘ سے مراد ہر وہ شخص ہے جو مذکورہ پارٹی کے سیکریٹریٹ، پالیسی کمیٹی یا پولیٹکل بیورو کا رکن رہا ہو، یا جو ۲۵ جنوری کے انقلاب سے پہلے کی دو قانون ساز مدتوں کے دوران پیپلز اسمبلی یا شوریٰ کونسل کا رکن رہا ہو۔

دفعہ ۲۳۳: اس آئین کے نفاذ کے بعد اولین ’اعلیٰ ترین آئینی عدالت‘ تشکیل پائے گی جس کا سربراہ اس کا موجودہ سربراہ ہو گا اور طویل ترین تجربے کے حامل ۱۰ جج حضرات اس کے ارکان ہوں گے۔ بقیہ ارکان اُن ہی عہدوں پر واپس چلے جائیں گے جن پر وہ عدالت میں شامل ہونے سے پہلے کام کر رہے تھے۔

دفعہ ۲۳۴: دفعہ ۷۷ کے تیسرے حصے میں بیان کردہ جرائم پر دیے گئے فیصلوں کے خلاف اپیل سے متعلق شرائط آئین کے نفاذ کے بعد ایک سال تک کے لیے مؤثر رہیں گی۔
دفعہ ۲۳۵: مقامی انتظامیہ کا موجودہ نظام برقرار رہے گا اور اس آئین میں بیان کردہ نظام آئین کے نفاذ کے ۱۰ سال کے دوران بتدریج نافذ کیا جائے گا۔

دفعہ ۲۳۶: مسلح افواج کی سپریم کونسل نے اور صدر جمہوریہ نے ۱۱؍ فروری ۲۰۱۱ء سے لے کر اس آئین کے نفاذ تک جو بھی آئینی اعلانات جاری کیے ہیں، انہیں منسوخ کیا جاتا ہے، جبکہ ان اعلانات کے نتائج مؤثر رہیں گے اور ان کے خلاف کسی بھی طرح اپیل نہیں کی جا سکے گی۔

○○○

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*