مصر کو نظرانداز کر کے خطے میں حقیقی امن و استحکام ممکن نہیں!

کسی بھی مملکت کے سربراہ سے انٹرویو آسان نہیں ہوتا اور خاص طور پر ایسے سربراہِ مملکت سے جسے منصب سنبھالے ہوئے زیادہ مدت نہ گزری ہو۔ مصر کے صدر محمد مرسی کا معاملہ تھوڑا سا مختلف تھا۔ وہ انگریزی اچھی جانتے اور بولتے ہیں۔ کسی سوال کو سمجھنا ان کے لیے مشکل نہ تھا۔ بعض مواقع پر ان کے ترجمان نے جواب دیے جیسا کہ مشرق وسطیٰ اور دیگر خطوں میں عام بات ہے۔ تھوڑا سا انتظار کرنا پڑا مگر خیر، صدر مرسی نے ہمیں ۹۰ منٹ دیے جو کھل کر گفتگو کے لیے اچھا خاصا وقت تھا۔ پہلا سرکاری مترجم خاصا محتاط تھا اور بہت سے معاملات میں ہچکچاہٹ کے ساتھ بات کرتا تھا۔ بعد میں صدر نے ایک اور مترجم بلایا جو انگریزی اور عربی دونوں پر یکساں عبور رکھتا تھا۔
صدر مرسی نے دل کی بہت سی باتیں کیں۔ کیلی فورنیا میں قیام کے دوران انہوں نے جو کچھ محسوس کیا اُس کے حوالے سے یادیں تازہ کیں۔ اپنے اساتذہ کے بارے میں بتایا۔ چند ایک سوالات اور ان کے جوابوں میں عام قاری کے لیے شاید کچھ نہ ہو مگر خیر، اُن سے صدر مرسی کی شخصیت ضرور مزید کھل کر، نکھر کر سامنے آتی ہے۔ بعض مقامات پر جب وہ بول رہے تھے تو انہیں ٹوکنا ممکن نہ تھا کہ مملکت کے سربراہ ہیں۔ بار بار سوالات کرنا بھی گفتگو کے آداب کے منافی تھا۔
آئیے، صدر مرسی سے کی جانے والی گفتگو میں آپ کو بھی شریک کرتے ہیں۔ (نیویارک ٹائمز)


٭ لاکھوں، بلکہ کروڑوں امریکی اور یورپی باشندے یہ جاننے کے لیے بے تاب ہیں کہ مصر میں اب کون سا نظام کام کرے گا۔ کیا شرعی قوانین نافذ کیے جائیں گے؟ مذہب اور اخلاقیات کا سوال اٹھے گا؟ اگر واقعی ایسا ہے یعنی مذہب اور اخلاقیات کو ملا دیا جائے گا تو پھر جمہوریت کا دعویٰ کیا ہوا؟ اگر مذہب کی بنیاد پر قوانین مرتب کیے جائیں گے تو پھر مصر کی جمہوریت اس کے تمام باشندوں کے لیے کیسے ہوئی؟

صدر مرسی: اس نکتے پر بہت بحث ہوچکی ہے۔ ہم سبھی کچھ عرب دنیا میں گزشتہ برس اٹھنے والی عوامی بیداری کی لہر کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ شرعی قوانین کس طور نافذ کیے جاسکیں گے، یہ دیکھنا ضروری ہے۔ مصر کے آئین میں درج ہے کہ قوانین کا مآخذ شریعت ہے۔ ہمیں اِس ملک میں ایسا نظام نافذ کرنا ہے، جو اللہ کی مرضی کے مطابق ہو۔ یہ کوئی نئی اور انوکھی بات نہیں۔

سلفی سخت گیر ہیں یعنی اسلامی شریعت کے نفاذ کے حوالے سے لچک کے قائل نہیں۔ اخوان المسلمون پورے معاملے کو اِسی تناظر میں دیکھ رہی ہے۔ قوانین کی بنیاد یقینا شریعت ہے مگر اِنہیں حتمی شکل دینے کے لیے بھرپور مشاورت ہوگی، سب کی رائے لی جائے گی، اختلافی امور کو ختم کیا جائے گا تاکہ کوئی ابہام باقی نہ رہے اور کسی کو شکایت کا موقع نہ ملے۔ ہم ایسی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں جس میں سب کی مرضی شامل ہو اور کسی کے ساتھ نا انصافی یا زیادتی نہ ہو۔ اسلامی حکومت کس طور قائم کی جائے گی، یہ معاملہ عوام کے منتخب نمائندوں پر چھوڑ دینا چاہیے اور یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اچھا اور قابل قبول نتیجہ ہی برآمد ہوگا۔

٭ اخوان المسلمون نے ہر شعبے کے ماہرین پیدا کیے ہیں۔ معاشیات اور مالیات کے حوالے سے اس کے پاس ماہرین کی کمی نہیں۔ اسی طور اسلامی قوانین کے حوالے سے بھی مہارت ناگزیر ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ مصر میں سب کا صدر منصب پر فائز ہوا ہے مگر اسلامی قوانین کی رُو سے تو صرف مسلم ہی مصر کا صدر بن سکتا ہے۔

محمد مرسی: چند ایک امور واضح نہیں۔ آئین میں خواتین اور عیسائیوں کے صدر بننے سے متعلق کوئی صراحت نہیں۔ ملک کو اسلامی قوانین کے مطابق چلانے کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ ہم کوئی غیر لچکدار نظام لائیں گے جس میں ملائیت ہوگی۔ ایسا نہیں ہے۔ جامعہ ازہر کے علما سے بہت سے معاملات میں مشاورت ضرور کی جائے گی مگر ان کے مشورے صرف تجاویز کی شکل میں ہم تک پہنچیں گے۔ ان کی کسی بھی بات پر عمل لازم یا ناگزیر نہیں ہوگا۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہر معاملے میں اعتدال پسندی کو شعار بنایا جائے۔ حسنی مبارک کے دور میں علما سے رائے لی جاتی تھی مگر وہ منتخب علما ہوا کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ ان کی رائے بھی طے شدہ ہوتی تھی اور سب کو پہلے سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ کیا کہیں گے۔ اب سب آزاد ہیں اور کسی بھی معاملے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کرسکتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ شرعی امور میں آرا کا اظہار کسی دباؤ کے بغیر کیا جائے تاکہ درست سمت میں بڑھنے کا موقع ملے۔

اخوان المسلمون نے واضح کردیا ہے کہ وہ کسی پر اپنی رائے یا مرضی تھوپنے پر یقین نہیں رکھتی۔ ہم نے خواتین نیوز کاسٹرز کے حجاب استعمال کرنے کی پابندی ختم کردی ہے مگر اب تک کوئی بھی ایسی نیوز کاسٹر نہیں آئی جو حجاب استعمال نہ کرتی ہو۔ ہم نے اسلامی طرز کی بینکنگ نافذ کی ہے مگر عمومی یا مغربی طرز کی بینکنگ پر کوئی پابندی عائد نہیں کی ہے۔ سرکاری ملازمین کو داڑھی رکھنے کی اجازت دے دی گئی ہے مگر کسی کو داڑھی رکھنے کا پابند نہیں کیا جارہا۔

٭ سلفی کہتے ہیں کہ اخلاقی معیارات کا تعین بھی شریعت کی روشنی میں کیا جائے۔ مگر دیگر مسلم رہنما اور بالخصوص سابق صدارتی امیدوار عبد المنعم عبدالفتوح کہتے ہیں کہ اسلامی قوانین میں خود یہ صراحت پائی جاتی ہے کہ کسی پر مرضی تھوپی نہ جائے، کوئی بات مسلط نہ کی جائے۔ قرآن بھی یہی کہتا ہے کہ دین میں کوئی زبردستی نہیں، کسی پر کوئی جبر نہیں۔ یہ سوچ امریکیوں کو قدرے مانوس لگتی ہے۔

محمد مرسی: اِس میں کوئی شک نہیں کہ قوانین سب کی مرضی اور مشاورت ہی سے حتمی شکل تک پہنچائے جاتے ہیں اور ان کا نفاذ اِس طور کیا جاتا ہے کہ کسی کے لیے شکایت کا کوئی موقع نہ رہے۔

٭ دنیا یہ جاننے کے لیے بے تاب ہے کہ ملک کے بارے میں محمدمرسی کا وژن کیا ہے۔ ان کے کیا ارادے ہیں؟ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ آپ عرب بہار کے اگلے مرحلے کے حوالے سے کیا کرنا پسند کریں گے؟ کیا ایٹمی بحران پر اسرائیل کی فوج ایران پر حملہ کردے گی؟ ایسا کچھ بھی ہوا تو مصر کیا کرے گا؟ مصر میں جمہوری عمل ختم ہوگا یا جاری رہے گا؟ عام مصری کیا کر رہا ہے؟ ہمیں ایسا لگ رہا ہے کہ صدر کی حیثیت سے آپ کی اہلیت پر زیادہ زور دیا جارہا ہے اور دیگر امور ایک طرف ہٹا دیے گئے ہیں۔

محمد مرسی: شام کے بحران نے صورت حال کو بہت الجھا دیا ہے۔ اگر یہ بحران بشارالاسد انتظامیہ کے خاتمے پر منتج ہوتا ہے تو سمجھ لیجیے کہ عرب بہار کا ایک اور مرحلہ طے ہوا۔ علاقائی سیاست اور ایران کے مسئلے پر پالیسی کا تعلق شام کی صورت حال سے ہے۔ شام میں جو کچھ بھی ہوگا اسی کی بنیاد پر پالیسی مرتب کی جائے گی۔ مصر میں بھی کئی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں لیکن ہمارے لیے خطہ بھی مساوی اہمیت رکھتا ہے۔ مصر، ایران، ترکی اور سعودی عرب کے رابطہ گروپ کا اجلاس بلانا ہماری ترجیحات میں سر فہرست ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ خطے میں امن ہو، استحکام ہو۔ اِسی صورت مصر میں فری مارکیٹ اکانومی پروان چڑھ سکتی ہے۔ عوام کی رائے بہت اہم ہے۔ اگر سرکاری شعبے میں چند ادارے یا محکمے خسارے کا شکار ہیں تو انہیں برداشت نہیں کیا جائے گا اور نجی شعبے کو پروان چڑھانے پر پوری توجہ دی جائے گی۔

ایران خطے کا نہایت اہم ملک ہے۔ بیشتر معاملات میں اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ہم ایران سے بھی رابطے میں ہیں تاکہ علاقائی سطح پر رُونما ہونے والی تبدیلیوں کو بہتر انداز سے چینلائز کرسکیں۔ علاقے کی سیاست میں ایران کی سوچ اور پالیسیاں اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہ بات بھی بہت اہمیت رکھتی ہے کہ امریکا سے ایران کے تعلقات کیسے ہیں۔ ہم ایران کو بہرحال اتحادی نہیں مانتے مگر کوشش یہ ہے کہ اس سے بہتر تعلقات رہیں اور خطے میں استحکام کی راہ ہموار کی جاتی رہے۔

٭ کیا مصر کو ایران اور شام کے معاملے میں مغرب کے دباؤ کا سامنا ہے؟

محمد مرسی: ایسا کچھ بھی نہیں۔ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ امریکا اور یورپ نے اس حوالے سے مصر پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا ہے۔ شام کے معاملات اگر سلامتی کونسل تک محدود رہیں تو اچھا ہے۔ روس اور چین کو بھی براہِ راست مداخلت سے باز رہنا چاہیے۔ میں اس بات کے حق میں نہیں کہ شام پر چڑھائی کردی جائے۔ عسکری سطح پر مداخلت سے معاملات مزید بگڑیں گے اور خطے میں مزید عدم استحکام پیدا ہوگا۔ شام کے عوام کو بحران ختم کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ انہیں اخلاقی اور مالی امداد کی ضرورت ہے۔ شام کے معاملات میں مداخلت سے خطے میں جنگ بھی چھڑ سکتی ہے جس کا دائرہ وقت گزرنے کے ساتھ وسعت اختیار کرسکتا ہے۔

٭ اسلامی دنیا میں کئی سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ مصر میں اخوان المسلمون کی کامیابی کو چھ عشروں کی ان تھک محنت کا نتیجہ قرار دیا جارہا ہے۔ ایسے میں یہ سوال بہت اہم ہے کہ اب اخوان اسلامی ایجنڈے پر کس حد تک عمل کرے گی۔ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ سید قطب کی تعلیمات اب اخوان کی صفوں میں اور آپ کے نزدیک کیا اہمیت رکھتی ہے۔ غزہ کی پٹی میں حماس اقتدار میں ہے۔ حماس کے رہنما اخوان کے نظریات کے حامل ہیں۔ کیا آپ حماس کے اقتدار پر تنقید کرنا پسند کریں گے؟ آپ نے نائن الیون کے بعد اس خیال کو مسترد کردیا تھا کہ چند شوقیہ پائلٹس ٹوئن ٹاورز کو تباہ کرسکتے ہیں؟ کیا اس حوالے سے آپ کے تحفظات برقرار ہیں؟ امریکی چاہتے ہیں کہ اظہار رائے کی آزادی پر کوئی قدغن نہ لگائی جائے۔ قاہرہ میں امریکی سفارت خانے پر حملے کے بعد امریکی رائے عامہ یقینا مشتعل ہے۔ آپ اس حوالے سے کیا کہیں گے؟

محمد مرسی: سید قطب کے نظریات ہمارے لیے اب تاریخی نوعیت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اخوان پر سید قطب نے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ مگر اب ہم ان کے انقلابی اور عسکری نوعیت کے نظریات سے اتنے قریب نہیں رہے جتنے کسی زمانے میں تھے۔ اخوان میں سید قطب کے نظریات ہمیشہ متنازع رہے ہیں۔ حسن البناء نے البتہ قدرے لچک کا مظاہرہ کیا تھا۔ وہ رواداری اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کے حامی تھے۔ ۱۹۵۲ء کے بعد سے اخوان نے تشدد کو ترک کردیا۔

ہم نے چھ سات عشروں تک اسلامی قوانین کے لیے جدوجہد کی ہے۔ مگر یہ سب کچھ راتوں رات نافذ نہیں کیا جاسکتا۔ لوگ اس بات کو سمجھتے ہیں۔ سب کچھ مرحلہ وار ہی ہوسکتا ہے اور وہ بھی تعقل کے دائرے میں۔

اخوان المسلمون نے کبھی القاعدہ کی دہشت گردی کی حمایت نہیں کی۔ حقیقت یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد جب القاعدہ نے اس کی ذمہ داری قبول کی تو اخوان المسلمون نے اس کی فوری مذمت کی۔ اس وقت محمد مرسی اخوان کے رہنما تھے اور القاعدہ کی مذمت کرنے والوں میں پیش پیش تھے۔ ویسے نائن الیون پر جو کچھ ہوا اس کے حوالے سے امریکی حکومت کے باضابطہ، رسمی موقف کے حوالے سے میرے تحفظات برقرار ہیں۔ مصر میں بیشتر افراد نائن الیون کے حوالے سے امریکی حکومت کی ہر بات آنکھ بند کرکے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ مصر میں چھ عشروں سے حکومت ہر معاملے میں سفید جھوٹ بولتی آئی ہے۔ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کسی بھی معاملے میں سرکاری موقف کس حد تک سچ پر مبنی ہوتا ہے۔ پرائیویٹ میڈیا بھی کچھ زیادہ سچ نہیں بولتا۔ میں اکثر مصر کے باشندوں کو سمجھاتا ہوں کہ نیو یارک ٹائمز امریکی حکومت کا اخبار نہیں ہے۔

صدر مرسی نے قاہرہ میں مصری سفارت خانے پر حملے کی شدید مذمت کی۔ یہ درست نہیں کہ انہوں نے پہلے ان لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا جنہوں نے اہانت آمیز فلم بنائی تھی۔

٭ اخوان نے قاہرہ میں پرتشدد ہنگاموں سے ایک دن قبل یہ اپیل کی تھی کہ فلم کے خلاف پرامن احتجاج کیا جائے۔ آپ نے دیر کردی۔ ہنگاموں کے ایک دن بعد آپ نے اور اخوان نے جو بیانات جاری کیے ان میں ایک نکتہ مماثل تھا یعنی یہ کہ امریکا میں جن لوگوں نے یہ اہانت آمیز فلم بنائی ہے ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔ امریکا میں رائے کے اظہار کی پوری آزادی ہے۔ امریکی قانونی روایت میں اس نوعیت کی فلموں پر قانونی کارروائی کبھی نہیں کی گئی۔ یہ تصور امریکیوں کے لیے بالکل نیا ہے۔

محمد مرسی: یہ ثقافت اور اس کی نوعیت کا مسئلہ ہے۔ امریکا میں تو اور بھی بہت کچھ ایسا ہے جس کی اسلامی معاشروں میں کوئی حیثیت نہیں بلکہ سخت ممانعت ہے۔ مثلاً امریکا میں لاکھوں جوڑے شادی کے بغیر رہتے ہیں اور ان کی اولادیں بھی ہیں۔ میں اس نوعیت کے چلن کی کسی بھی حال میں حمایت نہیں کرسکتا۔ مشرقی معاشروں سے جانے والے بہت سے لوگ امریکا اور یورپ کی ثقافت اور طرزِ زندگی سے متاثر ہوتے ہیں مگر ہر معاملے میں مکمل مرعوبیت کی توقع نہیں رکھی جانی چاہیے۔

مصر کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ ہمیں اپنی پالیسیاں بہت احتیاط سے اور بہت چابک دستی کے ساتھ مرتب کرنی ہیں۔ کوئی بھی غلط فیصلہ ہمارے لیے شدید مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔ بیروزگاری ختم کرنی ہے۔ معیشت کی رفتار سست ہے۔ صنعتی عمل بحال کرنا ہے۔ تجارت کا دائرہ وسیع کرنا ہے۔ خطے کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے معیشت کو زیادہ سے زیادہ مستحکم کرنا ہے۔ مصری قیادت کو کچھ کرکے دکھانا ہے تاکہ یہ ثابت ہو کہ نیا دور گزرے ہوئے دور سے بہت اچھا ہے، بہت سی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور لوگوں کو بہتر زندگی بسر کرنے کا موقع مل رہا ہے۔

٭ حماس اور اسرائیل کے درمیان امن کیسے قائم ہوسکتا ہے جبکہ حماس اسرائیل کے وجود کا جواز ہی تسلیم نہیں کرتی؟ دو ریاستوں کا نظریہ اسی لیے ناکام رہا ہے۔

محمد مرسی: حماس نے اسرائیل کے وجود کی نفی کرنے کو پالیسی کا حصہ بنا رکھا ہے مگر دوسری طرف فتح گروپ بھی تو ہے جو مغرب کی بھرپور امداد کے طفیل اب تک اسرائیل کا ہم نوا بنا ہوا ہے جبکہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کے حقوق کا احترام کرنے اور انہیں الگ ریاست بنانے کا حق دینے سے متعلق کوئی بھی یقین دہانی نہیں کرائی گئی ہے۔ اخوان المسلمون کے لیے اہم بات یہ ہے کہ چند ایک امور میں حماس سے اختلاف کے باوجود اسے مکمل طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ اخوان کے نظریات کی حامل رہی ہے۔ اب بھی اخوان کی کوشش یہ ہے کہ حماس اور فتح گروپ کے درمیان صلح ہو جائے تاکہ فلسطینی کاز کے لیے مل کر کام کیا جاسکے۔ دونوں کو مل کر اسرائیل سے جلد از جلد فلسطینی ریاست کے قیام کی ضمانت لینی چاہیے۔ اسرائیل سے کوئی وسیع البنیاد امن معاہدہ اِس ضمانت کے حصول کے بعد ہی ممکن ہے۔ اخوان کی پالیسی یہ ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے سلسلے میں جدوجہد پر امن طور پر جاری رکھی جائے اور اس حوالے سے کوئی بھی ایسی حرکت نہ کی جائے، جس سے خون خرابے کی راہ ہموار ہوتی ہو۔ اگر اسرائیل کے قیام اور وجود کے برقرار رکھے جانے کا اخلاقی جواز نہ ہو تب بھی اس کے وجود کو تسلیم کرنا پڑے گا تاکہ امن کی راہ ہموار ہو اور خطے کے لوگوں کو سکون کا سانس لینے کا موقع ملے۔ کوئی کسی کو نقشے سے مٹا نہیں سکتا۔ بہتر یہ ہے کہ اسرائیل کے وجود کی نفی کرنے کے بجائے اُس سے فلسطینی ریاست کا حق تسلیم کروایا جائے۔

اگر مصر کی معیشت کو بحال کرنا ہے تو امن کا قیام ناگزیر ہے۔ اگر ملک میں سیکورٹی کا مسئلہ نہ ہو تو سرمایہ کاری بھی ہوگی اور لوگ بھی بے فکری سے کام کریں گے۔

ایران کے معاملے میں ہمیں بہت محتاط ہوتے ہوئے معاملات کو درست کرنا ہوگا۔ ایران کی قیادت اسرائیل کے وجود کے خلاف ہے۔ مگر ہمیں ایران کو خطے کے بیشتر معاملات میں ساتھ رکھنا ہے تاکہ کہیں کوئی خرابی پیدا نہ ہو۔ اخوان المسلمون کا فلسطینی کاز کے حوالے سے جو موقف ہے وہ اگر تسلیم کیا جاتا ہے تو پھر ایران کے حوالے سے اسرائیل کا موقف بھی درست تسلیم کیا جانا چاہیے۔

خطے کی قیادت کے حوالے سے ایران اور مصر کے درمیان رقابت کا پایا جانا فطری امر ہے۔ ایران ایٹمی ہتھیار بنانا چاہتا ہے۔ اس کے ارادوں سے دیگر عرب ریاستوں کی طرح مصر بھی پریشان ہے۔ مصر چاہتا ہے کہ خطے میں اُسے قائدانہ حیثیت حاصل رہے۔ ایسے میں مصر اور ایران کے درمیان کشیدگی کا پایا جانا فطری امر ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ شام کے معاملے میں ایران کے ساتھ مل کر حکمتِ عملی مرتب کریں۔ خطے کو مزید کشیدگی اور عدم استحکام سے بچانے کے لیے رابطوں کا برقرار رہنا بنیادی شرط ہے۔

٭ امریکا کے حوالے سے مصریوں کی رائے کیا ہے اور نئی قیادت کیا سوچتی ہے؟

محمد مرسی: امریکا ہو یا کوئی اور طاقت، اپنی بات صرف طاقت سے نہیں منوا سکتی۔ لوگ بھول جاتے ہیں کہ امریکا ہمیشہ مصر کا معاون نہیں رہا۔ اسوان ڈیم میں روس نے بھی سرمایہ لگایا تھا۔ اگر امریکا یہ سمجھتا ہے کہ تھوڑی بہت امداد یا آسان شرائط کے قرضے دے کر وہ کسی ملک کے لوگوں کو اپنا بنالے گا یا دباؤ ڈال کر اپنی بات منوالے گا تو یہ سوچ غلط فہمی یا سادگی پر مبنی ہے۔ اگر امریکا پیچھے ہٹے گا تو دوسری طاقتیں بھی ہیں جو مصر سمیت پورے خطے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ مصر عرب دنیا کا سب سے بڑا اور سب سے با اثر ملک ہے۔ دیگر ممالک کے پاس دولت کے ڈھیر لگے ہوں گے، مگر ہمارے پاس وسائل ہیں جن کی بنیاد پر ملک پنپتے ہیں۔

امریکا کی پالیسیوں کے حوالے سے عرب دنیا میں غیر معمولی اشتعال پایا جاتا ہے۔ اب امریکی قیادت کو سوچنا پڑے گا کہ ایسا کیا ہو، جس سے دنیا بھر میں امریکا کی ساکھ بہتر ہو۔ محض طاقت کے استعمال سے سب کو مطیع و فرماں بردار بنانا ممکن نہیں رہا۔

میں نے امریکا میں تعلیم پائی ہے۔ صرف تعلیمی نظام ہی سے نہیں بلکہ امریکی اقدار اور ثقافت سے بھی اچھی طرح واقف ہوں۔ دنیا بھر کے لوگ امریکا سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ امریکی تعلیمی ادارے اعلیٰ درجے کی تعلیم فراہم کرکے پس ماندہ اور ترقی پذیر ممالک کے لوگوں کو نئی زندگی عطا کرتے ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امریکا میں سب کچھ اچھا ہے۔ بہت کچھ ایسا بھی ہے جس سے اختلاف کیا جاسکتا ہے، جسے بُرا سمجھا جاسکتا ہے۔

امریکا سے بہتر تعلقات استوار رکھنا مصر کے لیے بہت ضروری ہے۔ مصر اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرسکتا کہ خطے میں امریکی کردار کم اہم نہیں۔ امریکا میں مصر کے حوالے سے جو تاثر پایا جاتا ہے اس سے بھی ہم اچھی طرح واقف ہیں۔ مصر میں بیروزگاری ہے، مہنگائی ہے۔ وسائل کی کمی نے معاملات کو الجھا دیا ہے۔ اب ہمیں بہت کچھ کرنا ہے۔ حسنی مبارک کے دور میں مصر کی معیشت کو غیر معمولی نقصان پہنچایا گیا۔ آج مصر میں تعلیم یافتہ افراد کے مقابلے میں غیر تعلیم یافتہ افراد کے لیے کسی نہ کسی طرح ملازمت حاصل کرنا قدرے آسان ہے۔ اس معاملے کو اُلٹنے پلٹنے کی ضرورت ہے تاکہ تعلیم کی اہمیت سب پر واضح ہو اور نئی نسل کچھ بننے کی طرف متوجہ ہو، مائل ہو۔

مصر کے پاس بھی عرب دنیا سے تعلقات بہتر بنانے اور جمہوریت کی جڑیں گہری کرنے میں اہم کردار ادا کرنے کا سنہرا موقع موجود ہے۔ اسلام پسندوں کے اقتدار میں آنے سے بہت کچھ تبدیل ہوا ہے۔ امریکا کو بھی یہ بات سمجھنا ہوگی۔ امریکی قیادت کو بھی اندازہ ہے کہ خطے میں مجموعی طور پر استحکام برقرار رکھنے اور اسرائیل کے تحفظ کو یقینی بنانے کے حوالے سے مصر کس قدر اہم ہے۔ مصر سے امن معاہدہ اور پُرسکون سرحدیں اسرائیل کے تحفظ کی ضامن ہیں۔ یہ بات واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس، محکمۂ خارجہ اور محکمۂ دفاع کو اچھی طرح معلوم ہے۔ مصر کو نظر انداز کرکے خطے میں حقیقی امن اور استحکام یقینی بنانا ممکن نہیں۔ صحرائے سینا کا علاقہ وسیع اور قدرے لا قانونیت زدہ ہے۔ مصر میں حکومت کی تبدیلی کے بعد سے وہاں حالات خراب رہے ہیں۔ القاعدہ اور دیگر عسکریت پسند گروپوں کے مضبوط ہو جانے کا خدشہ برقرار ہے۔ سیکورٹی کے حوالے سے وہ سب کچھ نہیں کیا جاسکا جو کیا جانا چاہیے تھا۔ حماس کے بھی بہت سے تحفظات ہیں۔ اب اس علاقے میں سیکورٹی بہتر بنانے پر توجہ دی جارہی ہے۔ لوگوں کو غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرنے سے روکا جارہا ہے۔

(“Egypt’s New Leader Spells Out Terms for US-Arab Ties”… “New York Times”. Sep. 22, 2012)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*