مصر میں نئی حکومت کے قیام نے بہت کچھ تبدیل کردیا ہے۔ اخوان المسلمون کی سربراہی میں قائم ہونے والی حکومت نے ایران اور چین سے بہتر تعلقات کے لیے کوششیں شروع کردی ہیں۔ یہ تبدیلی امریکا کے لیے خاصی پریشان کن ہے۔ اسے ڈر ہے کہ مصر ہاتھ سے نکل گیا تو خطے میں بہت کچھ ہاتھ سے نکل جائے گا۔
صدر محمد مرسی نے حال ہی میں چین کا دورہ کیا ہے، جس میں دوستی اور تعاون کے لیے دو طرفہ معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں۔ اس دورے کا بنیادی مقصد مصر کے لیے زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کا حصول یقینی بنانا اور قرضے چکانے کی صلاحیت بہتر بنانا تھا تاکہ معیشت میں تین عشروں کے دوران پیدا ہونے والی خرابیاں تیزی سے دور کی جاسکیں۔ یہ دورہ چینی صدر ہو جنتاؤ کی دعوت پر ہوا۔ چین سے صدر مرسی ناوابستہ تحریک کے سربراہ اجلاس میں شرکت کے لیے ایران کے دارالحکومت تہران گئے۔
محمد مرسی کو صدر کا منصب سنبھالے ہوئے ابھی صرف دس ہفتے ہوئے ہیں اور انہوں نے خارجہ پالیسی میں تبدیلیوں کا عندیہ دینا شروع کردیا ہے۔ ایک طرف وہ امریکا اور یورپ سے مزید امداد حاصل کرنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف چین اور ایران جیسے ممالک سے بھی تعلقات بہتر بنا رہے ہیں تاکہ ان سے بہتر سرمایہ کاری کرائی جاسکے اور ملک کی صنعتی بنیاد کو مستحکم کرنے میں مدد ملے۔ مبصرین کے خیال میں صدر محمد مرسی مصر کی خارجہ پالیسی میں چند بنیادی تبدیلیاں متعارف کراکے امریکا اور یورپ کی طرف غیرمعمولی جھکاؤ ختم کرنا چاہتے ہیں۔ مصر کے سابق صدر انور سادات نے ۱۹۷۲ء میں سابق سوویت یونین سے تعلقات کی بساط لپیٹ کر خارجہ پالیسی کو مغربی مفادات کے تابع کردیا تھا۔
ایران کی طرف محمد مرسی کا جھکاؤ قابل فہم ہے۔ وہ خارجہ پالیسی کو متوازن رکھنا چاہتے ہیں۔ ۱۹۷۹ء کے بعد سے کسی مصری صدر نے ایران کا دورہ نہیں کیا کیونکہ ایران میں قائم انقلابی حکومت ۱۹۸۱ء میں مصر کے صدر انور سادات کے قتل کو آج بھی درست قرار دیتی ہے۔ صدر مرسی نے ایران کا دورہ ایک ایسے وقت میں کیا جب ایران کا ایٹمی پروگرام انتہائی متنازع حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ مغربی قوتیں ایرانی قیادت سے سخت ناراض ہیں۔ محمد مرسی کا دورہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ نئی مصری حکومت مغربی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے معاملے میں ڈکٹیشن پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں اور اپنے اہم فیصلے خود کرے گی۔
امریکا کے لیے زیادہ پریشان کن بات تو یہ ہے کہ مصر کی حکومت چین سے تعلقات بہتر بنانے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔ چین نے انقلاب کے بعد کے ایران سے بھی اچھے تعلقات استوار کیے۔ مصر میں بھی اسلام پسندوں کی حکومت چین کے لیے زیادہ قابل قبول ہوسکتی ہے کیونکہ مغربی دنیا اب مصر کو شک کی نظر سے دیکھ رہی ہے۔ چین اس صورت حال سے کماحقہ فائدہ اٹھاسکتا ہے۔
عرب دنیا میں عوامی بیداری کی لہر سے چین بہتر طور پر نمٹ نہیں سکا ہے۔ اس نے صورت حال کا بہتر ادراک کرتے ہوئے اقدامات نہیں کیے۔ لیبیا میں توانائی کے شعبے میں چین کو اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔ شام میں عوام کے خلاف فورسز کی سفاک کارروائیوں کی حمایت کرکے چین نے لاکھوں شامیوں کو شدید ناراض کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بشارالاسد انتظامیہ کے خلاف پیش کی جانے والی قراردادوں کو ویٹو کرکے چین نے شامیوں کو مزید مشتعل کیا ہے۔ شام کے مختلف شہروں میں چینی طرزعمل کے خلاف احتجاج اور اس کا پرچم جلانے کے واقعات عام ہیں۔ ایسے میں اگر بشارالاسد کی حکومت ختم ہوئی تو چین کے لیے نئی حکومت کے ساتھ خوش اسلوبی سے چلنا انتہائی دشوار ہوگا۔
مصر کی معیشت بری حالت میں ہے۔ ملک میں سیاسی استحکام بھی مثالی نوعیت کا نہیں مگر اس کے باوجود بیجنگ چاہے گا کہ مصر سے تعلقات بہتر بنائے کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں وہ بحیرۂ روم کے خطے میں قدم جمانے میں کامیاب ہوگا اور کم از کم ایک اہم بندر گاہ تک اس کی رسائی آسان ہو جائے گی۔ مصر کی حکومت چین کے جنگی جہازوں کو نہر سوئز تک بھی رسائی دے سکتی ہے۔ ایسی کوئی بھی پیشکش چین کے لیے خاصی پرکشش ہوگی کیونکہ وہ بحیرۂ روم اور بحیرۂ اسود کے خطے میں اپنی سرمایہ کاری کو تحفظ دینے کے حوالے سے خاصا فکرمند ہے۔
مصر سے تعلقات بڑھانے کی صورت میں چین کو امریکی ٹیکنالوجی تک رسائی بھی آسانی سے مل جائے گی۔ امریکی سفارت کار اس حوالے سے خدشات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ وکی لیکس کے ذریعے سامنے آنے والے ایک کیبل میں انکشاف کیا گیا تھا کہ چین کے فوجی افسران مصر میں ایف سولہ طیاروں کی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اور یہ اس دور کی بات ہے جب حسنی مبارک اقتدار میں تھے اور واشنگٹن سے قاہرہ کے تعلقات بہت اچھے تھے۔ تب چین کا مصر میں عمل دخل برائے نام تھا۔ اب حسنی مبارک نہیں رہے اور امریکا کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی ہے۔ ایسے میں چین کو مصر میں امریکی ٹیکنالوجی تک کتنی رسائی مل سکتی ہے، اس کا اندازہ لگانا چنداں دشوار نہیں۔
بدلتی ہوئی صورت حال میں مصر کے لیے چین بہت اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ صدر مرسی اس بات کے خواہش مند ہیں کہ مصر کو مختلف ذرائع سے اقتصادی معاونت ملے تاکہ معیشت متوازن رہے اور کسی ایک ملک یا خطے پر غیرمعمولی انحصار کی صورت میں پیدا ہونے والی پیچیدگیوں سے بچنا بھی ممکن ہو۔ چین جس راہ پر گامزن رہا ہے وہ ایسی ہے کہ مصر میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے اسے کوئی خاص الجھن نہیں ہوگی۔ اگر مصر میں میڈیا پر پابندیاں عائد ہوں، خواتین کے حقوق محدود کردیے جائیں اور دیگر سخت گیر قسم کے اقدامات بھی کیے جائیں تو چین کے لیے قباحت کی کوئی بات نہیں۔ چین کے پاس زر مبادلہ کے غیرمعمولی ذخائر ہیں۔ اگر مصر میں سیکورٹی کا مسئلہ حل ہو جائے تو چین کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کوئی مشکل کام نہ ہوگا۔
مصر کو مغرب کے حلقۂ اثر سے نکال کر دیگر خطوں کی طرف متوجہ کرنا صدر مرسی کے لیے کوئی آسان کام نہیں۔ چین کے مزاج میں بھی سخاوت نہیں، وہ مصر میں سرمایہ کاری کو ترجیح دے گا۔ اس سے زیادہ قرضوں یا امداد کی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔ صدر مرسی چاہتے ہیں کہ خلیج کی ریاستوں پر غیرمعمولی انحصار کے بجائے ایران سے بھی تعلقات بہتر بنائے جائیں تاکہ کسی بھی مشکل صورت حال میں خطے کے حوالے سے خارجہ پالیسی کو متوازن رکھنا ممکن ہو۔
مصر میں خارجہ پالیسی کے حوالے سے جو کچھ ہو رہا ہے وہ امریکا اور اسرائیل کو ناراض کرنے کے لیے کافی ہے۔ دونوں ممالک اخوان المسلمون کی حکومت کو شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ اگر مصر کا جھکاؤ چین کی طرف بڑھ گیا تو مشرقی ایشیا میں بھی امریکی پالیسی اور مفادات کو دھچکا لگے گا۔
(“Egypt’s Outreach to China and Iran is Troubling for U.S Policy”… “Los Angeles Times”. August 24th, 2012)
Leave a Reply