
صدر محمد مرسی کی برطرفی کے بعد مصر کی فوج اور اخوان المسلمون کے درمیان جو کشمکش شروع ہوئی تھی، اس کا دائرہ ستمبر میں جامعات کا نیا سال شروع ہونے کے بعد کیمپسز تک پھیل گیا ہے۔ ۳۱؍اکتوبر کو عبوری (فوجی) حکومت نے ۲۲ سرکاری جامعات اور جامعہ الازہر کے کیمپس میں فوج تعینات رکھنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ طلبہ کو حکومت مخالف مظاہروں سے روکا جاسکے۔ صدر محمد مرسی کی حمایت میں کیے جانے والے ان مظاہروں میں حکومت پر سخت تنقید کی جاتی ہے اور عبوری حکمرانوں سے فوری مستعفی ہوکر اقتدار عوام کے نمائندوں کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ سرکاری جامعات میں پولیس تعینات کرنے کے فیصلے کا میڈیا نے عمومی طور پر خیر مقدم کیا تھا کیونکہ اس فیصلے سے ایک دن قبل ہی جامعہ الازہر کے انتظامی بلاک پر اخوان المسلمون کے حامی طلبہ نے دھاوا بولا تھا۔ بہرکیف، فوج اور اخوان المسلمون کے درمیان جامعات میں جاری کشمکش اعلیٰ تعلیم کے اداروں کی خود مختاری کو مجروح کر رہی ہے۔ سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ کہیں یونیورسٹی گارڈز واپس نہ آجائیں۔ وزارت داخلہ کے تحت کام کرنے والی اس فورس کو ۲۰۱۰ء میں تحلیل کردیا گیا تھا۔ یہ فورس جامعات میں طلبہ کی سیاسی سرگرمیوں کو کچلنے کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔ دو عشروں کے دوران اس فورس نے اعلیٰ تعلیم کے اداروں کا ماحول مکدّر کیا اور تدریس کی راہ میں دیواریں کھڑی کیں۔
طلبہ کو سیاسی مطالبات کے حق میں مظاہرے کرنے سے روکنے کے لیے طاقت کا استعمال فوج کے لیے آخری حربہ تھا۔ منتخب حکومت کو برطرف کرنے کے خلاف اخوان المسلمون کے ہمدرد اور دیگر مذہبی تنظیموں کے طلبہ نے جو مظاہرے کیے تھے، ان کے جواب میں فوج نے پہلے تو فوجی حکومت کے حامی طلبہ کی مدد سے جوابی مظاہروں اور ضرورت پڑنے پر ان کے ذریعے طاقت کے استعمال کا آپشن استعمال کیا۔ ابتدائی چھ ہفتوں کے دوران فوج کو اپنے مقاصد میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ لبرل عناصر فوج کی مدد کے لیے آگے آنے سے گریزاں تھے۔ وہ بظاہر تیسرے پولیٹیکل آپشن کی راہ کھلی رکھنا چاہتے تھے۔
جنوری ۲۰۱۱ء کے انقلاب کی راہ ہموار کرنے میں لبرل اور بائیں بازو کے طلبہ نے اخوان المسلمون کا ساتھ دیا تھا اور بعد میں جامعات میں حسنی مبارک کی حامی طلبہ قیادت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں بھی وہ اخوان کے ساتھ رہے تھے مگر پھر انہوں نے اس تحریک کا بھی ساتھ دیا جس نے صدر مرسی کا تختہ الٹا۔ تب سے اب تک لبرل اور بائیں بازو کے طلبہ کسی بھی تحریک کے وقت غیر جانب دار رہنے سے گریز کرتے آئے ہیں۔
نومبر ۲۰۱۳ء کے پہلے نصف میں پولیس نے رسمی طریقِ کار کے تحت اسیوت، فایوم، زگازگ اور منصورہ کی جامعات میں طلبہ کے حکومت مخالف مظاہروں کو کچلنے کے لیے کارروائی کی۔ پولیس ایسی کارروائی اسی وقت کرتی ہے جب متعلقہ جامعہ کے صدر کی طرف سے کوئی درخواست موصول ہو یا پھر پبلک پراسیکیوٹر کی طرف سے یہ کہا جائے کہ عوام اور املاک کے تحفظ کے لیے ایسا کرنا ناگزیر ہے۔ پولیس نے ان جامعات میں کارروائی کے دوران آنسو گیس کے گولے داغے اور پرندوں کے شکار میں استعمال ہونے والی گنیں استعمال کیں۔ کارروائی کے دوران بہت سے طلبہ زخمی ہوئے، درجنوں گرفتار ہوئے۔ اس صورت حال نے کشیدگی بڑھادی۔ پولیس نے ۲۰ نومبر کو جامعہ الازہر میں اخوان المسلمون کے حامی طلبہ کے خلاف آپریشن کیا تو کشیدگی بڑھ گئی اور اس تصادم میں ایک طالب علم اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
اگلے ہی دن عبوری حکومت نے طلبہ کے خلاف ایکشن کو وسعت دے دی اور پولیس کے لیے جامعہ کے صدر کی درخواست یا پبلک پراسیکیوٹر کی طرف سے کسی تجویز کی شرط ختم کردی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اخوان المسلمون کے حامی طلبہ کے حکومت مخالف مظاہروں کو کچلنے کے لیے زیادہ طاقت استعمال کی جانے لگی۔ فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج کے دوران ۲۸ نومبر کو قاہرہ یونیورسٹی میں ایک اور طالب علم مارا گیا۔
ان تمام معاملات کو اخوان المسلمون اور فوج کے درمیان کشیدگی سے الگ نہیں رکھا جاسکتا۔ فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج کے دوران جب اخوان کی توانائیاں کم ہونے لگیں اور وہ حکومت کے خلاف بڑے چوراہوں اور دیگر اہم مقامات پر دھرنے دینے اور مظاہرے کرنے کی پوزیشن میں نہ رہی تو پولیس نے اس کے ارکان کو بڑی تعداد میں گرفتار کرنا شروع کردیا۔ ایسے میں جامعات نے اخوان المسلمون کو احتجاج کا بہتر موقع فراہم کیا۔ مصر میں جامعات کے طلبہ بالعموم اپنے سیاسی معاملات میں فوج کی مداخلت پسند نہیں کرتے۔ وہ اپنی سیاسی آزادی کو ہر قیمت پر تحفظ دینا چاہتے ہیں۔ جامعہ الازہر میں اخوان المسلمون کا اسٹوڈنٹ ونگ سب سے زیادہ مضبوط ہے۔ اخوان کی مرکزی قیادت نے فوجی سیٹ اپ کے خلاف طلبہ کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے جامعہ الازہر کو امیدوں کا مرکز بنایا۔ حکومت کے خلاف احتجاج کے حوالے سے تنظیم پر پڑنے والا دباؤ کم کرنے کا یہی ایک راستہ اور طریقہ تھا۔
فوج اور سکیورٹی کے دیگر ادارے جامعات کی حدود میں حکومت مخالف مظاہرے کسی بھی صورت برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ جامعات میں بگڑتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر متعلقہ حکام نے وزارتِ داخلہ کے تحت کام کرنے والے یونیورسٹی گارڈز کی واپسی کی باتیں بھی کرنا شروع کردیں۔ ۲۵ جنوری ۲۰۱۱ء کو برپا ہونے والے انقلاب کے بعد پہلی بار اخوان المسلمون اور فوج کے درمیان کشمکش نے طلبہ کی اس آزادی کو بھی داؤ پر لگادیا ہے، جو بڑی مشکل سے بحال ہوپائی تھی۔
طلبہ تنظیموں، سیاسی جماعتوں اور سیاسی آزادی کے لیے کام کرنے والے دیگر گروپوں نے جامعات میں ریاستی قوت کی واپسی کی مخالفت شروع کردی ہے۔ لبرل اور بائیں بازو کے عناصر بھی محسوس کرنے لگے ہیں کہ انہیں نشانہ بنایا جارہا ہے۔ بائیں بازو کی دستور پارٹی بھی جامعات میں یونیورسٹی گارڈز جیسے کسی سیٹ اپ کو دوبارہ متعارف کرائے جانے کے خلاف ہے۔ یکم دسمبر کو قاہرہ یونیورسٹی میں سیکڑوں طلبہ جمع ہوئے اور جامعہ کی حدود میں پولیس ایکشن کی شدید مذمت کرتے ہوئے کئی دن قبل ایک طالب کی ہلاکت کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا۔
فوج نواز میڈیا نے طلبہ تنظیموں پر بار بار یہ الزام عائد کیا ہے کہ وہ اخوان المسلمون کی قیادت میں تدریس کا ماحول خراب کرنے پر تُلی ہوئی ہیں۔ طلبہ کے مظاہروں میں لبرل اور بائیں بازو کے لوگوں کی بھی شرکت کے بعد فوج اس حوالے سے کنفیوژڈ دکھائی دیتی ہے کہ صورت حال پر کس طور قابو پایا جائے۔ پولیس نے قاہرہ یونیورسٹی کا کیمپس چھوڑ دیا، تاہم دیگر جامعات میں مظاہرین کا تعاقب کرنے اور انہیں گرفتار کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
فوج اور جامعات کے درمیان کشیدگی کم کرنے کی کئی کوششیں ہوئی ہیں، جو اَب تک بارآور ثابت نہیں ہوئیں۔ جامعات کی طلبہ تنظیموں کے صدور اور فوج کے نمائندوں کے درمیان ملاقاتوں کے باوجود اب تک یہی دکھائی دے رہا ہے کہ فوج جامعات کا کنٹرول کسی نہ کسی طور اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی ہے تاکہ اس کے مخالفین ان اداروں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہ کرسکیں۔ اسٹوڈنٹس فریڈم کیمپین کے مطابق اب تک پولیس نے ۴۰۰ سے زائد طلبہ کو گرفتار کیا ہے۔ ان کی رہائی کی کوئی صورت اب تک نظر نہیں آئی۔ سیمسٹر کا اختتام قریب ہے اور امتحانات بھی سر پر ہیں، مگر اب تک حکومت کا ذہن واضح نہیں کہ اسے جامعات کا ماحول خراب ہونے سے بچانے کے لیے کیا کرنا چاہیے۔
فوج اور اخوان المسلمون کے درمیان کشیدگی طلبہ تنظیموں کو ملنے والی آزادی کسی حد تک داؤ پر لگاسکتی ہے۔ معاملات کو غیر معمولی احتیاط سے نمٹانے اور سلجھانے کی ضرورت ہے۔
(مضمون نگار قاہرہ میں ایسوسی ایشن فار فریڈم آف تھاٹ اینڈ ایکسپریشن کے محقق ہیں۔)
(“Egyptian universities between the Brotherhood and the military”… “carnegieendowment.org”. Dec. 20, 2013)
Leave a Reply