ایرانی حالات سے متعلق امریکی ماہرین جن کے اندازے ایران کے حوالے سے ہمیشہ ہی غلط ثابت ہوتے ہیں، صدارتی انتخاب میں ڈاکٹر حسن روحانی کی فتح کو ایران کی داخلی شکست و ریخت کی واضح علامت قرار دینے کی ادھیڑ بن میں ہیں۔ درحقیقت روحانی کی کامیابی سے ایک بالکل مختلف پیغام موصول ہوا ہے اور وہ پیغام یہ ہے کہ امریکا اور مغرب کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ ایک مضبوط اور سیاسی طور سے ہر آن متحرک اسلامی جمہوریۂ ایران کی زندہ حقیقت سے سمجھوتہ کرلیںاور اس کے ساتھ ہم آہنگی اختیار کریں۔ انتخابات سے پہلے امریکا اور مغرب کے بہت سارے سیاسی ماہرین، حتیٰ کہ بعض دانشوران جو ایرانی نژاد تارکینِ وطن میں سے ہیں، یہ غلط تاثر دینے کی کوشش کررہے تھے کہ ایران کا حالیہ صدارتی انتخاب ایک مصنوعی اور ساختہ عمل ہوگا، جس کے ذریعے ولی ٔ فقیہ آیت اللہ خامنہ ای کے پسندیدہ اور برگزیدہ امیدواروں میں سے کسی ایک کو کامیابی سے ہمکنار کرانا مقصود ہے ۔ یعنی یہ انتخاب، انتخاب نہیں بلکہ پسندیدگی کا عمل قرار پائے گا تاکہ اس طرح ایرانی سیاست پر آیت اللہ خامنہ ای کی (بقول ان کے) آمرانہ گرفت کو مزید مضبوط کیا جاسکے۔ بروکنگز انسٹیٹیوشن کی سوزانے مالونی (Suzanne Maloney) کی طرح کے بہت سے سیاسی ماہرین ایران کے ایٹمی مذاکرات کار سعید جلیلی کو آیت اللہ خامنہ ای کاپسندیدہ امیدوار قرار دے رہے تھے اور ان کے صدر بننے کی پیش گوئی کررہے تھے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ واشنگٹن پوسٹ نے واضح الفاظ میں اپنا نقطۂ نظر صادر فرمایا تھا کہ ”Rohani will not be Allowed to Win’ یعنی حسن روحانی کو انتخاب میں جیتنے نہیں دیا جائے گا ۔ لیکن اس کے برعکس ہم نے دیکھا کہ آخری دنوں میں ایران میں انتخابی رقابت زوروں پر تھی جس کے دوران تمام صدارتی امیدواروں کو قومی میڈیا پر وسیع اور مستقل رسائی دی جارہی تھی ۔ایران کا قومی میڈیا بلاتفریق انتخابی مہم کے مناظر اور تمام امیدواروں کی انتخابی سرگرمیوں کی فوٹیج یکساں طور سے دکھارہا تھا ۔ ہر ایک امیدوار کی انتخابی مہم کی تشہیر ایران کا قومی میڈیا بے کم و کاست اور غیر جانبدارانہ طریقے سے کررہا تھا بالخصوص امیدواروں کے درمیان ہونے والے مباحثوں کی تشہیر کہ جن کا اہتمام خود ٹیلی وژن چینلز ہی نے کیا تھا۔ اس انتخاب نے امریکا کے نام نہاد سیاسی ماہرین کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا، اس لیے کہ فاتح کی حیثیت سے ایک ایسا امیدوار ابھر کر آیا ہے جس کے متعلق ان ماہرین کا خیال تھا کہ اُسے ہر گز کامیاب ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔چنانچہ یہ بات اب اظہرمن الشمس ہے کہ انتخاب میں فاتح ہونے کی بنیاد عوامی حمایت ہے نہ کہ آیت اللہ خامنہ ای کا پسندیدہ اور برگزیدہ ہونا۔
روحانی کی فتح ظاہر کرتی ہے کہ انتخابی مقابلہ ایک حقیقی مقابلہ تھا جسے کسی بھی صورت میں مصنوعی عمل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ایرانی عوام نے امیدواروں کی انتخابی مہم کے دوران ان کے منشور، منصوبوں، دعوئوں اور وعدوں کا بغور جائزہ لینے کے بعد ہی کسی کے حق میں اپنے ووٹ ڈالنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ۱۴؍جون ۲۰۱۳ء کے انتخاب میں عوام کا جوش و خروش ٹھاٹھیں مارتا سمندر کی مانند تھا۔ ۷ء۷۲ فیصد رائے دہندگان کی پولنگ بوتھ پر موجودگی جمہوری انتخاب کی تاریخ میں ایک غیر معمولی ریکارڈ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اس کے مقابلے میں امریکا جیسے ملک میں جو جمہوریت کے چمپئن کی حیثیت سے دنیا میں اپنی شہرت رکھتا ہے، انتخابی عمل میں رائے دہندگان کی موجودگی بہت کم ہونے کے ساتھ ساتھ غیر ولولہ انگیز بھی ہوتی ہے ۔
بہرحال ایرانی عوام صدر کے انتخاب میں دقیق غور وفکر سے کام لیتے ہوئے امیدواروں کے اوصاف، نیز اُن کی صلاحیتوں کو بخوبی درک کرنے کے حوالے سے بہت ہی حساس واقع ہوئے ہیں ۔ بیشتر ایرانیوں نے بالآخر وہی فیصلہ کیا تھا جس کا تقاضا اُ ن کے عقل و ضمیر نے کیا تھا۔ اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام کی برکت سے ایرانی عوام کاشعور قدرے بالیدہ ہوچکا ہے ۔ ان کا انتخاب بہت ہی بامعنی ہے اور وقت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے ۔ صدارتی انتخاب کے علاوہ ایرانی عوام نے دو لاکھ سے زیادہ مقامی و بلدیاتی نشستوں کے لیے بھی ووٹ دیے جن کے لیے ۸ لاکھ سے زیادہ امیدواران میدان میں موجود تھے ۔ یہ تمام انتخابی عمل اسلامی جمہوریۂ ایران کی آمرانہ روش پر گامزن ہونے کے مغربی دعوے کو مضحکہ خیز اور بچکانہ ظاہر کرتے ہیں۔ یقینا مغربی ماہرین اس وقت غلطی پر تھے جب وہ یہ کہہ رہے تھے کہ سابق صدر علی اکبر ہاشمی رفسنجانی کو انتخابی عمل میں حصہ لینے سے نااہل قرار دیے جانے کے سبب ایران سیاسی بیزاری اور بے حسی کی کیفیت سے دوچار ہوجائے گا۔
آقا ہاشمی رفسنجانی ایرانیوں میں ان دنوں بہت مقبول شخصیت نہیں ہیں وہ یقینا اس بار بھی انتخاب ہار جاتے اگر وہ عوام کے ووٹوں کے روبرو ہوتے۔ آقا رفسنجانی کا کنارے لگنا روحانی کے فائدے میں گیاجو کہ رفسنجانی کے حمایت یافتہ امیدوار تھے ۔ یہ بات بہت عام ہے کہ آقا رفسنجانی ایرانی سیاست میں عملیت پسندی پر مبنی رجحان کو فروغ دینے کے قائل ہیں تاکہ قدامت پسندوں یا اصول گرایوں کی انتہا پسندی سے اجتناب کیا جاسکے اور اپنے اس موقف کی وجہ سے ہی وہ ایران میں اصلاح پسندوں کے رہنما کے طور پر مشہور ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آقا رفسنجانی نے دونوں کیمپوں یعنی اصلاح طلبان اور اصول گرایان کو ناراض کیا ہے اور کوئی ایسا مستقل کیمپ تشکیل دینے میں ناکام رہے ہیں جو اعتدال اور میانہ روی پر مبنی رجحان کا ترجمان ہو۔ جناب حسن روحانی واحد امیدوار تھے جن کا تعلق علمائے دین کے طبقے سے ہے۔ جناب روحانی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران انتہا پسندی کی، خواہ وہ کسی بھی شکل میں ہو، مستقل مذمت کرتے رہے اور اس معاملے میں انھیں رفسنجانی کی تائید اور حمایت پوری طرح حاصل تھی۔ لہٰذا اس بات کا غالب امکان ہے کہ حسن روحانی رفسنجانی کے خواب کی تکمیل ان کے دوسرے حمایت یافتہ امیدواروں کے مقابلے میں زیادہ بہتر طریقے سے کرسکیں ۔
انتخابی مہم کے دوران جناب حسن روحانی کا جو کمزور ترین پہلو تھا وہ ۲۰۰۳ء تا ۲۰۰۵ء کے دوران کہ جس میں جناب روحانی ایران کی اعلیٰ سیکورٹی کونسل کی جانب سے ایٹمی مذاکرات کار کے طور پر مقرر کیے گئے تھے، یورینیم کی افزودگی کو دو سال کے لیے معطل کرنے پر رضامند ہونا تھا کہ جس کے عوض ایران کو مغرب کی جانب سے کچھ بھی نہیں ملاتھا۔ شاید ۲۰۰۵ء میں احمدی نژاد کی فتح کا سبب حسن روحانی کی یہی مصالحانہ روش ہو جو انہوں نے مغرب کے ساتھ مذاکرات میں اپنا رکھی تھی۔ چنانچہ اس مرتبہ روحانی بہت شدومد کے سا تھ اُن امکانی خطرات کا ذکر کرتے رہے جو اُس وقت ایران کو مغرب کی طرف سے درپیش تھے۔ اس کے ساتھ ہی اُنھوں نے یہ دلیل بھی پیش کی کہ اُن کی مصالحانہ روش پر مبنی اندازِ گفتگو کے سبب ہی ایران پابندیوں سے گریز کرنے میں کامیاب ہوا تھااور اُن کی اسی حکمت ِ عملی کا نتیجہ تھا کہ بعد کے دنوں میں ایران نے جوہری ڈھانچے کی تعمیر میں غیر معمولی اور حیرت انگیز پیش رفت کی۔جناب روحانی کی اس دلیل کو ایرانی مسلح افواج کے چیف آف دی آرمی اسٹاف جنرل سید حسن فیروز آبادی کے اس بیان سے بھی تقویت ملی کہ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ سیکورٹی کے مسائل پر ڈاکٹر روحانی کا موقف قابل تعریف ہے۔ اس بار امیدواروں کے مابین جب مباحثے کا تیسرا دور چل رہا تھا اور خارجہ پالیسی کاموضوع زیرِبحث تھاتو ان آخری دنوں میں روحانی کا انتخابی آہنگ دوسرے امیدواروں کے مقابلے میں زیادہ مضبوط نظر آرہا تھا ۔ روحانی کے بعد جس امیدوار کی انتخابی سرگرمیوں میں توانائی محسوس کی جارہی تھی، وہ تہران کے میئر باقر قالیباف تھے جو انتخابی مقابلے میں دوسرے نمبر پر آئے۔ دو روز پہلے تک ایسا لگ رہا تھا کہ انتخاب اپنے نتیجے کے لحاظ سے دوسرے دور کا متقاضی ہوگا اور پھر اس دوسرے دور میں روحانی اور قالیباف مقابلے کے لیے رہ جائیں گے لیکن انتخاب کے روز شروع ہی میں یہ واضح ہوگیا تھا کہ حسن روحانی اپنے قریب ترین حریف باقر قالیباف نیز دیگر انتخابی حریفوں سے بہت آگے جارہے ہیں جب کہ اس کے بالکل برعکس ۲۰۰۹ء کے صدارتی انتخاب میں تکینکی اعتبار سے کوئی ایسی مضبوط علامت سامنے نہیں آئی تھی جو ظاہر کرتی ہو کہ میر حسین موسوی اپنے قریب ترین انتخابی حریف محمود احمدی نژاد سے آگے ہیں۔ حسن روحانی کی کامیابی کا راز اتحاد و مفاہمت سے کام لینے کی اُن کی صلاحیت میں مضمر ہے، بالخصوص اصلاحِ طلبان کے ساتھ۔ روحانی بذاتِ خود انتہا پسندوں میں سے نہیں ہیں۔ان کا تعلق جامعۂ روحانیونِ مبارز سے ہے جو کہ مجمعِ روحانیونِ مبارز کی قدامت پسندانہ شکل ہے کہ جس کے بانی سید محمد خاتمی ہیںجو ۱۹۹۷ء میں ایران کے پہلے اصلاح پسند صدر تھے۔ مجمعِ روحانیون مبارز کی تشکیل میں کچھ دوسرے اصلاح پسند علما بھی محمد خاتمی کے ساتھ شریک رہے ہیں ۔
بحیثیتِ مجموعی حسن روحانی کو زیادہ ووٹ چھوٹے شہروں اور دیہاتوں سے ملے ہیںکہ جہاں کے رہنے والے بڑے شہروں کے مقابلے میں نسبتاًزیادہ قدامت پسند ہوتے ہیں۔ چھوٹے علاقوں میں ان کو زیادہ ووٹ پڑنے کی بڑی وجہ ان کا عالمِ دین ہونا ہے ۔
اس بار انتخابی امیدواروں میں جو حقیقی اصلاح پسند تھے وہ محمد رضا عارف تھے، جو خاتمی کے اول نائب صدر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ عارف بہرحال اپنے آپ کو ایک پرجوش و پرنشاط امیدوار ثابت نہ کرسکے اور ا ن کی عوامی مقبولیت بھی بہت کم نظر آرہی تھی۔ چنانچہ آخری مباحثے کے بعد دوسرے اصلاح پسندوں نے انھیں انتخابی مقابلے سے باہر نکل جانے پر مجبور کردیاجس کی وجہ سے خاتمی حسن روحانی کی حمایت کرنے میں آزاد ہوگئے ۔ اگرچہ اصلاح طلبان روحانی کی انتخابی بنیاد کا محور نہیں تھے تاہم ان کے ووٹوں نے روحانی کو ۵۰ فیصد سے زائد ووٹوں کے حصول میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ ۲۰۱۳ء کے ایرانی صدارتی انتخاب نے ایک اور اہم نکتے کی تصدیق کردی ہے جس پر ایران کے اسلامی نظام کے حامیان برابر زور دیتے رہے ہیں اور وہ نکتہ یہ ہے کہ مغرب کی روایتی دشمنی پر مبنی تشہیراتی مہم کے علی الرّغم ۲۰۰۹ء کے ایرانی صدارتی انتخاب میں کہ جس میں محموداحمدی نژاد حسین موسوی اور اپنے دو مزید حریفوں پر غالب آئے تھے، کے حوالے سے کوئی بھی ایسی مضبوط شہادت سامنے نہیں آئی کہ جس کی بنا پر یہ الزام ثابت ہوتاکہ مذکورہ انتخاب دھاندلی سے عبارت تھا۔ اس کے باوجود ایران کے سیاسی نظام نے گزشتہ سال ایک قانون کی منظوری دی جس کی رو سے ایک انتخابی کمیشن کی تشکیل عمل میں آئی، جو ۲۰۱۳ء کے انتخابات کے حوالے سے وزارتِ داخلہ کے طرزِ عمل کی نگرانی نیز تصدیق کا ذمہ دار ہے۔ یہ اور اس طرح کے دیگر منظم اقدامات کہ جن سے دھاندلی کے امکان یا دھاندلی کے واقعات کا سدِ باب ہوتا ہو، اسلامی جمہوریہ کی اُس صلاحیت کے مظہر ہیں جس سے کام لیتے ہوئے اپنی اصلاحات کا عمل وہ خود انجام دیتی ہے ۔ چنانچہ زندانِ کہریزک کا بند کیا جانا کہ جہاں ۲۰۰۹ء کے انتخاب کے بعد پولیس کی زیادتی کے واقعات سامنے آئے تھے ، اصلاحاتی عمل کے لیے اسلامی جمہوریہ کے عزم و ارادے کا مظہر ہے ۔
مغرب میں اس حقیقت کی نشاندہی سے مبصرین پر بلیک میلنگ کے جھوٹے الزامات عائد کیے جاتے ہیں لیکن جو لوگ اس طرح کے جھوٹے الزامات وارد کرتے ہیں، تواتر کے ساتھ اُن کا برسرِ تغلیط ہونا ثابت ہوتا رہا ہے کیونکہ ایرانی سیاست مستقل اُن کے مضحکہ خیز و توہین آمیز جامد خیال یا نقطۂ نظر کا بطلان کرتی رہی ہے ۔۲۰۰۹ء کے صدارتی انتخاب کا اگر اس بار کے انتخاب سے موازنہ کیا جائے توامیدواروں کے رویے کا فرق نمایا ںہوکر سامنے آتا ہے ۔ اس بار تمام امیدواروں نے اتفاق کرلیا تھا کہ انتخابی عمل کے بعد اجتماعات کے انعقاد سے گریز کریں گے اور کوئی بیان اُس وقت تک جاری نہیں کریںگے تاآنکہ ووٹوں کی گنتی مکمل نہیں ہوجاتی اور نتائج کا سرکاری طور پر اعلان نہیں ہوجاتا ہے۔ امیدواران اپنے اس متفقہ فیصلے پر قائم رہے البتہ وزارتِ داخلہ وقفے وقفے سے جزوی نتائج کا اعلان کرتی رہی جو اُسے پورے ایران کے پولنگ اسٹیشنوں سے موصول ہورہے تھے۔ باوجود اس کے کہ کامیاب امیدوار حسن روحانی ۵۰فیصد کی متعینہ حد کی جانب بڑھتے ہوئے ابھی صرف ۲۵۱,۶۱,۲ ووٹوں کے ساتھ آگے تھے کہ ان کے انتخابی حریفوں نے فوری طور سے ان کو مبارک باد کے پیغامات ارسال کرنے شروع کردیے، حتیٰ کہ آیت اللہ خامنہ ای نے بھی یہی کیا۔ اب ذرا ہم اس رویے کا مقابلہ جون ۲۰۰۹ء کے صدارتی انتخابی سے کریں تو دیکھتے ہیں کہ ابھی جب کہ ووٹنگ جاری ہے اور ووٹوں کی گنتی شروع بھی نہیں ہوئی ہے تو جناب حسین موسوی یہ اعلان کرتے ہیں کہ سرکاری طور سے انہیں یہ اطلاع ملی ہے کہ وہ بہت ہی نمایاںبرتری کے ساتھ اپنے دوسرے حریفوں کے مقابلے میں انتخاب جیت چکے ہیں، اس بنا پر اُن کے لیے یہ جواز پیدا ہوگیا کہ وہ انتخاب میں دھاندلی کا دعویٰ کریں اور اپنے حامیوں کو سڑکوں پر جمع کریں اور یوں اپنی جنبشِ سبز کا آغاز کریں۔ پھر موسوی دھاندلی کے اپنے دعوے کے حق میں ٹھوس ثبوت و شواہد لانے سے قاصر رہے تو سبز جنبش کی عوامی بنیاد بری طرح متزلزل ہوگئی اس لیے کہ اس صورت میں اب یہ لوگ کسی مخصوص انتخابی نتائج کو چیلنج نہیں کررہے تھے بلکہ اسلامی جمہوریہ بطور ایک سیاسی نظام کی فکر ہی پر سرے سے سوالیہ نشان لگارہے تھے۔ سبز جنبش کی ناکامی کے باوجود بھی یہ تحریک ایرانی نژاد تارکینِ وطن، اسرائیل نواز گروہوں نیز مغربی مداخلت پسندی کے حامی افراد کی کمین گاہ رہی جو اس زعمِ باطل میں مبتلا تھے کہ ایران میں بالآخر مغربی طرز کی لادین یا سیکولر جمہوریت مشارکت پر مبنی اسلامی طرزِ حکومت کی جگہ لے لے گی ۔لیکن اصلاح پسندوں اور اُن کے میانہ رو اتحادی جو اسلامی جمہوریہ کے حامی تھے، اگر چہ اسلامی جمہوریہ کے مستقبل کے حوالے سے اُن کا نقطۂ نظر اصول گرایان کے نقطۂ نظر سے قدرے مختلف تھا، اس کے باوجود انھوں نے جنبشِ سبز سے اپنے آپ کو دور کرنا ضروری خیال کیا۔ ان کی اس روش نے انھیں یعنی اصلاح پسندوں اور ان کے میانہ رو اتحادیوں کو، جہاں ایک طرف دوبارہ مجتمع ہونے کا موقع دیا، وہیں دوسری جانب ۲۰۰۹ء کے انتخاب ، ۲۰۰۵ء کے صدارتی انتخاب میں آقا ہاشمی رفسنجانی کی شکست اور صدر خاتمی کی اپنی صدارتی مدت میں گوناگوں ناکامیوں سے سبق حاصل کرنے کا بھی موقع فراہم کیا۔ چنانچہ حسن روحانی کی حالیہ انتخابی کامیابی میں ان عوامل کا بہت اہم کردار ہے ۔ لہٰذا امریکا اور مغرب کو اپنے مہلک خیالِ خام کو ترک کردینا چاہیے کہ اسلامی جمہوریہ ایرانیوں کے لیے ایک پائیدار او ر قانونی نظام کی شکل اختیار نہیںکر سکتی ہے۔
اسلامی جمہوریہ کی بنیادی اور اہم خصوصیات میں مشارکت پر مبنی اس کا طرزِ حکومت ہے اور اس کی آزاد خارجہ پالیسی ہے جو نہ صرف ایرانیوں کے لیے کشش رکھتی ہے بلکہ اسلامی دنیا میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کے لیے اس میں کشش موجود ہے، بالخصوص مشرقِ وسطیٰ کے مسلمانوں کے لیے جواسی کشش کی بنا پر اپنی سرزمینوں میں اسلامی بیداری کی تحریک برپا کیے ہوئے ہیں۔ لہٰذا امریکا اور مغرب کے لیے یہ مناسب وقت ہے کہ وہ اسلامی ایران جیسی حقیقت سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کریں۔
اب آخرمیں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ جناب حسن روحانی کی انتخابی تفصیلات کا بھی یہاں مختصراً تذکرہ کردیا جائے:
ایران کا گیارہواں صدارتی انتخاب، جو کہ ۱۴ جون ۲۰۱۳ء کو منعقد ہوا ، میں حسن روحانی نے عوامی ووٹوں کی عظیم اکثریت سے کامیابی حاصل کی ۔ ایران کے وزیرِ داخلہ مصطفی محمد نجار نے ۱۵ جون ۲۰۱۳ ء کو یہ اعلان کیا کہ ۱۵۶،۷۰۴،۳۶سالم ووٹوں کی گنتی کے نتیجے میں حسن روحانی نے۳۲۹،۶۱۳،۱۸ ووٹوں کے ساتھ ۷ء۵۰ فیصد ووٹوں سے کامیاب ہوئے۔ اصول گرا امیدوار محمد باقر قالیباف روحانی کے قریب ترین حریف ثابت ہوئے جو روحانی کے مقابلے میں ۲۹۲،۰۷۷،۶ ووٹوں سے پیچھے رہے۔ باقر قالیباف نے نتائج سامنے آتے ہی روحانی کو اُن کی کامیابی پر مبارک باد دی۔ اصول گرا امیدوار سعید جلیلی نے ۹۴۶،۱۶۸،۴ ووٹزحاصل کیے۔ آزاد امیدوار محسن رضائی نے ۴۱۲،۸۸۴،۳ ووٹز حاصل کیے۔اصول گرا امیدوارعلی اکبر ولایتی اور آزاد امیدوار سید محمد غرضی نے بالترتیب ۷۵۳،۲۶۸،۲اور ۰۱۵،۴۴۶ ووٹز حاصل کیے۔۴۰۹،۲۴۵،۱ ووٹز ناقص ہونے کی بنیاد پرضائع قرار پائے۔تقریباً ۵ء۵۰ ملین ایرانیوں نے ووٹ کاسٹ کیے جس میں تقریباً ۶ ء۱ ملین ووٹروں نے پہلی بار ووٹ کاسٹ کیے کیونکہ عمر کے لحاظ سے یہ لوگ ۱۴ جون کے انتخابات میں ہی حصہ لینے کے اہل ہوئے تھے۔ وزارتِ داخلہ کے اعلان کے مطابق ۷ء ۷۲فیصد رائے دہندگان نے ووٹ کاسٹ کیے۔
☼☼☼
Leave a Reply