
عراق میں ۳۰ جنوری کے انتخابات کے زور و شور کا غیرمعمولی چرچہ غاصب قوتوں کی کارستانی ہو سکتی ہے لیکن محکوم کو چاہیے کہ اس میں حصہ لینے کے حوالے سے عقل سے کام لیں۔ قطع نظر اس سے انتخابات کی منصوبہ بندی کرنے والے کون لوگ ہیں‘ عراقی قیادت کو چاہیے کہ وہ اس موقع کو استعمال کرتے ہوئے اپنا وہ سیاسی مقام حاصل کرے جس سے انہیں بہت عرصے سے محروم رکھا گیا ہے۔ اپریل ۲۰۰۳ء میں امریکا کی عراق پر جارحیت غیرقانونی اور مجرمانہ تھی۔ واشنگٹن کے جدید قدامت پرست پالیسی سازوں نے اقوامِ متحدہ حامی سیاسی ایپروچ کو مسترد کر دیا جو اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ صدام کے زوال کا آغاز ہو چکا ہے۔ ۷۰ کی دہائی میں امریکی صدر جمی کارٹر کا ایران کے مطلق العنان شہنشاہ پر سیاسی دبائو نے شاہ کے زوال میں ابتدائی عامل کا کام کیا۔ لیکن جیسا کہ Bob Woodword جو واشنگٹن پوسٹ کے انعام یافتہ صحافی ہیں‘ نے Bush at War and The Plan of Attack میں لکھا ہے کہ بش انتظامیہ کا عراق پر حملے کا حتمی منصوبہ ۱۱/۹ سے پہلے تیار ہو چکا تھا۔ حقیقت کو خواہ کتنا ہی بدلا جائے‘ عراق پر امریکی حملے کے حوالے سے کوئی دوسری ’سچائی‘ ثابت کرنا مشکل ہے۔ انتہائی بھیانک طریقے سے مسلح امریکی فوج عراقیوں کے لیے موت اور تباہی لائی۔ آج کے عراقی میدان ہائے قتل میں سفاک صدام کے جانے کی خوشیاں ماند پڑ چکی ہیں۔ عراق پر جارحیت کے ’’ابتدائی جرم‘‘ کے بعد صدام کے عذاب کی جگہ خانہ جنگی اور امریکی تسلط کے عذاب نے لے لی ہے۔ عراقی اب بھی تحفظ و سلامتی نام کی کسی چیز سے ناآشنا ہیں۔ جبکہ وہ اپنے آپ کو اس طرح منقسم اور تباہ کر چکے ہیں کہ ماضی میں جس کی مثال نہیں ملتی۔ ۳۰ جنوری کے انتخابات امریکی قبضے کو ختم کرنے میں پہلا اہم قدم ہو گا اس لیے کہ اس طریقے ۲۷۵ ارکان پر مشتمل قومی اسمبلی تشکیل ہو جائے گی جسے صدر‘ وزیراعظم کے تقرر کا اور آئین سازی کا اختیار حاصل ہو گا۔ اگرچہ یہ ایک صحیح قدم ہے لیکن جس سیاق و سباق میں یہ عمل انجام پارہا ہے وہ ایک خطرناک معاملہ ہے۔ مسلح جنگجوئوں کے ذریعہ دہشت گردی کی کارروائیاں ووٹرز کی حوصلہ شکنی کا موجب ہو گی جو ممکنہ ایک کروڑ چالیس لاکھ ووٹروں کی شمولیت کو کم کر سکتی ہیں۔ امن وا مان کی صورتحال بہتر نہیں ہو پارہی ہے۔ ملک سے باہر رہنے والے عراقیوں کا رجسٹریشن توقع سے کہیں کم ہے۔ متوقع دس لاکھ کے مقابلے میں صرف ۲ لاکھ ۳۷ ہزار سات سو چار ناموں کے رجسٹریشن ہوئے ہیں۔ عراقی سیاست کے خانوں میں فرقہ واریت پر مبنی گروہ بندی کا سلسلہ جاری ہے۔ سنی قیادت انتخاب کے بائیکاٹ کی دھمکی دے رہی ہے۔ اس صورت میں انتخاب عوامی شمولیت کے اعتبار سے بہت اہمیت کا حامل نہیں ہو گا۔ غاضب فوج کا تیار کردہ اور نافذ کردہ انتخاب کوئی لرزہ خیز نتائج پیدا نہیں کرے گا اور نہ منتخب افراد کو کسی فوری نیک نامی سے نوازے گا نیز اس کی سندِ حاکمیت بھی ہمیشہ مشکوک رہے گی۔ مسلح مزاحمت کے نتیجے میں عراقیوں کے بھاری جانی نقصان نیز امن و سلامتی اور ترقی کے فقدان کے پیشِ نظر امریکا کے زیرِ انتظام انتخابی عمل میں بھی عراقیوں کی شمولیت اس مقصد سے کہ اپنے ملک پر ان کا اپنا کنٹرول حاصل کرنے کا عمل شروع ہو جائے‘ ایک قدرے دانشمندانہ حکمتِ عملی قرار پائے گی۔ غاصب اور محکوم کے مابین طاقت کے توان اور عراق کے بیشتر حصوں میں جاری سنگین نوعیت کے قتلِ عام کو دیکھتے ہوئے سیاسی عمل میں شامل ہونے سے انکار کی صورت میں تباہی اور خونریزی غاصبوں کے حصہ میں کم اور عراقیوں کے حصے میں زیادہ آئے گی۔ عراقیوں کی مسلح مزاحمت نے سیاسی طور پر غاصب قوت کو نقصان پہنچایا اور ان کو عراق پر مکمل گرفت میں کامیاب نہیں ہونے دیا۔ اس نے غاصب کی قوت کی حدود متعین کر دی نیز اس نے غاصبوں کو قبضے کے مقصد سے کسی حقیقی اتحاد کے قیام سے باز رکھا۔ اس نے عراقی جارحیت اور قبضے کو قانونی جواز بھی فراہم نہیں ہونے دیا اور اس کے بعد بش انتظامیہ کو عراق پالیسی پر نظرثانی کرنے پر بھی مجبور کر دیا۔ اپنی اعلانیہ تنقید کے باوجود عراقی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ انتخاب انہیں ایوانِ اقتدار میں داخل ہونے کی راہ فراہم کرے گا۔ امریکا کے انتظام کردہ انتخاب سے دوری کا مطلب اقتدار کا دروازہ خود اپنے آپ پر کچھ عرصے کے لیے بند کر لینا ہے۔ دریں اثنا عراق کی سیاست اور دہشت گردانہ کارروائیوں کی مہم کے خدوخال روز بروز نمایاں ہوتے جارہے ہیں۔ خودکش حملوں کے ذریعہ ہونے والی دہشت گردی جو ایک فرقے سے مخصوص ہیں‘ شیعی قیادت پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ غاصبوں اور عراق کے دشمنوں کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ جبکہ یہ گروہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کی توجہ اپنی طرف مبذول کر رہے ہیں‘ اس طرح سے کہ کچھ عوامی ہمدردیاں بھی ان کے ساتھ ہیں اور عوام ان سے خوف زدہ بھی ہیں۔ یہ کہ وہ اعداد و شمار کے کھیل میں سیاسی رہنمائوں سے بازی نہیں لے جاسکتے اور جیسا کہ عراقی انتخابات سے ملک میں طاقت کے توازن کے درست ہونے کی توقع ہے‘ جس پر ایک عرصے سے سنی اقلیت حاوی رہی ہے‘ شیعہ اس انتخاب کے حوالے سے کچھ زیادہ پُرجوش معلوم ہوتے ہیں۔ انتخاب کے ممکنہ کھلاڑیوں میں سب سے بڑا سیاسی گروہ یونائیٹڈ عراقی الائنس (UIA) ہے۔ اس اتحاد کو شیعوں کے عظیم مرجع آیت اﷲ علی حسینی سیستانی کی حمایت حاصل ہے۔ عراق کی سب سے مضبوط شیعہ جماعت سپریم کونسل برائے انقلابِ اسلامی عراق (SCIRI) بھی میدان میں ہے۔ شدت پسند شیعہ رہنما مقتدیٰ صدر کے آدمی جو گذشتہ سال امریکی افواج کے ساتھ شدید جنگ میں مصروف تھے اور پینٹاگون کے سابق منظورِ نظر احمد چلبی بھی میدان میں ہیں۔ سپریم کونسل برائے انقلابِ اسلامی عراق کی قیادت عبدالعزیز حکیم کر رہے ہیں۔ حکیم SCIRI کے سب سے پہلے رہنما آیت اﷲ سید باقر الحکیم کے چھوٹے بھائی ہیں‘ جنہیں اگست ۲۰۰۳ء میں نجف میں ایک خود کش بم دھماکے کے ذریعہ شہید کر دیا گیا تھا۔ عبدالعزیز الحکیم جو آیت اﷲ نہیں ہیں مگر اس وقت شیعہ سنی اتحاد کے پیغام کو عام کر رہے ہیں۔ عراق قوت کے ڈھانچے میں عبدالعزیز الحکیم کا ایرانی رابطہ اب ایسا کوئی مسئلہ نہیں رہا جسے امریکا اصل مسئلے سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے استعمال کر سکے۔ عبدالعزیز امریکا کی قائم کردہ عراقی گورننگ کونسل میں بھی شامل ہیں اور ان کے نائبین موجودہ عبوری حکومت میں بھی اہم عہدوں پر فائز ہیں۔ حکیم سنیوں کی شمولیت سے عراق میں ایک جمہوری حکومت کے خواہاں ہیں۔ وہ سنیوں کو نشستوں کی پیش کش کریں گے اگر وہ انتخابات کا بائیکاٹ بھی کر دیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ عراق میں ایسے قوانین نافذ نہیں ہوں گے جو اسلام سے میل نہ کھاتے ہوں۔ انہوں نے اسلامی تشخص کا احترام کیے جانے کی تاکید کی ہے۔ حکیم کے زیرِ قیادت قدرے مذہبی اتحاد کے مقابلے میں عبوری وزیراعظم ایاد علاوی ہیں۔ ان کا تعلق شیعہ مسلک سے ہے لیکن یہ روایتی غیرمذہبی (سیکولر) سیاست کے ترجمان ہیں۔ علاوی کا کہنا ہے کہ امریکی اور دیگر غیرملکی افواج کی واپسی کے لیے وقت کے تعین کا مطالبہ کرنا اس وقت بے کار ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ واپسی اسی وقت ہونی چاہیے جب عراق کی قومی فوج تشکیل پا جائے۔ ایسے قرائن سامنے آرہے ہیں کہ سنی اتحاد کا انتخاب سے بائیکاٹ کے باوجود سنی سیاسی رہنما نئے حکومتی ڈھانچے میں اپنی شمولیت چاہیں گے۔ سنی قیادت منتخب اسمبلی میں اور آئین سازی میں بھی اپنی دلچسپی کا اظہار کر رہے ہیں۔ سنیوں کے انتخاب سے بائیکاٹ کی دھمکی کے پیشِ نظر یہ بہت ہی خوش آئند علامات ہیں۔ انتخاب کے بعد کا عراق عراقی سیاست کے ارتقا کے لیے مواقع پیدا کرے گا۔ انتخاب کے بعد کے سیاسی انتظام میں حقیقی کثیرالجماعتی نمائندگی اور امریکا کی یہ کوشش کہ عراق پر عراقیوں کا مکمل سیاسی کنٹرول نہ ہونے پائے‘ یہ دونوں چیزیں مل کر اس امر کو یقینی بنائیں گی کہ وہاں حکومت کسی ایک پارٹی کی اجارہ داری نہ ہو۔ اتحاد سازی اور بقائے باہمی ایک ناگزیر ضرورت ہو گی۔ یہ سیاسی روش بشرطیکہ کوئی بڑا سانحہ نہ پیش آئے‘ جنگجویانہ روش کو کمزور کرنا شروع کر دے گی۔ غاصب اور محکوم کے مابین غیرمساوی فوجی مقابلے کی شدت بتدریج کمزور پڑنے لگے گی‘ اگرچہ ختم نہیں ہو گی۔ کیونکہ یہ جنگ اس کے بعد سیاسی محاذ پر منتقل ہو جائے گی۔ غاصبوں کو بڑی حد تک سیاسی مقام اور گرفت عراقیوں کے لیے چھوڑنا پڑے گی اور پھر بجا طور سے غم و غصے سے بھرے اور جنگ پر آمادہ عراقی ایک ایسی سطح کی جانب پیش رفت کریں گے جہاں وہ نسبتاً زیادہ فائدہ مند اور کم تباہ کن طریقے سے غاصبوں کے ساتھ برسرِ پیکار ہوں گے۔ تشدد اور مزاحمت کا سلسلہ جو امریکی جارحیت اور تسلط کے ساتھ شروع ہوا تھا‘ اس کے خاتمے کے لیے ایک پائیدار اور صاف ستھرے سیاسی عمل کی ضرورت ہو گی۔ انتخاب سے سیاسی طور پر بااثر اُن عراقیوں کے لیے بھی راہیں نکل آئیں گی جو عسکری ردِعمل کے بعد کے عراق میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ امریکی جارحیت اور قبضے کے فوراً بعد عراقیوں کا ناگزیر ردِعمل سوائے قبضے کی مزاحمت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ لیکن اب عراق اور عراقیوں کے مفادات کا تقاصا یہ ہے کہ عراقی قیادت ردِعمل کے بعد کی روش اپنائے۔ عراقیوں کو اس طرح ان راہوں سے فائدہ اٹھانے کے مواقع ملیں گے جو انتخاب کے ذریعہ کشادہ ہوں گی اور اس طرح عراق کی ارتقا پذیر سیاسی و حکومتی ڈھانچے میں ان کے لیے بتدریج مزید گنجائش نکلتی چلی جائے گی۔ دہشت گردوں کی خطرناک دھمکیوں کی صورت میں انتخابی عمل خود ایک انتہائی خطرناک عمل ہے اگرچہ یہ ایک ناگزیر عمل ہے۔ انتخاب کے بعد کے عراق کو جن مسائل کا فوری سامنا ہو گا‘ وہ قومی اتحاد‘ حکومتی اختیار‘ امریکا و ایران کے ساتھ تعلقات جیسے مسائل سے ہو گا۔ انتخابی نتائج کسی کی واضح برتری کے بغیر منقسم ہوں گے‘ جس سے اتحاد و مفاہمت کی سیاست کی حوصلہ افزائی ہو گی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اس تقسیم سے خطرہ یہ ہے کہ کہیں یہ سیاسی عمل کو مفلوج نہ کر دے۔ دریں اثنا امریکا کو چاہیے کہ عراقی مفاد پرستوں کا وہ پھندا اپنی گردن سے اتار پھینکے جو اس نے خود پہن رکھا ہے۔ واشنگٹن کو نئے سیاسی حقائق سے واقعتا سمجھوتہ کرنا ہو گا‘ خواہ انتخاب میں کسی کی بھی جیت ہو۔
مصنفہ اسلام آباد میں مقیم سکیورٹی امور کی تجزیہ نگار ہیں اور ہارورڈ یونیورسٹی ایشیا سینٹر کی فیلو ہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’دی نیوز‘‘۔ ۲۷ جنوری ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply