دینِ اسلام کی سیاسی تفہیم‘‘کے باب میں کارِ مسلمانی کیا ہے، بانیٔ جماعت مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی تحریریں اس امر کی وضاحت سے بھری ہیں۔ ایک مردِ مومن کی زندگی کا اہم وظیفہ فریضۂ اقامتِ دین ہے۔ قرآن مجید کی آیات اور احادیث نبویؐ اس کی تائید کرتی ہیںاور خود حضرت محمدﷺ کی ۲۳سالہ جدوجہد اس کی گواہی دیتی ہے۔ خلافتِ الٰہیہ کا قیام، اسلامی حکومت کا نفاذ، صالح معاشرے کا قیام، شریعتِ محمدیؐ کا نفاذ، آپ کوئی بھی نام دے لیں، بندۂ مومن کی زندگی کے شب و روز اس عظیم جدوجہد سے عبارت ہوں گے۔ یہ وہ نظریہ ہے جس نے عالمِ اسلام میں بالعموم اور برصغیر میں بالخصوص، ڈیڑھ سو سالہ فکری جمود کو توڑا اور شاعرِ مشرق ڈاکٹر محمد اقبال کے کلام نے جس فکر کی آبیاری کی۔
اقامتِ دین کی جدوجہد میں آج ایک فکری مغالطہ ہمیں درپیش ہے، اور وہ یہ کہ آیا فریضۂ اقامتِ دین کی ادائیگی کے لیے ہم مسئول ہیں یا اس نظام کو برپا کرنے کے ہم مکلف ہیں؟ اگر یہ فکری نہیں تو عملی مغالطہ ضرور ہے۔ ہم خوب سمجھتے ہیں کہ اقامتِ دین کی جدوجہد کو زندگی کا نصب العین بنانا اور اس فریضے کے لیے تن من دھن لگا دینا ہی مقصدِ حیات ہے۔ بانیٔ جماعت نے اپنے لٹریچر میں اس کو مترشح کر دیا ہے۔ انبیا علیہم السلام نے اپنی پوری زندگی اسی جدوجہد میں گزاری۔ رسولوں کو بھیجنے کا مقصد لیظہرہ علی الدین کلہ قرآن میں بتا دیا گیا ہے۔ بات اتنی آسان اور سادہ سی ہے۔ مگر یہ اُس وقت پیچیدہ صورت اختیار کرتی ہے جب جماعت اسلامی کی قیادت اپنی ٹیم کو اسلامی انقلاب کے برپا کرنے کا ’’پابند‘‘ بنا دیتی ہے۔ ’’ہمیں یہ انقلاب لا کر ہی رہنا ہے اور اپنی زندگی ہی میں لانا ہے، بلکہ ممکن ہو تو کل صبح کا سورج جب طلوع ہو تو اسلامی انقلاب آچکا ہو‘‘۔ یہ وہ تصورات ہیں جو کارکنان کے ذہن کے نہاں خانوں میں پختگی کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں۔ جماعت کی پالیسیاں اور فیصلے خارجی طور پر، اور اپنے آپ کو اسلامی انقلاب کے برپا کرنے کا مکلف سمجھنا، داخلی طور پر یہ دونوں مل کر وہ کیفیت پیدا کر رہے ہیں جو بالآخر مایوسی پر منتج ہوتی ہے۔
اگر اللہ کے بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر، اللہ کی غلامی میں دینا ہمارا نصب العین ہے۔ اگر دعوت الی اللہ ہمارا مقصود ہے، اگر بندگانِ خدا کو اُس کی وسیع مغفرت اور جنت کی جانب متوجہ کرنا ہدفِ اول ہے، اگر اللہ کی مخلوق کو اللہ سے جوڑتے ہوئے صالح معاشرے کے قیام کی جدوجہد کرنا ہمارا عزم ہے، تو عرض ہے کہ قرآن کے صفحات، انبیائؑ کی دعوت کے اس اسلوب کو واضح بیان کرتے ہیں اور احادیث اس کی تشریح کرتی ہیں۔ جبکہ مولانا مودودیؒ کا لٹریچر اس کی گواہی دیتا ہے کہ ہمارا کام کیا ہے، کتنا ہے، اور کس حد تک ہے۔ اقامتِ دین کی ’’جدوجہد‘‘ ہی کے ہم مکلف ہیں اور اسی کے لیے مسئول۔ آخرت میں ہم سے یہ سوال نہیں پوچھا جائے گا کہ شریعت کا نظام کیوں قائم نہیں ہو سکا،بلکہ سعی و جہد اور حکمتِ عملی کے تعین کا سوال ضرور درپیش ہوگا۔
یہاں ایک اور مغالطے کا تذکرہ بھی اہم ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن کا معرکہ، معرکۂ بدر جیسا ہے؟ کیا یہ حق و باطل کی جنگ ہے؟ کیا ۱۱مئی ۲۰۱۳ء کو یومِ فرقان کی طرح سمجھا جائے گا؟ ہمارا مجموعی رویہ بہرحال اس کا جواب اثبات میں دیتا ہے۔ چونکہ اس معرکے کو ہم کفر و اسلام کی جنگ سمجھتے ہیں، لہٰذا قیادت کی جانب سے پالیسیاں، فیصلے اور مجموعی انتخابی لب و لہجہ، جو نیچے کارکنان کی جانب منتقل ہوتا ہے، وہ انتہائی جارحانہ ہوتا ہے۔ باطل قوتوں کا قلع قمع کر دینے کا عزم لیے ہوئے اور شر کی طاقتوں کو ملیامیٹ کر دینے کے ارادوں سے لبریز۔ اس انتخابی ’’جنگ برائے خیر و شر‘‘ میں اعلیٰ قیادت کی تقاریر کے نتیجے میں کارکنان کا جو مزاج بنتا ہے اور ان میں جس طرح کی صفات پیدا ہوتی ہیں، وہ ایک داعی الی اللہ کی صفات سے کم ہی میل کھاتی ہیں۔ انتخابات کے معرکۂ بدر و احد کے بعد جب ’’باطل‘‘ جیت جاتا ہے اور ’’حق‘‘ ہار جاتا ہے تو کارکنان دیکھتے ہیں کہ اہلِ حق، باطل پرستوں کے ساتھ حکومت بنا رہے ہیں اور کہیں اہلِ جنوں، ظالم قوتوں کے ساتھ مصالحت کر رہے ہیں۔ کارکنان کو مایوسی ہوتی ہے۔ وہ ذہنی انتشار کا شکار ہوتے ہیں۔ حق و باطل گڈ مڈ ہو جاتا ہے اور منزل اور نشاناتِ منزل ایک بار پھر کہیں کھو جاتے ہیں۔
ہم اپنی پچھلے گفتگو کو جوڑ تے ہوئے اس کی تشریح یوں کرنا چاہیں گے، اگر ہم نے انتخابی مہم کے دوران ملک کے طول و عرض میں اللہ اور اس کے رسولؐ کا پیغام پہنچایا ہے، شہادتِ حق کا فریضہ انجام دیا ہے، اسلامی نظام کی برکتوں سے عوام الناس کو آگاہ کیا ہے، اور اگر ان تمام تر کوششوں کے باوجود ملک کے عوام جماعتِ اسلامی کے نمائندوں کو مسترد کر دیتے ہیں اور جماعت کے پروگرام و منشور کو ٹھکرا دیتے ہیں تو کیا ہوا؟ حضرت نوحؑ کی جدوجہد اور نتائج کے نصیحت آموز واقعات کو ہم کہاں چسپاں کریں گے؟ کوششوں کا لازمی نتیجہ ہماری مطلوبہ کامیابی کی صورت میں نکلے، یہ سوچ کیوں ہے؟ اس تناظر میں فتح و شکست کو قبول کرتے ہوئے کارکنانِ تحریکِ اسلامی کو اس نقطۂ نظر پر غور کرنا چاہیے کہ انتخابات میں ناکامی کا مطلب کیا ہے؟ کیا یہ دعوتِ اسلامی کا رد ہے؟ یا جماعت اسلامی کا بحیثیت پارٹی مسترد ہونا ہے؟ یا کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار ہے؟ جماعت اسلامی کی انٹیلی جنشیا کو اس کا جائزہ لینا چاہیے۔
گفتگو کا اہم زاویہ یہ بھی ہے کہ ہم الیکشن کو ’’غلبۂ اسلام‘‘ کے مساوی سمجھنے لگے ہیں۔ جماعت اسلامی کراچی کے جاری کردہ سرکلر میں غلبۂ اسلام کے الفاظ کے ساتھ قوسین میں الیکشن کے لفظ کو تحریر کرنا، کیا معنی رکھتا ہے؟ کیا الیکشن ہی غلبۂ اسلام کا نام ہے یا الیکشن کا محاذ بھی غلبۂ اسلام کا ایک حصہ ہے؟ اگر انتخابات، غلبۂ اسلام کا محض ایک حصہ ہیں تو دیگر حصے کیا ہیں؟ اور ان کے حصول کے لیے ہماری حکمت عملی کیا ہے؟
مملکتِ خداداد پاکستان میں شریعتِ اسلامی کے نفاذ کے لیے مختلف چھوٹی بڑی جماعتیں، تنظیمیں اور تحریکیں، اپنے اپنے انداز میں اپنی سوچ اور فہم کے مطابق سعی و جہد کر رہی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک تبدیلی کے لیے ایک مخصوص پروگرام اور طریقۂ کار رکھتی ہے اور اس کے لیے عملاً کوشاں ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان نے اپنے لیے ملکی آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے انتخابی سیاست کا راستہ اختیار کیا ہے۔ رائے عامہ کی تبدیلی کے ذریعے اور انتخابی عمل میں حصہ لیتے ہوئے قومی و صوبائی سطح پر اپنے بہترین افراد کو قوم کے سامنے پیش کرنا اور عوامی رائے دہی کے ذریعے اس تبدیلی کو رُو بہ عمل لانا ہی جماعت اسلامی کی جدوجہد کا منہج ہے۔
اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ آپ اپنا منشور اور پروگرام عوام کے سامنے رکھ دیں، بہترین افراد چنائو کے لیے میدان میں اتار دیں۔ مؤثر ترین حکمتِ عملی اور حکمت کاری بروئے کار لائیں۔۔۔ اور اس کے بعد فتح و شکست کو رائے عامہ کا فیصلہ سمجھ کر قبول کر لیں اور آئندہ کے لیے بہتر منصوبہ بندی، بہتر حکمت کاری اور زیادہ تیاری پر اپنی توجہ مرکوز کر دیں۔ یہ انتخابی معرکہ کفر اور اسلام کی جنگ ہرگز نہیں۔ راقم کی رائے میں جماعت کے تحت ہونے والے جلسہ ہائے اسلامی انقلاب میں بھی یہ نقطۂ نظر (Perception) نمایاں رہا۔ ہم ہر جلسے، ریلی اور دھرنے کو اسلامی انقلاب کا پیش خیمہ اور سنگِ میل قرار دے دیتے ہیں، اس سے اسلامی انقلاب کی شکل مترشح ہونے کے بجائے مزید گنجلک ہو جاتی ہے۔ ’’عرب بہار‘‘ کے بعد ہم ہر چوک اور چوراہے پر ’’تحریر اسکوائر‘‘ برپا کرنے کی نوید سناتے ہیں۔ سماجی ڈھانچے کو جانے اور سماجی شعور کو جانچے بغیر، اس طرح کے جذباتی لب و لہجے کو اختیار کرنا تطہیرِ افکار کے مجموعی اسلوب سے مطابقت نہیں رکھتا۔ گزارش ہے کہ معروضی حقائق کی روشنی میں ہی اصطلاحات اور الفاظ کا استعمال کرنا چاہیے۔
جماعت اسلامی نے تبدیلیٔ نظام کے لیے جو راستہ منتخب کیا ہے، اس کی روشنی میں جماعت کی موجودہ پالیسی ثمر آور نہیں ہو رہی ہے اور شاید آئندہ بھی نہ ہو سکے۔ نفاذِ شریعت کی شاہراہ پر جماعت کس مقام پر موجود ہے؟ اعلیٰ قیادت کو اس کا تعین کرنا چاہیے اور اس سفر میں آگے بڑھنے کے لیے جس طرح ممکن ہو، سیاسی مذہبی جماعتوں اور حکومتوں کے تعاون سے منزل کی جانب گامزن رہنا چاہیے۔ جماعت اسلامی کے پاس پورا اقتدار کبھی نہیں رہا۔ وہ ملکی افق پر حزبِ اختلاف کا طویل اور مؤثر کردار ادا کرتی رہی ہے، تند و تیز اور جارحانہ مہماتی سیاست میں مَشّاق ہے۔ نتیجتاً گزشتہ ۵۰ برسوں میں اس کے کارکنوں کا مزاج اور لب و لہجہ ایک خاص انداز میں ڈھل گیا ہے اور یہ اختلافی اور احتجاجی مزاج ہے۔ اس رویے کی کئی مثالیں موجود ہیں۔
حالیہ انتخابات میں اس کی مثال کراچی جماعت کی جانب سے چلائی جانے والی منظم مہم کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ سردست ہم متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے کی جانے والی دھاندلی کی بات نہیں کر رہے ہیں۔ جماعت نے اس مہم میں اپنے منشور اور پروگرام، اپنے نقطۂ نظر اور مؤقف پر اصرار کے بجائے مخالف کے رد پر زور دیا۔ جماعت اسلامی کراچی کے پاس انتخابی مہم میں عوام کو بتانے کے لیے بے شمار مثبت کارہائے نمایاں تھے۔ لیکن جماعت نے ان مثبت پہلوئوں کو اجاگر کرنے کے بجائے مخالف کے منفی تشخص کو نمایاں کرنے میں اپنی پوری قوت صرف کر دی۔ جماعت کے پاس بلدیاتی سطح پر الخدمت کی شاندار کارکردگی کا ریکارڈ تھا۔ گزشتہ ۶۵برسوں میں کی جانے والی آئینی جدوجہد کا تذکرہ بھی اہم ہو سکتا تھا۔ جماعت کے تحت قائم شدہ ہزاروں تعلیمی اداروں کا مضبوط نیٹ ورک اور شعبہ صحت کے بے شمار مراکز کی کارکردگی کو پیش کیا جاسکتا تھا۔ جماعت نے ملکی سطح پر ہر شعبے میں بہترین رجالِ کار فراہم کیے۔ پاکستانی سیاست میں سید منور حسن جیسی باکردار، دنیا سے بے نیاز اور درویش صفت قیادت بھلا کس کے پاس ہے۔ اپنے اور مخالف سبھی معترف ہیں۔ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے بیچ ایک اجلا سیاست دان۔ کیوں نہیں ہم اس بات کو اصرار و یقین کے ساتھ دنیا کو بتاتے کہ آئو دیکھو ہم کون ہیں۔ سراج الحق اور نعمت اللہ خان کے پاس اختیارات، وسائل اور خزانے، سبھی کچھ تھا۔ کیا کرپشن کا کوئی دھبّہ ہے اُن پر؟ بخدا اِن افراد کے بارے میں اس بات کو لکھتے ہوئے بھی قلم رک جاتا ہے کہ کرپشن زدہ ماحول میں ان لوگوں نے کرپشن نہیں کی۔ جماعت اسلامی کے سینیٹرز کی شاندار کارکردگی بھی قابلِ ذکر ہو سکتی تھی۔
تعجب کی بات ہے کہ ان تمام اہم مثبت امور کے بجائے جماعت نے مخالف پارٹی کی بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کو موضوعِ بحث بنایا۔ عوامی نبض پر ہاتھ رکھنے والوں کو اندازہ تھا کہ یہ غلط حکمت عملی ہے۔ عوام الناس کی ذہنی و قلبی کیفیت ابھی اس سطح پر نہیں پہنچی کہ وہ اس مہم سے متاثر ہو سکیں، بلکہ گمان یہ تھا کہ اس کا الٹا اثر ہوگا۔ کراچی کے عوام کو اس بات کی آگاہی دینے کی کوئی ضرورت نہیں تھی کہ دہشت گرد کون ہیں یا بھتہ مافیا سے کون مراد ہے۔ کراچی کے عوام نہ صر ف ان سے آگاہ ہیں، بلکہ ربع صدی سے انہیں بھگت رہے ہیں۔ اس غیر حکیمانہ طرزِ عمل کا نتیجہ یہ رہا کہ ہمارے قائدین کی دھواں دھار تقاریر نے معلوم نہیں ہمارے کارکنان کے دلوں کو کتنا گرمایا، البتہ مخالفین کے خون کو ضرور کھولا دیا اور ان کی مہم میں جان ڈال دی۔ بستر مرگ پر پڑے ہوئے مریض کو اس منفی مہم نے گویا انرجی ڈرنک فراہم کر دیا اور انہیں پھر سے زندہ کر دیا۔ یہ بات تو انتخابی مہم کی تھی۔ متحدہ کو زندہ و تابندہ رکھنے میں روزنامہ ’’جسارت‘‘ کے کردار پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے، ہمارے قائدین کرام کے تواتر سے جاری جارحانہ بیانات نے بھی فضا کو مکدر بنائے رکھا۔ اس جذباتی عدم توازن (Emotional Imbalance) کو ختم کیے بغیر تعمیری اور مثبت سوچ کارکنان تک منتقل کرنا امر محال ہے۔
جماعت اسلامی کے علاوہ دیگر جماعتوں نے جب اس منفی لب و لہجے کو استعمال کیا تو کیا ہوا؟ مخالفین کے لیے پوری انتخابی مہم کو منفی رنگ دینے کے نتائج کیا نکلے ہیں، تجزیہ کرنا چاہیے۔ پیپلز پارٹی نے حالیہ الیکشن میں زبردست اشتہاری مہم چلائی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں نواز لیگ کو ہدف تنقید بنایا۔ پیپلز پارٹی کے میڈیا سیل نے اس ضمن میں خاصی محنت کی اور جارحانہ انداز میں ن لیگ کو بے دست و پا کردیا۔ اس منفی مہم کا نتیجہ کیا نکلا؟ قومی اسمبلی کی نشستوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں پیپلز پارٹی کا صفایا ہوگیا۔ صرف صوبہ سندھ کے انتخابی نتائج نے پارٹی کی لاج رکھ لی۔ دوسری جانب یہ بھی دیکھیے کہ ن لیگ نے عمران خان کے خلاف زبردست پروپیگنڈا کیا اور ہر جلسے میں میاں صاحبان نے اپنی تقاریر میں عمران خان کو ہدف تنقید بنایا۔ اناڑی، کھلاڑی، ناتجربے کاری کے عنوانات دیے لیکن حیران کن امر ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے پنجاب میں ن لیگ کو ایک مشکل وقت دیا اور ملک بھر سے ۷۶ لاکھ ووٹ لے کر پاکستان میں دوسرے نمبر کی پارٹی بن گئی۔ صرف لاہور شہر میں پاکستان تحریک انصاف نے ۸ لاکھ ووٹ حاصل کیے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ انتخابی معرکوں میں شکست و فتح کی اپنی سائنس ہے اور ان کا ادراک ضروری ہے۔ اس طرح کی منفی مہم، مخاصمانہ رویہ اور جارحانہ انداز کی معاشرے میں کتنی پذیرائی ہے اور ووٹروں پر اس طرح کے بیانات و تقاریر کتنے اثرانداز ہوتے ہیں، جائزہ لینا چاہیے۔
جماعت اسلامی کراچی کے رہنمائوں نے بلاشبہ جرات مندی سے انتخابی مہم کی قیادت کی۔ گزشتہ ۲۷سالوں میں جماعت اسلامی کراچی کی قیادت اور کارکنان نے جس مستقل مزاجی اور استقامت کا مظاہرہ کیا ہے، اس کا ادراک ملک کے دیگر حصوں میں بسنے والے جماعت اسلامی سے وابستہ افراد بھی نہیں کر سکتے۔ سید منور حسن صاحب کی مرکز منتقلی کے بعد کراچی جماعت نے نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ، ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی اور محمد حسین محنتی جیسی مضبوط اور پُرعزم قیادت فراہم کی اور قیادت کا خلا (Leadership Vacuum) پیدا نہیں ہونے دیا۔ لیکن سوچنے کا ایک زاویہ اور بھی ہے اور وہ یہ کہ اس تمام عرصے میں فکر و عمل کا بنیادی دائرہ ایک ہی رہا اور شاید سماجی شعور کا درست ادراک نہیں کیا جاسکا۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ ایک کے بعد دوسرے آنے والے فرد نے پالیسی میں کوئی جوہری تبدیلی نہ کی اور اسی سیاسی حکمت عملی کو اپنائے رکھا جو پیش رو نے چھوڑی تھی۔ درست زاویۂ فکر اور اس کے مطابق عمل پیہم مطلوب ہے۔ جبکہ درست انداز فکر کے لیے ضروری ہے کہ جس ذہنی سانچے میں اس وقت ہم بستے ہیں، اس سے باہر آئیں اور ایک دوسرے سانچے میں غور و فکر کریں۔ اس ’’آئوٹ آف باکس تھنکنک‘‘ کے ذریعے ہم حالات کا درست تجزیہ کر سکیں گے۔
سیاسی محاذ پر جدوجہد میں تعاونوا علی البر والتقویٰ کے اصول کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے۔ نیکی اور بھلائی، تقویٰ اور پاکیزگی کے کاموں میں تعاون کرنا عین تقاضائے دین ہے، حکمِ قرآنی ہے، حکمت کا تقاضا ہے۔ چنانچہ اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے کچھ عملی پیش رفت حکومت وقت کے تعاون سے بھی ہو سکتی ہو، تو ضرور کرنا چاہیے۔ اس میں کچھ مضائقہ اور حرج نہیں ہے۔ اگر ہماری قیادت دعوت دین کی خاطر، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کی ادائیگی کے لیے، استحکامِ پاکستان کے لیے، تعلیم و تبلیغ کے لیے، اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ رابطہ کرتی ہے تو کارکنوں کے اندر اتنی قلبی وسعت اور دینی فہم ہونا چاہیے کہ وہ معترض نہ ہوں، بلکہ اپنی قیادت کے اس طرزِ عمل پر خوش ہوں۔ لیکن بدقسمتی سے کارکنان کی جانب سے ان معاملات میں مثبت رد عمل سامنے نہیں آتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خود قیادت اپنے بیانات و تقاریر کے ذریعے اپنے مخالفین کو اس مقام پر پہنچا دیتی ہے کہ وہ ہمارے کارکنان کے لیے نامطلوب اور مغضوب ہو جاتے ہیں اور وہ اتنا تحمل نہیں رکھتے کہ ان کی قیادت انہی لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر چائے کی پیالی بھی پی سکے۔
حالیہ دنوں میں عمران خان کی جانب سے پاکستان مسلم لیگ ن کی فتح کے بعد خیرخواہی کے جذبات پر مبنی محض ایک بیان پر پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں نے سخت احتجاج کیا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خود چیئرمین عمران خان نے اپنے جارحانہ اندازِ بیان اور تند و تیز گفتگو کے ذریعے اپنے کارکنوں کی سوچ کو ایک خاص سانچے میں ڈھالا تھا۔ اب عمران خان کو ان کارکنان کے مزاج میں تحمل اور رواداری پیدا کرنے کے لیے بہت محنت کرنا ہوگی۔ اسلامی تحریک کی قیادت کو تو دعوتی پیرائے میں مخالفین کو مخاطب کرنا چاہیے۔ ہوتا یہ ہے کہ کارکنان اپنے ذہنوں میں ’’یکفر بالطاغوت‘‘ کا ایک خانہ بنا لیتے ہیں اور قائدین کرام کی تقاریر و بیانات کی روشنی میں وہ اپنے ہر مخالف کو طاغوت کے خانے میں فٹ کر دیتے ہیں۔ بعد میں اسی ’’طاغوت‘‘ سے عملی اشتراک بڑا مشکل ہو جاتا ہے جن کو ذہنی طور پر وہ رد کر چکے ہوتے ہیں۔ مؤدبانہ عرض ہے کہ سیاسی اور تحریکی قیادت کارکنوں کی تربیت اس نہج پر کرے کہ وہ حکمت انقلاب اور اس کے مراحل و مدارج کا درست ادراک کر سکیں۔
تعلیم کے میدان میں خواتین یونیورسٹیوں کا قیام، نصاب میں قرآنی تعلیم، معیشت کے باب میں سود کے خاتمے کے لیے عملی پیش رفت، بلاسودی قرضوں کے لیے مائیکرو کریڈٹ / فنانس بینک کا قیام اور معاشرتی سطح پر میڈیا سے عریانی اور فحاشی کے خاتمے کے لیے حکومت وقت کے ساتھ مل کر دامے درمے قدمے سخنے جدوجہد کرنا سیاسی عمل کی پختگی سمجھی جائے گی۔ الیکشن میں جماعت اسلامی کو دو تہائی اکثریت بھی مل جائے تو اس کا مطلب اسلامی انقلاب نہیں ہو گا۔ انتخابات میں کامیابی کو اسلامی انقلاب کے برپا ہونے کے مماثل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پاکستان کے موجودہ مخصوص تناظر میں انتخابات میں کامیابی میں کئی عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں متحدہ مجلس عمل نے تاریخ ساز کامیابی حاصل کی۔ ایم ایم اے کا وزیر اعلیٰ، سینئر وزیر اور پوری کابینہ میں ایم ایم اے کے جید علما، فضلا اور دین دار افراد حکومتی عہدیداران تھے۔ پھر اگلے انتخابات میں اے این پی کی حکومت آگئی۔ اب وزیر اعلیٰ، سینئر وزیر اور کابینہ اے این پی کی تھی۔ ۲۰۱۳ء میںصوبہ خیبر میں عمران خان کی تحریک انصاف نے انتخابی بازی جیت لی۔ سوال یہ ہے کہ ایم ایم اے کی حکومت کے آنے سے اگر اسلامی انقلاب آگیا تھا تو کیا یہ سمجھا جائے گا کہ اگلی بار سرخ پوشوں نے انقلاب اسلامی کا بوریا بستر سمیٹ دیا؟ اور اب کی بار سرخ آندھی کو سونامی بہا لے گیا؟ مکرر عرض ہے کہ انتخابات میں کامیابی کو ایک دیرپا اور پائیدار انقلاب سمجھنا کم فہمی ہوگی۔
پاکستان میں انتخابات کی اپنی سیاسی حرکیات ہیں، ان کا ادراک بہت ضروری ہے۔ این اے ۴۸ میں جماعت اسلامی کے میاں محمد اسلم کی شکست کو ایک کیس اسٹڈی کے طور پر لیا جائے اور جماعت کے دانشور حضرات اس کا تجزیہ کریں اور یقینا کریں گے، تو کئی پہلو اجاگر ہوں گے۔ میاں محمد اسلم جماعت اسلامی کے تمام تر امیدواروں میں ان چند گنے چنے افراد میں ہوں گے جو انتخابات کے لیے بہترین فرد (Best Electable) تھے۔ گزشتہ دس بارہ برسوں کے دوران فیلڈ میں رہے، خوشی اور غمی کے ساتھی رہے، ذاتی اوصاف میں نمایاں رہے۔ مگر ایک ایسا فرد جس کی مہم ہی نہ چلی ہو، وہ کامیاب ہو گیا اور اربوں روپے کی کرپشن میں ملوث فرد کئی ہزار ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہا۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار انجم عقیل کی کرپشن زبان زد عام تھی۔ ہر ایک نے انجم عقیل کی شخصیت کو نشانہ پر رکھا۔ معروف صحافی اور کالم نگار رئوف کلاسرا نے تو انتخاب کے آخری ایام میں اپنے متواتر کالموں میں انجم عقیل کے کارناموں کو اتنا نمایاں کر دیا تھا کہ اب یقین نہیں آتا کہ انجم عقیل جیسا ’’شریف‘‘ آدمی اسلام آباد کے اس حلقے سے ۵۰ ہزار سے زائد ووٹ حاصل کر لے گا۔ میاں اسلم جیسا ستھرا کردار کہاں گیا؟ جعلی ڈگری میں سزا یافتہ جمشید دستی بھی قومی اسمبلی کے دو حلقوں میں فتحیاب ہوئے۔ یہ ایک الگ اسٹڈی کیس ہے۔ اسی طرح گورنر پنجاب کی آبائی نشست سے ان کے صاحبزادے کی جیت نے نصف صدی کی روایت کو برقرار رکھا۔
قابل غور کئی نکات ہیں جو جماعت اسلامی کے سیاسی دانشوروں کو دعوتِ فکر دیتے ہیں۔ کیا جیت کے لیے گھر گھر رابطے کی مہم موثر ترین طریقہ ہے؟ کیا سوشل میڈیا میں تیز ترین رابطے، زاویے، تبصرے اور مذاکرے فتح کو ممکن بناتے ہیں؟ کیا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر جارحانہ اشتہاری مہم فیصلہ کن ہتھیار ہے؟ کیا برادری ازم کی سیاست اب بھی اہمیت رکھتی ہے؟ کیا شخصیت کا معتبر اور معروف ہونا اتنا اہم نہیں جتنا پارٹی کا منشور اور پروگرام ہے؟ کیا لوگ نشان پر ووٹ ڈالتے ہیں یا امیدوار کو؟ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی انتخابی سیاست ایک پیچیدہ سائنس ہے۔ ان میں سے کوئی ایک بات بھی تنہا فیصلہ کن اور موثر قرار نہیں دی جا سکتی۔ مزید برآں ملک کے چاروں صوبوں کی اپنی اپنی روایات اور انتخابی تاریخ ہے۔ شہری اور دیہی رجحانات کا فرق ہے۔ کہیں قوم پرست ہیں تو کہیں قدامت پرست، سیکولرازم کے علمبردار ہیں تو کہیں گدی نشینوں کی بادشاہت، کہیں روٹی کپڑا مکان کا نعرہ کام کر جاتا ہے تو کہیں لیپ ٹاپ کا جادو کارگر ہو جاتا ہے۔ کہیں شہیدوں کے لہو کے تذکروں سے مظلوم بننے کا رجحان ہے تو کہیں خود ظالم بن کر انتخابی میدان مارنے کی روایت۔ کہیں صوبائیت کو ہوا دے کر معرکے جیتے جاتے ہیں تو کہیں لسانیت کی بنیاد پر انتخاب میں اترا جاتا ہے۔ کچھ تو مکمل مافیا کا روپ دھار چکے ہیں اور بلیک میلنگ کی روایات کو سیاست کا نام دے دیتے ہیں۔
جماعت اسلامی کو انتخابی سیاست کے ان مختلف النوع چیلنجوں کا ادراک کرتے ہوئے سابقہ سیاسی فیصلوں کا سخت محاسبہ اور آئندہ کے لیے سائنٹیفک انداز میں لائحہ عمل مرتب کرنا ہوگا۔ لیاقت بلوچ، ڈاکٹر فرید پراچہ، پروفیسر ابراہیم جیسی معروف و معتبر اور بااعتماد شخصیات شکست سے کیوں دوچار ہوئیں؟ کیا یہ دعوت اسلامی کا رد ہے یا پالیسی پر عدم اعتماد ہے؟ مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست کا وژن رکھنے والی تحریک اسلامی کو غیر حکیمانہ طرزِ سیاست کے نتائج بھگتنا پڑ رہے ہیں؟ یا واقعی عوام الناس کا سماجی شعوراور دینی فہم ابھی اس سطح پر نہیں پہنچا کہ وہ اچھے اور برے کرداروں میں فرق کر سکیں؟ جماعت اسلامی کی اعلیٰ قیادت کو ان نکات پر بھی غور کرنا چاہیے۔
شہر کراچی میں جماعت اسلامی کو درپیش سیاسی چیلنجوں کی نوعیت ملک کے دیگر حصوں سے بہت مختلف ہے۔ ایم کیو ایم جیسی تنظیم کا وجود سندھ کے چند شہروں کے سوا پورے ملک میں کہیں اور نہیں ہے۔ گزشتہ انتخابات میں جماعت اسلامی نے کراچی شہر میں اعلیٰ کردار کے حامل اپنے بہترین افراد عوام کے سامنے پیش کیے۔ پروفیسر عبدالغفور احمد، پروفیسر عثمان رمز، سید منور حسن اور نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ و دیگر، مگر اہل کراچی نے ان اجلے کرداروں کو مسترد کر دیا اور ہما شما کو اس عظیم الشان شہر کی نمائندگی دے دی۔ اس طرح اپنے لیے تاریک مستقبل کی لوح ایام کو اپنا مقدر بنا لیا۔ سوچنے کا ایک زاویہ تو یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے دراصل حجت تمام کی ہے۔ اپنی بہترین باکردار، دیانت دار اور اہل قیادت کو قوم کے سامنے پیش کر دیا۔ اہل کراچی کم از کم یہ شکوہ نہیں کر سکتے کہ جماعت اسلامی میدان عمل میں موجود نہیں تھی اور چنائو کے لیے ایک پارٹی کے علاوہ دوسرا راستہ نہ تھا۔ اپنے بہترین افراد کی شکست کا قلق اپنی جگہ، مگر یہ بات طمانیت کا باعث رہی کہ جماعت نے انتہائی نامساعد حالات میں بھی استقامت کا مظاہرہ کیا اور شہادتِ حق کا فریضہ انجام دیتی رہی۔ دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی نے ایم کیو ایم کے معاملے میں کوئی طویل المیعاد یا قلیل المیعاد لائحہ عمل تیار نہیں کیا۔ بجائے اس کے کہ حالات کو سازگار بنانے کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی کی جاتی، حالات کے رخ پر بہے جانے کی پالیسی اپنائی گئی۔ لہٰذا حالات جماعت کو اپنے رخ پر اِدھر اُدھر کرتے رہے۔ گزارش یہ ہے کہ کراچی کے مخصوص حالات میں جماعت اسلامی کی مقامی و اعلیٰ قیادت کو دانشمندی کے ساتھ ٹھنڈے غور و فکر کے بعد معاملات کو برتنا چاہیے۔
آئیے! جس معاشرے میں ہم بستے ہیں اس کی اخلاقی و سماجی پرتوں کی جانچ کر لیں۔ سوشلزم اور کمیونزم کو جب عروج حاصل ہوا اور سوویت روس عملی تجربات کی شکل میں سامنے آیا تو پوری دنیاکو اس نظریاتی لہر نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ افغانستان پر قابض ہونے کے بعد سرخ آندھی کو روکنا بظاہر ممکن نظر نہ آتا تھا۔ ہمارے ملک میں کچھ ایسے بھی تھے جو انہیں خوش آمدید کہنے کے لیے تیار کھڑے تھے۔ سوشلزم اور کمیونزم بحیثیت ’’دین‘‘ ہمارے سامنے آئے تھے۔ یہ ایک نظریاتی لہر تھی جسے اہل پاکستان نے مجموعی طور پر اپنے دین پر حملہ تصور کیا۔ مملکت خداداد پاکستان کے عوام نے بالعموم اس نظریے کو نہ صرف مسترد، بلکہ دفن کردیا۔ ایک فرد اپنی نجی زندگی میں کتنا ہی بے عمل، بلکہ گناہ گار اور فاسق و فاجر ہی کیوں نہ ہو، اپنے دین پر حملے کو روکنے کے لیے تن من دھن کی بازی لگا دیتا ہے۔ سوشلزم اور کمیونزم کی فکری محاذ پر شکست کا یہی معاملہ رہا۔
دوسری جانب سیکولرازم اور لبرل ازم کا طریقہ واردات بالکل جدا ہے۔ یہ بحیثیت ’’دین‘‘ اور نظریہ حملہ آور نہیں ہوتا، بلکہ آہستہ آہستہ سماج میں نقب لگاتا ہے، خون میں گردش کی مانند مختلف جہات میں نمایاں ہو کر تہذیبی ڈھانچے کو منہدم کرنے کا کام کرتا ہے۔ گزشتہ ۱۵،۱۷ سالوں میں اس ملک میں سیکولرازم اور لبرل ازم نے کامیاب نقب لگائی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ کوئی بھی دینی تحریک، تنظیم یا جماعت اس کے آگے بند نہ باندھ سکی۔ المیہ یہ بھی رہا کہ اس یلغار کو روکنے کے لیے کوئی ٹھوس اسٹراٹیجی بھی نہ بنائی جا سکی۔ سنجیدہ اور نازک سوال یہ ہے کہ سیکولر معاشرے میں انتخابی عمل کے ذریعے ووٹ بینک کسی اسلامی تحریک کے حصے میں کیسے آسکتا ہے؟ یہاں ’’عرب بہار‘‘ کی مثال درست نہیں ہوگی۔
کراچی شہر کے سیاسی و سماجی حقائق ملک کے دیگر حصوں سے بہت مختلف ہیں۔ دو کروڑ سے زائد آبادی والا شہر، جس میں بدانتظامی کے کئی پہلو نمایاں ہیں، زبان، ثقافت، بود و باش، پس منظر، سب کچھ میں الگ ہے، وہ ایک خاص گروپ کے جبر و تسلط میں ہے۔ کراچی میں ایم کیو ایم کے ورکرز کی تعداد ان کے حق میں ڈالے گئے ووٹوں کا دس فیصد بھی نہیں ہوگی۔ لیکن ایم کیو ایم لوگوں کی نظروں میں اچھی ہے یا بری، دراصل مسئلہ اس سے بڑھ کر ہے اور یہ کہ ایم کیو ایم اس شہر میں ایک خاص کلچر کی نمائندہ ہے۔ اس کلچر کے تحفظ اور نمو کے لیے اس کلچر کے پروردہ افراد ایسی ہی پارٹی کے حق میں اپنی رائے دیں گے جو انہیں تحفظ فراہم کرے گی۔ راقم کی نظر میں سماجی حقائق سے صرفِ نظر کرتے ہوئے حق و باطل کی جنگ کا آوازہ بلند کرنے کا خاطر خواہ فائدہ نہ ہوا، نہ ہو سکے گا۔
ہمارے دعوتی میدان کی نوعیت کیا اور کیسی ہے ؟کیا ہم کشمیر میں بستے ہیں اور بھارتی فوجوں سے نبرد آزما ہیں؟ کیا ہم خطہ فلسطین میں مزاحمتی جدوجہد کی لازوال داستان رقم کر رہے ہیں؟ کیا ہم آج کے افغانستان میں امریکیوں اور ان کے اتحادیوں کے مدمقابل ہیں؟ کیا ہم بھارت میں ہیں اور ہندو ثقافت کا مقابلہ کرتے ہوئے دعوتِ دین کا فریضہ انجام دے رہے ہیں؟ مملکت خداداد پاکستان کے حالات یقینا ان میں سے کسی سے بھی مماثل نہیں ہیں۔ حالیہ ’’عرب بہار‘‘ کی کامیاب سیاسی جدوجہد کو بھی درست تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے مخصوص حالات میں ہمارا دعوتی اسلوب کیا ہونا چاہیے؟ جماعت کی قیادت کو سوچنا ہوگا۔ یہاں تو دعوت و ارشاد، تعلیم و تذکیر، تزکیہ و تربیت ہی جدوجہد کے مستقل عنوانات ہیں اور ان کے نتیجے میں رائے عامہ کو ہموار کرکے نظامِ اسلامی کا قیام مقصود ہے۔ قیادت کا فریضہ ہے کہ کارکنان کو اولوالعزمی کے درست پیرائے سمجھائے، یہ بھی بتائے کہ دعوت کے مسترد ہونے پر داعی الی اللہ کا ردعمل کیسا ہونا چاہیے۔
چند برسوں قبل ہماری برادر تنظیمات میں سے کسی نے شہدائے کراچی کے حوالے سے مواد جمع کرنا شروع کیا تھا تاکہ اسے کتابی شکل میں شائع کیا جا سکے۔ راقم کی رائے اس وقت بھی یہی تھی کہ شہدائے افغانستان و کشمیر کی طرح شہدائے کراچی کو سمجھنا، مناسب بات نہیں ہے۔ یہ قلمی کاوش ہمارے طرزِ فکرکو متاثر کر سکتی ہے اور آئندہ آنے والے افراد میں ذہنی وسعت اور کشادگی کو کم کرے گی اور ہمارے دعوتی مخاطبین کو ہمارے لیے نفرت کا عنوان بنا دے گی۔ افسوس کی بات ہے کہ اس دعوتی لب و لہجے کو فراموش یا نظرانداز کیا جاچکا ہے، جو کہ اسوہ رسولؐ ہے، جو صحابہ کرامؓ کی زندگیوں میں نمایاں رہا۔ جس کے بیشمار نمونے ہمارے اسلاف نے پیش کیے اورتاریخ کے اوراق ان واقعات سے بھرے ہیں۔ خود جماعت اسلامی سے وابستہ چند نمایاں افراد نے اپنوں اور غیروں، دوستوں اور مخالفوں کے حوالے سے جو دعوتی اسلوب اپنایااور اپنی شخصیت کا حصہ بنایا، وہ قابلِ غور ہے۔ مولانا عبدالحق بلوچ، مولانا عبدالرحیم چترالی، ڈاکٹر نذیر احمد شہید، مولانا جان محمد عباسی، خرم مراد اور خود شہر کراچی سے نابغۂ روزگار شخصیت چوہدری غلام محمد اور پروفیسر غفور احمد (اللہ سب کو غریق رحمت کرے)۔ سوشلسٹوں، کمیونسٹوں، قوم پرستوں، کامریڈوں کے ساتھ بھی ان حضرات کا رویہ اسلامی تعلیمات کے مطابق تھا۔
پچھلے دو عشروں میں تو ہم دعوتی مزاج، تنظیمی مزاج اور تربیتی مزاج کے تذکرے سنتے اور مظاہر دیکھتے آئے تھے۔ اب سیاسی مزاج اور اس کے اندر بھی انتخابی مزاج کے چرچے عام ہیں۔ یہ وہ مزاج ہے کہ تحریک میں جس کی پذیرائی ہے، میڈیا میں اونچی ریٹنگ ہے۔یہ دھواں دھار تقاریر کا مزاج ہے، مخالفین کو تہس نہس کرنے کے دعوے، نرمی اور دھیمے پن کے بجائے سختی اور چیخ پکار، الزام تراشی، طنز و طعن، نفرت و حقارت اور ملامت۔ دلوں کو جوڑنے کے بجائے توڑنے والا طرزِ کلام۔ کیا اسلامی تحریک کے ذمہ داران کو یہ طرزِ تخاطب زیبا ہے؟
افراد میں مزاج کا تنوع تو قدرتی ہے۔ شخصیت میں انفرادی اختلاف کے یہ رنگ اصل میں تو حسنِ زندگی ہے۔ انسانوں کی ہر اجتماعیت میں یہ فرق موجود رہتا ہے۔ صحابہؓ کی زندگی میں اس کی مثالیں ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ رنگ کوئی بھی ہو، شخصیت اخلاقِ حسنہ کا نمونہ ہو۔ جماعت اسلامی کو اس باب میں اپنی نئی قیادت کو اصل اور پرانے سانچے سے گزارنا چاہیے۔
مؤدبانہ عرض ہے کہ جدوجہد کے حوالے سے دو ماڈل ممکن ہیں۔ ایک اورینٹیشن کا ماڈل، دوسرا کنٹری بیوشن کا ماڈل۔ اورینٹیشن ماڈل کی اساس ایشوز کی سیاست ہے۔ اس میں بنیادی عمل لوگوں کو آگاہی و شعور دینا ہے، اپنے موقف کو سمجھانا ہے۔ یہاں عمومی رجحان تنقید برائے تنقید ہوتا ہے۔ اس کے مظاہر جلسے، جلوس، ریلیاں، دھرنے، مظاہرے اور غالب رویہ احتجاج (ایجیٹیشن) ہوتا ہے۔ چونکہ ایشوز ہمیشہ موجود رہتے ہیں، لہٰذا ایشور کی سیاست میں کم از کم فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ زندہ رہتے ہیں، متحرک رہتے ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا ایشو آتا رہتا ہے، جذبوں کو توانائی ملتی رہتی ہے، تحرک کا عمل جاری رہتا ہے۔ مگر تحرک کا مطلب ضروری نہیں ہے کہ پیش قدمی بھی ہو۔ چنانچہ اخبارات اور چینلز میں ایشوز کی سیاست کے ذریعے اگر جگہ ملتی رہے اور خبر بنتی رہے تو علامتی طور پر آپ زندہ ہیں۔
دوسرا ماڈل کنٹری بیوشن کا ہے، جس میں آپ حقیقی ایشوز پر شعور و آگاہی سے آگے بڑھ کر عملی قدم اٹھاتے ہوئے معاشرے کے لیے سہولت و خدمت اور خیر فراہم کرتے ہیں۔ گویا معاشرتی ضروریات کی نشاندہی، اس کی آگاہی، اس پر اپنے موقف کا اظہار، سرکار کو جھنجھوڑنا، متعلقہ حکام کو ان کی ذمہ داری کا احساس دلانا اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے بس میں جو کام ہو سکتا ہو، کر گزرنا۔ ایک مثال پیشِ خدمت ہے۔
اگر کسی علاقے میں بچیوں کی تعلیم کا مسئلہ ہے، کوئی اسکول، مکتب، مدرسہ موجود نہیں ہے۔ بچیاں اَن پڑھ رہ جاتی ہیں۔ ایسے میں پہلے ماڈل کے مطابق آپ مسئلے کی نشاندہی کریں گے، لوگوں کو شعور و آگاہی دیں گے۔ حکومتی اداروں کی توجہ کے لیے عملی اقدامات اٹھائیں گے۔ مسئلے کی نوعیت کے لحاظ سے اپنی پوری سیاسی و تنظیمی قوت کو بروئے کار لائیں گے اور اس میں رنگ بھریں گے۔ یہ سب اہم کام ہیں اور بلاشبہ سیاسی عمل کا حصہ بھی ہیں۔ لیکن دوسرے ماڈل میں آپ ان سارے کاموں کے ساتھ، ایک قدم اور آگے بڑھتے ہیں۔ بچیوں کی تعلیم کے لیے ایک مدرسہ یا اسکول خود کھول لیتے ہیں، وقت کے ساتھ اس میں اضافہ کرتے ہیں، ایک مضبوط نیٹ ورک بنا لیتے ہیں، اس طرح معاشرے میں خیر کے لیے عملی قدم اور کنٹری بیوشن کی بنیاد ڈالتے ہیں۔
بیشمار ایشوز ہیں جو شاید ایشوز ہی رہیں گے، اگر سماجی گروہ اور دینی و سیاسی جماعتیں آگے بڑھ کر اس میں شرکت و تعاون نہ کریں۔ خواتین اور بزرگوں کے لیے ٹرانسپورٹ، فری ڈسپنسری کا قیام، مدارس اور اسکولوں کا نیٹ ورک، حفظ و ناظرہ کے مراکز، لائبریریوں کا قیام، بلاسود مائیکرو فنانس کی اسکیموں کا اجرا، نوجوانوں کے لیے ہیلتھ سینٹر اور عوام الناس کے لیے پینے کے صاف پانی کا بندوبست وغیرہ۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ سارے کام حکومت کے کرنے کے ہیں اور اتنے وسائل حکومت ہی فراہم کر سکتی ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے، لیکن جب حکومتِ وقت اپنی ذمہ داری ادا نہ کر رہی ہو، خلق خدا ان بنیادی انسانی سہولتوں کی محتاج ہو جائے اور چکی کی مشقت میں زندگانی بسر کر رہی ہو تو ایسے میں انہیں ذاتی زندگی میں تقویٰ کی روش پر لے جانا اور انہیں اجتماعیت میں پرو کر صالح معاشرے کی بنیاد ڈالنا کارِ محال ہے۔ دنیا میں کئی ممالک اور وطنِ عزیز میں بھی کئی غیر سرکاری ادارے اور تنظیمات اس طرح کی بے شمار خدمات انجام دے رہی ہیں جو دراصل حکومتِ وقت کا کام ہے۔ الخدمت سے لے کر بیٹھک اسکولوں تک، اعلیٰ خدمات کی ایک کہکشاں ہے، جو اِس تحریک نے معاشرے میں سجائی ہوئی ہے۔ مفت بس سروس، مفت یا سستی او پی ڈی، سبسیڈائیزڈ کینٹین، زرعی شعبے میں سبزیوں اور ترکاریوں کے چھوٹے چھوٹے گھریلو فارم، لائیو اسٹاک کے فارم وغیرہ وغیرہ۔
راقم کی رائے میں ایک اسلامی تحریک، جس کا وژن اتنا اعلیٰ اور ارفع ہو کہ ایک جانب انفرادی سطح پر اپنے کارکنوں کو رضائے الٰہی اور اخروی کامیابی کا نصب العین دیتی ہو اور دوسری جانب اسلامی حکومت کے قیام کے لیے بھی کوشاں ہو، اس عظیم الشان تحریک کو سماجی خدوخال کے درک کے بغیر آگے بڑھانا اور بڑھاتے چلے جانا کسی بھی صورت میں مناسب نہیں ہے۔ جماعت اسلامی ملکی معاشی استحکام کے لیے پیدائشِ دولت کے اصل ذرائع کے حصول کے لیے اپنی مقامی جماعتوں کو سالانہ بنیادوں پر اہداف دے سکتی ہے۔ کارِجہاں بانی اگر مطمح نظر ہے تو امکانات کی دنیائیں روشن ہیں۔ حدِ نگاہ تک پھیلا ہوا افق، ستاروں کی کہکشائیں، کمندیں ڈالنے والوں کی منتظر ہیں۔ یہ ایک مشکل کام ہے۔ نظمِ مملکت کے باب میں بہترین رجالِ کار کی تیاری، اہم ترین ہے۔ جماعت اسلامی کے پاس تنظیمات و شعبہ جات کا ایک وسیع، موثر اور فعال نیٹ ورک موجود ہے۔ پاکستان کی کوئی سیاسی، مذہبی جماعت اس کی مثال پیش نہیں کر سکتی۔
جماعت اسلامی کے تھنک ٹینکس کو اب اس نہج پر سوچنا چاہیے کہ وہ اعلیٰ معیار کے ادارے قائم کریں۔ یہ ادارے اپنے اپنے دائرے میں معاشرے کے لیے خدمات انجام دیں۔ حکومتِ وقت اور دیگر این جی اوز اور بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ شراکت و معاونت سے اپنے پروجیکٹس پر کام کریں۔ حکومتی اداروں کو رہنمائی، تجاویز اور مشاورت فراہم کریں اور اپنے اپنے دائرے میں معیاری اور مثالی نمونہ پیش کریں۔ جماعت کو اس سے رجالِ کار میسر آئیں گے، امور مملکت کے چیلنجوں کا ادراک ہو سکے گا اور عوام الناس کے سامنے عملی مظاہر پیش کرنے کا موقع ملے گا کہ آئو دیکھو اسلامی فلاحی مملکت کے عنوانات کیا کیا ہیں؟ اپنے محدود وسائل میں ہم نے اس کا آغاز کر دیا ہے اور اگر پاکستان کے عوام جماعت پر اعتماد کریں تو یہ لیاقت و اہلیت رکھتی ہے کہ جہاں بانی کا فریضہ احسن انداز میں انجام دے سکے۔
ہمارا ایقان ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اس ملک کو ایک اعلیٰ مقصد اور اپنی عظیم حکمت کے تحت وجود بخشا ہے۔ اس ملک سے اللہ کو جو کام لینا تھا، اس نے لیا ہے اور آئندہ اس خطے اور اس کے باشندوں سے جو کردار قدرت کو مطلوب ہے، راقم کی عاجزانہ رائے میں حالات خودبخود اس کے مطابق بنتے چلے جائیں گے۔ کون کس درجے کا مسلمان ہے یا کون بنیاد پرستوں میں شمار ہوگا، یہ ہمارا اپنا زاویہ نظر ہوگا۔ قدرت کی اسکیم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ملکوتی نظام کسی سے بھی، کوئی بھی کام لے سکتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ تحریک پاکستان کے وقت علماء کرام، مشائخ عظام، صوفیا حضرات، زعما و فضلا، بڑے بڑے سردار اور نواب موجود تھے۔ اللہ نے اپنی عظیم حکمت کی بنا پر جدید مغربی تعلیم یافتہ محمد علی جناح کو منتخب کیا۔ جمعیت علماء ہند کے جید علما کی موجودگی میں کوٹ پتلون ٹائی میں ملبوس، انگریزی بولنے والا، لیکن سچا، کھرا اور نڈر انسان، برصغیر کی تاریخ میں مسلمانوں کا عظیم رہنما بن کر ابھرا۔
جو ملک سوئی نہ بنا سکتا ہو، جس کی معیشت کبھی مستحکم نہ رہی ہو، غربت و افلاس نے جہاں ڈیرے جمائے رکھے ہوں، جس کی ستر فیصد سے زائد آبادی ناخواندہ ہو، دو وقت کی روٹی اور پینے کا صاف پانی بھی جہاں کثیر تعداد کو میسر نہ ہو۔۔۔ وہ ملک ایٹم بم بنالے۔ دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بن کر ابھرے۔ ستاون اسلامی ممالک میں اس قوت کو حاصل کرنے والا واحد ملک بن جائے۔ آخر کیسے ممکن ہوا؟ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے یہاں ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے کام لے لیا۔ غور کیجیے ذوالفقار علی بھٹو، غلام اسحاق خان اور جنرل ضیاء الحق تین مختلف کردار۔ ایک جاگیردار سیاست دان، ایک منجھا ہوا سخت بیورو کریٹ اور ایک فوج کا زیرک جنرل۔ لیکن پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کے لیے قدرت نے تین مختلف پس منظر اور سوچ رکھنے والوں سے یہ عظیم کام لے لیا اور اس نقطہ پر انہیں جوڑ دیا۔
جنرل مشرف کے آخری چند سالوں میں آمریت کے سائے تلے اور فوجی بوٹوں کی دھمک میں پورے ملک میں سخت پہرا تھا، ایک سناٹا تھا، خوف اور سراسیمگی تھی۔ سیاسی و مذہبی جماعتیں، مزدور، کسان، طلبہ جو ہمیشہ آمریت کے خلاف سینہ سپر ہوتے رہے، بالکل بے بس ہو چکے تھے، قدرت کا نظام پھر حرکت میں آیا۔ حبس کے اس ماحول میں خوشگوار ہوا کا جھونکا بن کر ایک شخص نمودار ہوا، افتخار محمد چوہدری۔ اور افتخار محمد چوہدری کی عزیمت نے جنرل پرویز مشرف کی رخصتی کی راہ ہموار کردی۔ سوچیے کہ دنیا میں مزاحمتی تحریکوں کی قیادت کبھی کسی چیف جسٹس نے کی ہے؟
پاکستان کی جیو پولیٹیکل پوزیشن کے حوالے سے مستقبل کا جو منظرنامہ بننے جا رہا ہے، اس میں ایک نئی صف بندی ہونی ہے۔ کھرا اور کھوٹا بھی چھٹنا ہے۔ عمران خان کا کردار اچھا ہے یا برا، جوش پر مبنی ہے یا ہوش پر، ضدی و انا پرست کا تاثر لیے ہوئے ہے یا اصلاح پسند اور عاجزی کا؟ وہ تندخو ہیں یا نرم خو؟ آگے کامیابی اُن کے قدم چومے گی یا ناکامی مقدر بنے گی؟ ان سب سوالات سے قطع نظر، محسوس ہوتا ہے کہ مستقبل کے پاکستان میں نئے امکانات کو روشن کرنے میں عمران خان کا کردار اہم ہوگا۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی کامیابی کو روشن مستقبل کی علامت کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ قدرت نے دونوں جماعتوں کو ایک موقع عطا کیا ہے کہ وہ ایک شاندار اور پروقار پاکستان کی تعمیرکا آغاز کریں۔
قیام پاکستان کے بعد کے دو عشرے چھوڑ دیں کہ تقسیمِ ہند کے بعد کے مسائل و معاملات پیچیدہ تھے۔ طویل عرصہ فوجی اقتدار چھایا رہا، آئینی خدوخال واضح نہ تھے اور جمہوریت کے سفر کا آغاز تھا۔ گزشتہ ۴۳ سال میں قومی انتخابات میں ووٹ بنک، بھٹو اور اینٹی بھٹو میں تقسیم رہا۔ پیپلز پارٹی کے خلاف بڑے بڑے اتحاد بنے، جیسے پی این اے اور آئی جے آئی۔ پھر دائیں بازو کا ووٹ بنک اور بائیں بازو کا ووٹ بنک کی اصطلاح بھی استعمال ہوتی رہی۔ مخصوص حالات میں دینی جماعتوں کے اتحاد بھی بنتے رہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ ۲۰۱۳ء کے پاکستان میں بھٹو اور اینٹی بھٹو ووٹ بنک کا فلسفہ ختم ہو گیا اور یہ کریڈٹ عمران خان کے سر ہے۔ اب انتخابی سیاست میں دائیں اور بائیں بازو کے ووٹ بنک کا نظریہ بھی نہیں چلے گا۔ بلکہ شاید اسلام اور غیر اسلام کا نعرہ بھی انتخابی سیاست میں متاثر کن نہیں رہے گا۔ دینی جماعتوں کے اتحاد بھی ثمر آور نہیں ہو سکیں گے۔
جماعت اسلامی جیسی منظم و مستحکم اور نظریاتی و اخلاقی سیرت سازی سے مزیّن کارکنوں پر مشتمل تحریک اس ملک میں ایک نعمت ہے۔اب بھی اس سے بہت ساری توقعات وابستہ ہیں۔ تحریک کی گھنی چھائوں میں اپنی زندگی بِتا دینے والوں کواس شجرِ سایہ دار سے جتنا پیار ہے اور اس پر جتنا مان ہے، اس کا اندازہ لگانا شاید دوسروں کے لیے مشکل ہو۔بانی ٔ جماعت، سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ایک عبقری شخصیت، صدی کے عظیم انسانوں میں سے ایک، نصف صدی کی قیادت پُرخلوص و پُرعزم۔ کارکنان ایسے وفا شعار اور ایثار کیش کہ دوسرے مثالیں دیں۔ اس عظیم الشان تحریک کو مگر آنے والے وقت کا اہم ترین چیلنج درپیش ہے۔ تھوڑا سا توقف کیجیے۔ ایک بھر پور محاسبہ، سائنٹیفک تجزیہ، ایک جامع، ٹھوس اور طویل المیعاد منصوبۂ عمل۔ جی ہاں،عزمِ نو اور کردارِ نو۔ لمحۂ موجود کا فیصلہ، مستقبل کی تاریخ رقم کرنے کو ہے۔
کسی بھی جماعت، تحریک یا تنظیم کو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ اس سرزمین پر نفاذِ شریعت کے لیے اس کا کردار ہی حتمی اور فیصلہ کن ہوگا۔ ہر اجتماعیت نے دین کا جو کام بھی اپنے ذمہ لیا ہے، پوری تندہی اور اخلاص کے ساتھ بارگاہِ رب العزت میں پیش کر دے۔ اس خطے میں اسلام کا پرچم بلند ہونا ہے۔ ان شاء اللہ۔ اس کے لیے ایک توانا، مستحکم اور پرامن پاکستان کی ضرورت ہے۔ اس شاندار پاکستان کی تعمیر کا فریضہ جس کی قسمت میں ہے، قدرت اس سے یہ کام لے لے گی اور یہاں اسلام اپنا راستہ خود بنا لے گا۔ دنیا کی کوئی طاقت یہاں اسلام کو غالب ہونے سے نہیں روک سکے گی۔ ان شاء اللہ عزیز۔
(اس مضمون میں حالیہ انتخابی نتائج، جماعت اسلامی کی حکمت عملی اور مستقبل کے لائحہ عمل کو تجزیاتی انداز میں موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ یہ مصنف کے ذاتی خیالات ہیں۔ اس پر انہی سے رابطہ کیا جائے۔ ان کا برقی پتا ہے: arshadbaig19@hotmail.com)
○○○
Leave a Reply