امریکا کی قومی سلامتی کی مشیر کونڈو لیزا رائیس نے گزشتہ دنوں ۹/۱۱ کمیشن میں بیان دیا‘ جس میں انہوں نے بتایا کہ صدر بش نے دہشت گردی کے خاتمے کو ہمیشہ اولین ترجیح دی ہے اور اس خطرے کو انہوں نے کبھی غیراہم نہیں سمجھا۔ ۹/۱۱ کمیشن‘ امریکا پر دہشت گردانہ حملوں کی تحقیقات کر رہا ہے۔ اس سے پہلے کنڈو لیزا رائیس نے فروری میں کمیشن کے ممبران کے سامنے بیان دیا تھا لیکن وہ بیان‘ بیان حلفی نہیں تھا اور کھلے اجلاس میں بھی نہیں دیا گیا تھا۔ اب جو بیان انہوں نے دیا ہے‘ وہ حلفی بیان ہے اور کھلے اجلاس میں دیا گیا ہے جس کے لیے صدر بش نے خصوصی منظوری دی تھی۔ اس بیان کی ضرورت‘ قومی سلامتی کونسل کے سابق مشیر رچرڈ کلارک کے بیان کے بعد محسوس کی جارہی تھی۔ رچرڈ کلارک نے کہا تھا کہ میں نے بش انتظامیہ کو القاعدہ کے خطرے سے بار بار آگاہ کیا تھا لیکن میری بات پر توجہ نہیں دی گئی تھی۔
کونڈو لیزا رائیس کا بیان
میں تحقیقاتی کمیشن کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ اس نے خصوصی اجلاس کا انتظام کیا۔ اس سے قوم کو ۹/۱۱ کے حملوں کے بارے میں حقاق جاننے کا موقع ملے گا۔
اس کمیشن پر اور اس میں پیش ہونے والوں پر خصوصی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ دہشت گردانہ حملوں میں ہلاک ہونے والوں‘ ان کے پسماندگان اور تمام اہلِ وطن کی طرف سے ہم پر فرض عائد ہوتا ہے کہ اس سانحہ کے بارے میں اور اس کے پس منظر کے بارے میں معلومات فراہم کریں۔ ہلاک شدگان کے کئی اہلِ خانہ اس وقت یہاں موجود ہیں۔ میں تفتیشی کام میں ان کے تعاون کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔
ہماری قوم کے لیے دہشت گردی کا خطرہ محض ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کو پیدا نہیں ہوا۔ اس سے کافی عرصہ پہلے انتہا پسند اور آزادی کے دشمن اور دہشت گرد‘ امریکا کے خلاف اور پوری مہذب دنیا کے خلاف اعلانِ جنگ کر چکے تھے۔ ۱۹۸۳ء میں لبنان میں امریکی فوج کی بیرکوں پر حملہ‘ ۱۹۸۵ء میں Achille Lauro جہاز کا اغوا‘ القاعدہ کا عروج اور ۱۹۹۳ء میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر اس کا حملہ‘ ۱۹۹۵ء اور ۱۹۹۶ء میں سعودی عرب میں امریکی ٹھکانوں پر حملے‘ ۱۹۹۸ء میں مشرقی افریقا میں سفارت خانوں پر حملے‘ ۲۰۰۰ میں امریکی جنگی بحری جہاز USS Cole پر حملہ۔ اور اس طرح کے دوسرے واقعات اس منظم مہم کا حصہ تھے‘ جس کا مقصد تباہی و بربادی اور انتشار پھیلانا اور بے گناہ امریکیوں کو قتل کرنا تھا۔
دہشت گردوں نے ہمارے خلاف جنگ چھیڑ رکھی تھی لیکن ہم نے ابھی ان کے خلاف جنگ نہیں شروع کی تھی۔ ۲۰ سال سے زائد عرصہ تک‘ دہشت گردوں کا خطرہ مسلسل قوت پکڑتا رہا لیکن امریکا کی دونوں سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والی حکومتوں نے اس کا مناسب جواب نہ دیا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جمہوری ملک‘ آنے والے خطرے کا مقابلہ کرنے میں سستی سے کام لیتے ہیں اور اس وقت تک انتظار کرتے رہتے ہیں جب تک یہ خطرہ حد سے تجاوز نہیں کر جاتا اور اس کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں رہتا یا ضرورت سے زیادہ تاخیر نہیں ہو جاتی۔ ۱۹۱۵ء میں جرمین نے امریکا کا جنگی بحری جہاز Lusitania ڈبو دیا۔ اس کے علاوہ وہ امریکا کے تجارتی‘ بحری جہازوں کو بھی مسلسل تنگ کرتا رہا لیکن امریکی پہلی عالمی جنگ چھڑنے کے کہیں دو سال بعد اس جنگ میں شامل ہوا۔ نازی جرمنی کی طرف سے معاہدہ و رسائی کی بار بار کی خلاف ورزیوں کے باوجود اور ۱۹۳۰ء کے عشرے میں بار بار کی اشتعال انگیزیوں کے باوجود مغربی ملکوں نے ۱۹۳۹ء تک اس کے خلاف کارروائی نہ کی۔ امریکی حکومت نے جاپان کا خطرہ اسوقت تک نظرانداز کیے رکھا‘ جب تک پرل ہاربر کا واقعہ پیش نہیں آیا۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ۱۱ ستمبر کے واقعہ سے پہلے تمام تر جنگی زبان استعمال کرنے کے باوجود امریکا حالتِ جنگ میں نہیں تھا۔
لیکن اب ہم حالتِ جنگ میں ہیں اور صدر بش کی قیادت میں ہم اس وقت تک جنگ جاری رکھیں گی‘ جب تک کہ دہشت گردی کا خطرہ ختم نہیں ہو جاتا ہے۔ دنیا اس قدر تبدیل ہو چکی ہے کہ یہ یاد کرنا مشکل ہے کہ ۹/۱۱ سے پہلے ہم کس طرح کی زندگی گزار رہے تھے۔ تاہم میں ان اقدامات پر روشنی ڈالوں گی جو ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء سے پہلے ہماری انتظامیہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے کر رہی تھی۔
صدر بش کے منتخب ہونے کے بعد اور اقتدار سنبھالنے سے پہلے کے عبوری عرصہ میں کلنٹن انتظامیہ نے ہمیں قومی سلامتی کے بہت سے معاملوں کے بارے میں بریفنگ دی۔ جارج ٹی نیٹ نے صدر بش کو اور مجھے دہشت گردی اور القاعدہ کے نیٹ ورک کے بارے میں بتایا۔ سینڈی برجر اور قومی سلامتی کونسل کے دیگر ممبران نے نئی قومی سلامتی کونسل کے دوسرے ممبران کو انسداد دہشت گردی اور القاعدہ کے بارے میں تفصیلات بتائیں۔ یہ بریفنگ تقریباً ایک گھنٹہ جاری رہی۔ اس میں دہشت گردی کی روک تھام کے بارے میں کلنٹن انتظامیہ کی پالیسی اور مختلف سرگرمیوں کے بارے میں بتایا گیا۔ سینڈی نے اور میں نے ذاتی طور پر کئی اور معاملوںپر بھی گفتگو کی‘ جن میں شمالی کوریا‘ عراق‘ مشرقی وسطی اور بلقان کے معاملے شامل تھے۔
ہمیں جو معلومات ملیں اور ہم جو کئی برس سے القاعدہ کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کا جو مشاہدہ کر رہے تھے‘ اس کی وجہ سے ہم سمجھتے تھے کہ یہ تنظیم امریکا کے لیے سخت خطرہ ہے اور اس کے خلاف مہم میں کمی نہیں آنی چاہیے۔ ہم نے فوری طور پر فیصلہ کیا کہ کلنٹن انتظامیہ‘ القاعدہ کے خلاف جو خفیہ کارروائیاں کر رہی تھی اور جو دوسرے اقدامات کر رہی تھی‘ انہیں جاری رکھا جائے گا۔ صدر بش نے جارج ٹی نیٹ کو سینٹرل انٹیلی جینس کے عہدے پر برقرار رکھا۔ اسی طرح Louis Freeh کو بھی ایف بی آئی کا ڈائریکٹر برقرار رکھا گیا۔ میں نے قومی سلامتی کونسل کے اسٹاف میں ڈک کلارک سمیت کلنٹن انتظامیہ کی انسداد دہشت گردی کی پوری ٹیم کو برقرار رکھا‘ حالانکہ عموماً ایسا نہیں کیا جاتا ہے۔ مجھے معلوم تھا کہ ڈک کلارک‘ انسداد دہشت گردی کے شعبے میں اعلیٰ مہارت رکھتے ہیں اور بحرانی حالات کا مقابلہ کرنے کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ یہ فیصلہ ہم نے اس وجہ سے کیا کہ جب تک ہم نئی اور زیادہ موثر پالیسیاں وضع نہیں کر لیتے‘ موجود پالیسیوں کا تسلسل برقرار رہے۔
صدر بش نے اقتدار سنبھالتے ہی اپنے دفتر میں سینٹرل انٹیلی جینس کے ڈائریکٹر (DCI) سے تقریباً روزانہ ملاقات کرنے کا سلسلہ بحال کر دیا۔ ان ملاقاتوں میں نائب صدر اور چیف آف اسٹاف کے ہمراہ میں بھی شریک ہوتی تھی۔ صدر تازہ ترین خفیہ معلومات حاصل کرتے تھے اور ضروری سوالات بھی پوچھتے تھے۔ ۲۰ جنوری سے ۱۰ ستمبر تک ان ملاقاتوں میں القاعدہ کے بارے میں صدر کو ۴۰ سے زیادہ بریفنگ دی گئیں۔ ان میں سے ۱۳ بریفنگ‘ ان سوالوں کے جواب میں دی گئیں‘ جو صدر نے یا ان کے اعلیٰ مشیروں نے دریافت کیے تھے۔ میں DCI ٹی نیٹ سے ملاقات کے علاوہ تقریباً روزانہ صبح سوا سات بجے وزیرِ خارجہ پاول اور وزیر دفاع رمسفیلڈ سے گفتگو کرتی تھی۔ DCI سے ملاقات میں القاعدہ اور اس کی سرگرمیوں پر باقاعدگی سے گفتگو ہوتی تھی۔
ہماری دوسری ذمہ داریاں بھی تھیں‘ جنہیں پورا کرنا ضروری تھا۔ صدر بش نے خارجہ پالیسی کا ایک وسیع ایجنڈا مقرر کر رکھا تھا۔ تباہ کن ہتھیاروں کا پھیلائو روکنا بھی ضروری تھا۔ ہم دوسری بڑی عالمی طاقتوں سے تعلقات بہتر بنا رہے تھے۔ ہمیں عراق کے بارے میں بھی پالیسی تبدیل کرنا تھی کیونکہ سابقہ پالیسی بے نتیجہ ثابت ہو رہی تھی۔ بڑی طاقتیں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد میں مسلسل رکاوٹیں ڈال رہی تھیں۔ وقتاً فوقتاً دوسرے بحران بھی پیدا ہوتے رہے مثلاً امریکی بحریہ کے ایک طیارے کو چین نے گیارہ روز تک حراست میں لیے رکھا۔ اس طرح کے بحرانوں سے نمٹنا بھی ضروری تھا۔
ہم نے القاعدہ کا دہشت گردی کا نیٹ ورک ختم کرنے کے لیے ایک نئی اور زیادہ جامع حکمتِ عملی وضع کرنا شروع کر دی۔ صدر بش اس خطرے سے بخوبی آگاہ تھے اور اسے ختم کرنا ضروری سمجھتے تھے۔ انہوں نے ہم پر واضح کر دیا کہ وہ ایک وقت میں ایک حملے کے قائل نہیں۔ انہوں نے کہا میں اس طرح کی کارروائیوں کو مکھیاں مارنا سمجھتا ہوں اور اس سے تنگ آچکا ہوں۔
نئی حکمتِ عملی ۲۰۰۱ء کے موسمِ بہار اور موسمِ گرما میں تیار کی گئی اور چار ستمبر کو صدر کے قومی سلامتی کے اعلیٰ حکام نے اس کی منظوری دے دی۔ قومی سلامتی کی پالیسی کے بارے میں بش انتظامیہ کا یہ پہلا بڑا ہدایت نامہ تھا‘ جو القاعدہ کے خاتمے کے بارے میں تھا۔ اس طرح اس معاملے کو روس یا عراق کے بارے میں پالیسی اور میزائل دفاعی نظام کے معاملے سے بھی زیادہ اہمیت دی گئی۔
اگرچہ قومی سلامتی کے بارے میں صدر کا ہدایت نامہ انتہائی خفیہ تھا لیکن ہم نے اس کے کچھ حصے صیغۂ راز سے نکالنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ کمیشن کو اپنے کام میں سہولت ہو۔ ان حصوں میں بعض کے بارے میں‘ میں آج بتا رہی ہوں۔ ہم نے پالیسی میں جو ہدف مقرر کیا‘ وہ یہ تھا کہ القاعدہ کا نیٹ ورک ختم کیا جائے۔ پالیسی میں متعلقہ محکموں اور اداروں کو حکم دیا گیا کہ القاعدہ کے خاتمے کو اپنی اولین ترجیح بنائیں اور اس مقصد کے لیے انٹیلی جینس‘ مالیات‘ سفارت کاری اور فوج سمیت تمام قومی ذرائع استعمال کیے جائیں۔ اس پالیسی میں کابینہ کے وزرا اور محکموں کے سربراہوں کو خصوصی ذمہ داریاں سونپی گئی۔ مثال کے طور پر:
٭ وزیرِ خارجہ کو ہدایت کی گئی کہ وہ القاعدہ کی پناہ گاہیں ختم کرانے کے لیے دوسرے ملکوں سے رابطہ کریں۔
٭ وزیرِ خزانہ اور وزیرِ خارجہ کو یہ ہدایت بھی کی گئی کہ القاعدہ اور اس کے سرپرستوں کے اثاثے ضبط کرنے کے لیے دوسرے ملکوں کی حکومتوں سے مل کر کام کریں۔
٭ سینٹرل انٹیلی جینس کے ڈائریکٹر کو ہدایت کی گئی کہ وہ القاعدہ کی سرگرمیاں روکنے کے لیے خفیہ کارروائیاں کرنے کا پروگرام تیار کریں اور افغانستان میں طالبان اور القاعدہ کے خلاف سرگرم عمل گروپوں کی مدد کریں۔
٭ مینجمنٹ اور بجٹ کے دفتر کے ڈائریکٹر سے کہا گیا کہ اس پالیسی کے مقاصد حاصل کرنے کے لیے آئندہ پانچ سال کے دوران بجٹ میں مناسب فنڈز رکھے جائیں۔
٭ اور وزیرِ دفاع سے کہا گیا کہ وہ ’’اس بات کو یقینی بنائیں کہ جو ہنگامی منصوبے تیار کیے جائیں‘ ان میں افغانستان میں القاعدہ کے خلاف منصوبے شامل ہوں۔ ان میں القاعدہ کے لیڈروں‘ مواصلات کے نظام‘ تربیت اور نقل و حمل کی سہولیات کو تباہ کرنا شامل ہو۔ اسی طرح افغانستان میں طالبان کے خلاف جو منصوبے تیار کیے جائیں‘ ان میں طالبان کے لیڈروں‘ ان کے مواصلات کے نظام‘ فضائی اور زمینی دفاع کے نظام اور نقل و حمل کی سہولیات اور ان ہتھیاروں کا خاتمہ شامل ہو‘ جو القاعدہ اور اس سے وابستہ دہشت گرد حاصل کریں‘ یا تیار کریں اور جو انہوں نے زیرِ زمین چھپا رکھے ہوں‘‘۔
یہ پالیسی اس پالیسی سے خاصی مختلف تھی‘ جو صدارتی ہدایت نامہ نمبر (62) کے تحت وضع کی گئی تھی اور جس میں وزیرِ دفاع کو ہدایت کی گئی کہ وہ دہشت گرد لوگوں کو مقدمہ کے لیے امریکا لانے کی غرض سے انتظامات کریں اور بیرونِ ملک محکمہ دفاع کی فوجوں کی حفاظت کریں اور دہشت گردی کے واقعات اور تباہ کن ہتھیاروں سے ہونے والے حملوں کا جواب دینے کے لیے تیار رہیں۔
اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہم نے اس حقیقت کو مدنظر رکھا کہ انسداد دہشت گردی کی کوئی بھی پالیسی الگ تھلگ رکھ کر کامیاب نہیں ہو سکتی‘ جیسا کہ آپ ان دستاویزات کی بدولت جانتے ہیں‘ جو ہم نے پاکستان اور افغانستان کے بارے میں پالیسی کے حوالے سے کمیشن کو فراہم کی ہیں۔ انسداد دہشت گردی کی ہماری حکمتِ عملی اس وسیع تر حکمتِ عملی کا حصہ تھی‘ جو علاقے کے پیچیدہ حالات کو سامنے رکھ کر تیار کی گئی تھی۔
ہماری نئی حکمتِ عملی کا سب سے اہم اور سب سے مشکل پہلو‘ انسدادِ دہشت گردی کی قومی اور علاقائی پالیسیوں کو مربوط بنانا تھا۔ القاعدہ تنظیم طالبان کی سرپرست بھی تھی اور ان کے زیرِ سرپرستی بھی تھی۔ ان طالبان کو پاکستان کی حمایت حاصل تھی۔ یہ تعلقات القاعدہ کو حفاظت فراہم کرتے تھے۔ ہمارے لیے ان تعلقات کو توڑنا ضروری تھا اور یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔
یہ بات درست نہیں کہ ہم نے پہلے کوئی کوشش نہیں کی تھی۔ صدر بش نے اقتدار سنبھالنے کے ایک ماہ کے اندر ہی صدر مشرف کو پرائیویٹ پیغام بھیجا اور ان پر زور دیا کہ وہ طالبان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں تاکہ بن لادن کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جاسکے اور القاعدہ کے تربیتی کیمپ بند کیے جاسکیں۔ وزیرِ خارجہ پاول نے بھی صدر مشرف سمیت پاکستانی لیڈروں پر زور دیا کہ وہ طالبان کی حمایت ترک کر دیں۔ میں نے بھی جون ۲۰۰۱ء میں اپنے دفتر میں پاکستان کے وزیرِ خارجہ سے ملاقات کی اور انہیں ایک بہت سخت پیغام پہنچایا‘ جسے سرد مہری سے وصول کیا گیا۔
القاعدہ کے بارے میں امریکی پالیسی کامیاب ثابت نہیں ہو رہی تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ افغانستان کے بارے میں ہماری پالیسی کامیاب ثابت نہیں ہو رہی تھی اور افغانستان میں ہماری پالیسی اس وجہ سے کامیاب ثابت نہیں ہو رہی تھی کہ پاکستان کے بارے میں ہماری پالیسی کامیاب ثابت نہیں ہو رہی تھی۔ ہم نے محسوس کیا کہ انسداد دہشت گردی کی پالیسی کو اپنی علاقائی پالیسیوں اور مجموعی خارجہ پالیسی سے مربوط کرنا ہو گا۔
ان مسائل سے نمٹنے کے کام میں‘ میں نے اہم علاقائی ماہرین کو شریک کیا۔ میں نے زلمے خلیل زاد کی خدمات حاصل کیں‘ جو افغانستان کے امور کے ماہر ہیں اور جنہوں نے ۱۹۸۰ء کے عشرے میں افغانستان سے سوویت فوجیں نکالنے کی لیے افغان مجاہدین کے ساتھ مل کر کام کیا تھا۔ میں نے جنوبی ایشیا کے بارے میں قومی سلامتی کونسل کے ماہرین اور وزیرِ خارجہ اور علاقائی ماہرین کو بھی اس کام میں شریک کیا۔ ہم سب نے مل کر افغانستان کے بارے میں ایک نئی حکمتِ عملی وضع کی۔ محض شمالی اتحاد پر ساری توجہ مرکوز کرنے کے بجائے ہم نے جنوبی افغانستان کی اہمیت کو مدنظر رکھا‘ جو ملک کا سماجی اور سیاسی مرکز ہے۔ پاکستان کے بارے میں ہماری نئی حکمتِ عملی ترغیب اور دبائو پر مبنی تھی تاکہ اسے طالبان کی حمایت ترک کرنے پر آمادہ کیا جاسکے۔ ہم نے بھارت کے بارے میں بھی اپنی سوچ تبدیل کی تاکہ برصغیر میں استحکام برقرار رہے۔
ہم جب القاعدہ سے نمٹنے کے لیے یہ حکمتِ عملی تیار کر رہے تھے تو اس کے ساتھ ساتھ ہم نے القاعدہ کے خلاف متعدد کارروائیوں کے بھی فیصلے کیے۔ یہ وہ فیصلے تھے‘ جو ڈک کلارک نے تجویز کیے تھے۔ ان میں سے کئی فیصلے سابق انتظامیہ نے موخر کر دیے تھے۔ کچھ فیصلے ۱۹۹۸ء سے زیرِ غور چلے آرہے تھے۔ ہم نے انسدادِ دہشت گردی کے لیے ازبکستان کی مدد میں اضافہ کر دیا اور دہشت گردوں کے اثاثوں کا سراغ لگانے اور یہ اثاثے ضبط کرنے کے لیے محکمہ خزانہ کی سرگرمیوں کو تقویت دی۔ میں نے انسدادِ دہشت گردی کی سرگرمیوں کے لیے کئی اداروں کا بجٹ بڑھا دیا۔ اس کے علاوہ القاعدہ کے خلاف کارروائی کے لیے Predator جاسوس طیاروں کو جدید آلات سے لیس کرنے کے لیے فوری اقدامات کیے گئے۔
جب ۲۰۰۱ء کے موسمِ بہار اور موسمِ گرما میں دہشت گردی کے خطرے کے بارے میں اطلاعات بڑھ گئیں تو ہم نے حکومتِ امریکا کے تمام شعبوں کو انتہائی چوکس کر دیا۔ نئی حکمتِ عملی کی تیاری اور ۲۰۰۱ء کے موسمِ سرما میں مختلف خطرات کے جواب میں جو کارروائیاں کی گئیں‘ میں ان دونوں کے باہمی تعلق کے بارے میں ابہام دور کرنا چاہتی ہوں۔ پالیسی کی تیاری اور بحران سے نمٹنے کے لیے الگ الگ اندازِ فکر کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم نے اس عرصے کے دوران دونوں محاذوں پر کام جاری رکھا۔
بحران سے نمٹنے کے ضروری کام کے لیے ہم نے انسدادِ دہشت گردی سکیورٹی گروپ (CSG) پر انحصار کیا‘ جس کے سربراہ ڈک کلارک تھے۔ یہ گروپ مختلف اداروں کے درمیان اعصابی مرکز کی حیثیت رکھتا تھا۔ CSG میں سی آئی اے‘ ایف بی آئی‘ محکمہ انصاف‘ محکمہ دفاع (بشمول جوائنٹ چیفس)‘ محکمہ خارجہ اور خفیہ ادرے کے انسدادِ دہشت گردی کے اعلیٰ ماہرین شامل تھے۔ CSG کے اجلاس کئی سال سے باقاعدگی سے ہو رہے تھے اور اس کے ارکان‘ دہشت گردی کے خطرے کے بہت سے ادوار میں کام کر چکے تھے۔ خطرے کی اطلاعات بڑھنے پر CSG کے اجلاس بھی زیادہ ہوتے تھے۔ بعض اوقات یہ اجلاس روزانہ ہوتے‘ جن میں اطلاعات کا تجزیہ کیا تھا اور جوابی کارروائی مربوط بنائی جاتی تھی۔ CSG کے ارکان کو کابینہ کے وزرا تک بھی بآسانی رسائی حاصل ہوتی تھی اور وہ انہیں اعلیٰ ترین سطح پر کسی بھی تشویش سے آگاہ کر سکتے تھے۔
۲۰۰۱ء کے موسمِ بہار اور موسمِ گرما میں ہمیں دہشت گردی کے خطرے کی جو اطلاعات ملیں‘ ان سے یہ پتا نہیں چلتا کہ یہ دہشت گردی کب ہو گی‘ کہاں ہو گی اور کس انداز میں ہو گی؟ ہمیں جتنی بھی اطلاعات ملیں‘ وہ زیادہ تر امریکا سے باہر خصوصاً مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقا میں القاعدہ کی سرگرمیوں کے بارے میں تھیں۔ درحقیقت وہ معلومات جو اس حد تک واضح تھیں کہ ان پر کوئی کارروائی کی جاسکے‘ وہ بیرونِ ملک دہشت گردوں کی کارروائیوں کے بارے میں تھیں‘ اکثر یہ اطلاعات نہایت مبہم ہوتی تھیں۔ ہم نے موسمِ بہار اور موسمِ گرما میں دہشت گردوں کی گفتگو کی جو ریکارڈنگ حاصل کی‘ اس کا ایک نمونہ پیش کرتی ہوں۔
’’آئندہ ہفتوں میں ناقابلِ یقین بڑا ہنگامہ‘‘۔
’’مستقبل قریب میں حملے ہوں گے‘‘۔
یہ اطلاعات پریشان کن تھیں لیکن ان سے یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ یہ حملے کب ہوں گے‘ کہاں ہوں گے‘ کون کرے گا اور کس طریقے سے کرے گا۔
اس سلسلے میں ایک خفیہ اطلاع کا میں قدرے تفصیل سے ذکر کرنا چاہتی ہوں کیونکہ اس اطلاع کو غلط رنگ دیا گیا ہے۔ چھ اگست ۲۰۰۱ء کو صدر کو ایک بریفنگ دی گئی۔ اس میں ایک جواب اس سوال کے حوالے سے تھا‘ جو صدر نے امریکا کے اندر القاعدہ کے عزائم کے بارے میں اس سے پہلے اٹھایا تھا۔ بریفنگ میں سابقہ خفیہ اطلاعات کا جائزہ پیش کیا گیا تھا‘ جن میں سے اکثر کا تعلق ۱۹۹۰ء کے عشرے سے تھا اور جو امریکا کے اندر حملہ کرنے کے القاعدہ کے منصوبوں سے تعلق رکھتی تھیں۔ صدر کو دی جانے والی بریفنگ میں ۱۹۹۸ء کی ان اطلاعات کا حوالہ دیا گیا‘ جو غیرمصدقہ تھیں اور جن میں کہا گیا تھا کہ ممکن ہے دہشت گرد ایک امریکی ہوائی جہاز اغوا کریں اور اس کے ذریعے حکومت کو بلیک میل کریں کہ وہ ان دہشت گردوں کو رہا کر دے‘ جو ۱۹۹۳ء کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے جرم میں قید تھے۔ بریفنگ میں جو خفیہ اطلاع شامل تھی‘ وہ کسی مخصوص خطرے کی علامات نہیں تھی اور نہ ہی اس میں اس امکان کا کوئی ذکر کیا گیا تھا کہ دہشت گرد ہوائی جہازوں کو میزائلوں کے طور پر استعمال کریں گے۔
اس حقیقت کے باوجود کہ ہمیں جو اطلاعات مل رہی تھیں‘ ان میں سے اکثر امریکا سے باہر حملوں کے خطرے کے بارے میں تھیں‘ مجھے امریکا کے اندر ممکنہ حملوں کے بارے میں تشویش تھی۔ پانچ جولائی کو چیف آف اسٹاف اینڈی کارڈ اور میں نے ڈک کلارک سے ملاقات کی کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اندرونِ ملک ادارے بڑھتے ہوئے خطرے سے ہوشیار رہیں اور جوابی کارروائی کے لیے تیار رہیں۔ اسی دن بعد میں ڈک کلارک نے CSG‘ ہوا بازی کے وفاقی ادارے‘ امیگریشن اور شہریت کے ادارے‘ کسٹمز اور کوسٹ گارڈز کا خصوصی اجلاس بلایا۔ اس اجلاس میں ان اداروں سے کہا گیا کہ وہ سکیورٹی اور نگرانی کے لیے اضافی اقدامات کریں۔
بڑھتے ہوئے خطرے کے اس پورے دور میں ہم نے کئی محاذوں پر کام جاری رکھا تاکہ دہشت گردوں کے منصوبوں کی روک تھام کی جاسکے۔ مثال کے طور پر:
٭ محکمہ دفاع نے امریکی فوج کو کم از کم پانچ مرتبہ ہنگامی طور پر خبردار کیا کہ القاعدہ عنقریب حملہ کرنے کا کوئی منصوبہ بناسکتی ہے۔ اس کے علاوہ محکمہ دفاع نے بعض علاقوں میں فوج کو انتہائی چوکس کردیا۔
٭ محکمہ خارجہ نے کم از کم چار مرتبہ‘ دہشت گردوں کے حملوں کے خطرے کے بارے میں دنیا بھر میں امریکی شہریوں کو ہنگامی طور پر خبردار کیا اور بعض سفارت خانوں میں حفاظتی انتظامات زیادہ سخت کیے۔ اس کے علاوہ طالبان کو خبردار کیا کہ اگر امریکی مفادات پر القاعدہ نے حملہ کیا تو وہ اس کے ذمہ دار ہوں گے۔
٭ ایف بی آئی نے وفاقی‘ ریاستی اور مقامی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کم از کم تین مرتبہ خبردار کیا اور واضح طور پر بتایا کہ زیادہ تر اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گرد امریکا سے باہر حملہ کریں گے لیکن اندرونِ ملک حملوں کا امکان بھی رد نہیں کیا جاسکتا۔ ایف بی آئی نے اپنے تمام (۵۶) فیلڈ آفس کو ہدایت کی کہ وہ معلوم یا مشتبہ دہشت گردوں پر کڑی نظر رکھیں اور ان مخبروں سے رابطہ رکھیں‘ جن سے دہشت گردی کی کارروائیوں کے بارے میں اطلاع مل سکتی ہو۔
٭ ہوا بازی کے وفاقی ادارے نے تمام امریکی فضائی کمپنیوں اور ہوائی اڈوں کے سکیورٹی کے حکام کو جہازوں کے تحفظ کے بارے میں کم از کم پانچ مرتبہ مراسلے بھیجے‘ جن میں جہاز اغوا ہونے کے بارے میں بھی خبردار کیا گیا تھا۔
٭ سی آئی اے نے دنیا بھر میں دہشت گردی کے خطرے کی روک تھام کے لیے دن رات کام کیا۔ سی آئی اے کے حکام نے ۲۰ سے زیادہ ملکوں میں القاعدہ کی سرگرمیوں کے خاتمے کے لیے وسیع اقدامات کیے۔
٭ اس عرصہ کے دوران نائب صدر‘ سینٹرل انٹیلی جینس کے ڈائریکٹر ٹی نیٹ اور قومی سلامتی کونسل کے انسداد دہشت گردی کے حکام نے اعلیٰ غیرملکی حکام سے رابطہ کیا اور ان سے درخواست کی کہ وہ خفیہ اطلاعات کی فراہمی میں ہمارے ساتھ تعاون میں اضافہ کریں اور اگر ان کے پاس دہشت گردی کے خطرے کی کوئی اطلاع ہو تو فوراً ہمیں مطلع کریں۔
۲۰۰۱ء کے موسم گرما میں سکیورٹی کے لیے ہماری بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کا یہ ایک مختصر سا نمونہ تھا۔
جیسا کہ تحقیقاتی کمیشن کے سامنے دیے جانے والے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے‘ ہمارے پاس ایسی کوئی چاندی کی گولی نہیں تھی‘ جس سے ۹/۱۱ کے حملوں سے بچا سکتا تھا۔ لیکن طریقہ کار کی مختلف قسم کی رکاوٹوں کے باعث یہ کام مشکل ہو گیا تھا‘ کیونکہ ان رکاوٹوں کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جینس کے حکام کو معلومات جمع کرنے اور ایک دوسرے کو ان سے آگاہ کرنا دشوار تھا۔
یہ وہ حالات تھے‘ جن میں حملے ہوئے‘ سفاک دہشت گردوں کے ایک گروہ نے ہماری حکومت کو مفلوج کرنے‘ ہمارے مالیاتی نظام کو تباہ کرنے اور امریکا کے حوصلے پست کرنے کی کوشش کی۔ حملے والے دن ڈیوٹی پر مامور ایک سرکاری عہدیدار کی حیثیت سے مجھے جس غم و غصے سے گزارنا پڑا‘ وہ میں کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ اس دن امریکی عوام اور صدر نے جو حوصلے اور عزم کا مظاہرہ کیا‘ میں اسے بھی کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔
وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم سب آگے بڑھیں۔ تباہ کن واقعات کے بعد بعض اوقات جرات مندانہ اور جامع تبدیلیاں لانا‘ واحد ممکن راستہ رہ جانا ہے۔ یہ واقعات ہمارے اندر نیا اتفاقِ رائے پیدا کرتے ہیں۔ ایسا اتفاق رائے جو ہمیں پرانی سوچ اور پرانی روش سے آگے نکلنے کا حوصلہ دیتا ہے‘ جس طرح دوسری عالمی جنگ‘ ہمارے قومی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیوں اور قومی سلامتی کے قیام کا باعث بنی‘ اسی طرح ۱۱ ستمبر کے واقعات نے بھی ہمیں مادر وطن کے تحفظ کے لیے نئی راہیں سجھا دی ہیں۔
صدر بش بحران و تبدیلی کے اس دور میں ملک کی قیادت کر رہے ہیں۔ انہوں نے ملک کی حفاظت کے لیے ہماری کوششوں کو مربوط بنا دیا ہے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے داخلی سلامتی کا محکمہ قائم کیا ہے‘ دہشت گردی کے خطرے کے بارے میں اطلاعات یکجا کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے کے لیے ایک نیا سینٹر قائم کیا ہے‘ ایف بی آئی کو ایک ایسے ادارے میں تبدیل کرنے کی ہدایت کی ہے‘ جو دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے کام کرے گا۔ ان دفتری پابندیوں اور قانونی رکاوٹوں کو دور کیا ہے‘ جن کی وجہ سے اندرونِ ملک قانون نافذ کرنے والے اداروں اور بیرونِ ملک ہمارے انٹیلی جنس اداروں کے لیے مشکل ہوتا تھا کہ وہ اطلاعات کا تبادلہ کر سکیں۔ صدر نے کانگریس کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے حکام کو یو ایس اے پیٹریاٹ ایکٹ اور اس طرح کے دوسرے نئے قانونی اختیارات دے کر اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ دہشت گردوں کا سراغ لگا سکیں اور ان کا سدباب کر سکیں۔ صدر نے یہ سب کچھ اس طریقے سے کیا ہے کہ اس سے شہری آزادیوں کی امریکی اقدار پر کوئی آنچ نہیں آئی اور نہ ہی ایک آزاد معاشرے کی حیثیت سے ہمارا تشخص مجروح ہوا ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ صدر اس حقیقت سے بھی آگاہ ہیں کہ ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ مزید بنیادی اصلاحات کرنا ضروری ہیں۔ خفیہ معلومات جمع کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے کی ہماری صلاحیت میں پچھلے دو برسوں میں نمایاں بہتری آئی ہے لیکن ابھی اس صلاحیت میں مزید اضافہ کرنا ہو گا۔ صدر اور ان کی انتظامیہ کے ہم سب کارکن‘ نئے خیالات اور نئی سوچ کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ ہم امریکی عوام کے تحفظ کے لیے ہر ضروری قدم اٹھانے کو تیار ہیں اور ہم اس کمیشن کی سفارشات کا بھی خیرمقدم کریں گے۔
ہم حالتِ جنگ میں ہیں اور ہماری سلامتی کا دارومدار یہ جنگ جیتنے پر ہے۔ ہمیں اندرونِ ملک تمام اہداف کو دہشت گردوں سے بچانا ہوگا۔ قانون نافذ کرنے والے اور سکیورٹی کے کارکن اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے پوری فرض شناسی سے ہماری حفاظت کے لیے دن رات کام کر رہے ہیں۔ ہم ان کے ممنون احسان ہیں‘ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ وہ کارکن‘ جو ہماری حفاظت پر مامور ہیں‘ انہیں اپنے فرائض منصبی میں ۱۰۰ فیصد کامیاب ہونے کی ضرورت ہے جبکہ دہشت گردوں کو تباہی و بربادی پھیلانے کے لیے صرف ایک بار کامیاب ہونے کی ضرورت ہوتی ہے اور ہمیں یہ بھی علم ہے کہ دہشت گرد ہر وقت گھات لگائے بیٹھے ہیں۔
ہمیں مسئلے کی بنیاد پر توجہ دینا ہو گی۔ دنیا بھر میں دہشت گرد جہاں بھی رہتے ہوں‘ جہاں بھی چھپے ہوئے ہوں اور جہاں بھی منصوبہ بندی کر رہے ہوں‘ ہمیں انہیں ڈھونڈنا ہو گا اور شکست دینا ہو گی۔ ہم نے ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے حملے سے اگر کوئی سبق سیکھا ہے تو وہ یہ ہے کہ خطرے کا انتظار کرنے کے بجائے بروقت اس کا سدباب ضروری ہے۔
۱۱ ستمبر کے حملوں کے بعد ہماری قوم کے سامنے دو راستے تھے۔ یا تو ہم آسان راستہ اپناتے اور القاعدہ اور طالبان کے خلاف ایک محدود جنگ لڑتے۔ دوسرا راستہ یہ تھا کہ اس مسئلے کے خلاف ایک وسیع جنگ شروع کی جائے۔ پہلے راستے پر چلتے ہوئے ہم محدود نوعیت کی فتح حاصل کر سکتے تھے جبکہ دوسرا راستہ پائیدار امن اور بہتر دنیا کا راستہ تھا۔ صدر بش نے اسی راستے کا انتخاب کیا‘ جو جرأت مندی کا تقاضا کرتا تھا۔
صدر اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ ایک وسیع جنگ ہے۔ صدر کی قیادت میں امریکا اور اس کے اتحادی‘ دہشت گردوں کے منصوبے ناکام بنا رہے ہیں۔ انہیں مالی وسائل سے محروم کر رہے ہیں اور ایک ایک کر کے انہیں پکڑ رہے ہیں۔ دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ ہوتا جارہا ہے‘ دہشت گرد افغانستان میں اپنے بڑے ٹھکانے اور تربیت گاہوں سے محروم ہو چکے ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کی حکومتیں بھی پوری تندہی سے ان کا پیچھا کر رہی ہیں۔
ہم دہشت گردی اور تباہ کن ہتھیاروں کے درمیان پائے جانے والے تعلق کو توڑ رہے ہیں۔ ہم خوفناک ہتھیاروں کا پھیلائو اور انہیں دہشت گردوں کے ہاتھوں میں جانے سے روک رہے ہیں۔ ضرورت پڑنے پر ہم ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجا جانے والا خطرناک مواد بھی پکڑ لیتے ہیں۔ یہ عراق میں ہماری کارروائی کا ہی نتیجہ ہے کہ صدام حسین اپنے عوام یا پڑوسیوں کے خلاف اب کبھی تباہ کن ہتھیار استعمال نہیں کر سکے گا۔ ہم نے لیبیا کو بھی قائل کر لیا ہے کہ وہ تباہ کن ہتھیاروں کے پروگرام اور مواد سے دستبردار ہو جائے۔
ہم صرف دہشت گردوں سے ہی نبردآزما نہیں بلکہ ان اسباب کو دور کرنے پر بھی توجہ دے رہے ہیں جو دہشت گردوں کو جنم دیتے ہیں۔ ہم نے اپنے فوجیوں کی جرأت اور مہارت سے دنیا کی دو انتہائی سفاک حکومتوں کا خاتمہ کر دیا ہے‘ جو علاقے میں تشدد‘ خوف و ہراس اور عدم استحکام پھیلا رہی تھیں‘ آج ہم اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر عراق اور افغانستان میں آزاد معاشروں کے قیام کے لیے وہاں کے لوگوں کی مدد کر رہے ہیں‘ ہم مشرقِ وسطیٰ کے لوگوں کی بھی مدد کر رہے ہیں تاکہ وہاںعدم استحکام‘ تشدد اور نفرت کی جگہ آزادی اور جمہوریت کا بول بالا ہو۔ یہ کام مشکل اور پُرخطر ضرور ہے لیکن یہ اتنا اہم ہے کہ اس کے لیے خطرات مول لیے جاسکتے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں دہشت گردی کا خاتمہ اور آزادی اور جمہوریت کا فروغ خود ہماری قوم کے مفاد میں ہے اور اس سے مشرقِ وسطیٰ کے پورے علاقے میں روشن مستقبل اور اصلاحات کا دور شروع ہو جائے گا۔
۱۱ ستمبر کے حملوں کے بعد ہم نے وہی راستہ اپنایا‘ جو امریکا کے لیے مفید تھا۔ یہ واحد راستہ ہے‘ جو مستقبل میں ہماری قوم کی حفاظت کا ضامن ہو سکتا ہے۔
(بشکریہ: پندرہ روزہ ’’خبر و نظر‘‘ امریکی شعبۂ تعلقاتِ عامہ)
Leave a Reply