
جدید سائنس کی ترقی میں کمپیوٹر کے نظام کو سب سے اہم، حساس اور اعلیٰ سائنسی ترقی کا نام دیا جا سکتا ہے۔ اس نظام نے پورے عالم کو ایک سحر انگیز ڈور میں باندھ لیا ہے۔ اسی نظام کا ایک ادنیٰ کرشمہ انٹرنیٹ اور ای۔ میل ہے۔ انٹرنیٹ اور ای میل نظام سے پوری دنیا کے عوام و خواص کا اتنا ہی گہرا تعلق محسوس ہوتا ہے جس طرح جسم کا روح سے ہے۔ گویا یہ نظام زندگی کا ایک اہم حصہ ہی نہیں بلکہ طرزِ حیات بن چکا ہے۔
ہمارے ملک میں انٹرنیٹ کیفے کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ جس طرح عام چائے خانوں میں نچلے طبقے کے لوگوں کی بھیڑ ہوا کرتی ہے اس سے کہیں زیادہ انٹرنیٹ کیفے میں نوجوان لڑکے لڑکیوں کا جم غفیر دکھائی دیتا ہے۔ کل تک یہ نسل اپنے اسٹڈی روم تک محدود تھی اب سرِبازار چیٹنگ اور ڈیٹنگ میں مصروف نظر آتی ہے۔ اب اس کے ہاتھوں میں ’’قلم‘‘ نہیں ’’ماؤس‘‘ ہے۔ پوسٹ کارڈ پر اپنے قلم سے خط لکھنا شاید باعث تحقیر خیال کیا جانے لگا ہے۔ حتیٰ کہ ذوق کتب بینی بھی معدوم ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ موبائل فون نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی ہے۔ مشرقی تہذیب میں کسی کو خط لکھنا کل طرز امتیاز سمجھا جاتا تھا اب یہی عمل باعث تضحیک بنتا جا رہا ہے۔ ہماری تہذیب میں پوسٹ کارڈ پر لکھا ہوا خط گھر کے ہر فرد کے لیے خوشی اور طمانیت کا سبب بنتا تھا۔ روابط اور رشتے کے پاس و لحاظ کا تعلق کاغذ اور قلم سے بڑا گہرا تھا۔ گھر میں جمع شدہ یہی خطو ط تاریخی دستاویز کے حامل ہو جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مشرقی تہذیب کے تشکیل کردہ کتب خانوں میں لاکھوں مخطوطات آج بھی محفوظ ہیں، لیکن جدید سائنس کے ذریعہ تعمیر کردہ نئی تہذیب نے نئی نسل کی مٹی پلید کر دی ہے۔ اس کے ہاتھوں سے نہ صرف کاغذ اور قلم چھین لیے گئے ہیں بلکہ فکری اور بدنی اعتبار سے بھی اس کا اغواء ہو چکا ہے، اس کی عفّت و عصمت بھی معرض خطر میں پڑ گئی ہے۔ ملکی یا دفتری سطح پر کمپیوٹر نظام اور انٹرنیٹ کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن معاشرتی سطح پر اس نظام سے انسانی اخلاق و کردار پر جس طرح کے منفی اور غیر انسانی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اس کی نظیر انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ یہ نظام اب اپنے شباب پر ہے۔ جنسی بھوک، زیادہ سے زیادہ مال و دولت جمع کرنے کی ہوس اور انسانی خُلق میں درندگی کی صفت جیسے کڑوے کسیلے پھل دراصل موجودہ کمپیوٹر نظام کے نتائج قرار دیے جا سکتے ہیں۔
انٹرنیٹ کا گندا تالاب اب براہ راست ہمارے گھروں میں گرنے لگا ہے۔ اس کی پچاس ہزار سے زائد ویب سائٹس کو شاید مخرب اخلاق کہنا بھی درست نہ ہو گا کیونکہ اس کے ذریعہ انسانی سماج کی اخلاقیات کو تباہی و بربادی کی عمیق کھائی میں گرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ۲۰ ملین سے زائد افراد Pornsites کو استعمال کر رہے ہیں۔ اندھوں کے اس عالمی گاؤں میں ۷۰ فیصد سے زائد والدین اس سے بے خبر ہیں کہ ان کے بچے قابل اعتراض سائٹس سے مسلسل ’’مستفیض‘‘ ہو رہے ہیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں میں جو لوگ قابل اعتراض سائٹس سے دور بھاگتے ہیں، ان کو بھی اس میں ملوث کرنے کی مہم چھیڑ دی گئی ہے۔ پورنو گرافرز مختلف خوبصورت ناموں سے Users کے میل ایڈریس پر قابل اعتراض سائٹس کی معلومات بھیجتے رہتے ہیں۔ ان ناموں میں Disney’ Barbie اور ESPN جیسے برانڈ ناموں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ حقوق انسانی کے نام نہاد علمبرداران پر کیا یہ واضح نہیں ہے کہ پوری دنیا میں دو ملین سے زائد بچوں کا جنسی استحصال پورنو گرافی کے ذریعے کیا جا رہا ہے؟
واضح ہو کہ انٹرنیٹ اور ای میل کا نظام ایک خفیہ نظام ہے۔ یہ ایک ایسا طرز حیات ہے جو علیحدگی پسندی کو نشوونما دیتا ہے۔ کل تک محکمہ ڈاک کے ذریعہ گھر میں آنے والے کسی خط سے گھر کا ہر فرد واقف ہوتا تھا یا کم از کم مکتوب نگار کی شخصیت ضرور معلوم رہتی تھی جبکہ ای میل کے خفیہ نظام نے اب اس صورت حال کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ اب کسی بھی میل ایڈریس پر ۷۰ فیصد سے زائد Unsolicited emails بھیجے جا رہے ہیں جس میں شرمناک اور قابل اعتراض مواد کے علاوہ قمار بازی اور دھوکا و فریب دینے والے میل کی بھرمار ہوتی ہے۔ اگر کوئی ان میلوں کو دیکھنے کے لیے وقت صَرف کرے تو شاید صبح سے شام ہو جائے اور یہ سلسلہ ختم نہ ہو نیز ان بھیجے گئے میلوں میں سے اگر کوئی کسی میں الجھ یا پھنس گیا تو وہ ذہنی توازن بھی کھو سکتا ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے پھیلائے گئے ان خفیہ اور فریب میں مبتلا کرنے والے حسین جال کی سحر انگیزی اتنی دلفریب ہے کہ اسے نشہ آور اشیاء سے زیادہ خطرناک اور تباہ کن کہا جا سکتا ہے۔ اس نظام نے مشرقی علوم و فون اور ثقافت پر ایسی یلغار کی ہے کہ اس سے پیچھا چھڑانا تو دور کی بات کردار اور عزت و عصمت کو بھی تحفظ حاصل نہیں۔ بس اللہ ہی حافظ ہے۔
دنیا کی تمام حکومتیں چند برسوں سے اپنے طور پر انٹرنیٹ یوزرس (Users) کو تحفظ دینے کی عملی کوشش ضرور کر رہی ہیں لیکن یہ کوشش بھی تار عنکبوت سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ اس جال سے محفوظ رہنے کے لیے دراصل نئی نسل کو خود ہی کچھ کرنا ہو گا کیونکہ ان ہی کے ہاتھوں میں مستقبل کی زمام کار ہے۔ قائدانہ رول ادا کرنے کے لیے عزم مستحکم کے ساتھ ساتھ بے داغ شباب اور گہرے علوم و فنون سے متصف ہونا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں نئی نسل کے والدین اور سرپرستوں کو سنجیدگی اور حکمت کے ساتھ عملی کوشش کا آغاز کرنا چاہیے۔
(بشکریہ: سہ ماہی ’’اردو بک ریویو‘‘ نئی دہلی۔ جنوری تا مارچ ۲۰۰۸ء)
Leave a Reply