
بالکل واضح ہے کہ چین کی معیشت آنے والے برسوں میں سُست ہو جائے گی۔ گو ماہرینِ اقتصادیات میں ’’کتنی سست‘‘ اور ’’کتنے وقت میں‘‘ جیسے سوالات کے جوابات میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ گزشتہ سال تو شرح نمو پچھلے ۲۵ سال کی سب سے کم سطح ،یعنی ۴ء۷ فیصد پر آگئی تھی۔ ماہرین کے مطابق ابھی مزید کمی بھی ہوگی۔ گو کہ اکثر ممالک اسی شرح کے مطابق ترقی کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کو چین کی طرح لاکھوں لوگوں کے روزگار کا بندوبست اگلے ایک عشرے میں نہیں کرنا پڑتا، اسی لیے بعض ماہرین کو چین کے ممکنہ اقدامات کے بارے میں شُبہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترقی کے لیے ’پیداواری ایندھن ماڈل ‘مناسب نہیں ہے۔ ماہر اقتصادیات پال کرگمین نے ۲۰۱۳ء میں کہا تھا کہ چین اپنی دیوار ِعظیم سے ٹکرانے والا ہے۔ اس نقطہ نظر کے مطابق سوال یہ نہیں ہے کہ چینی معیشت کریش ہوگی یا نہیں، سوال یہ ہے کہ ایسا کب ہوگا۔
مگر ایسی سوچ گمراہ کن ہے۔ چین کسی ڈھلوان کے کنارے نہیں کھڑا ہے۔ وہ ترقی کے نئے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔ چینی صدر شی جن پنگ اس نئے مرحلے کو ’نیامعمول‘ کہتے ہیں۔ عالمی سرمایہ کاری فرم پمکو (PIMCO) کے سابق سی ای او نے ۲۰۰۸ء کے بدترین مالیاتی بحران کے بعد معاشی بحالی کے عمل کو اس اصطلاح کے ذریعے بیان کیا تھا۔ البتہ شی اس اصطلاح سے کچھ اور بتانا چاہ رہے ہیں۔اس اصطلاح سے ان کی مراد ایک ایسا اہم توازن ہے جس میں معیشت میں مزید تنوع پیدا ہو، ترقی پائیدار بنیادوں پر استوار ہو اور فوائد کی یکساں تقسیم ہو۔ ’نیا معمول‘ ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے لیکن بیجنگ اسے برقرار رکھنے کے لیے انتظام کر رہا ہے۔ باقی دنیا چینی باشندوں کے معیار زندگی میں اضافہ اور مادی بہتری پر اعتماد کرسکتی ہے۔ یہ چینی صدی کے اختتام کا آغاز نہیں، بلکہ یہ صرف اس کی شروعات کا اختتام ہے۔
پیروکار سے رہنما تک
چین کے ’نئے معمول‘ کو تاریخی تناظر میں دیکھنا ہوگا۔ جدید معیشت کے اصول کے مطابق چین کو ترقی پکڑنے والا ماڈل اختیار کرنا ہوگا ،جس میں اسے لمبی نیند کے بعد تیز رفتاری سے اقتصادی ترقی کرنا ہوگی۔ ۱۸۷۰ء سے ۱۹۱۳ء تک امریکا نے یہی ماڈل اختیار کیا۔ ۱۹۲۸ء سے ۱۹۳۹ء کے درمیان روس کی شرح نمو ۶ء۴ فیصد سے بڑھی۔ اس کے علاوہ ۱۹۵۰ء سے ۱۹۷۳ء کے درمیان جاپان کی معیشت میں ۳ء۹ فیصد کی اوسط سطح سے اضافہ ہوا۔ اس کے باوجود ان تمام ممالک کی ترقی کے ریکارڈ کو چین کے ۱۹۷۸ء سے ۲۰۱۱ء تک کے ریکارڈ کے قریب بھی نہیں کہا جا سکتا، جس میں ۳۳ سالوں میں شرح نمو میں تقریباً ۱۰ فیصد کا اضافہ ہے۔ اس پالیسی نے چینی معیشت کو نہ صرف مدد فراہم کی ہے بلکہ امریکا کو بھی اس معاملے میں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ قوتِ خرید کو ماہرین اقتصادیات بین الممالک موازنہ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ قوت خرید کے مطابق تو چین کا شرح نمو ۲۰۱۰ء اور ۲۰۱۴ء میں ہی امریکا سے بڑھ گیا تھا (۲۰۱۰ء میں میڈیسن پروجیکٹ کے مطابق ،۲۰۱۴ء میں عالمی بنک کے ایک پروگرام کے مطابق) ۔اگر آپ عالمی بنک کی رپورٹ کے مطابق دیکھیں تو ۲۰۱۹ء تک تو امریکا کی معیشت کو پیچھے چھوڑنا مشکل ہوگا۔ علاوہ ازیں چین کے شرح نمو کا اندازہ ہم امریکی ڈالر سے لگا رہے ہیں۔ حالانکہ دونوں معیشتوں کے موازنہ کے لیے بہتر طریقہ بجلی کی پیداوار کا ہے، کیونکہ اس کا تعین آسان ہے اور یہ جدیدیت کو ناپنے کا پیمانہ ہے۔ بغیر بجلی کے آپ نہ فیکٹری چلا سکتے ہیں نہ بلند و بالا عمارتیں بنا سکتے ہیں۔ ۱۹۰۰ء میں امریکا کی ۰۱ء۰ فیصد بجلی چین بنا رہا تھا۔ یہ عدد ۱۹۵۰ء میں بڑھ کر ۲ء۱ فیصداور ۲۰۰۰ء میں ۳۴ فیصد ہو گیا ۔ ۲۰۱۱ء میں امریکا سے زیادہ بجلی چین پیدا کر رہا تھا۔ توانائی کے شعبے میں چین کافی ترقی کر چکا ہے۔
ترقی کی وجہ سے چین کی آبادی کو فائدے تو بہت حاصل ہوئے مگر ابھی بھی بہت کام کیا جاسکتا ہے۔ چار گنا بڑی آبادی کے ساتھ چین اپنے سب سے بڑے اقتصادی مدِمقابل امریکا کی شرح نمو کے نصف تک بھی ۲۰۳۰ء تک ہی آسکتا ہے۔ البتہ باقی شعبوں میں بے انتہا پیش رفت ہوئی ہے۔ چین کی آبادی کی اوسط عمر (۷۶ سال) امریکا (۷۹ سال) کے قریب آچکی ہے۔ دونوں ممالک میں تعلیمی معیار کا موازنہ ہو سکتا ہے۔ Gini coeffiion کے مطابق اقتصادی عدم مساوات اب امریکا کے مقابلے میں کم ہو سکتی ہے۔ اس کے باوجود چین کی ترقی کا زیادہ فائدہ ساحلی علاقوں اور شہری آبادی میں رہنے والوں کو ہوا ہے۔ بیجنگ کواپنا ہدف یعنی ’’مشترکہ ترقی اور عام خوشحالی‘‘ حاصل کرنے کے لیے نہ صرف زیادہ پائیدار ترقی بلکہ وسائل کی منصفانہ تقسیم بھی کرنی ہوگی۔
سست مگر مستحکم
ایک حد تک چین کی تازہ ترین سست روی ناگزیر تھی۔ تین دہائیوں تک بے تحاشا ترقی کے بعد چین کے پاس بڑی معیشت ہے، جس میں معمولی اضافہ بھی مشکل کھڑی کر دیتا ہے۔ موجودہ شرح تبادلہ کے مطابق چین کا شرح نمو ۱۰ ٹریلین ڈالر ہے۔ جس میں اگلے سال تک اگرصرف ۱۰ فیصد بھی اضافہ ہو تو اس کا مطلب ہوگا ایک ٹریلین ڈالر کا اضافہ، یعنی سعودی عرب کے مجموعی شرح نمو سے بھی زیادہ۔ اس پیمانے پر ترقی کسی نکتہ پر غیر مستحکم بھی ہوسکتی ہے۔ ترقی توانائی کی لامحدود فراہمی مانگتی ہے اورتوانائی کے استعمال کے نتیجے میں ماحول کامزید آلودہ ہونا ناگزیر ہے۔ چین پہلے ہی امریکا اور یورپ سے زیادہ کاربن فضا میں چھوڑتا ہے اور ابھی اس میں اضافہ ہورہا ہے۔
ان سب باتوں کو دیکھتے ہوئے چین کے پاس پیچھے ہٹنے کے سواکوئی چارہ نہیں تھا۔ اگرچہ ۷ فیصد ترقی کی شرح دنیا کے بیشتر ممالک سے زیادہ ہے، مگر وہ چین کی بنیادی طلب (کوئلہ یا صاف پانی) میں کمی پیدا کرے گی۔ امریکا کے ساتھ ۲۰۱۴ء میں ہونے والے معاہدہ پر بھی عمل ہو سکے گا، جس کے مطابق چین کو اپنا کاربن کا اخراج ۲۰۳۰ء تک کم ترین سطح تک لانا ہے۔ نسبتاً سست ترقی اور توانائی کے محتاط استعمال سے چین اپنا یہ ہدف وقت سے پہلے ہی حاصل کرلے گا۔
’نئے معمول‘ کی طرف بیجنگ اپنا سفر شروع کر چکا ہے۔ نتائج بھی متاثر کن ہیں۔ ذرا؍ ۲۰۱۱ء میں منظور ہونے والے پانچ سالہ منصوبے پر نگاہ ڈالیے۔ حالانکہ اس وقت شرح ترقی کم ہو چکی ہے مگر اس کے باوجود اس کے پانچ اہداف نے معیشت کو مضبوط کیا اور چینیوں کی زندگی کو بہتر بنایا۔ پہلا ہدف شہری علاقوں میں ۴۵ ملین لوگوں کے روزگار کا بندوبست کرنا تھا۔ حکومت پہلے ہی ۵۰ لاکھ سے زیادہ نوکریوں کی جگہ پیدا کرچکی ہے، جبکہ اسی دوران امریکا اور یورپ میں بے روزگاری اپنے عروج پر رہی۔ دوسرا ہدف اقتصادی تنظیم نو تھی، جس کے لیے ۴۳ فیصد سروس سیکٹر کو ۲۰۱۰ء کے مقابلے میں ۲۰۱۴ء تک بڑھا کر ۴۸ فیصد کرنا تھا۔ حکومت نے معیشت کو متنوع بنا کر اور روزگار کے مواقع میں اضافہ کرکے اس ہدف کو بھی پورا کرلیا۔ تیسرا ہدف سائنسی تحقیق و ایجادات پرزور دینے کا تھا۔ حکومت نے اس ہدف کے حصول کے لیے ۲۰۱۰ء میں ۷۵ء۱ فیصد جی ڈی پی کو بڑھا کر ۲۰۱۵ء میں ۲۰ء۲ فیصد کر دیا ہے۔ اب شرح نمو کا ۲ء۲ فیصد حصہ مختص کرکے چین تحقیق اور سائنسی ترقی پر خرچ کرنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک بن گیا ہے۔ (سرمایہ کاری سے پہلے ہی منافع حاصل کیا جارہا ہے۔ ۲۰۱۲ء میں چین میں پہلا پیٹنٹ قانون منظور ہونے کے بعد اب چین میں امریکا سے ۵۰ فیصد زیادہ پیٹنٹ کی درخواستیں موصول ہو رہی ہیں۔) چوتھی ترجیح سماجی بہبود تھی، جس میں صحتِ عامہ کے انتظامات بھی شامل تھے۔ حکومت اب ملک کی ۹۵ فیصد آبادی کو یہ سہولیات دے رہی ہے۔ آخری بات توانائی کے محتاط استعمال پر زور دینے کی تھی۔ اس کے مطابق ۸ ماحولیاتی علامات کو درست بنانا تھا جیسا کہ نان فوسل (Non fossil) ایندھن کے ذریعے توانائی حاصل کرنا اور کاربن کے اخراج کے تناسب کو شرح نمو کے حساب سے کم کرنا ۔دریں اثنا چین نے شرح نمو میں ۷ فیصد کے حساب سے اضافہ اور ۲۰۲۰ء تک شرح نمو کو (۲۰۱۰ء کے مقابلے میں) دوگنا کرنے کے اہداف مقرر کیے ہیں۔ یہ اہداف چینی ترقی کی شرح کو دیکھتے ہوئے بے حد معمولی ہیں۔ مگر یہ دنیا کی دوسری ریاستی حکومتوں کیلیے واضح پیغام ہیں کہ ترقی کے لیے ضروری ہے کہ آپ مقدار کے بجائے معیار پر توجہ مرکوز رکھیں۔
گو کہ ابھی بھی شہری علاقوں کی آمدنی دیہی علاقوں سے دوگنی ہے مگر یہ فرق آئندہ کچھ سالوں میں کم ہو جائے گا، جس سے گھریلو کھپت اور شرح نمو میں مستقل اضافہ ہوگا۔ بے شک چین کی نسبتاً سست روی سے مشکلات پیش آئیں گی خصوصاً روزگار اور خوراک کے مسائل پیدا ہوں گے۔ مگر یہ چیلنج تو تعمیری تغیر کی قیمت ہیں۔ اور ملک کو آگے لے جانے کے لیے یہ دام کچھ زیادہ بھی نہیں۔
دنیا کا فائدہ
’نیا معمول‘ صرف چین پر ہی اپنے اثرات مرتب نہیں کرے گا۔ ملکی معیشت متوازن ہونے کی وجہ سے چین کا بیرون ملک کردار مزید بڑھ جائے گا۔ عالمی سطح پر پہلے ہی چین پیداواری اعتبارسے سب سے بڑا شراکت دار ہے اور اگر اس کی معیشت ۷ فیصد کے حساب سے بڑھتی رہی تو ممکنہ طور پر قوت خرید کے حساب سے چین بدستور عالمی پیداوار میں سب سے بڑا شراکت دار رہے گا۔ ۲۰۰۰ء سے ۲۰۱۳ء تک چین عالمی پیداوار کا ۲۳ فیصد پیدا کرتا تھا، امریکا عالمی پیداوار کا ۱۲ فیصد پیدا کرتا رہا۔میری اپنی پیشگوئی تو یہ ہے کہ یہ اعداد و شمار ۲۰۲۰ء سے پہلے ہی ۲۵ فیصد ہو جائیں گے، جس سے عالمی پیداوار میں بھی ۳ فیصد تک اضافہ ہوگا۔
تجارت میں تو چین پہلے ہی دنیا کی قیادت کر رہا ہے اور وہ اپنی پرواز اونچائی کی طرف جاری رکھے گا۔ آئی ایم ایف کے تجارتی اعدادو شمارکے ڈیٹابیس کے مطابق چین دنیا کے ۱۶۰ ممالک کے لیے تجارت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور اس کی تجارتی سرگرمیاں دنیا کی کُل پیداوار کے ۱۳ فیصد کے برابر ہیں۔ البتہ اگر چین گھریلو کھپت میں اضافہ اور برآمدات پر انحصار میں کمی کرنا چاہتا ہے تو اسے ٹیرف میں کمی ، بین الاقوامی سطح پر تجارت کرنے کے لیے چینی کمپنیوں کی حوصلہ افزائی ،نئے آزاد تجارتی علاقوں کی تعمیراور سروس سیکٹر میں تجارت بڑھا نے کے لیے اپنی سرحدیں کھولنی ہوں گی۔ بیرونی سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنے کے لیے بیجنگ کو بنیادی اصلاحات کرنی ہوں گی، جس کا مطلب رقم کی ترسیل پر عائد پابندی کو نرم کرنا، اوراس کے علاوہ ایک نام نہاد منفی فہرست بنانا ہوگا جو غیر ملکی سرمایہ کاروں کو معیشت کے کچھ مخصوص شعبہ جات کے علاوہ ہر جگہ کام کرنے دے۔
چین اب تخیلات(آئیڈیاز) کی دنیا میں بھی قدم رکھنے کی تیاری کر چکا ہے۔ چین دنیا کے اُن کچھ بڑے ممالک میں شامل ہو رہا ہے جہاں ذہین لوگ موجود ہیں۔ ۲۰۰۰ء سے ۲۰۱۲ء تک چینی تخلیق کاروں نے دنیا کی ۶۲ فیصد پیٹنٹ درخواستوں دی تھیں، جبکہ امریکیوں کا کردار ۲۵ فیصد رہا۔ اور جدت طرازی کے نئے عزم کے ساتھ چین اب مزید سخت قوانین کو متعارف کروائے گا۔ حکومت پیٹنٹ کا اندراج کرانے میں چینی کمپنیوں کی مدد کرے گی اور ترقی پذیر ممالک میں ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے حوصلہ افزائی کرے گی۔
چینی معیشت جتنی زیادہ مربوط ہوگی، اتنا ہی ایک عالمی استواری کے طور سے کام کر سکے گی، جیسا اس نے ۲۰۰۸ء کے مالیاتی بحران کے بعد بھی کیا تھا۔ یہ بیجنگ کاجارحانہ اور محرک پلان ہی تھا جس نے ممکنہ طور پر مالیاتی بہتری میں سب سے اہم کردار ادا کیا ۔ اپنی شرح ترقی کو ۹ فیصد سے زیادہ رکھتے ہوئے بیجنگ نے منفی ترقی کو مثبت کر دیا تھا۔ چین اسی کردار کے تحت نہ صرف کام کرتا رہے گا بلکہ وہ مزید غیر روایتی طریقوں سے ترقی پذیر ممالک کی مدد کرتا رہے گا۔ ان طریقوں کے مطابق عالمی مالیاتی اداروں جیسے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک وغیرہ کے مالیاتی نظم میں بنیادی اصلاحات لانا شامل ہے۔
جیسے جیسے چین اپنی اقتصادی طاقت کو بڑھاتا جائے گا، اس پر مزید عالمی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی آپڑے گا۔ بیجنگ یہ بات سمجھ چکا ہے کہ ملک کی ترقی کا اگلا مرحلہ باقی دنیاکے لیے اتنا ہی اہم ہے جتنا خود چین کے لیے۔ چین ایک متوازن، منظم عالمی آرڈر کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا، اس لیے وہ تجارت کی لبرلائزیشن، کاروباری رکاوٹوں، علاقائی تعاون اور ترقی پذیر ممالک کی زیادہ نمائندگی والی عالمی حکمرانی کی حمایت کرے گا۔ اس طرح ’نیا معمول‘ صرف اپنے ہی نہیں دوسروں کے لیے بھی مضبوط چین بنا رہا ہے۔
(ترجمہ: حمزہ قریشی)
Embracing China’s “New Normal”.
(“Foreign Affairs”. May-June 2015)
Leave a Reply