
توانائی اب بھی دنیا بھر میں اہم ترین اسٹریٹجک اثاثہ شمار کی جاتی ہے اور اسی کی بنیاد پر کسی بھی چھوٹی یا بڑی معیشت کے پنپنے اور ریاست کے تمام افراد کے خوش حالی سے ہم کنار ہونے کا مدار ہے۔ دنیا بھر میں جن ممالک نے پائیدار ترقی کو ہدف بنایا ہے وہ توانائی کے حصول کی راہ میں کوئی بھی رکاوٹ برداشت نہیں کرتے، اور اس حوالے سے ایسی پالیسیاں مرتب کرتے ہیں جو ان کی ترجیحات کو بالکل واضح کردیتی ہیں۔ انرجی سیکیورٹی اب بڑی اقوام کی پالیسیوں میں انتہائی اہم مقام رکھتی ہے۔ توانائی کے حصول کی راہ میں حائل دیواریں گرانے کی صلاحیت ہی کی بنیاد پر اب یہ طے کیا جاتا ہے کہ کوئی بھی ملک اپنے اہداف کا حصول یقینی بنانے کے حوالے سے کس قدر سنجیدہ اور پرعزم ہے۔ اگر ہم مستقبل کے حوالے سے کی جانے والی تیاریوں پر نظر دوڑائیں تو ترقی کے اہداف کا حصول یقینی بنانے کے حوالے سے انرجی سیکیورٹی کے شعبے میں دو اہم رجحانات ابھرتے ہوئے دکھائیں گے۔
پہلا رجحان تو یہ ہے کہ ایشیا میں چین اور بھارت جیسی تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشتوں کے لیے توانائی کی طلب بڑھتی جارہی ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ صنعتی، مالیاتی اور دیگر کاروباری سرگرمیوں کا مرکز مغرب سے ایشیا کی طرف کھسک رہا ہے۔ ۲۰۴۰ء تک توانائی کی عالمی طلب میں ۳۰ فیصد اضافہ ہوچکا ہوگا۔ اس میں چین کا حصہ ۸۵ فیصد اور بھارت کا ۳۰۰ فیصد ہوگا۔ اس مدت کے دوران دنیا بھر میں کوئلے کا استعمال بھی نقطۂ عروج کو چھو رہا ہوگا جبکہ قدرتی گیس کے استعمال میں کم و بیش ۵۰ فیصد اضافہ ہوچکا ہوگا۔ اس مدت کے دوران توانائی کے شعبے میں کم و بیش ۴۴ ہزار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جاچکی ہوگی۔ اس میں ۶۰ فیصد پٹرولیم اور گیس کے شعبے میں اور ۴۰ فیصد توانائی کے قابل تجدید یا غیر روایتی ذرائع کے شعبے میں ہوگی۔
تیزی سے ابھرتا ہوا دوسرا رجحان یہ ہے کہ دنیا بھر میں قدرتی ذرائع سے حاصل ہونے والی توانائی کے استعمال سے ماحول کو غیر معمولی نقصان پہنچ رہا ہے۔ آبی حیات متاثر ہو رہی ہے اور حیاتیاتی تنوع بھی ان منفی اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکا ہے۔ دنیا بھر میں پٹرولیم اور قدرتی گیس کے بڑھتے ہوئے استعمال سے ماحول کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ پیرس معاہدے کے تحت ان گیسوں کے اخراج کو ایک خاص حد میں رکھنا ہے جو ماحول کو شدید نقصان سے دوچار کرتی ہیں۔ عالمی درجۂ حرارت میں اضافے کو رواں صدی کے آخر تک ۲ سیلسیس سے کم رکھنا ہے۔
دنیا بھر میں ترقی پذیر ممالک ماحول کو نقصان پہنچانے والے مادوں کا استعمال محدود کرنے کے عالمی معاہدوں کو اپنی راہ میں دیوار سمجھنے کے بجائے حالات سے سمجھوتہ کرتے ہوئے توانائی کے حصول کے ایسے ذرائع اپنا رہے ہیں، جو ماحول دوست بھی ہوں اور دوسروں پر انحصار بھی کم ہو۔ بیشتر ترقی پذیر توانائی کے معاملے میں مقامی ذرائع کو ترجیح دینے کی راہ پر گامزن ہیں، کیونکہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اس معاملے میں بیرونی ذرائع پر مکمل انحصار ان کے لیے شدید مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔ اس معاملے میں چین اور بھارت کی مثال بہت واضح ہے۔ انہوں نے اپنے آپ کو بہت تیزی سے کلین انرجی سپر پاورز میں تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔
انرجی سیکیورٹی کے حوالے سے تیزی سے ابھرنے والے یہ دو رجحانات توانائی سے متعلق سفارت کاری، تجارت، سرمایہ کاری اور ترقی کا رخ متعین کرنے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ آنے والے عشروں میں توانائی کے حوالے سے ایشیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں اور مشرق وسطیٰ کے قدرتی وسائل سے مالا مال ممالک کے درمیان تعلقات مزید مستحکم ہوں گے۔ چین اور بھارت کو زیادہ توانائی درکار ہوگی اور مشرق وسطیٰ ان کے لیے بہترین سپلائی لائن ثابت ہوسکتی ہے۔ دنیا بھر میں تیل اور گیس کے سب سے زیادہ ذخائر مشرق وسطیٰ میں مرتکز ہیں اور یہ خطہ تیل اور گیس کی برآمد کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، تاہم یہ حقیقت کسی طور نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ مشرق وسطیٰ میں بھی توانائی کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں برآمدات متاثر ہوں گی۔ برآمدات کے متاثر ہونے سے پورا خطہ شدید متاثر ہوگا کیونکہ توانائی کی برآمد ہی تو اب تک ان ممالک کی خوش حالی کا مدار رہا ہے۔ توانائی کی برآمد میں کمی سے مالیاتی مسائل پیدا ہوں گے، معیشتیں سکڑیں گے، بیروزگاری کی شرح بلند ہوگی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ افراطِ زر میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگا۔ یہ تمام تبدیلیاں پورے خطے کو عدم توازن سے دوچار کریں گی۔ اب اس خطے میں بھی شمسی توانائی اور قابل تجدید توانائی کے دیگر ذرائع سے استفادے کا تصّور تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔ ایشیا کی ابھرتی ہوئی معیشتیں توانائی کے معاملے میں مشرق وسطیٰ پر زیادہ انحصار کر رہی ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ وہ کلین انرجی کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے بھی مشرق وسطیٰ سے شراکت داری کر رہی ہیں تاکہ ماحول کو غیر معمولی نقصان سے بچایا جاسکے۔ شمسی توانائی اور پن بجلی کے شعبے میں سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے۔
توانائی کے پائیدار ذرائع اور نئی شاہراہِ ریشم
نیا انرجی سیکیورٹی لینڈ اسکیپ مشرق وسطیٰ کی طرف چین کے بڑھتے ہوئے جھکاؤ سے عبارت ہے۔ چین میں کھلے بازار کی معیشت کو اپنانے کی اس سال سلور جوبلی منائی جارہی ہے۔ کھلے بازار کی معیشت کے اصول اپنانے سے چین محض ڈھائی عشروں میں حیران کن تیزی سے ترقی کرتے ہوئے اب دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہونے کی راہ پر گامزن ہے۔ ۲۰۰۴ء سے ۲۰۱۴ء کے دوران چین اور مشرق وسطیٰ کے درمیان تجارت میں ۶۰۰ فیصد سے زائد اضافہ ہوا۔ اس وقت چین کی تیل کی نصف سے زائد درآمدات کا تعلق مشرق وسطیٰ سے ہے۔ مصر، عراق، عمان، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے چین کی تجارت میں ڈرامائی سطح پر اضافہ ہوا ہے۔ چین نے کلین انرجی لیڈر کی حیثیت سے بھی اپنی پوزیشن کو خوب منوایا ہے۔ اس نے اپنے ہاں بھی کلین انرجی کو فروغ دیا ہے اور اب اس کی متعدد کمپنیاں مشرق وسطیٰ میں کلین انرجی کو تیزی سے فروغ دینے کی راہ پر گامزن ہیں۔ اس حوالے سے سرمایہ کاری اور شراکت داری بڑھتی جارہی ہے۔
تیل اور گیس کے شعبے میں بڑھتے ہوئے لین دین کے علاوہ کلین انرجی کے شعبے میں بھی اشتراکِ عمل اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ۲۰۱۶ء میں چین کی اسٹیٹ کونسل نے آنے والے عشروں کے دوران تجارت، سرمایہ کاری اور شراکت داری کے حوالے سے جامع اور ہمہ جہت عرب پالیسی پیپر جاری کیا۔ چین نے اس معاملے میں تین مراحل پر مبنی سوچ اپنائی ہے۔ پہلے مرحلے میں تو مشرق وسطیٰ سے تیل اور گیس کا حصول یقینی بنائے رکھنے پر توجہ دی گئی ہے۔ دوسرے مرحلے میں اس بات کو یقینی بنانے پر زور دیا گیا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے جن ممالک سے تیل اور گیس درآمد کی جانی ہے اُن کا بنیادی ڈھانچا مضبوط رہے، تاکہ وہ توانائی کی برآمدات میں اضافے کی پوزیشن میں رہیں اور تیسرے مرحلے میں ان ممالک سے کلین انرجی کے شعبے میں اشتراکِ عمل کیا جائے۔ اس حوالے سے سرمایہ اور شراکت داری کو اولیت دی گئی ہے۔ انرجی سیکورٹی کے حوالے سے عالمی سطح پر تیزی سے بدلتی ہوئی صورتِ حال کے تناظر میں چین کا عرب پالیسی پیپر خاصا مثبت اور معنی خیز ہے کیونکہ اس پر عمل کے نتیجے میں چین اور مشرق وسطیٰ کے درمیان تعلقات مزید مستحکم ہوں گے اور چین کو توانائی کے حصول میں کسی غیر ضروری الجھن کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
چین اور مشرق وسطیٰ کے درمیان اشتراکِ عمل کی نئی حکمت عملی کو رو بہ عمل لانے میں چین کا ایک ہزار ارب ڈالر کا ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ کلیدی کردار ادا کرے گا، کیونکہ نئی شاہراہِ ریشم قائم کرنے کے تصور کے ساتھ منظر عام پر لائے جانے والے اس منصوبے کے تحت ۶۰ سے زائد ممالک میں بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ توانائی کے شعبے کو بھی مضبوط بنایا جائے گا۔ اس منصوبے کے تحت مشرق وسطیٰ کے ان ممالک میں بنیادی ڈھانچا مضبوط کیا جائے گا، جو صدیوں سے یورپ، ایشیا اور افریقا کے درمیان تجارتی راستوں، دو راہوں اور چوراہوں کا کردار ادا کرتے آئے ہیں۔ ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے لیے ۴۰؍ ارب ڈالر کا نیو سلک روڈ فنڈ مختص کیا جائے گا۔ ایشین انفرا اسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک ۱۰۰؍ ارب ڈالر فراہم کرے گا اور چین کے ۷۵۰؍ ارب ڈالر کے خودمختار انویسٹمنٹ فنڈ بھی دستیاب ہوں گے۔ علاوہ ازیں چین کا ۳ ہزار ارب ڈالر سے زیادہ زر مبادلہ بھی بیک اپ کے طور پر موجود ہوگا۔
ون بیلٹ ون روڈ جدید تاریخ کا ایک شاندار منصوبہ ہے جس میں کئی خطرات بھی پوشیدہ ہیں۔ اس منصوبے سے مشرق وسطیٰ میں توانائی کے روایتی ذرائع تیزی سے تبدیل ہوں گے۔ بنیادی ڈھانچے میں تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ سرمایہ کاری کا ڈھانچا تبدیل ہوگا، بالخصوص قدرتی گیس کے حوالے سے۔ چین اور وسطی ایشیا کے درمیان ۱۰؍ارب ڈالر کی لاگت سے ڈالی جانے والی قدرتی گیس کی پائپ لائن، پاکستان میں گوادر سے چین تک ۴۶؍ارب ڈالر کا ایل این جی ٹرمینل اور پائپ لائن کا منصوبہ، سعودی عرب میں ریفائنری کا منصوبہ اور مصر اور متحدہ عرب امارات میں گیس سے چلنے والے بجلی گھروں کے چند منصوبے اس عظیم منصوبے کا حصہ ہیں۔
یہ سب کچھ اگر شفاف بنیادوں پر ہوگا تو بہتر نتائج برآمد ہوں گے۔ متعلقہ خطے اور ممالک چاہتے ہیں کہ انہیں بہتر انداز سے شراکت دار بنایا جائے۔ اس حوالے سے زیادہ شفاف معاہدوں کے لیے آواز اٹھائی جاتی رہی ہے۔ چین اور دیگر قوتیں بھی چاہتی ہیں کہ معاملات زیادہ سے زیادہ شفاف رہیں تاکہ غیر ضروری الجھنیں پیدا نہ ہوں۔ متعلقہ ممالک میں بہت سے معاشرتی گروہ مختلف حوالوں سے تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ ایک بڑی شکایت یہ ہے کہ اتنے بڑے ترقیاتی منصوبوں میں سب کو برابر کا حصہ نہیں ملے گا۔ یعنی کئی علاقے قربانیاں تو بڑے پیمانے پر دیں گے مگر زیادہ فوائد حاصل کرنے میں ناکام رہیں گے۔ اس نوع کے تمام خدشات دور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ کئی منصوبے ایسے ہیں جن سے زہریلے مادوں کا ماحول میں داخل ہونا عین ممکن ہے۔ اس حوالے سے ظاہر کیے جانے والے تحفظات دور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
مشرق وسطیٰ کا شمار پانی کی شدید ترین قلت سے دوچار خطوں میں ہوتا ہے اور قابل کاشت اراضی بھی اس خطے میں بہت کم ہے۔ ایسے میں ون بیلٹ ون روڈ منصوبوں میں مشرق وسطیٰ کو معاشرتی اور ماحولیاتی اعتبار سے زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے پر توجہ دی جانی چاہیے۔ دی نیو سلک روڈ فنڈ نے اب تک معاشرت اور ماحول سے متعلق معیارات جاری نہیں کیے ہیں تاہم دی ایشین انفرا اسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک نے ماحول اور معاشرت سے متعلق اپنے فریم ورک کی تیاری کے لیے عوامی سطح پر بحث و تمحیص کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ اس پالیسی کے تحت بینک اپنے سرمایہ کاری منصوبوں کو پروان چڑھانے کے عمل کے دوران پہلے سے اور مفت مشاورت کا اہتمام کرے گا۔ مقامی شراکت داروں اور بین الاقوامی اداروں کے اشتراکِ عمل سے تیل اور گیس کے شعبے میں کی جانے والی سرمایہ کاری سے ماحول کے لیے پیدا ہونے والے منفی اثرات کو کنٹرول کرنے میں غیر معمولی حد تک مدد مل سکتی ہے۔
اس تبدیل ہوتی ہوئی صورت حال کا ایک واضح اثر تو یہ ہے کہ اب مشرق وسطیٰ میں بجلی کا استعمال غیر معمولی حد تک بڑھ چکا ہے۔ برآمد کے ذریعے آمدن کا ذریعہ بننے والے وسائل کو زیادہ سے زیادہ صرف کیا جارہا ہے۔ اگر یہ رجحان جاری رہا تو مشرق وسطیٰ کے اربوں ڈالر کے قدرتی وسائل بڑی حد تک ضائع ہوجائیں گے۔ یہی سبب ہے کہ اب توانائی کے متبادل یا غیر روایتی طریقے پروان چڑھانے پر بھی زور دیا جارہا ہے۔ خطے کے کئی ممالک توانائی کے پائیدار ذرائع تلاش کرنے کی راہ پر تیزی سے گامزن ہیں۔
چین نے توانائی کے پائیدار ذرائع کو پروان چڑھانے کے حوالے سے غیر معمولی ترقی کی ہے۔ مشرق وسطیٰ کے بہت سے ممالک ون بیلٹ ون روڈ اور دیگر منصوبوں کی چھتری تلے چین کی رہنمائی میں توانائی کے پائیدار ذرائع کی طرف تیزی سے بڑھ سکتے ہیں۔ ۲۰۰۳ء سے ۲۰۱۳ء کے دوران چین نے سولر ٹیکنالوجی کی عالمی برآمدات میں ۱۷۴؍ ارب ڈالر حاصل کیے، جو مجموعی برآمدات کا ۴۴ فیصد ہے۔ چین نے ۲۰۱۵ء میں دی گرین ایکولوجیکل سلک روڈ انویسٹمنٹ فنڈ قائم کیا، جو توانائی کے پائیدار ذرائع کو فروغ دینے میں مرکزی کردار ادا کر رہا ہے۔ چند چینی اداروں اور اقوام متحدہ نے مل کر اس فنڈ میں ۴؍ ارب ۸۰ کروڑ ڈالر کی بنیادی سرمایہ کاری کی ہے۔
ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے تحت توانائی کے غیر روایتی ذرائع میں غیر معمولی سرمایہ کاری اور پیش رفت کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے ذہن سازی بھی ناگزیر ہے۔ مشرق وسطٰی کے بڑے ممالک کو اس حوالے سے راضی کرنا لازم ہے تاکہ توانائی کے روایتی ذرائع میں سرمایہ کاری کا گراف نیچے لایا جاسکے۔ اس حوالے سے ایشیا، افریقا اور یورپ کو بھرپور اشتراکِ عمل کرنا ہوگا۔ مصر نے حال ہی میں نیو سوئز کینال زون قائم کیا ہے، جس کا بنیادی مقصد مقامی آبادی کو بہتر معاشی امکانات سے ہم کنار کرنا ہے۔ چین اور مصر کے درمیان تجارت کا حجم بڑھتا ہی جارہا ہے۔ دونوں ممالک مختلف شعبوں میں قریب آرہے ہیں۔ چین نے مصر میں توانائی کے غیر روایتی ذرائع کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ تعاون کے نئے شعبے تلاش کیے جارہے ہیں۔ دونوں ممالک نے مختلف شعبوں میں تعاون کے ۱۵؍ارب ڈالر کے منصوبوں پر دستخط کیے ہیں، جن میں نیو سوئز کینال زون میں سرمایہ کاری کا حجم ۴۰ کروڑ ڈالر سے بڑھاکر ڈھائی ارب ڈالر تک لے جانا ہے۔ چین سوئز کینال کے علاقے میں ۵۰ میگا واٹ کا سولر پاور پلانٹ لگانے میں بھی مصر کی مدد کرے گا۔
سعودی عرب بھی چین کا تزویراتی شراکت دار بننے کو تیار ہے۔ تیل کے غیر معمولی ذخائر اور برآمدات کے حوالے سے اہم ملک ہونے کے ساتھ ساتھ سعودی اپنے وژن ۲۰۳۰ء کے حوالے سے بھی اہم ہے۔ سعودی عرب میں سیاسی اور معاشی سطح پر بہت کچھ تبدیل ہو رہا ہے۔ نئی سعودی قیادت نے ملک کو بہت حد تک بدل ڈالنے کی تیاری کی ہے۔ اس حوالے سے جامع منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ ایسے میں چین اور سعودی عرب کا قریب آنا فطری امر ہے۔ سعودی عرب بھی توانائی کے پائیدار ذرائع اپنانے کی راہ پر گامزن ہے۔ اس حوالے سے وہ اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ عوام کو کلین انرجی کے حوالے سے باشعور بنانے کی ضرورت باقی ہے۔ عوام کو سمجھانا ہوگا کہ توانائی کے روایتی ذرائع کا بڑھتا ہوا استعمال ماحول کو شدید نقصان سے دوچار کر رہا ہے۔
چین سے اشتراکِ عمل کے معاملے میں متحدہ عرب امارات بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ متحدہ عرب امارات نے اپنے نئے طویل المیعاد منصوبے میں ۲۰۳۰ء تک توانائی کے شعبے میں کلین انرجی کا حصہ ۳۰ فیصد تک بڑھانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ متحدہ عرب امارات نے ابوظہبی کے سولر پاور پراجیکٹ میں ۴ء۲ امریکی سینٹ فی کلو واٹ کا ٹیرف مقرر کرکے عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے۔ یہ منصوبہ ۲۰۱۹ء میں مکمل ہوگا۔ ۸۰ کروڑ ڈالر کی لاگت سے قائم کیا جانے والا یہ ایک ہزار میگا واٹ کا سولر پاور پراجیکٹ دنیا کا سب سے بڑا سولر پاور پراجیکٹ ہوگا۔ متحدہ عرب امارات کی قیادت دبئی میں ورلڈ گرین اکانومی آرگنائزیشن قائم کرنے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے چین میں پہلے ہی بہت کچھ کیا جاچکا ہے۔ گرین اکانومی کا خواب شرمندۂ تعبیر کرنے کے حوالے سے چین نے عالمی سطح پر اہم کردار ادا کیا ہے اور اب بھی وہی قائدانہ حیثیت کا مالک ہے۔
ایشین انفرا اسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک کی مدد سے جنوب تا جنوب درجنوں ممالک کی معیشت میں انقلاب لانے کی تیاری کی جارہی ہے۔ توانائی کے روایتی ذرائع پر انحصار گھٹاکر پائیدار ذرائع پر انحصار میں اضافہ کرکے معاملات کو بہتر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس سے پورے خطے میں معاشی، سماجی اور ماحولی اعتبار سے خوشگوار تبدیلیاں رونما ہوں گی۔
چین، جاپان، جنوبی کوریا، ملائیشیا اور دیگر ایشیائی ممالک کی تیز رفتار ترقی اب تک ایک خاص علاقے تک محدود تھی۔ اب چین باہر نکلا ہے تو مشرق وسطیٰ، شمالی افریقا اور دیگر خطوں کے لیے بھی پنپنے کے بہتر مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ مشرق وسطٰی ایک طویل مدت سے بحرانوں کا شکار ہے۔ وقت آگیا ہے کہ اب اسے اس کیفیت سے نکالا جائے۔ شفافیت، بہتر حکمرانی، انصاف اور جوابدہی کو پروان چڑھاکر بہت کچھ درست کیا جاسکتا ہے۔ ترقی میں عوام کو بھی حصہ ملنا چاہیے۔ افلاس کی سطح نیچے لانا بے حد ضروری ہے۔
ابھرتے ہوئے ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے درمیان ابھرتی اور پنپتی ہوئی شراکت داری اگر بہت سے مواقع فراہم کر رہی ہے تو بہت سے چیلنج بھی درپیش ہوں گے۔ ایشیائی طاقتیں اپنی کھوئی ہوئی عظمت بحال کرنے کی راہ پر گامزن ہیں۔ ایسے میں لازم ہے کہ سیاسی بصیرت ہر گام موجود اور فعال ہو۔ تیزی سے ابھرتے ہوئے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے سیاسی بصیرت کا ہونا لازم ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو بہت کچھ داؤ پر لگ جائے گا۔ جو منظر نامہ ابھر رہا ہے اس میں غیر معمولی معاشی ثمرات ناممکن نہیں مگر یہ سب کچھ کسی کام کا نہ ہوگا اگر غریبوں کو کچھ نہ ملا۔ لازم ہے کہ عام آدمی کے مفاد کا پورا خیال رکھا جائے اور اسے وہ سب کچھ دیا جائے جو بہتر زندگی کے لیے ناگزیر ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Emerging Asia and the Middle East: The New Energy Silk Road”. (“mei.edu”. Oct 3, 2017)
Leave a Reply