
ایسا لگتا ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے بلوچستان پر کنٹرول کے لیے بحری حملے کی تیاری کرلی ہے۔ پاکستان کو اس حوالے سے مکمل ہوشیار رہنا ہوگا۔ اسے اپنی تیاری کا گراف بلند کرنے کی ضرورت ہے۔
امریکا اور اس کے اتحادیوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا بہانہ بناکر افغانستان میں مستقل تفریق و تقسیم کی بنیاد رکھی۔ غیر پشتون افراد کو پشتونوں کے خلاف صف آرا کیا گیا۔ نسلی اور فرقہ وارانہ بنیاد پر نفرت کی بنیاد گہری کردی گئی۔ اس پالیسی کا بنیادی مقصد پاکستان کے لیے گنجائش کم کرکے بھارت کے لیے جگہ بنانا تھا۔ ساتھ ہی یہ امر بھی یقینی بنانا تھا کہ بھارت کے لیے مشرقی سرحد پر دباؤ میں کمی آئے۔
پاکستان کی افواج کو اپنے ہی قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف میدان میں اترنے پر مجبور کردیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ اب پاکستان پر افغانستان کے سرحدی علاقے سے وہ قبائلی حملے کر رہے ہیں جو دراصل پاکستانی علاقوں سے جاکر وہاں آباد ہوگئے ہیں۔ امریکا نے مختلف گروپوں کی بھرپور امداد کا سلسلہ جاری رکھا ہے تاکہ وہ آپس میں لڑتے رہیں اور پاکستان کے لیے مشکلات دو چند ہوتی رہیں۔ پاکستانی فوج کو مغربی سرحدوں پر الجھاکر بھارت پر دباؤ کم کیا گیا ہے۔ مگر شاید یہ کافی نہ تھا۔ اب بلوچستان میں حالات خراب کرکے پاکستان کی مشکلات میں مزید اضافہ کیا جارہا ہے۔ کراچی اور دیگر بڑے شہروں کے حالات خراب کیے جارہے ہیں تاکہ معیشت کی خرابی میں رہی سہی کسر بھی پوری ہو جائے۔
امریکا اور اس کے اتحادیوں نے پہلے تو پرویز مشرف سے خوب کام لیا۔ جب وہ گئے تو نا اہل اور کرپٹ سیاست دانوں پر مشتمل حکومت قائم کرائی گئی تاکہ ریاستی اداروں کے خاتمے کی راہ بھرپور طور پر ہموار کی جاسکے۔ دہری شہریت رکھنے والے مفاد پرست اور ملک دشمن عناصر کو نمایاں حیثیتوں میں قوم پر مسلط کیا گیا ہے۔ ان کٹھ پتلیوں نے دشمنوں کے خلاف صف آرا ہونے کے بجائے عدلیہ کے خلاف مورچہ لگالیا ہے۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے قانون سازوں نے ان کے مسائل حل کرنے کے بجائے ان کے وسائل ہضم کر جانے کی قسم کھائی ہے۔ پانچ سالہ مدت ختم ہونے سے پہلے جس قدر بھی بٹورا جاسکتا ہے، بٹورا جا رہا ہے۔
نام نہاد فرینڈز آف پاکستان نے اب تک پاکستان میں کئی اہم مقامات پر حملوں کی راہ ہموار کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ جنرل ہیڈ کوارٹرز، پاکستان آرڈننس فیکٹری (واہ)، مہران بیس (کراچی)، کامرہ ایئر بیس اور دیگر حساس مقامات پر حملوں کا بنیادی مقصد عوام کی نظر میں فورسز کا مقام گرانا اور یہ تاثر دینا ہے کہ فورسز اپنی تنصیبات کی بھی حفاظت نہیں کرسکتیں۔ قومی سلامتی کے ضامن اداروں پر نفسیاتی دباؤ بڑھانے کے ساتھ ساتھ ساتھ عالمی برادری کو یہ پیغام دینے کی بھی کوشش کی گئی کہ پاکستان کی مسلح افواج ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کرنے کی اہل نہیں۔ اس کو جواز بناکر بھی پاکستان پر حملہ کیا جاسکتا ہے۔
ایبٹ آباد آپریشن پاکستانی حکام کو اعتماد میں لیے بغیر اور ان کی مدد کے بغیر ممکن ہی نہ تھا۔ سی آئی اے کے ایجنٹس نے پاکستان کے اہم ترین اداروں کو کمزور کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ہے۔ ریمنڈ ڈیوس جیسے سیکڑوں ایجنٹس کی مدد سے سی آئی اے نے پاکستان میں ایک ایسا خفیہ نظام تیار کیا ہے، جس کا بنیادی مقصد قومی سلامتی کے ضامن اداروں کی حیثیت کو کمزور کرنا اور متبادل سکیورٹی سسٹم لانا ہے۔ آپریشن جیرونیمو بھی اِسی سلسلے کی کڑی تھا۔ میمو کیس سے متعلق کمیشن کی رپورٹ سے یہ واضح ہوچکا ہے کہ امریکا پاکستان میں سکیورٹی کا اپنا نظام لانے کی تیاریاں کر رہا ہے اور اس کے لیے پاکستانی افواج کو کمزور کرنا اس کی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔ ایڈمرل مائیک مولن نے شدید بدحواسی میں حقانی نیٹ ورک کو آئی ایس آئی کا رفیق قرار دے کر دراصل شمالی وزیرستان پر حملوں کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی تھی۔
آپریشن جیرونیمو میں ناکامی سے امریکا کو خاصا نقصان پہنچا۔ پاکستان کے سکیورٹی اپرینٹس میں غیر معمولی تبدیلیوں کی راہ ہموار کرنے کے حوالے سے امریکا کی محنت بیکار گئی۔ دوطرفہ تعلقات میں سرد مہری در حقیقت صحیح معنوں میں اس وقت شروع ہوگئی جب ۲۶ نومبر ۲۰۱۱ء کو سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ کیا گیا۔ یہ بھارت کے لیے بھرپور مسرت کا موقع تھا۔ اس نے پوری کوشش کی کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات تیزی سے معمول پر نہ آئیں۔ امریکی ایوان ہائے اقتدار میں بھارتی لابی نے پوری کوشش کی کہ پاک امریکا تعلقات میں کشیدگی برقرار رہے۔ اس نے دباؤ ڈال کر پاکستان کی مغربی سرحدوں پر خرابی میں اضافہ کیا تاکہ مشرقی سرحدوں پر دباؤ میں کمی لائی جاسکے۔
بلوچستان میں گوادر پورٹ کا منصوبہ امریکا اور بھارت کو ایک آنکھ نہ بھایا۔ صوبے کے حالات خراب کرکے پہلے گوادر کی بندر گاہ کو ناکامی سے دوچار کیا گیا۔ اس کے بعد بھارت نے پورے بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریک کو ہوا دے کر پاکستان پر دباؤ بڑھایا۔ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ ختم کرانے کے حوالے سے امریکا اور بھارت کی تمام کوششیں اب تک لاحاصل رہی ہیں۔ پاکستان نے صورت حال کی نزاکت دیکھتے ہوئے چین کے ساتھ ساتھ روس سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی ہے تو اسے بھی ناکام بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کو ماہ رواں کے اوائل میں پاکستان کا دو روزہ دورہ کرنا تھا۔ بھارتی لابی نے کسی نہ کسی طرح یہ دورہ منسوخ کرایا۔ امریکا اور بھارت کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ کہیں پاکستان، چین، روس اور ایران مل کر بلاک نہ بنالیں۔
اگر امریکا کو پاکستان سے تعلقات بہتر رکھنا تھے تو نرمی اپنانی چاہیے تھے۔ مگر عام مشاہدہ یہ ہے کہ دباؤ بڑھایا ہی جاتا رہا ہے۔ بلوچستان کے حالات بگاڑنے کے لیے سی آئی اے، برطانوی خفیہ ادارے ایم آئی سکس اور بھارتی خفیہ ادارے را نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ سی آئی اے نے بلوچستان لبریشن آرمی، بلوچستان لبریشن فرنٹ اور بلوچ ری پبلکن آرمی کو بھرپور فنڈ، ہتھیار اور آلات دیے ہیں۔ بلوچستان میں بھرپور خانہ جنگی کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ ہزاروں نوجوانوں کو علیٰحدگی پسند تحریک کا حصہ بننے پر مجبور کیا جارہا ہے اور جو لوگ ایسا نہیں کر رہے ان کے پاس افغانستان کی طرف ہجرت کرنے کے سوا چارہ نہیں۔ بلوچستان کو محب وطن لوگوں کے لیے موت کی وادی میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں افغانستان کا نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی بھی پوری طرح ملوث ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں چھ عشروں سے جو صورت حال پائی جارہی ہے اس کا موازنہ اب بلوچستان کی صورت حال سے کیا جارہا ہے۔ بلوچستان کے عوام کو حق خود ارادیت دلانے کی بات بھی ہو رہی ہے۔ سابق مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمٰن نے چھ نکات پیش کرکے متحدہ پاکستان کے وجود کو ختم کردیا تھا۔ یہ علیحدگی کا ایجنڈا تھا۔ اب اختر مینگل نے چھ نکات پیش کیے ہیں اور اپنے چھ نکات کو انہوں نے شیخ مجیب کے چھ نکات کے مماثل قرار دینے میں کوئی باک محسوس نہیں کی۔ اختر مینگل نے لاپتا افراد اور مسخ لاشوں کو بنیاد اور جواز بنانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔
امریکا نے لیبیا کو برباد کرنے میں جو بھرپور کامیابی حاصل کی اسی کو ذہن میں رکھتے ہوئے اب بلوچستان میں اپنا کھیل بھرپور انداز سے کھیلنے کی ابتدا کی ہے۔ امریکی میڈیا اور تھنک ٹینک پاکستان کے خلاف جی بھر کے زہر اگل رہے ہیں یعنی فضا بنانے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔ عوام میں کنفیوژن اور خوف پھیلانے کے لیے وقتاً فوقتاً ایسے نقشے پیش کیے جاتے ہیں، جن میں بلوچستان کو پاکستان سے الگ اور عظیم تر بلوچستان کے نام سے آزاد ریاست کی حیثیت سے دکھایا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ پاکستان پر دباؤ بڑھاتے رہنے کے لیے ہے۔
اکبر بگٹی کو ہیرو بناکر پیش کیا جارہا ہے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف پر اکبر بگٹی کے قتل کا مقدمہ چلاکر انہیں سزا دلانے کا مطالبہ دراصل فوج کو متنازع بنانے کی کوشش ہے۔ اکبر بگٹی کے بارے میں لوگ کیا نہیں جانتے کہ وہ زندگی بھر اسٹیبلشمنٹ کے آدمی رہے؟ انہوں نے قوم پرستوں کے خلاف کام کیا۔ وہ ہر قسم کی ترقی کے مخالف سفاک قبائلی رہنما تھے۔ اپنی نجی جیلیں تھیں۔ مخالفین کو ایذائیں دیں اور بگٹی قبیلے کی ہی شاخ کلپر کے ہزاروں نوجوانوں کو اکبر بگٹی نے جلاوطنی اختیار کرنے پر مجبور کیا۔
۸ فروری ۲۰۱۲ء کو امریکی کانگریس میں خارجہ امور کی کمیٹی کے سربراہ ڈانا روہرابیکر نے بلوچستان کے لوگوں کو حق خود ارادیت دلانے کے حوالے سے ایک قرارداد کانگریس میں پیش کی گئی۔ یہ پاکستان کے معاملات میں صریح مداخلت تھی۔ ڈانا روہرابیکر نے قرارداد میں لاپتا افراد کے معاملے کو بنیاد بنایا۔ حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان میں لاپتا افراد کی تعداد ۱۰۰ سے زیادہ نہیں۔ اِس سے کہیں زیادہ افراد تو دیگر صوبوں میں لاپتا ہیں۔ اس حوالے سے عالمی سطح پر شور مچایا گیا۔ فورسز اور خفیہ اداروں پر الزامات عائد کیے گئے۔
حال ہی میں اقوام متحدہ کے دو رکنی وفد نے پاکستان کا دورہ کیا جس کا بنیادی مقصد بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورت حال کا جائزہ لینا اور لاپتا افراد کے حوالے سے معلومات جمع کرنا تھا۔ وفد نے کراچی، کوئٹہ، پشاور، لاہور اور اسلام آباد کا دورہ کیا۔ چیف جسٹس اور ایف سی (بلوچستان) کے ڈائریکٹر جنرل نے وفد سے ملاقات سے انکار کردیا۔ اس وفد نے کوئٹہ میں طلال اکبر بگٹی سے ملاقات کی، جنہوں نے وفد کے ارکان کو ۶۵۰ لاپتا افراد کی فہرست دی۔ اس وفد نے بلوچستان میں ۱۸۰۰ سے زائد پنجابیوں کے بہیمانہ قتل کا نوٹس نہیں لیا۔ وفد کے علم میں یہ بات بھی شاید نہیں یا علم میں نہیں لائی گئی کہ بلوچ اور براہوی علیحدگی پسندوں کی دھمکیوں سے خوفزدہ ہوکر اب تک ایک لاکھ بیس ہزار پنجابی گھرانوں نے پنجاب اور کراچی میں پناہ لی ہے۔ اقوام متحدہ کو اب تک مقبوضہ کشمیر کی صورت حال کا نوٹس لینے کی توفیق نہیں ہوئی ہے جہاں انسانی حقوق کی صریح اور کھلی خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں۔ بچوں تک کو بخشا نہیں جارہا۔ ما ورائے عدالت ہلاکتوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ اقوام متحدہ نے اب تک گوانتا نامو بے جیل کا نوٹس نہیں لیا، جہاں انسانی حقوق پوری بے دردی اور بے حسی سے روندے جارہے ہیں۔
بلوچستان پر حملے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ امریکا اور اس کے اتحادی حملے کے لیے بھرپور جواز تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ پاکستان کو اس حوالے سے مکمل ہوشیار، تیار اور محتاط رہنا ہوگا۔
(“Emerging Threats to Security of Pakistan”… “www.opinionmaker.com”. Oct. 7th. 2012)
Leave a Reply