
روم اور برطانیہ کی عظیم سلطنتیں اپنے مفتوحہ علاقوں سے فائدہ اٹھانے والی تھیں۔ یہ اس لیے کامیاب ہوئیں کہ دوسرے ملکوں پر قبضہ کرنے اور وہاں حکومت چلانے کے خرچ سے وصول ہونے والے فوائد زیادہ تھے۔ سلطنتِ روما کے مشرق میں آگے بڑھنے سے اپنے آپ کو روکنے کی وجہ یہ نہ تھی کہ جرمن ماہر و چالاک تھے، بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے حساب کتاب کے مطابق فتح کرنے کی قیمت، حاصل ہونے والے فوائد سے کم تھی۔
پھر رومی سلطنت ناکام ہو گئی اس کی وجہ آپس میں اقتدار کی کشمکش اور خانہ جنگی میں افرادی قوت اور وسائل کے لحاظ سے کمزور ہو جانا تھا۔ برطانوی سلطنت کی بعد میں ناکامی کی وجہ یہ تھی کہ وہ بڑی جنگیں جرمنوں سے لڑ لڑ کر بے حال ہو گئے تھے۔
اس کتاب میں جس کا نام ’’اصولِ سلطنت‘‘ (The Rule of Empiers 2010) ہے ٹموتھی پارسن (Timothy H.Parsons) نے سلطنتوں کو فوائد سمیٹنے والوں کی سچائی کے بجائے سماجی سلطنت کی کہانیوں کی طرف موڑ دیا۔ اُس نے رومیوں، اموی خلافت، ہسپانوی سلطنت، پیرو (جنوبی امریکا میں)، نپولین (اٹلی میں)، اور برطانوی سلطنت ہندوستان اور کینیا میں کامیابیوں کا ذکر کیا کہ انہوں نے کس طرح فوائد حاصل کیے۔ کینیا میں حکومت کرنے کے خرچ کو کم کرنے کے لیے قبائلی اختلافات کو ابھارا اور نئی نئی قبائلی روایتوں کو جنم دیا جو برطانیہ کے لیے سودمند تھے۔
پارسن (Parsons) نے امریکی سلطنت کا تجزیہ نہیں کیا، مگر اپنی کتاب کے تعارف میں اُس نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ امریکی سلطنت واقعی ایک سامراجی سلطنت ہے جبکہ امریکیوں کو کوئی فوائد حاصل ہوتے نظر نہیں آرہے۔ آٹھ سال کی جنگ اور عراق پر قبضہ کی کوشش کے بعد بھی عراق سے تیل کا فائدہ نہیں ہوا، جبکہ ملک کئی ٹریلین ڈالر کا اضافی قرض دار ہوگیا۔ اور پھر طالبان کے خلاف افغانستان میں دس سالہ جنگ و جدل میں کھربوں ڈالر جھونک دینے کے باوجود امریکی حکومت کے پاس اس کا فائدہ دکھانے کے لیے کچھ نہیں ہے، سوائے منشیات کی آمدنی کے جو سی آئی اے کی خفیہ سرگرمیاں چلانے میں استعمال کی گئی۔
امریکی جنگیں بہت ہی مہنگی پڑیں، بش اور اوباما نے قومی واجبات کو دو گنا کر دیا اور امریکی عوام کو اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ مقتدر طبقہ کی جنگی حکمت کی وجہ سے کوئی دولت، کوئی روٹی، کوئی تماشہ امریکی عوام کی طرف آتا نظر نہیں آیا، تو یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ واشنگٹن کی سلطنت اپنی ہی عوام کے وسائل گھسیٹ رہی ہے، تاکہ امریکا پر حکومت کرنے والے چند طبقوں کا فائدہ ہو۔ فوجی سلامتی کے ادارے، Wall Street، زرعی تجارت اور اسرائیلی لابی نے حکومتی ذرائع استعمال کر کے امریکی عوام کے وسائل سے اپنے منافع اور طاقت میں اضافہ کیا۔ امریکی سلطنت اس طرح چلتی ہے، امریکی عوام کی آمدنی سے ایک فی صد لوگوں کی جیبوں کو بھر دیا جائے۔
نئی سلطنت مختلف ہے، کوئی ملک فتح کیے بغیر بن گئی ہے۔ امریکی فوج نے عراق فتح نہیں کیا، ان کی اپنی بنائی ہوئی کٹھ پتلی حکومت نے انہیں وہاں سیاسی طور پر دبائو ڈال کر ٹکنے نہیں دیا۔ اس طرح افغانستان میں اب ایک دہائی کے بعد بھی امریکی فوج ملک کو اپنی مرضی کے مطابق چلا نہیں سکتی۔
نئی سلطنت میں جنگی فتح کی کوئی اہمیت نہیں ہے، مگر جنگ کے جاری رہنے میں ہی ان کا فائدہ ہے۔ اس طرح ٹیکس دینے والے امریکیوں کا پیسہ امریکی اسلحہ سازوں اور ملکی سلامتی کے اداروں کی جانب بہہ بہہ کر آرہا ہے۔ امریکی سلطنت امریکی عوام کی دولت اور آزادی نوچ رہی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جنگیں ختم نہیں ہو رہی ہیں۔ اگر جنگ ایک طرف سے ختم ہوتی ہے تو دوسری طرف سے شروع ہو جاتی ہے۔ یاد کیا جائے جب ’’اوباما‘‘ نے صدارت سنبھالی تھی تو ان سے پوچھا گیا کہ افغانستان میں امریکیوں کے کیا مقاصد ہیں؟ جواب آیا کہ انہیں نہیں معلوم کہ کیا مقاصد تھے۔ بہرحال ان مقاصد کو دوبارہ واضح کرنے کی ضرورت ہے۔
لیکن ’’اوباما‘‘ نے کبھی اس کو واضح نہیں کیا، بلکہ وہ بغیر وجہ بتائے جنگ کو مزید طول دیتے جارہے ہیں۔ وہ اس جنگ کے مقاصد امریکیوں کو اپنی زبان میں بتانے سے قاصر ہیں۔ وہ بتا ہی نہیں سکتے کہ اس کا مقصد امریکی شہریوں کے مال سے صرف فوجی اور سلامتی کے اداروں کی آمدنی بڑھانا ہے۔
اس سچائی کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ان کو فوج کشی سے کچھ حاصل نہیں ہوا ہے۔ بہت بڑے پیمانے پر مسلمانوں کو بمباری کے ذریعہ قتل کیا گیا اور ان کا بنیادی زمینی ڈھانچا ختم کر دیا گیا۔ مگر اس لیے نہیں کہ اس سے کچھ مالی فوائد حاصل کیے جائیں۔
رونگٹے کھڑے کرنے والی بات ہے کہ نئی سامراجی سلطنت نے اپنے ہی شہریوں کو ان کی دولت اور آزادی سے محروم کیا، تاکہ بیرونی آبادیوں کے منتخب افراد کی جانیں لی جائیں۔ جیسا بمباری سے مسلمانوں کو قتل کیا گیا، ایسے ہی انہوں نے اپنے عوام کو شکار کیا۔
(“Empires Then and Now”… “Milli Gazette”. New Delhi. April 16-30th, 2012)
Leave a Reply