
بھارت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت پھر قائم ہوچکی ہے۔ اس نئی حکومت کی پہلی Casualty کی طرف کسی کا دھیان اب تک نہیں گیا۔ وزارت داخلہ سے چند حساس دستاویزات ڈیلیٹ کردی گئی ہیں۔ جن لوگوں نے شور مچایا اُنہیں چپ کرادیا گیا۔ پارلیمنٹ میں وزیر داخلہ کو بھی کہنا پڑا کہ گاندھی جی کے قتل سے متعلق جتنی بھی فائلیں ہیں، وہ متعلقہ افسران کے پاس محفوظ ہیں۔
بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ نئی حکومت کاروباری طبقے کے لیے بہت اچھی ہے یعنی معیشت کو ابھارنا چاہتی ہے اور کاروباری طبقے کو بہتر مواقع فراہم کرے گی۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا۔ بی جے پی کے بارے میں کاروبار دوست ہونے کا تاثر کسی اور نے نہیں، میڈیا نے دیا۔ انتخابی مہم کے دوران میڈیا نے بہت حد تک پروپیگنڈا مشینری کا کردار ادا کیا۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ لوگ بی جے پی سے نئی اور زیادہ توانا توقعات وابستہ کرکے پولنگ بوتھ پر پہنچے اور اپنا ووٹ بی جے پی کے حق میں ڈال دیا۔ میڈیا نے حالیہ انتخابات میں سنگھ پریوار کے لیے پبلک ریلیشنز آرگنائزیشن کا کردار ادا کیا۔ میڈیا نے بی جے پی کی ایما پر کانگریس کو ہر معاملے میں ڈز کریڈٹ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ میڈیا والے یہ بھی بھول گئے کہ انہیں ہر معاملے میں غیر جانب دار رہنا ہوتا ہے اور ان کا کردار بنیادی طور پر واچ ڈاگ کا ہے۔ جب بھی کوئی معاملہ بگڑتا ہے تو میڈیا والے شور مچاتے ہیں۔ مگر جب میڈیا والوں ہی کے ہاتھوں معاملات بگاڑے جائیں تو کیا کیجیے!
بی جے پی نے اس بار اپنی انتخابی مہم دریائے گنگا کی صفائی کی مہم کے نام پر گنگا مہا آرتی سے شروع کی تھی۔ لوگ دھوکا کھاگئے۔ اُنہوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ بی جے پی کے مزاج میں ہندو قوم پرستی رچی بسی ہے۔ وہ معاشرے میں تفریق پیدا کیے بغیر چل نہیں سکتی۔ ایسا کیے بغیر اُس کا گزارا ہو ہی نہیں سکتا۔ مظفر نگر میں رونما ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کی آگ سے اب تک دھواں اٹھ رہا ہے۔ سہارنپور جیسا پرسکون شہر بھی اب فرقہ واریت کی لپیٹ میں ہے۔ اس شہر کے قطب شہر پولیس اسٹیشن کی حدود میں فسادات ہوئے۔ بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان بھی ہوا مگر حکومت نے معاملات کو درست کرنے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ کسی نہ کسی واقعے کو بنیاد بناکر لوگوں کو لڑایا جارہا ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ کسی لڑکی کو زبردستی مسلمان کرکے اس سے شادی کرلی گئی ہے۔ کبھی کسی لڑکی سے زیادتی کے واقعے کو جواز بناکر کشیدگی پیدا کی جاتی ہے۔ اگر کوئی کسی کا مذہب بزور تبدیل کراتا ہے یا کسی لڑکی کو زیادتی کا نشانہ بناتا ہے تو یقیناً اُسے سزا دی جانی چاہیے، مگر بی جے پی، آر ایس ایس اور دیگر ہندو قوم پرست تنظیموں کا فرض ہے کہ وہ معاشرے میں بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ اگر وہ مورل پولیس کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کریں گی تو اندازہ ہوسکے گا کہ کس نے کہاں کیا زیادتی کی ہے اور پھر اُس زیادتی کا ازالہ بھی آسانی سے کیا جاسکے گا۔ اب شور مچایا جارہا ہے کہ مسلم نوجوان ’’لَو جہاد‘‘ (Love Jihad) کا سہارا لے رہے ہیں یعنی یہ کہ وہ ہندو لڑکیوں سے محبت کا ناٹک کرکے اُنہیں مسلمان کرتے ہیں اور پھر شادی کرلیتے ہیں۔ سنگھ پریوار نے اب ’’لو جہاد‘‘ کو بنیاد بناکر مسلم کمیونٹی کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔ میرے نزدیک یہ لڑائی بھارتی آئین کی خلاف ورزی پر مبنی ہے۔ بھارتی آئین کسی بھی شہری کو مذہب تبدیل کرنے یا اپنی مرضی کے مطابق شادی کرنے کی مکمل آزادی عطا کرتا ہے۔ سنگھ پریوار کی یہ لڑائی سراسر بے بنیاد ہے۔ ایک آدھ کیس میں تو ایسا ہوسکتا ہے کہ کسی لڑکی پر دباؤ ڈال کر اسے مسلمان کرلیا جائے اور اس سے شادی کرلی جائے مگر بہت بڑے پیمانے پر ایسا ممکن نہیں۔ بھارت کا آئین کسی بھی شخص کو اپنی مرضی کے مطابق شادی کرنے سے نہیں روکتا۔ اسی طور کوئی بھی شخص اپنی مرضی کا مذہب اختیار کرسکتا ہے۔ یہ ہر فرد کا ذاتی معاملہ ہے جس کا پورے معاشرے سے کوئی تعلق نہیں۔
نریندر مودی نے وزیراعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد جو کچھ کیا ہے، وہ ان کے اور ان کی پارٹی کے ارادوں کو ظاہر کرتا ہے۔ نریندر مودی نے بھوٹان اور نیپال کی پارلیمنٹ سے خطاب میں ہندو قوم پرستانہ جذبات کو اپیل کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ انہوں نے پشوپتی ناتھ کے مندر میں حاضری دے کر وہاں ڈھائی ہزار کلو صندل کی لکڑی کا عطیہ دیا۔ مگر عید الفطر پر بھارت کے مسلمانوں کو مبارک باد دینے سے اجتناب برتا۔ اِس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بی جے پی کی حکومت آگے چل کر کیا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ کسی سیکولر ملک کا وزیر اعظم سیکولر ازم کی بنیادی باتوں ہی کو کیونکر نظر انداز کرسکتا ہے؟ کیا سیکولر ازم اتنی بری چیز ہے کہ اب ہندو قوم پرست اس کے بدلے کچھ نیا لانا چاہتے ہیں؟ ہندو قوم پرستی کے فلسفے کو پروان چڑھانے والے دانشوروں نے سیکولرازم کو اب مسلم انتہا پسندی کے مقابل لا کھڑا کیا ہے۔ کیفیت یہ ہے کہ جو بھی سیکولر ازم کی بات کرتا ہے اسے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کا وکیل یا طرف دار تصور کرلیا جاتا ہے۔ یہ سراسر غلط اور بے بنیاد ہے۔ ملک کو سیکولر ازم کی اشد ضرورت ہے۔ سیکولر ازم کو مسلمانوں کی ہم نوائی کے مساوی قرار دے کر ملک میں مزید فرقہ واریت پھیلائی جارہی ہے۔ ہندو قوم پرست ہندو ازم کو بچانے کے نام پر جو کچھ بھی کر رہے ہیں، وہ ملک اور قوم کے حق میں ہرگز نہیں۔ بنیادی حقوق کو بھی یکسر نظر انداز کیا جارہا ہے۔ حالت یہ ہے کہ اگر کوئی اقلیتوں کے حقوق کی بات کرتا ہے تو اس پر انتہا پسندی کا لیبل چسپاں کرنے میں دیر نہیں لگائی جاتی۔ اگر ایسا ہے تو پھر ایسا ہی سہی مگر ہمیں حق کے لیے آواز بلند کرنے سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔
مسئلہ بہت بڑا ہے اور اس پر فوری توجہ دینا لازم ہے۔ بھارت کو ہندو معاشرے میں تبدیل کرنے کا عمل کسی اور نے نہیں، سیکولر ازم کی سب سے بڑی دعویدار کانگریس نے شروع کیا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس عمل میں تیزی اور شدت آتی گئی ہے۔ کانگریس نے ملک میں اقلیتوں سے روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک پر کبھی صدائے احتجاج بلند نہیں کی۔ اس نے اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو کبھی نمایاں حیثیت نہیں دی جس کے نتیجے میں اقلیتوں میں حقیقی قیادت ابھر نہیں سکی۔ یوں کانگریس نے بھی ہندو قوم پرستی کو پروان چڑھانے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔
اقلیتوں کے حقوق نظر انداز کرنے کا عمل چونکہ طویل مدت سے جاری ہے، اس لیے اب سیکولر ازم کی بنیادیں بھی کمزور ہوچکی ہیں۔ طویل عرصے سے یکسر نظر انداز کیے جانے کے باعث معاشرے کے بعض حصوں میں شدید احساس محرومی پایا جاتا ہے جو نفسیاتی پیچیدگیوں کو ہوا دے رہا ہے۔ مسلمان اور عیسائی خاص طور پر یہ محسوس کرتے ہیں کہ انہیں دیوار سے لگایا جارہا ہے۔ مسلم اور عیسائی نوجوانوں میں غیر معمولی حد تک احساس محرومی پایا جاتا ہے جس نے نفسیاتی الجھنوں کو مزید ہوا دی ہے اور اب ان میں خوف بھی گھر کرگیا ہے۔ ہندو اکثریت کا خوف اتنا شدید ہے کہ اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے بیشتر افراد ہندوؤں کی نیت پر بھروسا کرنے کو تیار نہیں۔
انتہا پسند ہندوؤں پر مشتمل سنگھ پریوار نے اقلیتوں میں بھی پھوٹ ڈالنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اب سکھوں، جینوں اور بدھسٹوں کو مسلمانوں اور عیسائیوں سے الگ کرکے ایک وسیع تر ہندو فیملی کا حصہ قرار دیا جارہا ہے۔ ہندو انتہا پسندی کو فروغ دینے والے دانشوروں نے بہت چالاکی سے اس تصور کو فروغ دیا ہے کہ سکھ مت، جین ازم اور بدھ ازم بھارت ہی کی سرزمین سے ابھرے ہیں، اِس لیے وہ اپنے ہیں جبکہ اسلام اور عیسائیت باہر سے آنے والے ادیان ہیں، اِس لیے وہ بھارتی الاصل قرار نہیں دیے جاسکتے۔
ہندو قوم پرستی کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے اور مستحکم تر کرنے کے لیے تعلیم کے شعبے کو بھی ہدف بنانے سے گریز نہیں کیا گیا ہے۔ ہندو بچوں کے ذہن میں یہ بات ٹھونسی جارہی ہے کہ وہ اول و آخر ہندو ہیں اور اس سے ہٹ کر ان کی کوئی شناخت نہیں۔ معاشرے کی سیکولر بنیادوں کو ہلاکر رکھ دیا گیا ہے۔ بھرپور کوشش کی گئی ہے کہ کسی بھی مرحلے پر نوجوان ہندوؤں کی نظر سے ہندو ازم کی حفاظت کا فریضہ اوجھل نہ ہو۔ اسکول کی سطح پر نصاب میں بھی ہندو قوم پرستی کو اب اس طریقے سے شامل کیا گیا ہے کہ الگ کرنا ممکن نہیں رہا۔ بی جے پی نے اتر پردیش اور دیگر ریاستوں میں (جہاں اس کی پوزیشن غیر معمولی حد تک مستحکم ہے) ہندو قوم پرستی کو نئی نسل کے ذہنوں میں ٹھونسنے کی بھرپور شعوری کوشش کی ہے۔ سیکولر دانشوروں نے اس مسئلے کی طرف توجہ دلائی ہے مگر کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔
جن ہندو قوم پرستوں نے تعلیمی نصاب کو ہندو انتہا پسندی سے آلودہ کرنے کی بھرپور کوشش کی، ان میں ارون شوری بھی شامل ہیں۔ ان کی بھرپور شعوری کوشش رہی ہے کہ نصاب میں ایسا مواد شامل کیا جائے جس سے ہندو تاریخ ابھرے اور سامنے آئے۔ ارون شوری اپنے ارادوں میں بہت حد تک ناکام رہے ہیں۔ اب وہ سیکولر مورخین کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان کی بھرپور کوشش ہے کہ بھارت پر حملہ کرنے والے تمام فاتحین اور عام مسلمانوں کو ایک کیٹیگری میں رکھیں تاکہ نفرت کی آگ کو تیزی سے ہوا دی جاسکے۔
مغربی ریاست گجرات میں بی جے پی کی پوزیشن غیر معمولی حد تک مستحکم ہے۔ اس ریاست پر بی جے پی نے ڈیڑھ عشرے تک راج کیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہر شعبہ ہندو قوم پرستوں کی گرفت میں آگیا ہے۔ دینا ناتھ بترا اور ان کے ہم خیال ہندو قوم پرست دانشوروں اور ماہرین تعلیم نے اسکول کی سطح پر ہندو قوم پرستی کو فروغ دینے والا مواد تیار کیا ہے۔ اب یہ مواد متعارف بھی کرایا جاچکا ہے۔ بی جے پی نے اقتصادی امور سمیت ہر معاملے میں گجرات کو ماڈل کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب گجرات میں کیا جانے والا تعلیمی مواد کا تجربہ دیگر ریاستوں میں کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ یہ تجربہ اگرچہ پوری طرح کامیاب نہیں ہوا مگر سنگھ پریوار کی کوشش تو یہی رہی ہے کہ کامیابی ملے نہ ملے، کچھ نہ کچھ خرابی تو پیدا ہو اور کسی حد تک معاملات بگڑ کر گرفت میں تو آئیں۔ انتہا پسند ہندو مورخین اور ماہرین تعلیم کی کوشش یہ ہے کہ بھارت کے ماضی کی تمام تلخ باتیں یکسر نظر انداز کردی جائیں، بھلادی جائیں اور اگر کوئی تاریخ کے آئینے میں جھانکے تو اُسے صرف روشنی ہی روشنی دکھائی دے، تاریکی کا نام و نشان تک نہ ہو۔ ہندو معاشرے میں ہزاروں سال سے روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک اور ذات پات کے فرق کو ایک طرف ہٹاکر انتہا پسند ہندو مورخین یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ قدیم ہندو معاشرے میں کہیں کوئی خرابی نہ تھی اور ہر طرف انصاف کا بول بالا تھا۔ ہندو معاشرہ ہزاروں سال سے مختلف ذاتوں میں منقسم ہے۔ اس حقیقت سے یوں نظر چرائی جارہی ہے جیسے کبھی کوئی غلط بات ہوئی ہی نہیں۔ دینا ناتھ بترا جیسے لوگ اکھنڈ بھارت کی بات کرتے ہیں جس میں پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال، بھوٹان اور افغانستان تک شامل ہیں۔ یہ سب کچھ زمینی حقیقتوں کے برعکس ہے مگر پھر بھی زور دیا جارہا ہے کہ یہی حق ہے۔ دینا ناتھ بترا نے اپنے ہم خیال دانشوروں کے ساتھ مل کر ایسا مواد تیار کیا ہے جس کے بطن سے صرف خرابی پیدا ہوسکتی ہے۔ وہ اکھنڈ بھارت کی بات کر رہے ہیں۔ یہ تصور موجودہ بھارت کا بھی بٹوارا کرسکتا ہے۔ اس سے بھارتی قومیت کا تصور بھی ملیا میٹ ہوسکتا ہے۔
سنگھ پریوار کی ہدایات کی روشنی میں بھارت کی کئی ریاستوں میں ایسی تبدیلیاں لائی جارہی ہیں جن سے اقلتیں شدید ہراس کی حالت میں ہیں۔ گوا میں عیسائی پیشواؤں کا کہنا ہے کہ نریندر مودی بھارت کو ہندو قوم میں تبدیل کرکے دم لیں گے۔ گوا میں رام سینا نے لڑکیوں کو ہدایت دینا شروع کردی ہے کہ انہیں کیا پہننا چاہیے اور کیا نہیں پہننا چاہیے۔ ساتھ ہی ساتھ انہیں یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ انہیں گھر سے کب نکلنا ہے اور کب واپس آنا ہے۔ مہا راشٹر میں شیو سینا نے معاشرے کو ہندو قومیت کے رنگ میں رنگنے کی بھرپور کوششیں جاری رکھی ہیں۔ شیو سینا نے اتر پردیش اور بہار سے تعلق رکھنے والوں کو مہا راشٹر کی سرزمین سے دور کرنے کی بھرپور کوشش بھی کی ہے۔ اس معاملے میں بھی اقلیتوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔
ہندو قوم پرستی کو فروغ دینے کے ایک اہم ذریعے کے طور پر ہندی کو بھی پورے معاشرے پر تھوپا جارہا ہے۔ بھارت کے بہت سے علاقوں میں ہندی نہیں بولی جاتی۔ سمجھنے والے بھی کم ہیں مگر بی جے پی اور اس کی ہم خیال جماعتیں ہندی کو ہندوؤں کی اصل نشانی قرار دے کر ان علاقوں پر بھی تھوپ رہی ہیں، جہاں کے لوگ ہزاروں سال سے اپنی منفرد زبانیں بولتے آئے ہیں۔ بعض مقامات پر انگریزی کی شدید مخالفت کرکے دراصل ملک کو زبان کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی شعوری کوشش کی گئی ہے۔ سرکاری امور میں انگریزی لازمی حیثیت رکھتی ہے مگر سنگھ پریوار کا مطالبہ ہے کہ سرکاری مشینری کو بھی ہندی میں لکھنے پر مجبور کیا جائے۔ جنوب کی ریاستوں میں ہندی کو ترجیح نہیں دی جاتی۔ مگر وہاں بھی اسکولوں میں ہندی کو لازمی زبان کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔ بہت سے والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچے ہندی نہ پڑھیں۔ بچوں کو ہندی بزور پڑھانے کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ دلوں میں تقسیم بڑھ گئی ہے۔
بھارتی معاشرہ خطرناک حد تک تقسیم سے دوچار ہوچکا ہے۔ خرابیاں بہت زیادہ ہیں مگر اب تک انہیں میڈیا میں نمایاں نہیں کیا گیا۔ میڈیا پر بھی صنعت کاروں کا قبضہ ہے اور بیشتر صنعت کار بی جے پی کی ہم نوائی کے ذریعے زیادہ سے زیادہ فوائد بٹورنا چاہتے ہیں۔ ماحول میں ہندو قوم پرستی ہے مگر میڈیا کے ذریعے اِسے چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ بی جے پی کی حکومت ماضی کی ہر تلخی بھلاکر نیا سفر شروع کر رہی ہے۔ بھارتی معاشرے میں معاشی ڈھانچا بھی تبدیل ہوتا جارہا ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر نے بیشتر معاملات میں اپنا فیصلہ کن کردار ادا کرنا شروع کردیا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب ریاست ہی سب کچھ ہوا کرتی تھی۔ سب کچھ ریاستی اداروں کے ہاتھوں میں مرتکز تھا۔ اب وہ کیفیت نہیں رہی۔ اب بڑے کاروباری ادارے سب کچھ اپنے ہاتھ میں لیتے دکھائی دے رہے ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ اپنی بات منوانے کا وقت آگیا ہے۔ سیاسی جماعتیں بھی کاروباری طبقے کو ساتھ رکھتی ہیں تاکہ دونوں ایک دوسرے کے مفادات کو تحفظ فراہم کرسکیں۔ کاروباری طبقے اور سیاسی جماعتوں نے میڈیا کو اپنے مقاصد کے لیے اس قدر شدت سے استعمال کیا ہے کہ ریاست کا معاون سمجھا جانے والا میڈیا خود ریاست کے لیے انتہائی خطرناک ہوگیا ہے۔ میڈیا ہی کے ذریعے ہر معاملے کو نیا رخ دیا جاتا ہے، نیا رنگ عطا کیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں حقیقت کہیں پردوں میں لپٹ کر رہ جاتی ہے۔ وہ زمانہ لد گیا جب میڈیا کو واچ ڈاگ سمجھا جاتا تھا۔ اب میڈیا خود پارٹی بن کر مال بٹورتا ہے۔ مفادات سب کو عزیز ہیں۔ میڈیا بھی اس کلیے سے مستثنیٰ نہیں۔
ریاستی مشینری کی بھی اوور ہالنگ ہو رہی ہے۔ ہر معاملے میں ہندو قوم پرستی کا جھنڈا اونچا رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سپریم کورٹ کے جسٹس بھی یہ کہنے لگے ہیں کہ بچوں کو ابتدائی جماعتوں ہی سے ہندوؤں کی مقدس کتب بھاگود گیتا اور پُران پڑھائی جانی چاہئیں۔ سپریم کورٹ کے جسٹس انیل دوے کہتے ہیں کہ اگر وہ ڈکٹیٹر ہوتے تو بچوں کو ابتدائی جماعتوں ہی سے ہندو ازم کی بنیادی تعلیمات پڑھانے پر زور دیتے۔
جب سپریم کورٹ کے جسٹس کی یہ سوچ ہو تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ معاملہ کس حد تک بگڑ چکا ہے۔ بھارت میں ۲۰ کروڑ مسلمان بستے ہیں۔ یہ لوگ حملہ آور نہیں تھے۔ یہ اِسی زمین کے باشندے ہیں اور مذہب تبدیل کرکے مسلمان ہوئے ہیں۔ مگر بی جے پی والے اِنہیں بھی حملہ آور قرار دے کر ان کے خلاف ہندو اکثریت کے جذبات بھڑکاتے رہتے ہیں۔ یہ تو معاشرے کو تقسیم اور برباد کرنے کی سازش کے سِوا کچھ نہیں۔ بھارت بھر میں ایک کروڑ سے زائد عیسائی بھی رہتے ہیں۔ یہ لوگ کہیں سے نہیں آئے۔ ان کا تعلق یورپ سے ہے نہ مشرق وسطیٰ سے۔ یہ بھی مسلمانوں کی طرح اِسی زمین کے فرزند ہیں۔ ان کے خلاف بھی عام ہندوؤں کے جذبات بھڑکانے کی کوشش کی جاتی رہتی ہے۔ اس زمین کے بیٹے اگر مسلمان یا عیسائی ہوئے تو اِس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ یہاں ہزاروں سال سے ذات پات کا نظام تھا جس میں کروڑوں افراد کو غلاموں کی سی حیثیت ملی ہوئی تھی۔ اسلام اور عیسائیت نے اِن نچلی ذات کے ہندوؤں کو نئی زندگی دی، احترام سے نوازا۔ اس حقیقت کو نظر انداز کرکے ہم بھارتی معاشرے کو سمجھ نہیں سکتے۔ بُدھسٹوں کا بھی یہی حال ہے۔ ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر نے ۱۹۵۶ء میں اپنے چار لاکھ سے زائد ہم خیال لوگوں کے ساتھ بدھ ازم قبول کیا تھا۔ یہ سب کچھ اس لیے تھا کہ ہندو معاشرے میں نچلی ذات کے ہندوؤں کو احترام کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ اگر اُنہیں حقیقی احترام ملتا اور تمام بنیادی حقوق بھی دیے جاتے تو وہ اسلام، عیسائیت یا بدھ ازم کے دامن میں پناہ تلاش نہ کرتے۔
بھارت ذات پات کے نظام سے اب تک آزاد نہیں ہوسکا۔ نچلی ذات کے ہندوؤں سے آج بھی غیر انسانی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ انہیں مساوی درجے کا شہری نہیں سمجھا جاتا جس کے باعث وہ اسلام اور دیگر ادیان کے دامن میں سکون تلاش کرنے پر مجبور ہیں۔ ہندو اکثریت کو انتہا پسندی کی طرف دھکیل کر نچلی ذات کے ہندوؤں کو اُن سے مزید بدظن اور متنفر کردیا گیا ہے۔ محسوس کیا جاسکتا ہے کہ وہ ہندو اکثریت والے معاشرے میں کتنے بے سکون ہوں گے۔
بابا صاحب امبیڈکر نے اس طرف اشارا کیا تھا کہ گیتا کی تعلیمات تشدد پر مائل کرتی ہیں اور ذات پات کے نظام کو پختہ کرتی ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ بھارتی معاشرے کو تمام خرابیوں اور انتہا پسندی سے آزاد کرایا جائے۔ اگر بھارت کو ایک آزاد معاشرے کی حیثیت سے فروغ پانا ہے تو لازم ہے کہ اس میں بسنے والے تمام افراد کو ان کے بنیادی حقوق دیے جائیں۔ مذہبی اور لسانی و ثقافتی اقلیتوں کا احترام کیے بغیر ہم اس بات کو یقینی نہیں بناسکتے کہ آزادی کا تصور پروان چڑھے۔ بھارتی معاشرہ انتہا پسندی کے نرغے میں ہے۔ سنگھ پریوار نے بہت سے خرابیوں کو جنم دیا ہے۔ ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ اکثریت کو اس بات کی تعلیم دی گئی ہے کہ وہ اقلیت کو قبول نہ کرے، برداشت کرنے سے انکار کردے۔ اس تعلیم ہی کا یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے اور ہندو اکثریت مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف ہوگئی ہے۔ بات بات پر مسلمانوں اور عیسائیوں کو تمام خرابیوں کے لیے موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ سنگھ پریوار کی کوشش یہ ہے کہ بھارتی معاشرے میں صرف ہندوؤں اور ہندو ازم کا بول بالا ہو اور خاص طور پر اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کا۔ تمام اقلیتوں کو کچل کر رکھنے کی سوچ اس حد تک پروان چڑھ چکی ہے کہ اب اِسے آسانی سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اس معاملے میں میڈیا نے گھناؤنا کردار ادا کیا ہے۔ لازم ہے کہ اب میڈیا غیر جانبداری کا اصول اپناتے ہوئے اپنی پیدا کردہ خرابیوں کو ختم کرنے پر متوجہ ہو۔ جب تک معاشرے میں تمام افراد کو ان کے بنیادی حقوق نہیں دیے جائیں گے تب تک کچھ بھی بہتر نہیں ہوگا۔ خواتین کا احترام بھی لازم ہے۔ انہیں ان کے تمام بنیادی حقوق دیے جانے چاہئیں تاکہ وہ بھی خود کو مرکزی دھارے کا حصہ سمجھیں اور معاشرے کی حقیقی بہبود میں اپنا کردار پوری ایمانداری سے ادا کریں۔ نچلی ذات کے ہندو چاہتے ہیں کہ انہیں معاشرے میں حقیقی احترام ملے اور تمام حقوق دیے جائیں۔ وہی اس زمین کے اصل باشندے ہیں۔ یہ تصور انتہائی خطرناک ہے کہ شمالی بھارت کے گوری چمڑی والے اُن پر راج کر رہے ہیں، گو کہ حقیقت یہی ہے۔ بھارت کی سیاست شمال میں مرتکز ہے جس کے باعث تمام فوائد بھی ہندی بولنے والے علاقے سمیٹتے ہیں۔ اگر اس معاملے کو درست نہ کیا گیا تو بھارتی معاشرے کو ایسا نقصان پہنچے گا جس کی تلافی ممکن نہ ہوپائے گی۔ بابا صاحب امبیڈکر اور ان کے ہم خیال ساتھیوں نے روشن خیالی کی بات کی۔ وہ چاہتے تھے کہ معاشرے میں کسی سے امتیازی سلوک نہ ہو۔ ان کی بات پر دھیان دینے والے بھی لاکھوں تھے اور ان کی مخالفت کرنے والے بھی کم نہ تھے۔ اب وقت آگیا ہے کہ معاشرے کو درست سمت میں لے جانے کی بات کرنے والوں کو دھیان سے سُنا جائے تاکہ اُن کے خیالات کی روشنی میں اصلاح کی کوئی بہتر صورت نکلے۔ خواتین کی حالت بہت بری ہے۔ ہندو اکثریت میں بھی خواتین کو وہ احترام نہیں مل پاتا جس کی وہ حقدار ہیں۔ اُنہیں مسلسل نظر انداز کیا گیا ہے۔ پچھڑے ہوئے طبقے میں تو خواتین کا اور بھی بُرا حال ہے۔ بھارت تبدیلی چاہتا ہے اور یہ تبدیلی روشن خیالی اور اعلیٰ ظرفی اپنانے ہی سے آسکتی ہے۔
کاروباری طبقہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر معاشرے میں حقیقی تبدیلی کی راہ روک رہا ہے۔ کوشش کی جارہی ہے کہ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی اجارہ داری برقرار رہے۔ ہندو اکثریت کا راگ الاپنے والی جماعتیں اور کاروباری ادارے ایک ہوگئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ایک ایسی اشرافیہ معرض وجود میں آچکی ہے جو ۸۰ کروڑ سے زائد افراد کو اپنے انگوٹھے تلے رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ غیر فطری عمل ہے جس کے نتیجے میں صرف خرابیاں پیدا ہوسکتی ہیں اور ہو رہی ہیں۔ بھارتی معاشرے کو حقیقی آزادی سے ہمکنار کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ معاشرے کے ہر حصے کو اُس کے حصے کے حقوق اور احترام سے نوازا جائے۔ جب ایسا ہوگا تب ہی بھارت حقیقی معنوں میں آزاد ہوسکے گا اور اس کی آزادی کی حفاظت بھی ڈھنگ سے کی جاسکے گی۔
(مضمون نگار سماجی اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکن ہیں)
“Endangered freedom”.
(“countercurrents.org”. August 11, 2014)
Leave a Reply