
دشمن کی شناخت اور اس سے بچنے کے طریقے جاننا ہر جاندار کی بقا کے لیے ضروری ہے۔ جانوروں کو اس سلسلے میں ایک قدرتی فہم یا Instinct دیا گیا ہے۔ جانور خطرے کی بو سونگھ لیتا ہے۔ یہاں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ایک نوع کا جانور اپنی ہی نوع کے جانور سے اپنے رہنے کے علاقے یا شکار یا جنسی حقوق پر تو عارضی محاذ آرائی کرتا ہے لیکن ان میں آپس میں دشمنی نہیں ہوتی۔ جس نوع یا Species کے جانور سے اس کی قدرتی دشمنی ہوتی ہے وہ اگر رات کی تاریکی میں بھی اس کے قرب و جوار میں ہو تو اس کا قدرتی نظام اسے اطلاع دے دیتا ہے۔ جانوروں میں دو بنیادی قسمیں ہیں‘ ایک تو Predator یا شکار پر گزارہ کرنے والے ہوتے ہیں اور دوسرے شکار ہونے والے یا Prey۔
جو قارئین بے صبری کا شکار ہو رہے ہیں ان کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ کالم جانوروں کے بارے میں نہیں ہے لیکن یہ نکتہ سمجھنا ضروری ہے۔ قدرت نے یا اﷲ تعالیٰ نے غارت گر‘ لٹیرے یا شکار پر گزارہ کرنے والے اور کمزور اور شکار ہونے والے کے درمیان دفاع میں انصاف کے لیے ایک اصول وضع کیا ہے یعنی ایک خاص فاصلہ یا Range۔ اگر کمزور جانور شکاری کی اس Range سے باہر رہے گا تو وہ اپنا بچائو کر سکتا ہے لیکن اگر وہ اس فاصلے میں آگیا تو پھر طاقتور غارت گر جانور غالب آجائے گا۔ انسان کو عقل دی گئی ہے کیونکہ یہ وہ نوع ہے جو اپنی ہی نوع کی Predator ہے۔ اس کے Instinct جانوروں کے خلاف دفاع کے لیے نہیں بلکہ خود اپنی ہی نوع کے اراکین کے خلاف دفاع کے لیے ہیں۔ بھیڑ بھیڑیے کی موجودگی جانتی ہے کیونکہ اس کی شکل الگ ہے‘ اس کی بو الگ ہے اور بھیڑ کے Instinct اسے بتا دیتے ہیں کہ اسے بھیڑیے سے Confidence Building Measures (CBM) کا خیال بھی دل میں نہیں لانا چاہیے۔
انسان کو دشمن کی شناخت مشکل سے ہوتی ہے۔ اس کی شکل‘ عادات‘ اطوار‘ بو سب یکساں ہیں اور اس کی نیت بدلتے دیر نہیں لگتی۔ ایک باپ کی اولاد‘ ایک ماں کا دودھ پینے والے جائیداد کے تنازع پر اپنے بھائی کا خون کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ انسان کو دشمن کی شناخت کے لیے مشاہدے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کا مشاہدہ اور اس کے اخذ کردہ نتائج کتنے درست ہوتے ہیں؟ بعض انسان صرف Instinct کی بنیاد پر بتا دیتے ہیں کہ کون قابلِ بھروسہ ہے اور کون نہیں۔ لیکن پیدائشی ذہانت‘ تعلیم‘ تربیت اور تجربے سے بھی بڑی مدد ملتی ہے۔
جب ستمبر ۱۹۴۷ء میں میرا خاندان بذریعہ ٹرین لاہور روانہ ہوا تو میری عمر ساڑھے تین برس تھی لیکن میری یادداشت اچھی ہے‘ اوسط سے بہتر ہے۔ مجھے فتح پور میں اپنا محلہ اور مکان یاد ہے۔ وہاں سے لکھنؤ جانا اور لکھنؤ سے آگرہ جانا یاد ہے۔ وہاں سے ہمیں لاہور کے لیے ٹرین لینا تھی۔ یہ بھی یاد ہے کہ اس ٹرین کا نام تھا Fourth Special۔ یہ بھی یاد ہے کہ لکھنؤ سے آگرہ جاتے ہوئے گھر میں ان ممکنہ خطرات کا ذکر ہو رہا تھا جو ہمیں راستے میں لاحق ہو سکتے تھے۔ آگرہ سے لاہور جانے والی ٹرین جب پنجاب سے گزری تو رات میں رک جاتی تھی اور بلوچ رجمنٹ کے دو سپاہی ایک‘ ایک کھڑکی میں بندوق تانے ساری رات بیٹھے رہتے تھے۔ رات میں ٹرین کا رکنا بڑا خطرناک تھا لیکن اس سے بھی خطرناک سفر کرنا تھا کیونکہ ریلوے ٹریک اکھاڑنے کے واقعات ہو رہے تھے۔
پھر ہم لاہور پہنچ گئے‘ وہاں ایک اجنبی خاندان نے ہمیں پناہ دی‘ پھر وہ ایسے ہو گئے جیسے ہمارے خون کے رشتے ہوں۔ وہ یوپی کے نہیں تھے‘ کھرے پنجابی تھے لیکن ہمیں ان کے گھر میں کوئی خوف محسوس نہیں ہوا۔ نہ بلوچ رجمنٹ کے سپاہی ہماری حفاظت کر رہے تھے اور نہ ہی میری ماں نے ساری رات جاگ کر گزاری کہ ہم ایک اجنبی کے گھر میں ہیں‘ نہ جانے وہ کیا کر بیٹھے۔ لیکن وہ محلہ‘ وہ شہر‘ وہ ملک جہاں ہر شخص دوسرے کی سات پشتیں گنوا سکتا تھا‘ وہاں ہم اتنے خوفزدہ تھے کہ صرف چند کپڑے‘ صندوق میں ڈال کر چلے آئے۔ کروڑوں افراد نے ایسا کیوں کیا؟ اس لیے کہ انہیں اپنے دوست اور دشمن کی شناخت تھی۔ اس وقت ہمارے قائد کو دوست دشمن کی شناخت تھی۔ ہمیں معلوم تھا کہ ۱۴ اگست کے بعد پشتوں کی دوستیاں‘ ہمسایہ داریاں‘ قابلِ اعتبار نہیں رہی تھیں۔ لفظ جن سنگھی میں نے جب سنا تھا تو میری عمر ۴ برس سے کم تھی۔ میں نے امریکا میں اپنے بچوں کو شعور آنے کے بعد تفصیل سے بتایا کہ تقسیم کیوں ہوئی‘ تقسیم کے بعد ہم اور ہم جیسے کروڑوں مسلمان آگ اور خون کا دریا پار کر کے پاکستان کیوں آگئے۔ ہم نے اپنی زمینوں‘ مکانوں یا جو کچھ بھی پونجی تھی‘ اسے بچانے کے لیے ان لوگوں سے جن کو ہم پشتوں سے جانتے تھے‘ Confidence Building Measures کا چانس کیوں نہیں لیا اور میں نے امریکا میں پیدا ہونے والے بچوں کو بتایا کہ جن سنگھی کیا ہوتا ہے۔ چنانچہ جب میں سنتا ہوں کہ کراچی میں پیدا ہونے والے کسی بچے نے کسی ہندو سے قیامِ پاکستان کے لیے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی ہے‘ تو میں اسے الزام نہیں دیتا۔ قصور اس کے بزرگوں کا ہے جنہوں نے غالباً اسے نہیں بتایا کہ وہ زندہ سلامت کس طرح پاکستان پہنچے اور ہزاروں‘ لاکھوں افراد کی ہاتھ جوڑ جوڑ کر معافیاں مانگنے کے باوجود بھی جان بخشی نہیں ہوئی اور وہ شیر خوار جو ہاتھ جوڑنے کے قابل بھی نہیں تھے کس طرح سنگینوں پر بلند کیے گئے۔
اگر ہم اپنے آپ کو ’’مہاجر‘‘ کہتے ہیں تو پھر ہم جن کے ساتھ آ کر بسے وہ پنجابی‘ پٹھان یا بلوچی اور سندھی نہیں ہیں وہ ہمارے ’’انصار‘‘ ہیں۔ اگر ہم ’’مہاجر‘‘ ہیں تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ مہاجر اول نے مکہ جا کر اپنے مدینے جانے کی معافی نہیں مانگی اور نہ یہ کہا تھا کہ وہ جو دوسرے کلمہ گو ہیں‘ وہ تمہارے رحم و کرم پر رہیں گے تم انہیں Autonomy دے دینا‘ تم ان کا مسئلہ Self Governance کے ذریعے ’’حل‘‘ کر دینا۔ تعلیم‘ تربیت اور مشاہدے سے دشمن کی شناخت کرنے اور دشمن کی چالاکیوں اور مکاریوں کو سمجھنے کی صلاحیت میں اضافہ ہونا چاہیے۔ خاص طور پر ایسے افراد کے لیے جو پاکستان کی مسلح افواج میں گئے کیونکہ مسلح افواج میں جانے اور خاص طور پر کمیشن پانے کے لیے تعلیم اور ذہانت کا ایک معیار ہوتا ہے اور اس میں بھی مقابلہ اتنا ہے کہ صرف بہتر سے بہتر معیار کے افراد منتخب ہوتے ہیں۔
ایک طریقہ کار ہوتا ہے “Word Association” جس میں ایک لفظ لیا جاتا ہے اور پوچھا جاتا ہے کہ آپ کے ذہن میں جو بھی پہلی Association آئے وہ بولیں۔ مثال کے طور پر عام لوگ کہیں گے گلاب۔ آج کل کہیں گے ’’دہشت گرد‘‘ عیسائی کہیں گے مسلمان۔ میں پاکستانی مسلح افواج کے ہر ریٹائرڈ سپاہی یا افسر سے پوچھوں گا کہ جب آپ سے لفظ ’’دشمن‘‘ کہا جائے تو پہلا نام ذہن میں کیا آتا تھا یا آتا ہے؟ میرا خیال ہے کہ اس کا جواب ہو گا ’’ہندوستان‘‘۔ آج جو لوگ سینئر عہدوں پر ہیں ان سے لفظ ’’دشمن‘‘ کہا جائے تو کون سا نام ذہن میں آتا ہے؟ آج جو کیڈٹ‘ ایئرفورس‘ بحریہ یا آرمی کے اداروں میں زیرِ تربیت ہے اس کے ذہن میں پہلا نام کس ملک کا آتا ہے؟
امریکی آپ کو اعتماد کی تعمیر کے اقدامات کا جو درس دیتے ہیں‘ ان سے پوچھیں کہ کیوں نہ فیدل کاسترو سے کر لیتے؟ افغانستان پر بمباری سے پہلے ملا عمر سے کر کے دیکھتے؟ کیوں نہ حزب اﷲ اور حماس سے کر لیتے؟ بنیادی اصول ہے کہ جو ’’دشمن‘‘ ہے اس سے اعتماد کا لین دین نہیں ہو سکتا۔
میں ہماری طرف سے مقبوضہ جموں اور کشمیر کے بارے میں پالیسیوں پر دنگ ہوں۔ دشمن مذاکرات کی میز پر آئے اور اس امر کی ضمانت دے کہ ’’اعلان‘‘ پر عمل درآمد کرایا جائے گا لیکن قبل از وقت یکطرفہ طور پر یہ کہنا کہ پاکستان سلامتی کونسل کی قراردادیں واپس لینے کو تیار ہے اور پاکستان آزاد جموں اور کشمیر کو غیرفوجی علاقہ قرار دینے کو تیار ہے‘ یہ کیسی پالیسی ہے؟
کون سے ایسے حقائق اور شواہد ہیں جن کی بنیاد پر ’’دشمن‘‘ کے لفظ کا مفہوم جاننے والا کوئی بھی پاکستانی یہ سوچ بھی سکتا ہے۔ بھارتی لیڈر جموں اور کشمیر کے مسئلے کو پرامن طور پر حل کرنے کو تیار ہو جائیں گے؟ قائداعظم کی کانگریس میں شمولیت سے لے کر ان کے بسترِ مرگ تک‘ ۱۹۶۲ء کے وعدوں سے لے کر تاشقند تک اور سقوطِ مشرقی پاکستان سے لے کر آج تک بھارت نے کس وعدے پر عمل کیا ہے؟ جموں اور کشمیر کے اٹوٹ انگ ہونے کے موقف میں کون سی لچک دکھائی ہے جس کی بنیاد پر آپ نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو چھوڑنے کا اعلان کیا؟
پاکستان میں حکومت کی ماورائے آئین تبدیلی اور بھارت میں حکومت کی آئینی تبدیلی کے بعد بھارت کے پہلے یومِ آزادی یعنی ۱۵ اگست ۲۰۰۰ء کو وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے کہا کہ ’’ہمارے ہمسائے کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ وقت کو لوٹایا نہیں جا سکتا پاکستان کے حکمرانوں اور عوام کو مشورہ دوں گا کہ وہ ساحر لدھیانوی کی نظم پر توجہ دیں‘ میں ہندی نہیں پڑھ سکتا میں ساحر کی نظم کا اردو متن نہیں درج کر سکتا لیکن انگریزی میں اس کا لب لباب یہ ہے کہ ’’وہ وقت اور وہ لوگ گزر گئے جو دو قوموں کا نعرہ لگاتے تھے۔ وہ لوگ گزر گئے جن کا مقصد تقسیم تھا۔ اب تمام انڈین ایک ہیں‘ اب تمام انڈین ایک ہیں‘ انڈیا والو یہ جان لو‘‘۔
اس کے بعد اٹل بہاری واجپائی نے کہا کہ ’’۲۱ویں صدی نہ تو مذہب اور نہ تلوار کے بل پر سرحدوں کے خط کو تبدیل کرنے کی اجازت دیتی ہے‘ یہ مسائل حل کرنے کا زمانہ ہے نہ کہ مسائل کو طول دینے کا۔ جموں و کشمیر اور لداخ کے عوام تشدد سے تھک گئے ہیں‘ وہ امن چاہتے ہیں۔ ہمیں جموں کشمیر کے زخمی جسم پر بھائی چارے کا مرہم لگانا چاہیے‘‘۔
یہی وجہ ہے کہ میں نے حال ہی میں کہا تھا کہ بھارت کشمیر کے نزاع پر بھارت انسانیت کے فریم ورک میں مرہم لگانے کو تیار ہے۔ اس بیان کے کس حصے سے پاکستان کی قیادت نے یہ مطلب نکالا کہ بھارت جموں اور کشمیر کو سات حصوں میں بانٹنے کی تجویز کو حل کے طور پر قبول کرنے کو تیار ہو جائے گا؟ تقسیم سے لے کر احمد آباد‘ گجرات‘ سری نگر‘ سکم‘ بھوٹان‘ نیپال‘ سری لنکا میں کون سی ایسی مثال ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ انہیں انسانیت کا مفہوم بھی معلوم ہے۔
میری طرح ’’جن سنگھی‘‘ کا لفظ اگر ساڑھے تین برس کی عمر میں ذہن پر نقش ہو گیا ہوتا تو کبھی یہ سوچتے بھی نہیں کہ کسی مسلمان کی عزت و آبرو ایسے ’’دشمن‘‘ کی دی گئی Autonomy میں محفوظ رہے گی اور یہ صحیح ہے کہ بھارت میں رہنے والے ہر مسلمان کا دفاع نہیں کیا جاسکتا۔ ۱۹۴۷ء میں ہر مسلمان اکثریت کے علاقے کو حق خود اختیاری دیا گیا تھا کہ وہ پاکستان سے الحاق کرے اور ہر مسلمان اکثریتی ریاست نے اس حق کو استعمال کیا تھا اور ہر مسلمان خاندان کو یہ حق خود اختیاری دیا گیا تھا کہ اپنا گھر بار چھوڑ کر اگر چاہے تو پاکستان جانے کی پُرخطر کوشش کر سکتا ہے۔ کروڑوں افراد نے اس حق کو استعمال کیا اور کچھ کامیاب ہوئے‘ کچھ نہیں۔ لیکن جموں اور کشمیر سے یہ حق اس کے راجہ نے چھین لیا۔ اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے انہیں یہ حق واپس دیا۔ ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء سے اب تک لاکھوں کشمیری اپنی جانیں دے چکے‘ ہزاروں عصمتیں لٹ چکیں۔ یوکرین‘ تاجکستان اور بے شمار ریاستوں نے جنہیں اقوامِ متحدہ کا قانونی سہارا بھی نہیں تھا‘ ۹۰ برس ایک سپرپاور کے پنجے سے نکلنے کا انتظار کیا‘ ہندوستان کس کھیت کی مولی ہے؟
کشمیر پر اصولی موقف اور اقوامِ متحدہ کی قانونی حمایت کو ایک ’’دشمن‘‘ کے ہاتھ کوڑیوں کے مول فروخت کرنے کی کیا عجلت ہے۔ میرے نزدیک معاملہ سادہ ہے۔ اگر لفظ ’’دشمن‘‘ کے بعد پہلا نام آپ کے ذہن میں ہندوستان کا آتا ہے تو پھر ہندوستان سے کوئی اعتماد کا سودا ہو نہیں سکتا اور اگر لفظ ’’دشمن‘‘ کے بعد پہلا نام ہندوستان کا نہیں آتا یا آپ کا ذہن سوچ میں پڑ جاتا ہے تو پھر آپ کے وجود کا کوئی جواز نہیں ہے اور نہ ہی یہ دعویٰ صحیح ہے کہ پاکستان کا دفاع ’’مضبوط‘‘ ہاتھوں میں ہے۔ دفاع کا انحصار ہاتھوں کی مضبوطی سے نہیں‘ دشمن کے بارے میں شعور کی سطح سے ہوتا ہے۔ حزب اﷲ کے شعور کی سطح بلند ہے لہٰذا ان کے ہاتھ مصری‘ اردنی اور شامی افواج کے ہاتھوں سے زیادہ مضبوط ثابت ہوئے اور انہوں نے اس خیالِ خام کو ختم کر دیا کہ اسرائیل کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’جنگ‘‘ کراچی۔ ۲۴ اگست ۲۰۰۶ء)
Leave a Reply