افراط ِزر کے پھوٹ پڑنے کی ہمارے پاس تماتر نقاب کشا علامات ہیں۔ مثلاً تیل اور توانائی کی قیمتوں میں ایک بڑی جست یا سونے کی قیمت میں اضافہ (واضح رہے کہ سونا اکثرافراطِ زر سے تحفظ کا ضامن ہوتا ہے) یا بیروزگاری کی کمتر شرح (طوفان قطرینہ کے باوجود ستمبر میں یہ شرح۱ء۵ فیصد تھی) جو تنخواہوں میں اضافے کا سبب ہوسکتی ہے۔ کوئی بھی عمر رسیدہ آدمی یہ بتاسکے گا کہ ۱۹۷۰ء کی دہائی میں کچھ ایسی ہی بھیانک صورتِ حال تھی جب تیل کی قیمتیں اونچی ہوگئی تھیں اور افراط زر کی شرح ۱۹۷۴ء میں ۳ء۱۲ فیصد تک اور۱۹۷۹ء میں ۳ء۱۳ فیصد تک پہنچ چکی تھی۔ لیکن جناب! یہ اس مرتبہ ہونے نہیں جارہا ہے۔
یہاں تین وجوہات ہیں (۱) فیڈرل ریزرو اسے ہونے نہیں د ے گا۔ فیڈرل اس سے پہلے کہ وہ افراط زر کو مکمل پاگلوں کے ہاتھ میں جانے دے‘ کساد بازاری کو گوارا کرلے گا(۲) ۷۰ ء کی دہائی سے معیشت میں مسابقت (Competition) بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ کمپنیوں کے لیے یہ بہت دشوار ہوگیا ہے کہ وہ قیمتیں بڑھائیں۔ اس لیے کہ انہیں درآمدات سستا فراہم کرنے والے ملکی حریف تاجروں کا سامنا ہے۔(۳) ۱۹۷۰ء کی دہائی سے پیداواریت میں بھی اضافہ ہوا ہے جس کے سبب کمپنیاں اس لائق ہوسکیں کہ وہ بغیر مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیے ہی اخراجات کے اضافے کو برداشت کر لیں (پیداواریت یا تولیدیت کا مطلب اہلیت ہے جس کا پیمانہ فی گھنٹہ کام سے برآمد ہونے والا نتیجہ ہے) یہ صحیح ہے کہ حالیہ افراطِ زر کی خبر انتہائی خراب ہے۔ ستمبر میں کنزیومر پرائس انڈکس (CPI) گزشتہ سال کے مقابلے میں ۷ء۴ فیصد زیادہ تھا جو جون ۱۹۹۱ء سے ایک سال میں ہونے والا یہ سب سے بڑا اضافہ ہے۔ لیکن اس کا مضبوط سبب توانائی کی قیمتوں میں دھماکہ تھا حالانکہ دیگر بہت ساری چیزوں کی قیمت میں اضافہ نہیں ہوا تھا۔ San Diego میں یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے ماہر اقتصادیات James Hamilton ایسی ہی ایک نقاب کُشا حقیقت کا ذکر کرتے ہیں۔ ’’حتیٰ کہ اگر توانائی کے علاوہ کسی بھی قیمت میں اضافہ نہیں ہوتا پھر بھی ۷ء۲ فیصد کا اضافہ CPI میں ہوتا۔‘‘ گزشتہ سال کے دوران توانائی کی قیمتیںHeating Oil`Gasoline) اور Natural Gas کی قیمتیں) ۸ء۳۴فیصد بڑھیں۔
اس لیے کہ ہمارے خیال میں تیل کی اونچی قیمتیں ۷۰ کی دہائی میں دو عددی (Double-Digit) افراطِ زر کا سبب بنیں۔ غلطی سے پاک اس منطق کا مسئلہ یہ ہے کہ زیرزمین حقائق غلط ہیں۔۷۰ء کی دہائی کے دو عدی افراطِ زر کا سبب اونچی قیمتیں نہیں تھیں بلکہ اونچی قیمتوں سے صرف افراطِ زر کا مسئلہ تھوڑا پیچیدہ ہوا تھا۔ CPI کے عددوں پر ذرا پھر سے غور کیجیے ۔۱۹۷۴ء میں ۳ء۱۲فیصد اور ۱۹۷۹ء میں ۳ء۱۳ فیصد ۔ اب تیل کی قیمتوں کے اثر کے بغیر ہی CPI کے نمبروں کو دیکھیے۔۱۹۷۴ء میں یہ ۷ء۱۱ فیصد تھا اور ۱۹۷۹ء میں ۱ء۱۱ فیصد یا ۱۹۴۰ء کی دہائی میں اس کو ملاحظہ کیجیے یعنی تیل کے کسی بحران سے بہت پہلے افراطِ زر ۱ فیصد سے ۶ فیصد ہوگیا تھا۔ Hamilton کا کہنا ہے کہ لوگ افراطِ زر کو اصلاً تیل کی قیمتوں سے منسوب کرکے غلطی کرتے ہیں۔ یہ فیڈرل ریزرو تھا جو تیل کے صدمات (Shocks)سے پہلے افراطِ زر کا سبب تھا۔ فیڈرل ریزرو easy money اور کریڈٹ کی پالیسیوں پر گامزن تھا۔ معیشت بار بار حد سے متجاوز تیزی سے دوچار تھی جس نے تنخواہ اور قیمت کے ناقابل تبدیل اضافے کے سلسلے اور ہرطرف افراط زر کی نفسیات کو جنم دیا۔ دائیں اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے بے شمار ماہرین اقتصادیات اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ تیل کی قیمتیں افراط زر کی اصل مجرم کبھی بھی نہیں رہی ہیں۔ بہرحال یہ تصور اب بھی برقرار ہے اور واضح طور پر ناقابلِ محو ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ ایک وجہ تو یہ ہے کہ محض ایک داستان ہے اخراجات اس کا سمجھنا اور ذہن میں محفوظ رکھنا آسان ہے۔ اس سے بھی بہتر بات یہ ہے کہ یہ زیادہ غیرملکیوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے یعنی ان لوگوں کو جو تیل برآمد کرنے کے حریص ہیں۔ یہ ہماری مظلومیت سے کھیلتے ہیں۔ افراطِ زر ہمارا قصور نہیں ہے۔ یہ وہ زیادتی ہے جو دوسروں نے ہمارے ساتھ کی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم اخراجاتِ زندگی (Cost of living) میں افزائش کو بلند تر افراط زر کی ابتداء کے ساتھ گڈمڈ کردیتے ہیں۔ اگرچہ یہ دونوں تصورات ایک دوسرے سے مربوط ہیں تاہم یکساں نہیں ہیں۔ یقیناً اگر تمام قیمتیں دس فیصد بڑھتی ہیں تو ہمارے اخراجات زندگی میں دس فیصد کا اضافہ ہوگا۔ عام افراطِ زر کا مطلب یہ ہے کہ بیشترچیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن اگر چند چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے مثلا Gasoline اورHeating Oil میں اور دیگر قیمتیں گرتی نہیں ہیں تو بھی آپ کے اخراجاتِ زندگی میں اضافہ ہوگا؟ یہ افراط زر عام نہیں ہے۔ اسی طرح آپ کی اخراجاتِ زندگی بڑھ جاتے ہیں جب آپ پُراطمینان زندگی گزارنے کا فیصلہ کرتے ہیں جو مزید لوازمات کی متقاضی ہوتی ہے۔ جب ’’تعیشات‘‘ ’’ضروریات‘‘ بن جاتی ہیں۔ ۷۰ ء کی دہائی میں ۲۰ فیصد امریکیوں کے پاس سیکنڈ ہینڈ فیملی کار بطور ضرورت ہوا کرتی تھیں جبکہ یہ تناسب ۲۰۰۰ء میں ۵۹فیصد ہوگیا۔ یہ رپورٹ Alain de Botton کی ہے جو “Across the Board” میگزین میں شائع ہوئی ہے۔ ۷۰ ء کی دہائی کی اونچی افراطِ زر زیادہ تر اپنے ہاتھوں کی کمائی تھی۔ یہ خراب اقتصادیات تدبیروں کا نتیجہ تھی۔ جس چیز نے فیڈرل ریزرو کو easy money کی پالیسی پر گامزن ہونے کے لیے مجبور کیا وہ تصور تھا جو اُن دنوں کے تسلیم شدہ ماہرین اقتصادی کے درمیان رائج تھا‘ یہ کہ بیروزگاری اور افراطِ زر میں مضبوط مفاہمت ہے۔ عملاً آپ معیشت کو نچوڑ سکتے ہیں اور بیروزگاری میں بڑی کمی لاسکتے ہیں اور افراط زر میں ہلکا اضافہ ہوسکتا ہے یعنی ۳ فیصد بیروزگاری ۴ یا ۵ فیصد افراطِ زر کے ساتھ ۔لیکن بیروگاری اور افراط زر کی شرحیں ایک بار جہاں پہنچ جاتی ہیں مشکل ہی سے وہاں سے جنبش کرتی ہیں۔ یہ ایک اچھی سودے بازی کی مانند معلوم ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے نظری سودے بازی عمل کی دُنیا میں کارآمد نہیں ہوتی۔ اونچی افراطِ زر و اونچی شرح بیروزگاری دونوں ہی ناقابل قبول نتیجہ ہیں۔۱۹۸۰ء تک تنخواہیں اور اضافی سہولیات تقریباً گیارہ فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھیں ۔ صرف ۸۲۔۱۹۸۱ء کی ظالم کساد بازاری نے بدرجہ اتم بیروزگاری کے ساتھ یعنی گیارہ فیصد کے قریب اس پالیسی اور افراطِ زر کی نفسیات کو الٹے رُخ پر پھیر دیا ۔ آئندہ آنے والے مہینوں میں توانائی کی اونچی قیمتیں ممکن ہے نیچے آجائیں اور اس کا اثر دوسری اشیاء کی قیمتوں پر بھی پڑے‘ پلاسٹک مصنوعات سے لے کر پیزا کی ہوم ڈلیوری تک۔افراط زر کی صورت عارضی طور پر بگڑ سکتی ہے لیکن یہ مستقل اونچی ہوتی رہے گی کہہ لیجئے ۲ سے ۵ فیصد تک اگر فیڈرل ریزرو اسے اونچا لے جانا چاہے۔ اگر یہ روپیوں کو اس قدر بازار میں لے آتا ہے کہ اس سے کافی مصنوعی طلب (Demand) پیدا ہوجاتی ہے جو تنخواہ اور قیمت کے ایک نئے تناسب کو جنم دیتی ہے۔ حالیہ تقریروں میں فیڈرل ریزرو کے افسران نے ایسا نہ ہونے دینے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ شاید وہ اس خطرے کو کم تر خیال کررہے ہیںکہ توانائی کی اونچیں قیمتیں کساد بازاری کا سبب بنیں گی مگر وہ تاریخ کو پڑھتے ہوئے اور اسی کے مطابق اپنا راستہ منتخب کرتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔
(بشکریہ: ہفت روزہ ’’نیوز ویک‘‘۔ شمارہ۔ ۷ نومبر ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply