
شب خون جیسے رُجحان ساز جریدے کے بانی اور اردو کے ممتاز جدید نقاد مدیر شمس الرحمن فاروقی سے ہمارا سوال تھا کہ اُردو کے حوالے سے آپ نے بزرگوں اور اُن کا زمانہ دیکھا ہے اور اب اِس زمانے کا آپ بھی حصہ ہیں (اردو کے حوالے سے) اب جو منظرنامہ ہے، اس پر آپ کیا محسوس کرتے ہیں؟
موصوف کا جواب تھا کہ ’’جو حال اُردو کا ہے وہی حال اردو والوں کا ہے۔ اُردو کا منظرنامہ جو سامنے ہے وہ اچھا نہیں ہے۔ جن کے ساتھ ہمارا تعلق تھا مثلاً مسعود حسن رضوی ادیب، مالک رام، آلِ احمد سرور اور احتشام حسین جیسے ذی علم لوگ اس زمانے میں نہیں ہیں۔ ان کے درجے کا کوئی عالم، کوئی استاد نظر نہیں آتا۔ آج جب کسی موضوع پر بحث ہوتی ہے تو وہ بات سامنے نہیں آتی جس طرح مذکورہ بزرگوں کے دور میں ہوتا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ آج کے کسی شخص میں مَیں اسلاف و اکابر جیسی صفات نہیں دیکھتا۔ سو کسی کے بارے میں کوئی مثبت بات مَیں نہیں کہہ سکتا‘‘۔
شمس الرحمن فاروقی نے اُردو اور اُردو والوں کے حوالے سے یہ بھی کہا کہ ’’اُردو کا سب سے بڑا المیہ یہ نہیں ہے کہ آج اس کے پڑھنے والے کم ہیں یا کم ہوتے جارہے ہیں بلکہ میرے نزدیک مسئلہ یوں ہے کہ فی زمانہ اُردو کے پڑھانے والے کم ہیں، جیسا کہ اس زبان کی تدریس کا حق ہے یا طریق ہے۔ اس مسئلے کو معمولی نہ جانیے۔ اس کی اہمیت کے پیشِ نظر ہم سب کا فرض ہے کہ اس کمی کو دور کریں۔ اُترپردیش جو اُردو کے موضوع پر خاصا پچھڑا ہوا ہے لیکن میں آپ کو یہ اطلاع دے رہا ہوں کہ آج (وہاں) اردو پڑھنے والے بڑھ رہے ہیں اور اردو رسم الخط بھی سیکھنے کی کوشش کی جارہی ہے مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یو پی میں ایسے پڑھانے والوں کی کمی نہیں بلکہ قحط ہے جو صحیح طریقے سے اردو پڑھا سکیں اور رسم الخط کے حسن سے لوگوں کو متعارف کروائیں‘‘۔
اس کے بعد فاروقی صاحب نے تصویر کے اس رُخ کو بھی ہمارے سامنے رکھا کہ ’’میں ایسے کئی اداروں کو جانتا ہوں جہاں اُردو کو مراسلاتی کورس کی صورت میں پڑھنے والے غیرمسلم حضرات کی تعداد ۵۰ فی صد سے زائد ہے‘‘۔
فاروقی صاحب نے اسی جواب میں متنبہ بھی کیا کہ ’’اردو، اس بہار کے دور میں داخل نہیں ہوئی، جیسی بہار اُس پر پہلے تھی۔ بہرحال یہ بہار اگر ہم دیکھنا چاہتے ہیں تو اس زبان کے چمن کی آبیاری اور نگہداشت کے لیے ہمیں ویسے ہی لوگ پیدا کرنے ہوں گے جو صحیح معنوں میں اس باغ کی باغبانی کا حق ادا کرنے کے اہل ہوں‘‘۔
’لفظ و معنی‘ جیسی اہم کتاب کے مصنف فاروقی صاحب اپنے جواب میں فرماتے ہیں کہ ’’زبان کا وہ معیار جو ہمارے بزرگوں کے زمانے میں تھا، آج لکھنے اور بولنے والوں میں گر چکا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ زبان پھیلی بہت ہے۔ میاں! زبان تو پہلے ہی بہت پھیلی ہوئی تھی۔ پہلے کے لوگ زبان کے استعمال میں احتیاط برتتے تھے۔ وہ لوگ جانتے تھے کہ کون سا لفظ اُردو ہے اور اس کا محاورہ کیا ہے۔ کون سا لفظ اُردو نہیں ہے بلکہ انگریزی یا ہندی ہے۔ مثلاً: ’لوگ جھوٹے ہوتے ہیں۔ آپ صبح کو ناشتے میں کیا لیتے ہیں؟‘
جس کے جواب میں مجھ جیسا آدمی یہ کہتا ہے کہ ’آپ کیا بیچتے ہیں؟‘ دراصل یہ انگریزی کا اثر ہے۔ حالت تو یہ ہے کہ میں نے لکھنے والوں یعنی شاعروں، ادیبوں سے بھی یہی سنا ہے کہ ’لوٹ پاٹ ہو گئی‘ جبکہ ’لوٹ مار ہو گئی‘ کہنا چاہیے۔ لوٹ پاٹ ہندی میں تو ہے اُردو میں نہیں ہے۔ اسی طرح کی اور بھی مثالیں ہیں ان میں کچھ تو انگریزی کا اثر ہے اور کچھ ہندی کا۔
’خلاصہ کرنا‘ وضاحت کرنا۔ (فاروقی صاحب نے اپنے گریبان کو کھول کر کہا) ’’ہندی والے شاید اسی کو ’کُھلا سا‘ سمجھتے ہیں۔ میں نے تو پڑھے لکھے اُردو والوں سے بھی یہی لفظ سنا ہے اور میں نے تو ایک اچھے خاصے شاعر کے منہ سے یہ بھی سنا ہے کہ اس بات کا خلاصا ہونا چاہیے‘‘۔
ہم نے ایک لقمہ دیا کہ حضور! کچھ لوگ کہتے ہیں زبان میں اضافہ بھی کوئی عمل ہے۔
مشہور کتاب ’اندازِ گفتگو کیا ہے‘ کے لکھنے والے فاروقی صاحب اس پر کہتے ہیں کہ ’’ہر زبان میں نئے لفظ آتے رہتے ہیں اس میں کسی زبان کی کوئی خصوصیت نہیں ہے۔ نئے لفظوں کو لانا اور اس کا استعمال کرنا ہرگز برائی نہیں۔ برائی یہ ہے کہ جب آپ کی زبان میں اسی مفہوم کو ادا کرنے کے لیے اچھے، سُبک، اور خوش آواز رائج الفاظ ہیں تو ان کو ترک کر کے آپ انگریزی یا ہندی کا کوئی لفظ لائیں۔ یعنی اُردو کے بعض اچھے لفظوں کا خون کر کے کسی غیرزبان کے بھونڈے لفظ کو آپ تاج پہنا رہے ہیں۔ دوسری جو بیماری ہمارے یہاں ہے یعنی خاص طور پر انگریزی کے لفظوں کے ساتھ انگریزی کا لفظ استعمال کریں گے اور اسی کی جمع بھی انگریزی میں استعمال کریں گے۔ مثلاً وہ کہیں گے کہ فاروقی صاحب نے ممبئی میں تین ’لیکچرز‘ دیے ہیں۔ لوگ آج اس نکتے کو نہیں سمجھتے‘‘۔
فاروقی صاحب نے فرمایا کہ ’’برج موہن دتا تریہ کیفی نے لکھا ہے کہ ’’ایک تو غیرضروری طور پر انگریزی لفظ کا لانا ظلم ہے اور اس پر مزید ظلم اس لفظ کی انگریزی جمع استعمال کرنا‘‘۔
ہم نے شمس الرحمن فاروقی سے پوچھا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اصل تو خیال ہے، لفظ وغیرہ اتنے اہم نہیں؟
فاروقی صاحب نے فوراً کہا ’’یہ بات ترقی پسند شاعری اور افسانہ نگاری سے تعلق رکھنے والے اصحاب کہتے تھے کہ اصل چیز تو خیال ہے اور الفاظ اس خیال کو بیان کرنے کا ذریعہ ہیں‘‘۔
مجھے یاد آتا ہے کہ مسعود حسن رضوی ادیب نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’اﷲ کے بہت سے نام ہیں۔ مثلاً رحیم، رحمان، جبار، قہّار۔ اب اگر کسی کو اپنے رب سے اپنے گناہوں سے معافی مانگنی ہو تو کیا وہ یہ کہے گا کہ اے غفار اے قہار! مجھ پر رحم فرما!‘‘
’’میاں ندیم! لفظ اور خیال میں ایک طرح کی مطابقت لازمی ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ کم لفظوں میں زیادہ بات کہنے کا فن اختیار کرنا چاہیے۔ اس ضمن میں ترقی پسند شعرا اور ادبا نے زیادتی کی ہے۔ لہٰذا ہوا یہ ہے کہ چھوٹے سے چھوٹے خیال کے لیے کئی کئی بند کی نظم کہی گئی اور وہی سلسلہ اب بھی جاری ہے‘‘۔
فاروقی صاحب سے ہم نے پوچھا کہ آپ نے گذشتہ دنوں ممبئی یونیورسٹی میں یہ کہا تھا کہ کل کے لوگ کم از کم دو زبانیں جانتے تھے تو ہمارا سوال یہ ہے کہ آج کے ادیب و شاعر اس معاملے میں کس سطح پر ہیں؟
’’شعر شور انگیز‘‘ جیسی شاہکار کتاب (۴ جلد) کے خالق کا جواب تھا کہ ’’یقینا پہلے کے لوگ چاہے ہندو ہوں یا مسلمان، وہ کم از کم دو زبانیں جانتے ہی تھے۔ ایک تو مقامی زبان جیسے بھوجپوری، اودھی (وغیرہ) اور پھر اردو بعد میں انگریزی بھی آگئی۔ انگریزی کے دور سے پہلے تو لوگ کم از کم دو زبانیں مزید جانتے تھے، اپنی مقامی زبان اور فارسی/ سنسکرت یا عربی۔
یہاں یہ بات بھی نئی نسل کے لیے ایک انکشاف سے کم نہ ہو گی۔ بیدل اور آزاد بلگرامی سنسکرت جانتے تھے۔ اسی طرح بادشاہ شاہ عالم کو بھی سنسکرت سے واقفیت تھی۔ اس زمانے کے جو ہندو تھے وہ بھی مدرسے جایا کرتے تھے اور گھر پر یا پاٹھ شالہ میں پڑھتے تھے۔ جس ادبی روایات اور ادبی معاشرے میں اتنی زبانوں کا عمل دخل ہو تو اس کی تونگری کا کیا کہنا۔ آپ بہت دور نہ جائیے، نزدیک آکر دیکھیئے تو ہمارا بدنصیب بادشاہ بہادر شاہ ظفرؔ پنجابی میں برج اور اُردو میں شعر کہتا تھا۔ جو ادبی معاشرہ اتنا متمول ہو اس میں جو زندگی یا تحرک ہو گا، اس معاشرے میں نہیں ہو سکتا جہاں کے لوگ ایک یا دو زبانیں ہی جانتے ہوں۔
اس دور کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے بہت سے لوگ اُردو یا ہندی یا کوئی مقامی زبان اور تھوڑی بہت انگریزی جانتے ہیں۔ جس طرح کی رنگا رنگی ہمارے ہاں بیسویں صدی کی ابتدا تک نظر آتی ہے، وہ اب نہیں ہے۔ یہ بات سچی اور پکی ہے کہ اردو کی بنیادی زبان سنسکرت کی اولاد ہے اور اُردو کی ادبی زبان پر عربی اور فارسی کا اثر زیادہ ہے۔ اس لیے عربی اور فارسی کو تھوڑا بہت جانے بغیر اردو کی ادبی زبان پر مہارت حاصل نہیں ہو سکتی۔ سنسکرت کی وجہ سے ہمارے ہاں جو کہاوتیں اور بنیادی الفاظ آئے، فارسی اور عربی بھی ان کی جگہ نہیں لے سکتی۔
مثال: اس نے مجھے بڑے دکھ دیے، اس نے مجھے بڑے درد دیے، اس نے مجھے بڑی تکلیفیں پہنچائیں۔ اب آپ دیکھ سکتے ہیں کہ تینوں کے معنی الگ ہیں۔ لیکن ’دکھ دیے‘ میں جو اپنائیت اور گھریلو پن ہے وہ ’’درد دینا‘‘ جو فارسی ہے ’’تکلیف‘‘ جو عربی ہے اس میں یہ بات نہیں ہے۔ محبت اور احترام دونوں کے اظہار کے لیے جو بلاواسطہ یا براہِ راست خطاب کے بجائے بالواسطہ یا اشاروں کے الفاظ استعمال کرنا۔ مثلاً یہ نہ کہنا کہ آپ کی طبیعت کیسی ہے بلکہ یہ کہنا کہ کیا دشمنوں کا مزاج ناساز ہے؟ اس طرح کی نزاکتیں صرف اُردو میں ہی ہیں۔ غالباً یہ سنسکرت سے آئی ہیں۔ کیونکہ فارسی یا عربی میں اس کا رواج نہیں ہے۔
کیا ملک کی جامعات میں شعبۂ اردو کی کارکردگی سے آپ مطمئن ہیں؟
ہمارے اس سوال کے جواب میں شمس الرحمن فاروقی نے نہایت تاسف بھرے لہجے میں کہا کہ ’’مجموعی طور پر ہماری جامعات کے شعبۂ اردو کا حال اور اردو مطالعات اور تعلیم کے لحاظ سے مایوس کن ہے۔ اس کی ۲ بڑی وجہیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ ابتدا میں اردو شعبوں کو قائم رکھنے کے لیے صلاحیت والے طلبا بھی داخل کر لیے گئے اور پھر وہی طلبا استاد بنے۔ بعدہٗ ان کے شاگرد درجہ استادی پر فائز ہوئے۔ اس طرح آزادی کے بعد کوئی ۴ نسلیں اُردو اساتذہ کی ایسی پیدا ہوئیں جو اُردو اِملا سے بھی ٹھیک سے واقف نہیں۔ اب ظاہر ہے کہ ’لاعلمی‘ سے علم تو پیدا نہیں ہو سکتا۔
دوسری وجہ یو جی سی (یونیورسٹی گرانٹس کمیشن) کی مہربانی ہے کہ جس نے حکم دیا کہ اگر آپ کو یونیورسٹی میں روزگار چاہیے تو پی ایچ ڈی کرنا لازم ہے۔ لہٰذا ہوا یہ کہ ہر ممکن اور غیرممکن موضوع پر پی ایچ ڈی مقالوں کا ڈھیر لگا دیا گیا۔ اکثر مقالے تو مقالے پر الزام ہیں بلکہ ہو یہ رہا ہے کہ بعض مطبوعہ مقالوں میں ہیر پھیر کر کے مقالے تیار کیے جارہے ہیں اور تیار کیے گئے ہیں۔
اب یونیورسٹی کے اساتذہ بننے کی تمنا رکھنے والوں کو پڑھنے اور علم حاصل کرنے کی فرصت نہیں۔ وہ کتاب پر کتاب لکھے جارہے ہیں جنہیں شاید وہ خود بھی نہیں پڑھتے‘‘۔
اسی موضوع پر فاروقی صاحب نے ایک عبرتناک واقعہ بھی سنایا کہ ’’میں ملک کی ایک بڑی یونیورسٹی میں پروفیسر کی انتخابی کمیٹی میں شریک تھا۔ ایک امیدوار کتابوں کا ایک گٹھر لیے ہوئے داخل ہوئے اور ان کے پیچھے ایک چپراسی مزید ۲گٹھر لیے ہوئے تھا۔ موصوف نے فرمایا: یہ سب میری تصانیف ہیں‘‘۔
’’آپ سب سمجھ سکتے ہیں کہ ان کتابوں میں کیا ہو گا؟ ظاہر ہے کہ اِدھر اُدھر سے رطب و یابس جمع کر کے کتابیں گھڑ لی گئی ہوں گی اور انھیں دوسروں پر رعب جمانے کا ذریعہ بنا لیا گیا۔ بہرحال وہ حضرت اس انتخابی کمیٹی میں تو پروفیسر منتخب نہ ہو سکے لیکن یقین ہے کہ آئندہ ضرور بن جائیں گے‘‘۔
فاروقی صاحب سے ہم نے یہ سوال بھی کیا کہ ان دنوں جو مشاعرے ہو رہے ہیں، ان پر آپ کی کیا رائے ہے؟
تو گنجِ سوختہ، سبز اندر سبز اور چار سمت کا دریا جیسے شعری مجموعوں کا شاعر فاروقی صاحب فرماتے ہیں: ’’مشاعروں کے ذریعے اب اُردو کی کوئی خدمت وغیرہ نہیں ہو رہی ہے۔ البتہ شاعروں کی ضرور ’خدمت‘ ہو رہی ہے۔ میرے لڑکپن تک یہ بات عام تھی کہ شاعر پہلے خود کو مشاعروں میں قائم کرتا تھا پھر ادبی معاشرہ اس کو اہمیت دیتا تھا۔ آج اس کے برعکس ہے۔ آج جو شاعر مشاعرے میں کامیاب ہوتا ہے یا رہتا ہے، اس کی ادبی اہمیت بہت کم بلکہ صفر سمجھی جاتی ہے۔ اسے مشاعروں کا شاعر سمجھا جاتا ہے اور یہ تو مانی ہوئی بات ہے کہ لوگوں کو وہی ملتا ہے جو وہ چاہتے ہیں۔ دراصل آج مذاقِ شاعری نہ صرف بدل گیا ہے بلکہ عام طور پر پست ہو گیا ہے‘‘۔
فاروقی صاحب سے ہم نے اگلا سوال یہ کیا کہ کمپیوٹر کی آمد کے بعد اُردو میں کتابوں کی اشاعت تو خوب ہو رہی ہے تو کیا اردو سے وابستہ لوگوں کو یہ کتابیں علمی بصیرت بھی دے رہی ہیں یا پھر صرف کتابوں کے ڈھیر لگ رہے ہیں؟
اردو ادب میں جدیدیت بلکہ جدید رجحانات کے بانی اور اس کو فروغ دینے والے فاروقی صاحب نے جواباً کہا: ’’کمپیوٹر کے ذریعہ اردو اخبار نویسی میں خوشگوار تبدیلیاں آئی ہیں۔ اب کام زیادہ صاف اور کم وقت میں ہو جاتا ہے۔ طباعت بھی جاذبِ نظر ہو گئی ہے لیکن بہت سے اخباروں میں نامہ نگار اور ایڈیٹر براہِ راست اردو نہیں بلکہ ہندی کے مزاج کے لوگ ہیں لہٰذا ان کی تحریر میں اردو کی چاشنی کم نظر آتی ہے۔
جہاں تک معاملہ کتابوں اور رسالوں کا ہے، ان کی کثرت بہرحال فائدہ مند ہے کیونکہ اردو کی نشر و اشاعت سے متعلق سب کے لیے اس میں کام مہیا ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ چھپائی پہلے سے بہتر ہونے کی وجہ سے طالب علموں کو آسانی ہو گئی ہے۔
لیکن خرابی یہ ہے کہ جس طرح عام اردو لکھنے والے اردو کے ادبی حسن سے کم واقف ہیں، اسی طرح اردو کتابوں اور رسالوں کے پروف پڑھنے والے اردو زبان سے پوری طرح واقف نہیں ہیں لہٰذا بچوں کو بڑی مشکل ہوتی ہے کہ کتاب میں جو غلط چھپا ہوا ہے، وہ اسے ہی صحیح سمجھ لیتے ہیں۔ اکثر اساتذہ بھی اس غلطی کو صحیح کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
لہٰذا میرا خیال ہے کہ معیار چاہے بہت بلند نہ ہو لیکن کثیر سے کثیر تعداد میں اردو لکھنے والوں کو اپنی تخلیقات شائع کرنے کا موقع ضرور مل رہا ہے۔ پہلے زمانے میں یہ بات عام تھی کہ بہت سے اچھے شاعر بھی اپنا مجموعہ چھپوائے بغیر دنیا سے رخصت ہو جاتے تھے کیونکہ انھیں ناشر نہیں ملتا تھا۔ آج یہ صورتِ حال نہیں ہے کیونکہ مختلف اداروں سے کچھ نہ کچھ امداد مل ہی جاتی ہے یا کچھ لائبریریاں کتابیں خرید لیتی ہیں۔ شاعر کا کلام بہرحال محفوظ ہو جاتا تھا۔ وہی حال تنقیدی کتابوں کا بھی ہے کہ آج آپ کو اردو کے تقریباً ہر چھوٹے بڑے مصنف کے بارے میں اچھی یا خراب کتاب مل جائے گی تو یہ کیا کم ہے کہ ہمارے شاعر یا افسانہ نگار کا ذکر تو ہو رہا ہے‘‘۔
موصوف نے اسی گفتگو میں نئے ٹیلنٹ کی حوصلہ افزائی کے بارے میں یہ جملہ کہا کہ ’’نئے لکھنے والوں کا حق ہے کہ انھیں سنا جائے۔ غالبؔ کا مرزا داؔ غ کسی بزرگ سے کوئی تنازعہ تھا مگر اس کے باوجود (نوعمر) داغ کے کلام کی بازگشت سن چکے تھے اور انھیں سننے کے خواہش مند تھے۔ ادب کی دنیا کوئی کارخانہ نہیں ہے کہ مشین سے چیز نکلتی چلی آئے اور ادب پر کسی قسم کا کوئی حتمی قانون کا نفاذ بھی نہیں ہو سکتا‘‘۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’ہمارے معاشرے میں یوں ہوتا ہے کہ ہم لوگ نئے لکھنے والوں کو دیکھ کر ڈر جاتے ہیں۔ دورِ گذشتہ کے لوگ نئی صلاحیتوں کو ڈھونڈتے تھے، اس کی پذیرائی کرتے تھے‘‘۔ فاروقی صاحب نے بلاجھجک کہا کہ ’’آج کا معاشرہ تنگ نظری کا ہے‘‘۔
فاروقی صاحب کی گفتگو میں یہ بات عیاں تھی کہ گزرا ہوا زمانہ جہانِ کہنہ تو ضرور کہا جاسکتا ہے مگر وہ جہانِ تنگ نہیں تھا۔
فاروقی صاحب نے اپنے ابتدائی زمانے کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’’آج بہت سہل ہے لکھنا اور چھپنا اُس سے زیادہ آسان ہو گیا ہے۔ ہم نے جب لکھنا شروع کیا تھا تو ایک مدت تک مجھے اس بات کا انتظار رہتا تھا کہ کم از کم میری تحریر کا یہی جواب مل جائے کہ یہ ناقابلِ اشاعت ہے‘‘۔
راقم کے پوچھنے پر کہ وہ اتنے بڑے اور اہم عہدے پر رہتے ہوئے اتنا مطالعہ اور اتنا کام کیسے کر سکے؟
ان کا کہنا تھا کہ ’’مجھے پڑھنے کا ذوق شروع سے ہی تھا۔ میں رات رات بھر جاگ جاگ کر پڑھتا رہا اور اسی دوران میں نے ’طلسم ہوشربا‘ کی ۴۶ جلدیں بھی پڑھ ڈالیں۔ اس کے علاوہ میری سوشل لائف نہیں تھی۔ میرا کہیں آنا جانا نہیں تھا‘‘۔
’’بہرحال مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ اﷲ نے میری فطرت ہی ایسی بنائی تھی کہ میں کسی دوسری طرف راغب نہ ہو سکا اور پھر میرا خیال ہے کہ اگر یکسو ہو کر کوئی کام کیا جائے تو مثبت نتائج بہرحال سامنے آتے ہیں‘‘۔
فاروقی صاحب ملک کے اقلیتی (مسلم) طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ تو ہم نے ان سے یہ بھی پوچھا کہ ہندوستان میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی سے نمٹنے کے لیے خود مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟
چیف پوسٹ ماسٹر جنرل کے عہدے پر فائز رہنے والے شمس الرحمان فاروقی اس سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ ’’فرقہ پرستی کی بڑھتی ہوئی یا خراب ہوتی صورتِ حال کے بارے میں میرا خیال ہے کہ اکثریتی طبقے کو پہلے قدم اٹھانا چاہیے۔ اقلیتی طبقہ اب تک کس قدر خوف میں مبتلا ہے، اس کا اندازہ کوئی شخص اس وقت کر سکتا ہے جب وہ خود کو مسلمان کہہ کر کسی غیرعلاقے میں مکان ڈھونڈنے جائے۔ اول تو مسلمان غیرعلاقے میں جا کر رہے گا نہیں اور اگر کسی سبب جاتا بھی ہے تو اسے کسی بہانے مکان دینے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔ دراصل اقلیت کے دل میں اکثریت کی طرف سے اعتبار کی کمی ہے لیکن ساتھ ساتھ یہ بات بھی ہے کہ جو میں پاکستان کے ایک بڑے مجمع میں کہہ چکا ہوں کہ ہندوستان میں روشن خیال اور غیرمتعصب ہندوئوں کی ایک بڑی تعداد آج بھی موجود ہے۔ انہی کے بل بوتے پر ہندوستانی مسلمان اس ملک میں خود کو محفوظ سمجھتا ہے۔
لہٰذا مسلمانوں کو ذاتی مفاد اور چھوٹے موٹے فائدوں کو پسِ پشت ڈال کر روشن خیال برادرانِ وطن سے ربط بڑھانا چاہیے۔ یہ بات میرے تجربے میں ہے کہ بہت سے مسلمان ذرا ذرا سے فائدے کی خاطر فرقہ پرست سیاسی جماعتوں کا کام کرتے ہیں۔ اس طرح اکثریت کے دل میں جو نرم گوشہ مسلمانوں کے تئیں ہوتا ہے اس کو زبردست ٹھیس پہنچتی ہے۔ لہٰذا آج ضروری ہے کہ دونوں طرف کے روشن خیال لوگ ہم آہنگ اور پوری طرح متحد ہو جائیں۔ میرا خیال ہے کہ فرقہ پرستوں کو بہت جلد شکست ہو سکتی ہے اور یہ ممکن ہے‘‘۔
فاروقی صاحب سے ہم نے یہ بھی پوچھا کہ وہ نئی نسل کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
تو ۷۲ سالہ (پ:۳۰ ستمبر ۱۹۳۵ء) شمس الرحمان فاروقی نے غیرمعمولی سنجیدگی سے کہا کہ ’’نوجوانوں کے نام میرا پیغام یہ ہے کہ وہ اپنی زبان کے بارے میں کوئی مدافعانہ رویہ نہ اختیار کریں اور ان لوگوں کی بات پر کان نہ دھریں جو یہ کہیں کہ ’اردو فوجیوں کی زبان تھی یا اردو کا رسم الخط غیرملکی اور ناقص ہے یا اردو پر زیادہ تر عربی فارسی کا اثر ہے اس میں مقامی رنگ بہت کم ہے‘۔ یہ سب باتیں غلط ہیں جیسا کہ میں اپنی تحریروں میں بارہا کہہ چکا ہوں‘‘۔
’’دوسری بات جو مجھے نئی نسل سے کہنا ہے وہ یہ ہے کہ اردو پڑھنا فرض نہیں بلکہ وظیفۂ حیات جانیے۔ فرض کو تو آدمی کبھی خوشی سے کبھی بادلِ ناخواستہ انجام دیتا ہے۔ لیکن وظیفۂ حیات جیسے سانس لینا، پانی پینا، بولنا یا ایسے کام جو انسان کی فطرت میں پیوست ہیں۔ اُردو کو اسی طرح اپنی فطرت میں پیوست کر لیجیے‘‘۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’اردو بک ریویو‘‘ نئی دہلی۔ شمارہ: مئی،جون ۲۰۰۷ء)
Leave a Reply